ہارے ہوئے لشکر کی جیت کا اعلان
تحریر: انور ساجدی
انجینئرڈ ہائی برڈ رجیم مسلط کرنے کی تیاری زورو شور سے جاری ہے، گزشتہ رات مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو حکم آیا تھا کہ ہمارے بندے ہو تو انسان بن کر رہو اور مل جل کر حکومت بناﺅ، رات جب ڈیرہ بگٹی سے ایم این اے منتخب ہونے والے نامعلوم ہستی میاں خان اور دیگر آزاد اراکین نے ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا تو یہ واضح اشارہ تھا کہ ن لیگ کی قیادت میں حکومت بننے جارہی ہے۔ ایسے آزاد جن کو درپردہ حمایت حاصل تھی وہ بھی ن لیگ کا حصہ بننے جارہے ہیں یعنی ایک ایک ہیرا چن کر مسلم لیگ کی چاندی کے نگینے میں فٹ کیا جارہا ہے تاکہ یہ سونا دکھائی دے۔ اگر جمہوریت ہوتی، اصول ہوتے، سسٹم آہنی گرفت سے آزاد ہوتا تو ن لیگ از خود حکومت سازی سے دستبردار ہوجاتی اور جس جماعت نے اکثریت حاصل کی ہے اسے حکومت بنانے کی دعوت دیتی لیکن کہاں یہ جماعت اقتدار کے لئے مرے جارہی ہے اور حکومت میں آنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی۔ جھرلو 2024 میں کنگز پارٹی ہونے کے باوجود اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود وہ حکومت سازی پر مصر ہے۔ اقتدار کی ایسی بھوک شاید کسی اورریاست میں ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو اصل پلان تھا وہ وڑ گیا کیونکہ لوگ بڑی تعداد میں باہر آگئے اور ناپسندیدہ پارٹی کو ووٹ دیا۔ جس کی وجہ سے ن لیگ دوسری بڑی جماعت بن گئی۔ وہ بھی اس طرح کہ بے شمار نتائج تبدیل کئے گئے ورنہ ن لیگ کی نشستوں کی اتنی تعداد نہ ہوتی۔ اس صورتحال نے حاکموں کو مشکل صورتحال میں دھکیلا۔ ظاہر ہے کہ جن کے پاس طاقت ہے انہوں نے کوئی راستہ تو نکالنا ہے اور وہ راستہ ن لیگ کی قیادت میں ہر قیمت پر ایک حکومت انسٹال کرنا ہے چونکہ پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا اسلئے زرداری کو سختی کے ساتھ کہا گیا ہے کہ وہ کسی چوں و چراں کے بغیر مخلوط حکومت بنانے میں کردار ادا کرے۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو اسے رعایت صرف بلوچستان میں دی گئی ہے۔ ن لیگ کو بھی بلوچستان میں ضرورت سے زیادہ کمک پہنچائی گئی، پولنگ کے 72 گھنٹے بعد سردار یعقوب ناصر کی کامیابی کا اعلان اس کا واضح ثبوت ہے۔ مولانا غفور حیدری کی تاخیر سے کامیابی کا اعلان بھی غیبی امداد کا نتیجہ ہے۔
آصف علی زرداری سے یہ غلطی ہوگئی کہ وہ مرکز اور سندھ میں زیادہ مصروف تھے اس لئے بلوچستان کے بعض حلقوں پر وہ توجہ نہیں دے سکے۔مثال کے طور پر اگر وہ ملک شاہ گورگیج کو کیچ سے آواران بھیجتے تو قدوس بزنجو کی کامیابی یقینی تھی۔ اگر ملک شاہ کا بچہ اور داماد جنہوں نے کوئٹہ بہت کم دیکھا ہے یہاں سے کامیاب نہ ہوتے۔ ملک شاہ کی طاقت سے اہل مکران پہلی مرتبہ واقف ہوئے ہیں ورنہ دنیا کے کئی ممالک ان کی شہرت سے واقف ہیں۔ افغانستان کے بلوچ صوبہ نمروز سے تعلق رکھنے والے ملک شاہ اس وقت آصف علی زرداری کے سب سے قریبی شخص ہیں۔ ملک شاہ کا کاروباری ہیڈ کوارٹر دوبئی میں ہے وہیں پر زرداری ملک شاہ کی آشنائی ہوئی جو گہری دوستی اور کاروباری پارٹنر شپ میں بدل گئی۔ ملک شاہ پہلے چاغی سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیککن چیئرمین سینیٹ جو کہ ”اپنڑے “ خاص بندے ہیں کا واویلا مچانے کے بعد زرداری سے کہہ دیا گیا کہ ملک شاہ کو کہیں اور لے جائیں کیونکہ ہمیں صادق سنجرانی کی کامیابی ہر قیمت پر درکار ہے۔ حالانکہ اگر ملک شاہ چاغی سے کھڑے ہوتے تو ان پر اتنے اعتراضات نہ ہوتے کیکونکہ ان کا ڈومیسائل چاغی کا ہے۔ ملک شاہ گورگیج ہیں اور گورگیج افغانستان کا بڑا قبیلہ ہے۔ ظاہر شاہ کے دور میں جب نمروز میں ڈیم بنایا گیا تو گورگیج سردار سب سے بڑے زمیندار بن گئے۔ ان کے زیر قبضہ 80 ہزار جریب زمین تھی۔ طالبان کی گزشتہ حکومت نے سردار گورگیج سمیت بیشتر بلوچوں کی زمین ضبط کرلی۔ بلوچستان کے سابق وزیر آسکانی ملک شاہ کے داماد ہیں۔ اگر زرداری ملک شاہ کو ایک بار خضدار بھیجتے تو وہاں پر آغا شکیل کی کامیابی بھی یقینی تھی کیونکہ انہوں نے خلاف توقع زیادہ ووٹ حاصل کئے اور کم مارجن سے یونس زہری سے شکست کھائی۔ خضدار کے اس علاقے کے نتائج اگرچہ خلاف توقع نہیں لیکن اسلم بزنجو دوسرے نمبر پر بھی نہ آسکے جو حیرت کی بات ہے۔
مجموعی طور پر یہ بات طے ہے کہ تحریک انصاف کو کامیابی کے باوجود حکومت سازی کا موقع نہیں دیا جائیگا۔ بہانہ یہ ہے کہ اس کے کامیاب ہونے والے امیدوار آزاد ہیں اور ان کی کوئی جماعت نہیں ہے۔ اسی دوران آزاد اراکین کو بھیڑ بکریوں کی طرح خریدنے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں ن لیگ کو موقع دیا جارہا ہے کہ وہ خریداری کرکے اپنی اکثریت پوری کرے۔ اگر کوئی کسر رہ گئی تو زرداری سے کہہ دیا جائیگا کہ باقی کا انتظام وہ کرے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ زرداری کا حتمی فیصلہ کیا ہوگا تاہم پیپلز پارٹی نے اپنا جو مرکزی اجلاس بلایا ہے اس میں زرداری کو ن لیگ کی حمایت پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خاص طور پر بلاول مخلوط حکومت میں شامل ہونے کی مخالف کریں گے لیکن ہوگا وہی جو زرداری چاہیں گے کیونکہ وہ موجودہ نازک مرحلے میں مقتدرہ کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے۔ حالانکہ جے یو آئی
ایف اور جی ڈی اے کے ذریعے بھرپور کوشش کی گئی تھی کہ سندھ زرداری سے چھین لیا جائے لیکن پیپلز پارٹی کے ووٹوں کا مارجن اتنا زیادہ تھا کہ جی ڈی اے کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر جی ڈی اے ایم کیو ایم جتنی نشستیں لیتا تو بھرپور کوشش کی جاتی کہ زرداری سندھ حکومت نہ بنائے۔ اس حقیقت کے باوجود اقتدار کے کھیل میں ”ان“ ہونے کے لئے زرداری کی مجبوری ہے کہ وہ حکومت سازی میں حصہ لے اور بڑوں کے حکم کے مطابق کنگز پارٹی ن لیگ کا ساتھ دے۔ اس دوران تحریک انصاف اور بلوچستان کی جماعتوں نے ایجی ٹیشن اور مظاہروں کا جو پروگرام بنایا ہے حکومت نے پہلے مرحلے میں اسے نظر انداز کرنے اور دوسرے مرحلے میں طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے۔ جو سلوک این ڈی ایم کے سربراہ محسن ڈاور کا میران شاہ میں ہوا وہ ایک بڑی مثال ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف کو مظاہروں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ بھی اطلاعات ہ یں کہ ن لیگی قیادت سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ حکومت سازی میں زیادہ تاخیر نہ کرے تاکہ ملکی معاملات نام نہاد منتخب حکومت سنبھالے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ نواز شریف سے کہہ دیاگیا ہے کہ مسلم لیگ کی ہزیمت کے بعد وزارت عظمیٰ کا امیدوار نہ بنیں تاکہ شہباز شریف کے لئے راستہ ہموار ہوجائے۔ شہباز شریف مقتدرہ اور آصف علی زرداری دونوں کو قبول ہیں۔
بہرحال جو حکومت بنے گی وہ پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت سے بھی زیادہ ناکام ثابت ہوگی کیونکہ اسے آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں جانا ہے اور پہلے سے زیادہ کڑی شرائط تسلم کرنا پڑیں گی۔ جس کے بعد مہنگائی کا ناقابل بیان طوفان آئے گا ۔ اس کے علاوہ اسی حکومت کو ملک کے دو صوبوں میں بدامنی اور دہشت گردی کی بدترین صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ چونکہ ن لیگ اور مولانا پختونخواہ میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں اس لئے اس صوبہ کے حالات کنٹرول سے باہر جاسکتے ہیں۔ یہاں پر اگر آزادوں کو توڑ کر غیر نمائندہ حکومت بنائی گئی تو عوامی غیض و غضب بلکہ بغاوت کی سی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے قوم پرستی کی دعویدار جماعتوں کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد عجیب حکومت بنے گی۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر مالک اور سردار اختر مینگل شریف لوگ ہیں جمہوریت اور پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، وفاق پرست بھی ہیں اس لئے وہ پہاڑوں پر نہیں جاسکتے۔ مجبوراً انہیں موجودہ حالات پر گزارا کرنا پڑے گا لیکن جو لوگ پارلیمانی سیاست کے مخالف ہیں انہیں ضرور تقویت ملے گی۔ بلوچستان تو پہلے سے ڈائریکٹ کنٹرول میں تھا۔ اب محمود خان، ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل کو بے دخل کرکے اسے وفاقی اثاثوں کے حوالے کردیا گیا ہے جن کا کوئی اصول اور نظریہ نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ اختر قومی اسمبلی میں جا کر اپوزیشن میں بیٹھیں گے چاہے وہ یک رکنی اپوزیشن کیوں نہ ہو۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب بھی بلوچستان اسمبلی میں یک رکنی اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ بظاہر تو کنٹرول اور انجینئرڈ انتخابات نے ریاست کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے لیکن حاکمان بالا کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ بے شک پاکستان ترقی کی دوڑ میں بھوٹان، نیپال، بنگلہ دیش اور افغانستان سے پیچھے کیوں نہ ہوجائے یا ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ قومی یکجہتی ختم ہوجائے۔ یہ ماننے کی بات ہے کہ اس وقت پاکستان کے پشتون عمران خان کو کافی اکثریت سے اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں ، اسی لئے انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی، آفتاب شیر پاﺅ اور دیگر جماعتوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے سیاست سے آﺅٹ کردیا ہے۔ اگر پختونخواہ کو نہیں سنبھالا گیا اور وہاں پر محسن داوڑ اور منظور پشتین کے ساتھ اسی طرح زیادتی اور ناانصافی کی گئی تو پاکستان کی قومی وحدت خطرے میں پڑ جائے گی۔
حفیظ دشتی مکران کی معروف شخصیت ہیں وہ اس وقت ایک آزاد سیاسی مبصر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے میرے ایک کالم پر اعتراض کیا ہے جو میں نے مولانا ہدایت الرحمن کی کامیابی پر لکھا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا ایک بلوچ قوم پرست لیڈر ہیں اور انہوں نے حق دو تحریک کے ذریعے ساحلی علاقہ کے عوام کی رہنمائی کی ہے۔ ان کی کاوشوں سے اس علاقہ مین نسلی تفاوت اور فرقہ واریت دم توڑ گئی ہے۔ انہوں نے سارے ساحلی عوام کو صرف بلوچ کے نام پر متحد کیا ہے۔ مولانا کی شخصیت کا کمال ہے کہ انہوں نے عوامی مسائل کو بری دلیری کے ساتھ اجاگر کیا ہے اور اس پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ وہ کرپٹ نہیں ہیں اور ایمانداری سے اپنا کام کررہے ہیں۔ حفیظ دشتی کا دعویٰ ہے کہ مولانا اپنے عوام پر اپنے جماعتی مفاد کو کبھی ترجیح نہیں دیں گے۔ وللہ العالم باالصواب