سیاست اور صحافت کی ڈوبتی دنیا

تحریر: انور ساجدی
آزاد اور ترقی پسند صحافت کے ایک سابق استاد وجاہت مسعود نے اعتراف کیا ہے کہ جس طرح 1970 کے عام انتخابات میں عوام نے بھٹو کو ووٹ دیا اسی طرح 8 فروری کے انتخابات میں ووٹروں کی بڑی تعداد نے عمران خان کے آزاد امیدواروں کا انتخاب کیا مگر نتائج کے ردوبدل کے نتیجے میں تحریک انصاف اتنی اکثریت میں نہیں آئی جو حکومت سازی کےلئے ضروری تھا۔ صحافی دراصل روز مرہ کے حالات و واقعات کے وقائع نگار ہوتے ہیں بعض صحافی روزانہ کالم لکھ کر حالات حاضرہ پر تبصرہ فرماتے ہیں لیکن بسا اوقات ان کے اندازے، پیشنگوئیاں اور تبصرے غلط بھی ثابت ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ صحافیوں کی نااہلی نہیں ہوتی بلکہ وہ حکومتی فیصلے اور سیاست میں مداخلت ہوتی ہے جو ہر روز وقت کا دھارا تبدیل کردیتی ہے۔ پاکستان میں صحافت کی تاریخ افسوسناک حکومتی جبر، سنسر شپ اور آزادی اظہار کے لئے دی گئی قربانیوں پر مشتمل ہے۔ ماضی میں چونکہ پرنٹ میڈیا ابلاغ کا سب سے بڑا ذریعہ تھا اس لئے زیادہ تر صحافی اس سے وابستہ تھے، جنرل یحییٰ خان نے 1969 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد صحافیوں کودو کیمپوں میں تقسیم کردیا۔دائیں بازوں کے انتہائی قدامت پسند محب وطن قرار دے کر ان پر بڑی نوازشیں کیں جبکہ بیشتر ترقی پسند صحافیوں کو نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات سے برطرف کرکے انہیں ناپسندیدہ قرار دیا، چونکہ یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات نوابزادہ شیر علی خان پٹودی تھے جن کے نظریات جماعت اسلامی سے ملتے تھے اس لئے انہوں نے بیک جنبش قلم تین سو سے زائد ترقی پسند صحافیوں کو آﺅٹ کردیا۔ اس زمانہ کے آئی ایس پی آر کے سربراہ بریگیڈیئر اے آر صدیقی نے جو انتہائی مخنچو قسم کے آدمی تھے دونوں نے مل جل کر ریکارڈ سے وہ مواد غائب کردیا جن میں بانی پاکستان کی وہ تقاریر شامل تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان مذہبی ریاست نہیں ہوگا۔ موصوف نے پہلی دستور ساز اسمبلی سے بانی پاکستان کے مشہور خطاب کی ریکارڈنگ بھی جلا ڈالی لیکن ریڈیو پاکستان کے ایک ریکارڈ سٹ کے پاس وہ ٹیپ موجود تھی جو بعد میں محفوظ کرلی گئی۔ جنرل یحییٰ خان کی ٹیم نے اردو ڈائجسٹ کے مدید الطاف حسن قریشی کی سربراہی میں چن چن کر قدامت پسند ذہن کے صحافیوں کو یک جا کیا، قریشی صاحب بذات خود مولانا ابواعلی مودودی کے پیروکار تھے۔ انہوں نے اپنے ادارے کو دائیں بازوں کی ایک درسگاہ کی حیثیت دی جہان ہم خیال صحافی تیار کئے جاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا کوثر نیازی جماعت اسلامی کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے، وہ لاہور سے ایک میگزین شہاب کے نام سے نکالتے تھے۔ نذیر ناجی اس کے مدیر تھے جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ اس میگزین نے جماعت اسلامی اور اس کی صحافتی ٹیم کو چیلنج کیا۔ اس کا لب و لہجہ وہی تھا جو 2014 سے لے کر اب تک بانی تحریک انصاف کا ہے۔ نذیر ناجی نے اس زمانے کی ایک فلم کے کرداروں پر مولانا مودودی کا سر لگا دیا اور نیچے فلمایا گیا نغمہ لکھ دیا
سن وے بلوی اکھ والیا
الطاف حسن قریشی نے بعد ازاں جو صحافی پیدا کئے ان میں عبدالقادر حسن، مجیب الرحمن شامی اور کئی دیگر شامل تھے۔ 1977 میں جب ضیاءالحق نے طویل مارشل لاءلگایا تو اس پورے گروپ کو گود لے لیا۔ اس وقت اس گروہ کے سرغنہ محمد صلاح الدین تھے لیکن ضیاءالحق سے مجیب شامی کی قربت زیادہ تھی۔ یہ کس طرح کا گروہ تھا اسے سمجھنے کے لئے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ضیاءالحق کوئٹہ آئے ہوئے تھے ۔ گورنر ہاﺅس میں ان کی پریس کانفرنس تھی، وہ جب بھی آتے صبح کوئٹہ سے شائع ہونے والے تمام اخبارات کا مطالعہ کرتے اور پریس کانفرنس کے آغاز میں ان اخبارات کی تعریف اور توصیف کا سماں باندھتے۔ حالانکہ یہ سارے ڈمی اخبارات ہوتے تھے۔ چونکہ ضیاءالحق نے ایک ڈمی نظام کو کھڑا کیا تھا اس لئے انہیں یہ اخبارات بھی پسند تھے۔ ضیاءالحق کی پریس کانفرنس کے آغاز پر ایک بزرگ صحافی نے اٹھ کر کہا جناب میں حیران و پریشان ہوں کہ گفتگو کا آغاز کہاں سے کروں کیونکہ میرے سامنے عالم اسلام کے عظےم سپہ سالار تشریف فرما ہیں۔ جناب بلوچستان کے عوام کے یہ جذبات ہیں کہ جب تک آپ اسلامی نظام کے نفاذ کا مقدس مشن پورا نہیں کرتے آپ ہرگز اقتدار چھوڑ کر نہ جائیں۔ صحافی کے اس خطاب کے بعد ضیاءالحق اسٹیج سے نیچے اترے، صحافی کے دونوں ہاتھ چومے اور کہا کہ مجھے فخر ہے کہ بلوچستان میں اس طرح کے نابغہ روزگار صحافی موجود ہیں۔ یہ کہہ کر وہ اپنی نشست پر تشریف لے گئے اور گویا ہوئے کہ ملک صاحب میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ موصوف نے کہا جناب عمر میں بڑا ہوں مرتبہ میں آپ بڑے ہیں آپ سے کیا پردہ تمام عمر ملک و قوم کی خدمت میں گزاری ابھی تک کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ ضیاءالحق نے صدیق سالک کو کہا ملک صاحب کو دو سو گز کا پلاٹ الاٹ کردیں۔ وہ پھر بولے جناب کثیر العیال ہوں دو سو گز میں گزارہ نہیں ہوتا، صدر صاحب نے حکم دیا ملک صاحب کو چار سو گز کا پلاٹ دے دیں۔ موصوف نے بس نہ کیا اور کہا کہ پلاٹ مفت عنایت فرمائیے گا کیونکہ میری جیب خالی ہے۔ ضیاءالحق نے ایک بار پھر ہدایت کی کہ پلاٹ کی رقم سرکاری خزانہ سے جاری کی جائے اس کے بعد پھر بولے ملک صاحب اور کوئی خدمت بتائیے تو انہوں نے فرمایا جناب زندگی کے آخری حصے میں حج کی سعادت ادا کرنا چاہتا ہوں ، ضیاءالحق نے حکم دیا کہ ملک صاحب کا نام حج کے سرکاری وفد میں شامل کیا جائے۔ اس کے بعد پھر پوچھا ملک صاحب کوئی اور حکم، موصوف نے کہا کہ زندگی کی ایک ادھوری خواہش یہ ہے کہ میں حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد ولایت کی سیر بھی کر آﺅں ، ضیاءالحق نے ایک بار پھر اپنے ملٹری سیکریٹری صدیق سالک سے کہا کہ ملک صاحب کے دورہ لندن کا بندوبست کیا جائے۔
جنرل ضیاءالحق نے چونکہ سنسر شپ نافذ کی تھی اس لئے پی ایف یو جے اور اس کے ایماندار اراکین ان پابندیوں کے سخت خلاف تھے اس لئے انہوں نے چاپلوسی، چمچہ گیروں اور ثناءخوانوں کی ایک پوری فوج تیار کی اور ان پر عنایات و اکرام کی بارش کردی۔
لطف کی بات دیکھئے کہ آج کے جمہوریت پسند لیڈر نواز شریف نے ضیاءالحق کی ان باقیات کو گود لے لیا اور ان سب کو پیپلز پارٹی اور بے نظیر کی کردار کشی پر لگا دیا۔ ایک اور واقعہ جنرل پرویز مشرف کا ہے۔ انہوں نے 2002 کے انتخابات سے قبل ریفرنڈم کا اعلان کیا۔ اس سے پہلے انہوں نے ایڈیٹرز کی ایک کانفرنس بلائی کہا کہ آپ کو بلانے کا مقصد یہ ہے کہ میں ریفرنڈم کے ذریعے منتخب صدر بننا چاہتا ہوں اس پر مجیب الرحمن شامی نے زور دار طریقے سے کہا جناب ہم اس ریفرنڈم میں آپ کا ساتھ نہیں دیں گے اس پر پرویز مشرف حیران ہوئے اور کہا کہ جناب ضیاءالحق بھی فوجی حکمران تھے اس نے جو ریفرنڈم کرایا تو آپ لوگ اس کے پولنگ ایجنٹ بنے تھے میں بھی فوجی حکمران ہوں میری مخالفت کیوں۔ شامی صاحب نے کہا کہ ضیاءالحق ہر پندرہ دن بعد ہمیں بلاتے تھے، ملاقات کرتے تھے اور کچھ شفقت بھی فرماتے تھے آپ نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے آج آپ سے پہلی ملاقات ہے اس طرح تو نہیں ہوتا ۔ اس پر جنرل مشرف ہنسے اور کہا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا پھر شامی صاحب گویا ہوئے جناب اب جبکہ آپ نے ریفرنڈم کا فیصلہ کرلیا ہے تو میں بتاﺅں کہ اس کا نتیجہ بھی مثبت آئے گا، جب ریفرنڈم کے بعد جنرل پرویز مشرف نام نہاد صدر بن گئے تو ان صحافیوں سے نہایت قریبی تعلقات رکھے۔
نواز شریف نے اپنے تینوں ادوار میں ضیاءالحق سے منتقل ہوئے اس صحافتی ورثہ کو خوب سنبھالا ان کی جو نوازشات ہیں اس کی لمبی چوڑی فہرست ہے ۔
لیکن
اب وقت بدل گیا ہے بے شک جنرل ضیاءالحق کا سیاسی نظریہ آج بھی کارفرما ہے لیکن اس دور کے صحافی کارآمد نہیں رہے۔ اس کی بڑی وجہ پرنٹ میڈیا کا زوال ہے پھر صحافیوں کا یہ پورا قبیلہ بوڑھا اور ضعیف ہوچکا ہے۔ اب صحافت سوشل میڈیا کی طرف مراجعت کرچکی ہے حتیٰ کہ ٹی وی چینل بھی اتنے کارآمد نہیں رہے۔ 2018 میں برسراقتدار آنے کے بعد عمران خان نے یہ بولڈ فیصلہ کیا کہ پرنٹ میڈیا کو اپنی موت مرنے دیا جائے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر توجہ دی اور ہزاروں نوجوانوں کی مالی معاونت کی۔ ان کی سیاسی تربیت کا اہتمام کیا، اگرچہ تحریک انصاف کو 2018 کے انتخابات میں اس طرح شکست ہوئی تھی جس طرح موجودہ انتخابات میں ن لیگ کو ہوئی ہے۔ اس بار پھر اعلیٰ حکمرانوں نے تحریک انصاف کو زبردستی اکثریت دلائی تھی اور اس مرتبہ انہوں نے یہ کام ن لیگ کے لئے انجام دیا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ عمران خان نے جن کھمبوں کو امیدوار بنایا لوگوں نے انہیں ووٹ دیا۔ جیسا کہ عوام نے 1970 کے انتخابات میں بھٹو کے ایسے امیدواروں کو ووٹ دیا جسے کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ مسلم لیگ ن کی جس جعلی جیت کا اعلان کیا گیا ہے اس کی حقیقت اعلیٰ حکمران بھی جانتے ہیں اور خود ن لیگی بھی اس سے آگاہ ہیں۔ لیکن جو بھی ہے ن لیگ کی قیادت میں ایک حکومت قائم کی جائے گی اور اسے چلانے کی کوشش کی جائے گی۔ تحریک انصاف نے دھاندلی کے الزامات کے باوجود حکومت سازی میں کوئی مداخلت نہیں کی نہ ہی حکومت بنانے کی کوشش کی وہ اچھے بچوں کی طرح اسمبلیوں میں اپوزیشن کا کردار اد اکریں گے۔ فرمانبرداری کا یہ اعلیٰ مظاہرہ یونہی نہیں ہوا بلکہ یہ انتہائی خفیہ مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ عمران خان سے کہہ دیا گیا ہے کہ آپ کچھ عرصہ تک صبر کریں معیشت کو بہتر ہونے دیں اس کے بعد آپ حکومت تبدیل کرنے کی کوششوں میں آزاد ہیں۔ بے شک آپ عدم اعتماد کی تحریک لا سکتے ہیں اگر پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں ساتھ دیں تو آپ حکومت جمہوری عمل کے ذریعے تبدیل کرسکتے ہیں لیکن ہنوز دلی دور است
پاکستان کے حالات کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی۔ ریاست کو ایک بڑی کشمکش کا سامنا ہے۔ تقسیم در تقسیم کا سلسلہ شروع ہے۔ اگر اس صورتحال میں شہباز شریف کی حکومت کامیاب ہوجائے تو یہ معجزہ سے کم نہ ہوگا۔ ٹیکنالوجی اور حالات کی تبدیلی کا نتیجہ ہے جو لوگ کل تک سکہ بند صحافی تھے وہ آج کے حالات میں اتنے مطابقت نہیں رکھتے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم وی لاگر آج کی صحافت پر ملکہ حاصل کئے ہوئے ہیں اور عام لوگ انہی کو صحافی مانتے ہیں۔ جب تک صحافت کا یہ ماڈل جو دو صدی پرانا ہے تبدیل نہیں کیا جاتا ایک افراتفری اور انتشار کی صورت رہے گی لیکن مداخلت کے اس دور میں پاکستان جیسی ریاستوں میں کسی بھی چیز کی سمت طے کرنا آسان نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں