جٹ دا کھڑاک

تحریر: انور ساجدی
کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ ذات کے جٹ ہیں اس لئے انہوں نے مولا جٹ اور وحشی جٹ والا کام کردیا، کیا جھوٹ کیا سچ لیکن انہوں نے 8 فروری کے انتخابات پر بم گراد یا ہے۔ حکومت لاکھ وضاحتیں دے کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں کیونکہ انتخابی نتائج پہلے دن سے ہی مشکوک تھے اور یہ بدترین انجینئرنگ کے شاہ کار تھے۔ منتظمین نے سلیقہ کا کوئی کام نہیں کیا تھا، پی ٹی آئی سے لاکھ اختلافات سہی اصل سنگل لارجسٹ پارٹی وہی تھی، ن لیگ کو دھونس دھاندلی اور زبردستی سنگل لارجسٹ پارٹی ڈیکلیئر کیا گیا۔ ان حقائق سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ نے انتخابات کے کافی دنوں بعد دھاندلی کا انکشاف کیوں کیا، اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے اور جن عناصر نے کمشنر کو استعمال کیا ان کے مقاصد کیا تھے۔ ان کے انکشاف کا بڑا وکٹم تو حکومت ہے اس کے بعد ن لیگ ہے اس کی بینیفشری تحریک انصاف اور وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں اس سلسلے میں کئی سازشی تھیوریاں گروس کررہی ہیں جن کے مطابق ہو نہ ہو اس انکشاف کے پیچھے ایسے عناصر ہیں جو انتخابات کو مشکوک بنا کر حکومت سازی میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ نگران حکومت طول پکڑ جائے۔ اس کی سب سے بڑی بینیفشری پی ٹی آئی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ 8فروری 2024 کی رات کو عوام نے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے تھے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی نے 170 نشستیں حاصل کی تھیں لیکن حکمرانوں نے آپریشن ردوبدل کے ذریعے اس کی کم ازکم 70 نشستیں کم کردیں اگر پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کا موقع نہیں دیا گیا تو وہ سوشل میڈیا کے ذریعے زبردست پروپیگنڈہ کرے گی، خوب شور مچائے گی اور لوگ یقین کرلیں گے کہ واقعی بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے، پی ٹی آئی کا مقصد دھاندلی کا شور مچا کر انتخابات کی شفافیت کو مشکوک بنانا ہے تاکہ جو بھی حکومت آئے وہ چل نہ سکے اور شدید ناکامی سے دوچار ہوجائے۔ ویسے اس وقت صورتحال اسی طرح ہے، اگر ن لیگ نے اقلیتی حکومت تشکیل دے دی تو وہ بند گلی میں پہنچ جائے گی اس کے سامنے جو بڑے بڑے چیلنج ہوں گے وہ اس پوزیشن میں نہ ہوگی کہ ان سے نمٹ سکے اگر حکومت ناکام ہوجائے تو اس کے دو نتائج برآمد ہوں گے ایک یہ کہ ن لیگ سب سے بڑی پارٹی کے رتبہ سے محروم ہوجائے گی۔ جتنے مہینے کی حکومت ہو وہ اس جماعت کا آخری اقتدار ہوگا دوسرا یہ کہ حکومت کی ناکامی کے بعد ایک اور الیکشن کی جانب جانا پڑے گا۔ یہ ایسے انتخابات ہوں گے کہ حکمرانوں کو من پسند نتائج کی انجینئرنگ سے دور ہٹنا پڑے گا ورنہ ایسی تباہی اور سنگین صورتحال پیدا ہوجائے گی کہ اسے حل کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ 8 فروری کے انتخابات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سیاستدان صرف اور صرف اپنا مفاد سوچتے ہیں۔ کل تک وہ عمران خان کو یہودی ایجنٹ قرار دیتے تھے لیکن آج وہ اس سے ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔ مولانا کی تحریک انصاف کے ساتھ ہمدردی اسی مفاد کا اظہار ہے حالانکہ مولانا کو جو نشستیں ملی ہیں وہ اس کے مستحق تھے اگرکل ان کا صاحبزادہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں کامیاب ہوجائے تو مولانا کا جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ اگر اسد محمود کا اعلان نہ کیا گیا تو مولانا قہر بن کر ٹوٹ پڑیں گے اور دھاندلی کے خلاف ایسی تحریک چلانے کی کوشش کریں گے جو 1977 میں ان کے والد محترم کی سربراہی میں پی این اے نے چلائی تھی ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مولانا کے پاس اسٹریٹ پاور بہت ہے ان کے لئے احتجاجی تحریک چلانا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
بہرحال جھرلو 2024 مکمل طور پر متنازعہ ہوئے ہیں، جیتنے اور ہارنے والے دونوں نتائج تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، اس طرح یہ الیکشن ایک مذاق بن کر رہ گئے ہیں لیکن اس کے نتائج تباہ کن ثابت ہوں گے۔ جن عناصر نے سارا اسکرپٹ لکھا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ مطمئن ہوں کیونکہ وہ اتنے پاورفل ہیں جو تحریک اور احتجاج کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کو حکومت دلانے کے لئے تو ساری پریکٹس نہیں کی تھی۔ ان کا لندن میں ہونے والا خفیہ معاہدہ نواز شریف کے ساتھ تھا۔ اس معاہدہ کی رو سے ن لیگ اور حکام بالا نے مل کر حکومت چلانی تھی ہر معاملہ میں مل کر چلنا تھا لیکن حکام بالا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ن لیگ سابق ن لیگ نہیں رہی تھی۔ عمران خان کے پروپیگنڈہ کی وجہ سے اس جماعت کی عوام میں پذیرائی کم ہوگئی تھی جبکہ عمران خان کی گرفتاری ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں، تحریک انصاف کو انتخانی عمل سے باہر کرنے اور دیگر الزامات نے پی ٹی آئی کی مقبولیت بڑھا دی تھی ۔ جو اسکرپٹ تھا وہ یہیں سے خراب ہوگیا چونکہ ن لیگ اکیلی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں اس لئے حکام بالا زرداری پر دباﺅ ڈال رہے ہیں کہ حکومت سازی میں زیادہ رکاوٹیں نہ ڈالیں بلکہ جو من مانے مطالبات ہیں وہ بے شک منوالے لیکن زیادہ تاخیر سے کام نہ لے۔ سردست پیپلز پارٹی نخرے کررہی ہے کہ وہ وزارتیں نہیں لے گی لیکن اقتدار کی دلدادہ بالآخر بڑوں کا کہنا مان جائے گی۔ زیادہ سے زیادہ زرداری کو صدارت اور دو آئینی عہدے درکار ہیں جو آخر مل ہی جائیں گے۔ تجربہ کار مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت سازی ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کے لئے تباہ کن ثابت ہوجائے گی۔ بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف کو پہلے حکومت سازی کا موقع دیا جاتا اس کی ناکامی کے بعد ہی ن لیگ کو یہ کام سونپا جاتا۔ آثار بتا رہے ہیں کہ اس سال جون میں جو نئے قرضے درکار ہوں گے آئی ایم ایف دبا کر شرائط عائد کرے گی یعنی تیل، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا جس سے پہلے سے موجود مہنگائی مزید ناقابل برداشت ہوجائے گی۔ بیروزگاری میں اضافہ ہو جائیگا، لوگوں کی زندگی اجیرن ہوجائے گی جس کی وجہ سے حالات دگردوں ہوجائیں گے۔ اگر آئی ایم ایف نے قرضے جاری نہیں کئے اور دوست ممالک نے بعض اہم اثاثوں کی خریداری میں لیت و لعل سے کام لیا تو ایک بار پھر ڈیفالٹ کا خطرہ سر پر آجائیگا۔ ویسے تو جب تک کوئی معجزہ رونما نہیں ہوگا ریاست مسائل کے گرداب میں پھنستی رہے گی اور اس گرداب سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔ کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے جو جماعت کامیاب ہو اس کا ایمانداری کے ساتھ اعلان کیا جائے ورنہ بحران سنگین سے سنگین تر ہوجائیں گے، معاشی زبوں حالی ڈیفالٹ تک چلی جائے گی اور عوام زندہ درگور ہوجائیں گے۔
عجیب بات ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد مولانا کے دل میں عمران خان کے لئے ہمدردی پیدا ہوئی ہے اسی طرح امریکہ کے دل میں بھی عمران خان کے لئے ہمدردی جاگ اٹھی ہے کوئی دن نہیں جاتا جب امریکہ یہ بات نہیں کرتا کہ دھاندلی کے خلاف تحقیقات کی جائیں حالانکہ عمران خان نے اپنی معزولی کی وجہ امریکہ اور اس کے بھیجے گئے سائفر کو قرار دیا تھا لیکن حالات نے جس طرح پلٹا کھایا ہے اس کی وجہ سے نہ مولانا مولانا رہے نہ عمران خان یہودی ایجنٹ رہے اور نہ ہی امریکہ عمران خان کا دشمن رہا۔
بلوچستان میں جو کل جماعتی حکومت بن رہی ہے ن لیگ نے اکثریتی جماعت ہونے کی بنیاد پر حکومت سازی کا حق مانگ لیا ہے جبکہ زرداری مصر ہیں کہ وہاں پر جیالا ہی وزیراعلیٰ ہوگا۔ ن لیگ کے کوہلو کے حلقہ کے چند پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ نے نتائج تبدیل کردیئے جس کی وجہ سے ن لیگ کو سبقت حاصل ہوگئی ہے۔ معلوم نہیں کہ بلوچستان کی متوقع حکومت میں جمعیت اور قوم پرستوں کے رنگ شامل ہوں گے یا نہیں، جمعیت کے ڈھیر سارے ایم پی اے اگر حکومت میں شامل نہ ہوئے تو ان کے دیرینہ ارمان ادھورے رہ جائیں گے۔ قوم پرستوں کو چونکہ زیادہ نشستیں نہیں ملی ہیں اس لئے وہ شاید حکومت سے دور رہیں۔ سنا ہے کہ ملک شاہ اسلام آباد میں بلوچستان اسمبلی میں پی پی کی اکثریت بڑھانے میں مصروف ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ کمشنر راولپنڈی نے ان لوگوں کو کلین چٹ دے دی ہے جن پر الیکشن انجینئرنگ کا الزام ہے جبکہ اس نے سارا ملبہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور چیف الیکشن کمشنر پر ڈالا ہے۔ بندہ کافی ہوشیار لگتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں