اے غم دل کیا کروں؟ میاں صاحب کی رخصتی

تحریر: انور ساجدی
الیکشن2024 کے سب سے بڑے ”وکٹم“ ن لیگ کے سپریم لیڈر میاں نوازشریف ہیں جبکہ دوسرے وکٹم عمران خان یا پی ٹی آئی ہے۔میاں نوازشریف کو بہت ہی خوبصورت پلاننگ کے ذریعے نہ صرف وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر کیا گیا بلکہ ایک طرح سے ان کا مکمل سیاسی کیرئیر بھی ختم کر دیا گیا۔باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ نوازشریف کو پہلے مانسہرہ کے حلقہ سے شکست سے دوچار کیا گیا اس کے ساتھ ہی انہیں لاہور کے حلقہ سے ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلے میں شکست ہوئی لیکن مٹی کی ناک رکھنے کے لئے ان کی جعلی جیت کا اہتمام کیا گیا تاکہ وہ اصل منصوبہ بندی کو سمجھ نہ پائیں۔ اس کے ساتھ ہی نوازشریف کے قریبی ساتھیوں میاں جاوید لطیف،خرم دستگیر خان،سعد رفیق اور رانا ثناءاللہ اور دیگر کو شکست ہوئی یا دلوائی گئی۔اوپر سے ن لیگ ہارنے کی وجہ سے اکثریت حاصل نہ کرسکی۔یہ وہ عوامل تھے جو نوازشریف کے سیاسی کیرئیر کے خاتمہ کا سبب بنے۔پیر اور منگل کی رات کو پیپلزپارٹی نے واضح پیغام دیاتھا کہ نوازشریف بطور وزیراعظم قبول نہیں ہیں۔اس کی وجہ سے شہبازشریف کا راستہ صاف ہوگیا۔ویسے بھی شہباز شریف کو پی ڈی ایم کے دور میں وزیراعظم بنانے میں زرداری کا نمایاں کردار تھا۔اب تو سونے پہ سہاگہ ہے۔
ایک طرف وہ مقتدرہ کے پسندیدہ ہیں دوسری جانب زرداری کا ہاتھ بھی ان کے سر پر ہے۔غالباً پرانے پس منظر کی وجہ سے مقتدرہ یہ”افورڈ“نہیں کرسکتی کہ نوازشریف پی ڈی ایم ٹو کی اقلیتی حکومت کے سربراہ بنیں۔ پیرانہ سالی اور پراسرار علالت کی وجہ سے وہ وزارت عظمیٰ کے لئے فٹ نہیں تھے جبکہ متحرک اور تابع فرمان میاں شہبازشریف کوبہتر امیدوار سمجھاگیا۔یہ خیال بھی ذہنوں میں موجود ہے کہ اگرچہ بڑے میاں صاحب نے مریم بی بی کو پنجاب کی وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ وراثتی سیاست میں وہ میاں صاحب کی جانشین ہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ مسلم لیگ ن آج دو حصوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔بظاہر تو نوازشریف گروپ کمزور پڑگیا ہے جبکہ ڈرائیونگ سیٹ شہبازشریف کے ہاتھ آ گئی ہے۔اگر ایساہے تو بساط سیاست میں زرداری نے کیا خوب بدلہ لیا ہے۔اپنے بڑے حریف کو ایسے اٹھا کر باہرپھینک دیا ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔پاور شیئرنگ فارمولہ کے تحت امکان اس بات کا ہے کہ زرداری کو صدارت کا عہدہ دیا جائے اگر وہ صدر بن گئے تو شہبازشریف پر حاوی ہو جائیں گے۔یہ تو معلوم نہیں کہ بلاول کو کیا عہدہ ملے گا تاہم شہبازشریف کی خواہش ہے کہ وہ دوبارہ وزارت خارجہ کو سنبھالیں۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔چند روز قبل ن لیگ کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ اکثر عالمی کانفرنسوں میں غیر ملکی سربراہ اور وفود بلاول کے اردگرد جمع ہوتے تھے اور ان سے ان کی والدہ کی باتیں کیا کرتے تھے جبکہ پاکستانی وفد کے باقی اراکین کو کوئی نہیں جانتا تھا۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی میں سب سے بڑا کردار بلاول کا تھا۔اصولی طور پر بلاول کو اقلیتی حکومت میں کوئی عہدہ نہیں لینا چاہیے بلکہ ساری توجہ پارٹی کی تنظیم سازی پر مرکوز رکھنا چاہیے خاص طور پر پنجاب میں پیپلزپارٹی کے احیاءنو کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے کیونکہ حالیہ الیکشن نے ثابت کردیا کہ ن لیگ اندر سے بہت کمزور ہے اوروہ عوامی پذیرائی سے بھی محروم ہے۔گو کہ اس کی وجہ عمران خان کی مقبولیت ہے لیکن پھر بھی ایک سیاسی خلا پیدا ہو رہا ہے جسے بلاول پرکرسکتا ہے۔
ویسے حیرانی کی بات ہے کہ زرداری کے نازنخرے اور ن لیگ کو پریشان کئے جانے کے باوجود مقتدرہ نے زرداری کو یہ کام سونپا کہ وہ حکومت سازی کی راہ ہموار کریں۔زرداری نے الیکشن کے بعد دو دن میں لاہور اور اسلام آباد کے درمیان جو10اڑانیں بھریں وہ اہم شخصیات سے ملاقات کے لئے تھیں۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مولانا کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیوں کیا گیا۔صاف نظر آرہا ہے کہ صوبہ پختونخواہ میں زبردست انجینئرنگ کی گئی اور جان بوجھ کر تحریک انصاف کو جیتنے دیا گیا تاکہ مولانا کوئی بڑی اکثریت حاصل نہ کرسکیں۔اس کی اصل وجوہات اور اہداف کیا ہیں یہ تو”بزرگان“ ہی جانتے ہیں اور آگے جا کر پتہ چلے گا کہ اصل اہداف کیا تھے۔
جھرلو2024 کا دوسرا”وکٹم“ عمران یا پی ٹی آئی ہیں۔نہایت واضح ہے کہ تحریک انصاف اصل میں ان نام نہاد انتخابات کی ونر ہے لیکن بوجوہ ان کو اس کامیابی سے محروم کر دیا گیا ہے کیونکہ مقتدرہ پی ٹی آئی کے سیاسی بوجھ کو اٹھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔چنانچہ پوٹھوہار ریجن میں زبردستی ن لیگ کو جتوایا گیا جبکہ باقی سینٹرل پنجاب میں مداخلت نہیں کی گئی جس کی وجہ سے وہاں پر پی ٹی آئی جیت گئی۔عجیب و غریب کھیل ہے۔پختونخواہ میں پی ٹی آئی کو فری ہینڈ دیا گیا کراچی اور پنجاب کے بعض علاقوں میں اس کی جیت شکست میں تبدیل کی گئی جبکہ ایم کیو ایم کو پولنگ مکمل ہونے سے قبل خوش خبری سنائی گئی تھی کہ اسے18نشستیں دی جا رہی ہیں لیکن ہدف سے صرف ایک ہی نشست کم ملی بظاہر تو ان اقدامات کا مقصد ایک ایسی لولی لنگری حکومت انسٹال کرنا ہے جو آنکھیں بند کرکے ہرحکم کی تعمیل کرے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے قائد سیاسی داﺅ پیچ سے نابلد نظر آتے ہیں۔انہوں نے جیل سے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گے بلکہ اپوزیشن بینچوں میں بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔انہوں نے حیران کن طور پر راجہ عباس ناصر کی شیعہ تنظیم کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا اگرچہ یہ اتحاد قائم ہونا مشکل ہے کیونکہ اس کی صورت میں پوری پی ٹی آئی کو وحدت المسلمین نامی جماعت میں ضم ہونا پڑے گا تب ہی اسے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔عمران خان کے فیصلے کے بعد اس پر شدید تنقید شروع ہوئی لیکن پی ٹی آئی کے کارکن اتنے پکے ہیں کہ وہ ہر فیصلے کو جائز سمجھتے ہیں۔بادی النظر میں اسے اس فیصلہ سے سیاسی نقصان ہوگا ۔ایک مشکل معاملہ ہے کہ آزاد اراکین کیسے پختونخواہ میں حکومت تشکیل دیں گے۔عمران خان نے آتشیں لیڈر علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ نامزد کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی موجودہ پالیسی برقرار رکھیں گے حتیٰ کہ اس فیصلے سے تحریک انصاف دو حصوں میں تقسیم بھی ہوسکتی ہے۔اگر ایسا ہووا تو پختونخواہ میں اس کی کامیابی ضائع ہو جائے گی۔ چونکہ حکومت سازی میں کافی وقت پڑا ہے اس لئے کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ حکومتی اقدامات اور الیکشن کمیشن کی جانب داری سے تحریک انصاف اپنی اکثریت کھو چکی ہے اس کے کل اراکین کی تعداد93 ہے جنہیں ابھی تک یک جا نہیں کیا گیا اگر ان پر پہرا نہیں دیا گیا تو 25کروڑ فی ووٹ کے لالچ میں آکر کئی اراکین ادھر سے ادھر ہوسکتے ہیں۔
بہرحال پی ڈی ایم ٹو کی حکومت بن جائے گی لیکن یہ اس قابل نہ ہوگی کہ ملک کو سیاسی استحکام اور معاشی بحران سے نجات دلاسکے کیونکہ اس سال جون تک عالمی قرض خواہوں کو 25 ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ ریکوڈک کی خریداری فائنل ہو جائے اور کچھ رقم ہاتھ آ جائے اس کے ساتھ ہی شہبازشریف کاسہ گدائی لے کر ملک ملک گھومیں گے اور جو بھی ملے یعنی امداد قرض بھیک یا خیرات وہ اکٹھا کریں گے تب ہی قرضوں کی اقساط ادا ہوسکیں گی۔اس دوران حکومت کو امن وامان کے سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ دو صوبوں میں کافی بے چینی ہے اور وہاں حالات خراب ہیں اگر عمران خان نے دوبارہ تحریک چلانے کی کال دی یا مختلف شہروں میں دھرنے دینے کا فیصلہ کیا تو سیاسی استحکام دگردوں ہو جائے گا جس کے بغیر معاشی اہداف حاصل کرنا ممکن نہ ہوگا۔جہاں تک عمران کے سخت فیصلوں کا تعلق ہے تو ممکن ہے کہ عوام اسے اصول پسندی سے تعبیر کریں جس کی وجہ سے اس کی حمایت بڑھ جائے۔مثال کے طور پر انہوں نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو چور اور ڈاکو قرار دے کر ان کے ساتھ تعاون سے انکار کیا ہے جو اصولی طور پر درست فیصلہ ہے۔اگر وہ حکومت سازی میں تعاون کرتے تو وہ اپنے اصولوں کی پامالی کے مرتکب ہوتے۔چنانچہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو اس کا فائدہ ہوگا آئندہ الیکشن بھی زیادہ دور نہیں۔اگر پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت ناکام ہوگئی تو ایک اور انتخابات میں جانے کے سوا کوئی راستہ نہ ہوگا۔
یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ میاں نوازشریف کو دھوم دھڑکے سے واپس بلا کر ان کے مقدمات ختم کردئیے گئے اور کافی رعایتیں دی گئی لیکن انہیں چوتھی بار وزیراعظم بننے سے روک دیا گیا۔غالباً مریم بی بی کی حلف برداری کے بعد میاں صاحب طبی معائنہ کی خاطر عازم لندن ہو جائیں گے اور وہاں پر طویل قیام کریں گے۔ انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ لندن میں اپنی خودنوشت تحریر کریں جو ایک تہلکہ خیز کتاب ہوگی اور جس کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہو جائیں گی۔ریٹائرمنٹ کی زندگی اگرچہ تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن میاں صاحب ایک بڑے لیڈر ہیں ان سے میل ملاقات کا سلسلہ جاری رہے گا۔وہ ایون فیلڈ کے اپارٹمنس اور لندن کے شاندار سبزہ زاروں میں اپنے پسندیدہ گلوکار طلعت محمود کے گانے گنگنا کر اپنا غم غلط کرسکتے ہیں۔شرارتی صحافی مطیع اللہ جان نے تو میاں صاحب کو خداحافظ کہہ دیا ہے اور ن لیگ کے زوال کی پیشنگوئی بھی کردی ہے لیکن ان کے منظر عام سے غائب ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ویسے بھی اس وقت تمام بزرگ سیاست دان اپنی طبی عمر پوری کرچکے ہیں۔ سارے لیڈر 70اوراس سے اوپر کے بابے بن چکے ہیں۔اس لئے ان کا بنیادی کردار ختم ہونے کو ہے۔76 سالہ میاں صاحب72 سالہ عمران خان70سالہ زرداری اور74 سالہ شہبازشریف آخری باری لگا رہے ہیں کچھ ہی عرصہ میں ان کی سیاست اوربے شمار دھن دولت اگلی نسل کو منتقل ہو جائے گی۔بس اللہ اللہ خیر صلا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں