انتشار ہی انتشار

تحریر: انور ساجدی
یہ جو8فروری کے متنازعہ الیکشن ہیں ان کے نتیجے میں کبھی سیاسی استحکام نہیں آئے گا نہ ہی ریاست کے حالات سدھار کی طرف جائیں گے بلکہ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی انتشار،افراتفری، ہڑتالوں،دھرنوں اور ناگفتہ بہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ساتھ ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اندر ایسے مناظر دیکھنے کو ملیں گے جو اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آئے ہوں گے۔قومی اسمبلی کا تو دستور ہی نرالا ہوگا کیونکہ ایک بہت بڑی اپوزیشن ایوان میں ہوگی جو کارروائی چلنے نہیں دے گی۔اگر شیرافضل جیسے لوگ ہوئے تو مارکٹائی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔اسمبلی کے اندرچور چور ووٹ چور کے نعرے لگیں گے۔سرکاری اتحاد کی دفاعی پوزیشن ہوگی اور وہ اتنی بڑی اپوزیشن کا مشکل سے سامنا کرسکے گا۔عمران خان کے سوشل میڈیا کے جنگجوﺅں نے عوام کے دلوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ الیکشن چوری کیا گیا ہے اور تحریک انصاف کی اکثریت کو زبردستی اور دھاندلی کے ذریعے چرایاگیا ہے۔غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ عالمی برادری بھی اس بات پر متفق ہے کہ 8 فروری کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر فراڈ اور گڑ بڑ کی گئی ہے اور وہاں سے یہ مطالبہ تواتر کے ساتھ آ رہا ہے کہ فراڈ کی آزادانہ تحقیقات کروائی جائیں۔ابھی چونکہ آغاز ہے اس لئے وقت گزرنے کے ساتھ یہ مطالبہ مزید زور پکڑے گا اور ہائبرڈ رجیم کو داخلی اور خارجی طور پر سخت دباﺅ کا سامنا کرنا پڑے گا۔روز اسمبلیوں کا گھیراﺅ ہوگا۔اندر اور باہر دھرنے ہونگے ۔سندھ اسمبلی کے افتتاحی سیشن کے گھیراﺅ کا پہلے سے اعلان کیا گیا ہے چونکہ مولانا اور دیگر جماعتیں پختونخواہ میں ایسی پوزیشن نہیں رکھتیں کہ وہاں کی اسمبلی کا گھیراﺅ کیا جائے لیکن وہاں پر اسمبلی کا سیشن بلانے سے لیت و لعل سے کام لیا جائے گا۔وہاں کے گورنر حاجی غلام علی جن کا تعلق جے یو آئی سے ہے سردست چھٹیوں پر چلے گئے ہیں یعنی ایک طرف مولانا حکومت پر دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں اوردوسری جانب جہاں پی ٹی آئی جیتی ہے وہاں اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کیا جا رہا ہے حالانکہ 29 فروری سے قبل سیشن بلانا آئینی تقاضا ہے۔پختونخواہ اسمبلی کے کیا مناظر ہوں گے جب عزت مآب وزیراعلیٰ جناب علی امین گنڈا پور مخالفین کو صلواتیں سنا رہے ہوں گے۔دھمکیاں دے رہے ہوں گے اور مخالفین کو ہال سے باہر پھینکنے کی تڑی لگا رہے ہوں گے۔علی امین گنڈاپور 1970 کی دہائی کے عظیم لیڈرسردار عنایت اللہ گنڈا پور کے جانشین ہیں۔وہ ایک پڑھے لکھے اور مدبر انسان تھے الیکشن سے قبل انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے وہاں سے الیکشن لڑا اور مفتی محمود کے مقابلہ میں ہار گئے۔اب وقت بدل چکا ہے۔نہ بھٹو ہے نہ مفتی محمود اور نہ ہی گنڈاپور۔حقیقت یہی ہے کہ ڈی آئی خان کے پاپولر لیڈر علی امین گنڈا پور ہیں جس نے گزشتہ اور موجودہ انتخابات میں مولانا کو ہزاروں ووٹوں سے شکست دی ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے عمران خان نے اپنی سوشل میڈیا فوج کے ذریعے سیاست کا رخ تبدیل کر دیا ہے اور سیاست کے معنی بدل دئیے ہیں۔انہوں نے نوجوانوں کی ایسی نسل تیار کی ہے جس کی حیثیت ایک سیاسی کلٹ کی ہے۔کلٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے لیڈر کے سوا کسی کو نہیں ماننا ہے۔وہ غلط کرے یا صحیح اس کی ہر بات اور ہر عمل کی تائید کرنا ہے۔
9مئی کے بعد سے عمران خان کے وارئیرز نے انہیں بے گناہ اور معصوم تسلیم کروایا ہے۔اس کے حامی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ 9مئی کے واقعات عمران خان نے کروائے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ اگر یہ واقعات عمران خان نے کروائے بھی ہیںتو درست کروائے ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے حامیوں نے بڑے پیمانے پر باہر نکل کر پولنگ کے دن تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو ووٹ ڈالا۔خود عمران خان کا طریقہ کیا ہے؟ وہ جیل جانے کے باوجود لڑنا چاہتے ہیں۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے شہد کے شوقین اور لڑائی مارکٹائی کے حامی ایک شخص کو پختونخواہ کا وزیراعلیٰ نامزد کر دیا۔اسی طرح انہوں نے حال ہی میں بیرسٹر گوہرخان جیسے شریف آدمی کو پارٹی چیئرمین کے عہدے سے ہٹا کر بیرسٹر علی ظفر کو نامزد کر دیا۔علی ظفر ہر آمریت کا ساتھ دینے والے وکیل ایس ایم ظفر کے صاحبزادے ہیں۔ایس ایم ظفر نے ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک ہر فوجی آمر کا ساتھ دیا لیکن آج ان کے صاحبزادے قانون کی حکمرانی اور سیاست میں مقتدرہ کی مداخلت کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان مقتدرہ اور اس کے گماشتہ اتحاد سے لڑائی کو مزید تیز کرنا چاہتے ہیں۔انہیں کوئی خوف نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا ہے کہ پاکستان کو متنازعہ حلقوں کے آڈٹ کے بغیر قرضہ جاری نہ کیا جائے۔عمران خان جانتے ہیں کہ ان کے خلاف 9 مئی کے واقعات کے سنگین مقدمات قائم ہیں اگر کچھ اورکا اضافہ ہو جائے تو کیا فرق پڑے گا۔وہ پہلے لیڈر ہیں جو مقتدرہ کے گلے پڑے ہیں۔اگر ان کا تعلق کسی اور صوبے سے ہوتا تو ان سے نمٹنا آسان ہوتا لیکن مضبوط ڈومیسائل کی وجہ سے مقتدرہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔کوئی شک نہیں کہ حالیہ انتخابات میں عمران خان کے کھڑے کردہ آزاد امیدواروں نے اکثریت حاصل کی ہے لیکن یہ اکثریت سادہ ہے۔دوتہائی نہیں۔ تحریک انصاف کا تو یہ دعویٰ ہے کہ ن لیگ کو پنجاب سے صرف 24 نشستیں ملی ہیں اگر یہ دعویٰ مبالغہ ہے تو اس کی جیتنے والی نشستوں کی تعداد 40 سے ہرگز کم نہیں ہے۔اب چونکہ حکمران اتحاد اقلیت میں ہوگا تو ایک ایسی حکومت کیا سیاسی و معاشی استحکام دے پائے گی اوپر سے پیپلزپارٹی سردست وزارتیں قبول نہیں کر رہی ہے لیکن اہم آئینی عہدوں کے حصول کے بعد وہ یقینی طورپر وزارتیں لے لے گی۔البتہ ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کو لے کر اپنے پرانے وطیرہ کے مطابق بلیک میلنگ کا کام جاری رکھے گی۔یہ جو مقتدرہ نے ”اسٹیم سیل“ ٹیکنالوجی کے ذریعے ایم کیو ایم کو تازہ خون انجیکٹ کیا ہے اس کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں کہ سندھ کو مقتدرہ کی منشا کے مطابق چلایا جائے ورنہ ایم کیوایم دھمکیوں اور بلیک میلنگ پر اتر آئے گی۔وہ کراچی کا امن بھی تہہ و بالا کر سکتی ہے جیسے کہ اس نے ماضی میں کیا ہے یعنی پیپلزپارٹی کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے ایم کیو ایم ترپ کا پتہ ہے۔جہاں تک بلاول کا حکومت میں شامل ہونے سے انکار ہے تو وہ دھیما پڑ گیا ہے کیونکہ ایک رات قبل انہیں خاص جگہ بلا کر اچھی طرح سمجھا دیا گیا ہے کہ زیادہ ناز نخرے نہیں دکھانے ہیں۔اس طرح بلاول نے انتخابی مہم کے دوران جو بلند وبانگ نعرے لگائے اور جو10 نکاتی پروگرام پیش کیا وہ سب کچھ وڑ گیا ہے۔جو زمینی حائق ہیں وہ حکمرانوں کی سوچ سے مختلف ہیں۔حکمرانوں نے روایتی اسٹیٹس کو برقرار رکھا ہے لیکن عام لوگ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔عمران خان نے اتنی تبلیغ کی ہے کہ لوگ موجودہ سسٹم کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔حکمران تو1990 میں بیٹھے ہوئے ہیں انہیں معلوم نہیں کہ ووٹر بدل گئے ہیں سیاست بدل گئی ہے۔میڈیا بدل گیا ہے۔خبروں کے ذرائع بھی بدل گئے ہیں۔چند سال قبل جو سکہ بند صحافی تھے وہ اپنی حیثیت کھو بیٹھے ہیں اور ان کی حیثیت منشی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔سوشل میڈیا کے جن ”بلاگر“ کو سکہ بند صحافی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے آج ان کی آواز زیادہ سنی جا رہی ہے۔پی ٹی آئی کے ”کی بورڈ وارئیرز“ سے گھبرا کر حکومت نے سابق ٹوئٹر اور موجودہ ایکس کو بند کر دیا ہے جبکہ جب نئی حکومت انسٹال ہوگی تو یوٹیوب اور فیس بک اور ٹک ٹاک کو بھی کنٹرول کر لیا جائے گا۔ایک کھلی جنگ ہے جو ہرگھر میں لڑی جائے گی۔کوشش کی جا رہی ہے کہ پوٹن،شی پنگ،ایران اور سعودی عرب والا پابند میڈیا لایا جائے۔ پوٹن نے اپنے مخالف سیاسی رہنما اور صحافی کو قتل کر دیا لیکن پھر بھی ان کا الو سیدھا نہ ہوا۔ایران میں ہر قسم کے سوشل میڈیا پر پابندی ہے پھر بھی نوجوان نئے راستے نکال رہے ہیں۔ پاکستان کا تو معاملہ اور ہے۔کاغذ پر یہ ایک جمہوری ملک ہے اور بنیادی حقوق کے تحفظ اور آزادی اظہار کی آزادی کی گارنٹی دی گئی ہے لیکن حکمران آزاد میڈیا کے متحمل نہیں ہوسکتے۔اس لئے وہ قدغن پر قدغن لگائے جارہے ہیں۔وہ نہیں جانتے کہ اس کے خلاف احتجاج ہوگا مزاحمت ہوگی اور نہ جانے کیا کچھ ہوگا۔
سوچنے کی بات ہے کہ ایک کنٹرول اور پابند جمہوریت کیسے رکھی جاسکتی ہے جب تک آئین کو تبدیل نہیں کیا جاتا بنیادی حقوق کیسے معطل ہوسکتے ہیں۔حکمران ایک عوامی جنگ اورغیض وغضب کو دعوت دے رہے ہیں اور انہیں معلوم نہیں کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟۔مسلسل تصادم سے ریاست کی بنیادیں کمزورہورہی ہیںاوپر سے غیر نمائندہ انجینئرڈ ہائبرڈ رجیم مسلط کی جا رہی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔یہ رجیم زیادہ چلنے والی نہیں ہے۔بہتر ہے کہ شفاف انتخابات کروائے جائیں اور جمہوریت کے ساتھ مزید کھلواڑ کا سلسلہ بند کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں