جبل میں شاہ، جئے شاہ ملک شاہ

تحریر: انور ساجدی
نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے سینیٹ کے الوداعی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بدترین دھاندلی پر چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان کو گرفتار کیا جائے۔ایوان بالا میں موجود متعدد دیگر اراکین نے تالیاں بجا کر اس مطالبہ کی تائید کی تاہم انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی گرفتاری کا مطالبہ نہیں کیا اگرچہ پاکستان کی تاریخ انتخابی دھاندلیوں سے بھری پڑی ہے لیکن1977 کے انتخابات اتنے متنازعہ ہوئے کہ فوج نے مداخلت کر کے وزیراعظم کو معزول کر دیا اور ملک میں سیاست کی بساط ہی لپیٹ دی۔7مارچ1977 کو قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 3دن بعد ہونا طے تھے۔کاغذات نامزدگی والے دن لاڑکانہ سے جماعت اسلامی کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو غائب کر دیا گیا۔ان کی رہائی اس وقت عمل میں آئی جب کاغذات داخل کرنے کا وقت گزر چکا تھا۔بعدمیں پتہ چلا کہ یہ کام بھٹو کے یارغار ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ خالدخان نے کیا تھا۔یہ ڈپٹی کمشنر ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئے اور اپنا نام بدل کر خالد کھرل کہلائے اور محترمہ کے دور میں اطلاعات کے وزیر بن گئے۔بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد(پی این اے) الیکشن لڑ رہا تھا۔نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے2سو میں سے155نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ پی این اے صرف36نشستیں حاصل کر سکی۔پی این اے کے رہنماﺅں نے نتائج آنے کے بعد انہیں مسترد کردیا اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔اس کا موقف تھا کہ بھٹو نے وسیع پیمانے پر دھاندلی کی ہے۔آزاد مبصرین کے مطابق دھاندلی زدہ نشستوں کی تعداد 30سے زائد نہ تھی لیکن پی این اے نے ملک گیر ا حتجاج شر وع کر دیا۔اس تحریک کو درپردہ پاکستانی فوج اور امریکی انتظامیہ کی حمایت حاصل تھی۔مارچ سے جون تک تحریک عروج پر تھی۔بھٹو نے دباﺅ میں آکر30نشستوں پر دوبارہ پولنگ کی پیش کش کر دی لیکن پی این اے کے رہنما نہ مانے۔ اسی دوران مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔بھٹو ازسرنو انتخابات کا مطالبہ مان چکے تھے۔3جولائی کی رات کو معاہدہ پر دستخط ہونے تھے لیکن ائیرمارشل اصغر خان نے معاہدہ کے نکات پر اعتراض اٹھا دیاجس کی وجہ سے دستخط نہ ہوسکے۔غالباً انہیں معلوم تھا کہ اگر معاہدہ ہو جائے تو بھٹو کا تختہ الٹنا مشکل ہے۔اس لئے انہوں نے رکاوٹ ڈالی۔اگلی رات دوبارہ مذاکرات ہوئے لیکن اصغرخان نے پھر رکاوٹ ڈالی جس کے نتیجے میں نصف شب کے بعد جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کا تختہ الٹ کر مارشل لاءنافذ کر دیا۔کچھ عرصہ بعد انہوں نے جو کابینہ تشکیل دی اس میں پی این اے کو نمائندگی دی جس کا مطلب یہ تھا کہ مارشل لاءکا نفاذ مشترکہ کاوش کا نتیجہ تھا۔جونہی ضیاءالحق کے وارے نیارے ہوئے انہوں نے پی این اے کے وزراءکو دودھ میں سے مکھی کی مانند باہر نکال کر پھینک دیا۔ضیاءالحق 11سال تک اقتدار پر براجمان رہے۔1985ءمیں ضیاءالحق نے غیر جماعتی بنیاد پر جو انتخابات کروائے وہ انتخابی تاریخ کے بدترین مذاق تھے۔پسندیدہ امیدواروں کی ایک فہرست بنائی گئی اور ان کی کامیابی کا اعلان کیا گیا۔ضیاءالحق نے پہلی مرتبہ ایم این اے اور ایم پی اے فنڈ رکھ کر عوامی نمائندوں میں کرپشن کی بنیاد ڈالی۔یہ مرض کینسر کی طرح پھیل گیا جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن ہوگیا۔1989 میں جب بے نظیرکے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو جنرل حمید گل کے تعاون سے میاں نوازشریف نے لیگی اراکین کو چھانگا مانگا کے ریسٹ ہاﺅس میں چھپا کر رکھا۔ یہیں سے سیاست میں چھانگا مانگا ایک اصطلاح بن گئی۔1997اور2002 کے انتخابات بھی سلیکشن ہی تھے۔2018 کو مقتدرہ نے عمران خان کو لانے کا فیصلہ کیا تو ایسی دھاندلی کا اہتمام کیا کہ عقل حیران رہ جائے۔انتخابات کے بعد جس طرح دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو جہازوں میں بھر کر بنی گالہ لایا گیا اور ان کی گردنوں میں پی ٹی آئی کا ”پٹا“ ڈالا گیا یہ عوام کی توہین تھی۔جب عمران خان اور باجوہ میں ناچاقی ہوئی تو باجوہ نے نوازشریف سے دوبارہ تعلقات استوار کر لئے۔ اس مقصد کے لئے کئی ایلچی لندن بھیجے جس کی وجہ سے یہ منصوبہ لندن پلان کے نام سے مشہور ہوا۔کچھ ہی عرصہ بعد پی ڈی ایم کی جماعتوں نے عمران خان کو چلتا کرنے کے لئے تحریک عدم اعتماد پیش کی جس کی کامیابی کے لئے باجوہ نے زرداری کا ٹاسک سونپ دیا اور یہ ٹاسک کامیابی سے ہمکنار ہوا۔9مئی2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف مختلف شہروں میں زبردست گھیراﺅ جلاﺅ ہوا جس کے مقدمات عمران خان اور ساتھیوں کے خلاف بنائے گئے۔حکومت کا خیال تھا کہ اس اقدام سے تحریک انصاف کا وجود مٹ جائے گا اور عمران خان کی سیاسی طاقت زیرو ہو جائے گی لیکن مقتدرہ زمینی حقائق سے واقف نہ تھی۔عمران خان کو معزول کرنے اور پی ڈی ایم حکومت کی ناکامی نے عوام میں غصہ بھر دیا تھا۔ساتھ ہی تشدد، انتقامی کارروائیوں اور گرفتاریوں سے عمران خان کےلئے کے بورڈ وارئیرز کو میدان میںاترنے پر مجبور کر دیا۔خاص طور پر خواتین رہنماﺅں اور کارکنوں کی گرفتاریوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ان کارروائیوں کے بعد حکومت نے عام انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔اس سے قبل تحریک انصاف کو عدلیہ کے تعاون سے اس کے انتخابی نشان بلے سے محروم کر دیا گیا جس کی وجہ سے اس کے امیدواروں کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترنا پڑا۔لوگوں کے جذبات شدید تھے تمام تر حکومتی اندازوں کے برخلاف ووٹر بڑی تعداد میں باہر نکلے۔پولنگ حیران کن تھی۔حکومت کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ لوگوں نے پختونخواہ میں پی ٹی آئی کو کلین سوئپ دیدی تھی۔پنجاب میں ن لیگ کا صفایا کر دیا تھا جبکہ کراچی میں12 نشستوں پر پی ٹی آئی کو برتری حاصل تھی۔یہ نتیجہ حکومت کے لئے پریشان کن تھا۔اس لئے آپریشن ردوبدل کا فیصلہ کیا گیا۔نتائج کا اجراءروک دیا گیا حکومت کو دو پریشانیاں تھیں ایک یہ پنڈی ڈویژن کی 13 نشستوں پر ن لیگ کا وجود مٹ چکا تھا اور لاہور کی بھی14میں سے 12 نشستوں پر پی ٹی آئی کو کامیابی ملی تھی۔آپریشن ردوبدل کے بعد حکومت کو نتائج مرتب کرنے میں 3دن لگے لیکن جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے۔ چوری اور ڈاکہ آخر کار پکڑا جاتا ہے۔مقتدرہ نے اگرچہ ن لیگ کو دوسری بڑی جماعت بنا دیا لیکن پھر بھی سنگل لارجسٹ پارٹی پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار ہی رہے۔ان نتائج کو دیکھ کر میاں نوازشریف اتنے پریشان ہوئے کہ وہ پارٹی رہنماﺅں سے پوچھتے پھر رہے تھے کہ یار آپ نے تو کہا تھا کہ میں سب سے زیادہ مقبول لیڈر ہوں یہ میرے ساتھ کیا ہوا۔میرے خلاف کس نے سازش کی۔ادھر مقتدرہ نے عمران خان سے خفیہ مذاکرات شروع کر دئیے۔معلوم نہیں کہ ان کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا لیکن بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پختونخواہ میں پی ٹی آئی کو حکومت سازی کا حق دے دیا جائے گا۔مرکز میں اسے اپوزیشن کا رول ملے گا لیکن ایک ایسی اسمبلی جس میں اپوزیشن کی تعداد آدھی ہو وہ کیا چلے گی اوپر سے زرداری کا دباﺅ اور بلیک میلنگ عروج پر ہو تو درپیش گمبھیر مسائل کو کیسے حل کیا جاسکے گا۔اگر حکمران سمجھ دار ہوتے تو عمران خان کی مقبولیت کو خاک میں ملانے کےلئے پی ٹی آئی کو حکومت سازی کا موقع دیتے تاکہ چند دنوں کے دوران اس کی صلاحیت اور اہلیت سامنے آ جاتی لیکن وہ پی ٹی آئی کی مقبولیت مزید بڑھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ن لیگ کی اقلیتی حکومت بنا کر ایک غلط روایت کی بنیاد ڈالی جارہی ہے یہ ن لیگ سے بڑی دشمنی ہے۔اگر اس کی حکومت چند مہینوں کے اندر شدید ناکامی سے دوچار ہوئی تو حکمرانوں کو ایک اور الیکشن کا انتظام کرنا پڑے گا اس کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی کو حکومت میں شمولیت پر مجبور کیا جا رہا ہے حالانکہ پیپلز پارٹی کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ عمل سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔اگر رواں سال ایک اور الیکشن ہوئے تو کوئی ملک شاہ ساری کی ساری اسمبلی خرید لے گا اور سیاسی لیڈر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔یعنی آئندہ دور میں الیکشن کھربوں روپے کا کھیل بن جائے گا جبکہ موجودہ الیکشن اربوں کا تھا کوئی بھی باصلاحیت سیاسی کارکن کبھی اسمبلیوں میں نہیں جا سکے گا۔چوہدری منظور پیپلزپارٹی کے ایک اہم رہنما ہیں۔ان کا تعلق قصور سے ہے۔وہ سابقہ الیکشن میں ہار گیا تھا اور موجودہ الیکشن میں وہ کسی شمار میں نہیں آیا۔انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ہم جیسے لوگ کبھی اسمبلیوں میں نہیں جا سکیں گے۔حالانکہ چوہدری منظور اتنے پڑھے لکھے سیاست کے ایسے استاد ہیں کہ وہ نوازشریف اور شہبازشریف کو کئی دن تک لیکچر دے سکتے ہیں۔لیکن آج کی اسمبلیوں میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ اب اسمبلیوں کی نشستیں اوپر سے نیچے تک بکتی ہیں اور بڑے بڑے مافیاز کے سوا کوئی انہیں نہیں خرید سکتا۔حالانکہ پی ٹی آئی کو جو کامیابی ملی ہے اس میں کارکنوں کا ہاتھ زیادہ ہے لیکن اس کے پیچھے بھی کافی طاقت ور مافیاز سرگرم عمل تھے۔اگر کہا جائے کہ ایک ملک ریاض سب سے بھاری ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
زمینی حقائق کیا ہیںسبھی جانتے ہیں پاکستان سے روایتی سیاست،شرافت اور رواداری رخصت ہوچکی ہے۔اس کا انجام نہایت بھیانک نکلے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں