بچہ جمہورا

تحریر: انور ساجدی
بہت ہی دلچسپ صورتحال ہے۔ساری دنیا میں پاکستان کی جو جنگ ہنسائی ہورہی ہے حکمران اس پر صرف نظر کئے ہوئے ہیں۔امریکہ،یورپی یونین اور دیگر اداروں نے پاکستانی حکمرانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جیتنے والے امیدواروں کا مینڈیٹ تسلیم کریں۔ان کا اشارہ تحریک انصاف کی کامیابی کی طرف تھا۔امریکی ترجمان کو تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔صحافیوں نے عمران خان کا نام لے کر کہا کہ ان کی کامیابی کو کیوں تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ادھر حکومت پاکستان نے عالمی بیانات کو مسترد کر دیا ہے اور وہ بضد ہے کہ الیکشن کمیشن نے جن نتائج کا اعلان کیا ہے وہی درست ہیں۔ملک کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف نے دھاندلی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے لیکن ایک قانونی مسئلہ یہ درپیش ہے کہ پی ٹی آئی کے جیتنے والے امیدواروں کو کامیابی کے نوٹیفکیشن جاری ہونے کے تین دن کے اندر کسی جماعت میں شامل ہونا پڑے گا۔اس سلسلے میں عمران خان نے اڈیالہ جیل میں غوروفکر کیا ہے اور انہوں نے اپنے وکلاءکے ذریعے بیرسٹر گوہر خان کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔اس موقع پرعمران خان نے فوج سے اپیل کی ہے کہ وہ عوامی رائے کا احترام کریں۔اسی طرح کی اپیل بیرسٹر گوہر خان نے بھی کی ہے اور کہا ہے کہ سیز فائر ہونا چاہیے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلم لیگ نے اب تک73 نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ پیلپز پارٹی نے54 اور ایم کیو ایم کے حصے میں17نشستیں آئی ہیں جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی تعداد سو سے زائد ہے۔
سرکاری اعداد وشمار سے قطع نظر زمینی حقائق یہی ہیں کہ ن لیگ کو پنجاب میں شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے دو دن کی تگ ودو کے باوجود اس شکست خوردہ جماعت کو سادہ اکثریت نہیں دلوائی جا سکی۔غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ لاہور جو ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے وہاں کی14میں سے12نشستوں پر ن لیگ کے امیدوار ہارگئے تھے حتیٰ کہ پارٹی کے سپریم لیڈر نوازشریف کو مقید امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد پر برتری دلانے کے لئے حکمرانوں کو بہت محنت شاقہ سے کام لینا پڑا۔شریف خاندان کے دیگر اراکین بھی بدترین شکست سے دوچار ہوئے اس کے باوجود کہ ایک طے شدہ پالیسی کے تحت راولپنڈی اسلام آباد چکوال اور جہلم سے ن لیگی امیدواروں کی زبردستی کامیابی کا اعلان کیا گیا باقی تمام جی ٹی روڈ پرن لیگ کا صفایا ہوگیا اور تو اور گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں بھی ن لیگ بری طرح ہار گئی۔کافی عرصہ کے بعد رانا ثناءاللہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی زینت بننے سے رہ گئے۔آزاد مبصرین کی رائے ہے کہ سرکاری طور پر ن لیگ کو80نشستیں الاٹ ہونے کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ ن لیگ کو مجموعی طور پر50نشستیں ملی ہیں یعنی وہ پیپلزپارٹی سے بھی پیچھے ہے۔
اس صورتحال میںیہ ہونا چاہیے تھا کہ جمعہ کی شام کو نوازشریف اپنے ہیڈ کوارٹر آکر کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کرتے اور پی ٹی آئی کو مبارکباد دیتے لیکن وہاں پر ایک بڑا ڈرامہ رچایا گیا سینکڑوں کارکن جمع کر کے کہا گیا کہ میاں صاحب”وکٹری اسپیچ“ دینے آ رہے ہیں۔انہوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں پارٹی کارکنوں کو مبارکباد دی کہ ن لیگ سنگل لارجسٹ پارٹی بن گئی ہے لیکن جلد ہی وہ حقیقت کی جانب آ گئے اور کہا کہ ہمیں اتنی نشستیں نہیں ملی ہیں کہ ہم حکومت بنا سکیں اس لئے شہبازشریف کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ محترم زرداری اور محترم مولانا سے رابطہ قائم کریں تاکہ ایک مخلوط حکومت تشکیل دی جاسکے۔اس جشن کامیابی کے آغاز پر بلاول کے مقابلہ میں کامیابی حاصل کرنے والے عطاءاللہ تارڑ نے نہایت ترش لہجے میں کہا کہ کراچی کا ایک شخص لاہور میں الکشن لڑنے آیا تھا لیکن ہم نے شکست دے کر واپس کراچی پارسل کر دیا ہے۔غالباً یہ کہتے ہوئے عطاءاللہ تارڑ حقائق سے لاعلم تھے ٹھیک دو گھنٹے بعد شہبازشریف وزیراعلیٰ محسن نقوی کے گھر پر دو زانو ہوکر بلاول کے قدموں میں بیٹھے ہوئے تھے اور زرداری سے رحم کی اپیل کررہے تھے کہ ہمیں عمران خان سے بچاﺅ اور مخلوط حکومت کے قیام کو ممکن بناﺅ۔یہ تو پتہ نہیں کہ زرداری نے کیا کہا لیکن ابتدائی ملاقات کے مطابق انہوں نے شہبازشریف سے کہا کہ جا کر میاں صاحب کو بتاﺅ کہ اتنی جلد بازی کی ضرورت نہیں ہے۔رزلٹ مکمل ہونے دو اس کے بعد ہی بات آگے چلے گی۔آگے بات کیا ہوگی۔ابتدائی طور پر وہ یہ شرط رکھیں گے کہ مخلوط حکومت کے سربراہ یعنی وزیراعظم بلاول ہونگے۔صدارت،قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ اور چیئرمین سینیٹ کا عہدہ بھی پیپلزپارٹی کو دینے پڑیں گے۔یہ تو سودے بازی کی شرائط ہیں کیونکہ زرداری جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت نہیں ہے اس لئے وزیراعظم کا عہدہ اسے نہیں مل سکتا البتہ صدارت،اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ میں سے ایک ہی عہدہ مل سکتا ہے۔لیکن تمام تر صورتحال میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ فیصلہ کرتے وقت نہ آصف علی زرداری مکمل طور پر آزاد ہیں اور نہ ہی نوازشریف بااختیار ہیں۔جن لوگوں نے نتائج کی انجینئرنگ کی ہے۔حرف آخر وہی ہوں گے اور ان کے بغیر تینوں بڑی جماعتیں ن لیگ،پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کوئی قدم نہیں اٹھائیں گی۔اسی طرح جو بھی ”ریلوکٹا“ حکومت بنے گی وہ مکمل بااختیار نہیں ہوگی بلکہ اسے ڈکٹیشن پر چلنا پڑے گا۔اسے جو اہداف دئیے جائیں گے ان پرعملدرآمد اس کی مجبوری ہوگی۔نگراں حکومت کے دور میں بڑوں نے سرمایہ کاری نجکاری اور اہم اثاثوں کے بارے میں جو فیصلے کئے ہیں ان کو من وعن تسلیم کرنا پڑے گا یہ جو نوازشریف نے اپنے اعتراف شکست والے بیان میں بڑھکیں ماریں کہ ہم معیشت کو ٹھیک کریں گے،قومی یکجہتی قائم کریں گے عوام کی حالت بدل ڈالیںگے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔میاں صاحب کی گھبراہٹ کا یہ عالم تھا کہ وہ دس سالہ اقتدار کی بات کر رہے تھے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کامیابی آپ کو ملی نہیں اور آپ 10 سال کی طویل مدت کی بات کر رہے ہیں۔یہ تو دن میں خواب دیکھنے والی صورتحال ہے۔
جہاں تک زرداری کا تعلق ہے تو اصل گیم وہی ڈالیں گے۔اگر زرداری کے ساتھ دھوکہ نہ ہوتا اور75نشستیں دی جاتیں تو وہ کچھ بھی سرپرائز دے سکتے تھے لیکن ان کو اچانک آگے جانے سے روکا گیا۔بہرحال زرداری پہلے تو اپنے لئے آزاد امیدواروں کی زیادہ تعداد کے حصول کی کوشش کریں گے اگر وہ ناکام ہوئے تو وہ مجبوراً ن لیگ اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کریں گے یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے۔دوسرا رخ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی دعوت دی جائے تو زیادہ اچھا ہوگا لیکن حکمرانوں کو یقینی طور پر یہ آپشن قبول نہیں ہوگا تاہم پیپلز پارٹی کے لئے بہت بہتر ہوگا کہ وہ ن لیگ کو اپنے حال پر چھوڑ دے اور اپوزیشن میں بیٹھے۔اگر اس جماعت کو دوبارہ پنجاب میں اٹھنا ہے تو اسے اپوزیشن میں بیٹھ کر پنجاب میں کام کرنا ہوگا کیونکہ ن لیگ اب اتنی مضبوط نہیں ہے۔اگر بلاول نے آئندہ حکومت بنانا ہے تو پیپلزپارٹی کو حکومت میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔پیپلز پارٹی پہلے ہی 16 ماہ والی حکومت کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔اگر اس نے ن لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تو یہ اپنے تابوت میں کیل ٹھونکنے کے مترادف ہوگا۔پیپلزپارٹی کے زندہ رہنے اور دوبارہ عروج حاصل کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ پیپلزپارٹی ن لیگ سے دور رہے۔تمام ترحالات میں یہ نظر آتا ہے کہ الیکشن2024 نے پورے نظام کو مفلوج کر دیا ہے اور اسے بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ان جھرلو انتخابات نے پاکستان کے سیاسی،آئینی اور معاشی بحران کو مزید بڑھا دیا ہے جبکہ سیاسی عدم استحکام واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر آئین کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔جمہوریت کو محض ”بچہ جمہورا“ سمجھا جا رہا ہے۔سیاسی جماعتوں کو آختہ کر کے تابع فرمان بنا دیا گیا ہے۔اتنی کمپلیکس صورتحال کو ٹھیک کرنا آسان نہیں ہے جبکہ حکومت سازی کے بعد سینیٹ کے انتخابات بھی ہونے ہیں صدر کا انتخاب بھی کرنا ہے۔یہ سب کچھ کیسے ہوگا؟ لیکن حاکمان وقت نے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے اور کانچوں کا ایک نظام تو تشکیل دینا ہے جس نے کچھ ہی عرصہ بعد ٹوٹناہے۔ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ موجودہ جھرلو انتخابات کارگر ثابت نہیں ہونگے اگر کوئی حکومت بن بھی گئی تو آئندہ سال ایک اور الیکشن کےلئے تیار رہنا چاہیے۔
یہ داستان لکھتے ہوئے مجھے بے ساختہ ڈاکٹر مالک بلوچ اور سردار اخترجان مینگل یاد آئے۔وفاق نے اپنے ان وفاق پرست رہنماﺅں کے ساتھ جو حسن سلوک کیا ہے وہ کسی تبصرہ سے بالاتر ہے۔پارلیمانی سیاست کے علمبردار رہنماﺅں کو بے دست و پا کر کے پارلیمنٹ میں پھینکنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ان کے طویل رومان کا یہ افسوسناک انجام نکلا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں