آفٹر شاکس + پیراشوٹرز

تحریر انور ساجدی
حقیقت یہی ہے کہ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست ناکام ہوگئی ہے
الیکشن 2024 کے آفٹر شاکس جاری ہیں، پی ٹی آئی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا دعویٰ کرنے والے پرویز خٹک عرف تیلی میاں سیاست سے کنارہ کش ہوگئے، پی ٹی آئی اے سے الگ ہو کر استحکام پاکستان پارٹی تشکیل دینے والے جہانگیر ترین بھی سیاست سے تائب ہوگئے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے پختون رہنما سراج الحق نے بھی جماعت کی امارت سے استعفیٰ دیا ہے اور الیکشن میں اپنی ناکامی تسلیم کرلی ہے۔ ادھر پیر صاحب پگارا نے سندھ اسمبلی کی دو نشستیں چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہماری یہ نشستیں بھی زرداری کو دی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ الیکشن انتہائی ریاست دشمن تھے جس کا تباب کن نتیجہ نکلے گا۔ انہوں نے کہا کہ زرداری کو لانے اور ہمیں ہروانے کا فیصلہ کہیں اور سے آیا ہے۔ الیکشن کے نتائج آنے کے بعد اے این پی پی کے صدر امیر حیدر خان ہوتی نے بھی قیادت چھوڑ دی تھی۔ صوبہ پختونخواہ میں پی ٹی آئی نے ایسی جھاڑو پھیر دی ہے کہ باچا خان کا ورثہ بھی ختم ہوگیا۔ اس صوبے کے حالات انتہائی گھمبیر اور کمپلیکس بن گئے ہیں۔ اگر کسی حکومتی فرمان کے ذریعے پی ٹی آئی کو حکومت سازی سے روک دیا گیا یا پی ٹی آئی کو داخلی تقسیم کا شکار بنایا گیا تو کوئی بعید نہیں کہ یہاں پر کوئی فقیر ایپی پیدا ہوجائے اور ایسا نعرہ بلند کردے کہ اس کا بوجھ برداشت کرنے کے کوئی قابل نہ ہو۔ ابھی تو کافی ٹائم باقی ہے۔ الیکشن کے مزیر آفٹر شاکس آئیں گے۔ ن لیگ واحد جماعت ہے جس نے ان آفٹر شاکس کا کوئی اثر نہیں لیا ہے کیونکہ یہ ”سلسلہ آہنیہ“ کی جماعت ہے اور کوئی بھی اثر آسانی کے ساتھ قبول نہیں کرتی۔ اگر پاکستان میں اصول ہوتے تو ن لیگ کشاہ دلی کے ساتھ اپنی شکست تسلیم کرتی اور حکومت سازی کے حق سے دستبردار ہوجاتی۔ کل رات سی این این نے خبر دی کہ انتخابات میں نمبر 2 اور نمبر 3پارٹیاں حکومت سازی کی کوشش کررہی ہیں یعنی جو نمبر ایک ہے اسے حکومت سازی کے عمل سے جبراً محروم کردیا گیا ہے۔ جہاں تک حکومت بنانے کا تعلق ہے تو کل رات زرداری اور شہباز شریف کی ملاقات کا اعلامیہ کچھ اور جاری کیا گیا جبکہ وہاں کچھ اور ہوا تھا۔ اگر ان جماعتوں میں عقل ہوتی تو وہ آگ میں اپنے ہاتھ نہ دیتےں کیونکہ جو بھی نئی حکومت بنی اسے فوری طور پر قرضہ کے حصول کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اگر آئی ایم ایف نے قرض جاری نہیں کیا تو ریاست ڈیفالٹ کرجائے گی۔ نئی شرائط کو تسلیم کرنے کا مطلب خودکشی کے مترادف ہے کیونکہ پاکستان کے گھمبیر معاشی اور آئینی بحران کو کوئی بھی حکومت حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو وہاں پر جان بوجھ کر سونامی لائی گئی ہے جس کی زد میں کئی قوم پرست جماعتیں آئی ہیں۔ یہ جماعتیں فی الحال احتجاجی تحریک چلا رہی ہیں اگرچہ اس کا کچھ اثر بھی ہوا ہے ورنہ پھیلن بلوچ اور محمود خان اچکزئی کے نتائج کا اعلان نہ کیا جاتا۔ ان جماعتوں کو یہ مشکل مرحلہ درپیش ہے کہ وہ کریں تو کیا کریں اگر انتخابات سوفیصد شفاف ہوتے تو بھی یہ جماعتیں قطعی اکثریت حاصل کرنے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہوتیں یعنی لفظ قوم پرستی کی اتنی بیخ کنی ہوئی ہے کہ اس لفظ کی حرفت مٹنے کے قریب ہے کیونکہ بلوچستان کے عوام ایک اور طرف چل پڑے ہیں جبکہ یہ جماعتیں میدان جنگ کی دوسری جانب کھڑی ہیں یعنی نہ تین میں ہیں اور نہ تیرا میں ہیں وہ جس وفاق اور اداروں کے رومانس میں مبتلا ہیں انہوں نے ظالم محبوب کی طرح انہیں دھتکار دیا ہے جبکہ عوام نے بھی ان کا ہاتھ جھٹک دیا ہے۔ لہٰذا جب الیکشن کے آفٹر شاکس ختم ہوجائیں گے تو ان جماعتوں کو بیٹھ کر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ انہیں کیا کرنا چاہئے، اپنے اندر کیا تبدیلی لانی چاہئے۔ میرے خیال میں تو ان جماعتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنے کا مسئلہ درپیش ہے۔
اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس طرح کی صورتحال انڈیا میں کانگریس کو بھی درپیش ہے، وہ خالق جماعت ہے لیکن فرقہ پرست جماعت بی جے پی نے اس کے اثرات مٹا دیئے ہیں۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ہوئی ہے، اداروں نے اس جماعت کو پنجاب سے نکال باہر کیا ہے۔ اسے صرف ساﺅتھ پنجاب کے چند علاقوں میں ایک ” انکلیو“ بنا کر محدود کردیا گیا ہے اس کے اثرات صرف سندھ تک محدود ہیں۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی اپنا نشان ثانیہ حاصل کرنے کے لئے سخت جدوجہد کررہی ہے۔ ریاست نے 2018 میں جو پروجیکٹ عمران خان شروع کیا تھا اسے ترک کرنے کے باوجود اس کے مابعد اثرات ایک دیو بن کر کھڑے ہیں جیسے حالیہ الیکشن میں ظاہر ہوا صرف الیکشن کی بات نہیں صوبہ پختونخواہ کے حالات جس طرح مس ہینڈل کئے گئے وہاں پر حالات کبھی بھی قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ اس صورتحال کا بنیادی حل یہ ہے کہ شفاف انتخابات کرائے جائیں اور اداروں کی سیاست میں مداخلت کو ختم کردیا جائے۔ لیکن پاکستان میں یہ ممکن نہیں ہے ، اگر یہ ممکن نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمان کی کوئی اہمیت نہیں۔ دستور حقیقی معنوں میں غیر فعال ہے جبکہ سیاسی اداروں یعنی جماعتوں کو مفلوج کردیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں نیشنل پارٹی کو ایک بولڈ فیصلہ کرنا چاہئے۔ اس جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ میر غوث بخش بزنجو کے عدم تشدد کے فلسفہ پر کارفرما ہے اور یہ وفاق کے اندر رہ کر پارلیمان کے ذریعے اپنے صوبہ کے حقوق حاصل کرنے میں یقین رکھتی ہے۔ بے شک مہاتما گاندھی والا یہ فلسفہ اچھا ہے لیکن پاکستان جیسی ریاست میں اس پر عمل کرنا مشکل ہے چنانچہ بہتر ہوگا کہ ڈاکٹر مالک اپنی جماعت کو پرامن مزاحمتی تحریک میں تبدیل کردیں اور پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کردیں ۔ ہاں یہ مسئلہ ضرور درپیش ہوگا کہ بلوچستان میں کوئی بھی پارٹی کسی نظریہ کی بنیاد پر استوار نہیں ہے اور نہ ہی ان میں نظریاتی کارکنوں کی کثیر تعداد شامل ہے۔ بلوچستان میں ان جماعتوں کا مقصد حکومتوں میں شامل ہو کر وزارتوں کا حصول اور اس کے ذریعے اپنے کارکنوں کو فوائد پہنچانا ہے ۔ اگر لوگ دیکھیں کہ یہ جماعتیں حکومت سازی سے دور ہیں تو لوگ ان سے الگ ہوجائیں گے لیکن ڈاکٹر صاحب اس کی پرواہ نہ کریں اور اپنی جماعت کو ایسی تحریک میں تبدیل کردیں جس کے بغیر بلوچستان میں کوئی بھی قدم اٹھانا ممکن نہ ہو۔ وہ بلوچستان کے ساحل و وسائل کے دفاع، بنیادی حقوق کی پاسداری ، بلوچ نسل کشی کے خلاف مزاحمت کو اپنا بنیادی مقصد قرا ردیں تو یہ ایک یونیک تحریک ہوگی اور اس جماعت کے قائدین کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائیگا اور ان کا کردار بھی تاریخی نوعیت کا ہوجائے گا۔ اگر ان جماعتوں کا مقصد چند وزارتیں لے کر وزیر اور گزیر بننا ہے تو یہ درباری نوعیت کا کردار ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اور نیشنل پارٹی کو یہ تجاویز پسند نہیں آئیں گی اور اب بھی یہ آس لگائے بیٹھی ہے کہ کوئی وقت آئے گا جب انہیں الیکشن میں کامیابی ہوگی اور وہ اپنی حکومت تشکیل دے سکیں گی۔ بھلا ایسی حکومت کا کیا فائدہ جس کے مقاصد عارضی ہوں، جو اپنے عوام سے ہم آہنگ نہ ہو وہ جتنا مرضی نرم رویہ اختیار کریں اور ایک نشست کی خاطر زندہ باد مردہ باد کا راستہ اپنائیں اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ حقیقت یہی ہے کہ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست ناکام ہوگئی ہے یہ نظام پیراشوٹر کے ذریعے چلایا جارہا ہے اور اس میں بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ لفظ قوم پرستی ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ جب ایک نشست کم ہوجائے تو یہ جماعتیں بڑی چیخا چاخی کرتی ہیں لیکن اتنے بڑے انسانی المیہ پر وہ خاموشی اختیار کرتی ہیں اس تضاد کو دور کرنا ہوگا۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں