میڈیا پر مزید پابندیوں کا خدشہ
تحریر: انور ساجدی
عالمی معیشت کو ناپنے والی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے حالیہ انتخابات انتہائی متنازعہ ہیں جس کے نتیجے میں جو حکومت بننے جا رہی ہے اسے کمزور مینڈیٹ کی وجہ سے درکار معاشی اصلاحات کرنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔8 فروری کے انتخابات کو جہاں امریکہ،یورپی یونین اوردیگر طاقتور ذرائع نے انتہائی دھاندلی زدہ اور فراڈ قرار دیا ہے اب معاشی اداروں نے بھی اس پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ طاقت ور حلقوں کی جانب سے پی ٹی آئی کو اپنے طور اطوار ٹھیک کرنے کا جو مشورہ دیا گیا ہے وہ اس پر کتنا عمل کرے گی۔اگر اس نے مشورہ نہیں مانا تو روز اسمبلیوں خاص طورپر قومی اور پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہوگی۔نوبت مارکٹائی تک بھی پہنچ سکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی اگر سڑکوں پر احتجاج کا فیصلہ کیا گیا تو غیر یقینی صورتحال میں مزید اضافہ ہوگا۔اگر تحریک انصاف،مولانا فضل الرحمن اور جی ڈی اے نے عوامی تحریک چلائی تو حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔سیاسی عدم استحکام بڑھ جائے گا۔بے چینی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو جائے گا۔یہ تو بڑوں نے طے کرلیا ہے کہ الحاج محمد شہبازشریف وزارت عظمیٰ کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لیں گے لیکن یہ طے نہیں ہے کہ دوسری بڑی پارٹنر پیپلزپارٹی اس بھاری بھر کم بوجھ میں سے اپنا حصہ اٹھائے گی کہ نہیں۔تیسری پارٹنر ایم کیو ایم ہے۔اپنی سرشت کے مطابق نازنخرے شرع کر دئیے ہیں۔ایم کیو ایم کا مطالبہ ہے کہ اسے چھ اہم ترین وزارتیں دی جائیں جن میں مواصلات،پورٹ اینڈ شپنگ،تجارت اور آئی ٹی شامل ہیں۔ن لیگ نے انہیں دو وزارتیں دینے کی پیش کش کر دی ہے۔
بظاہر ایم کیو ایم دعویدار ہے کہ اسے کراچی کی 17نشستیں ملی ہیں لیکن مصطفی کمال کی جو حالیہ وڈیو لیک ہوئی ہے اس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کا مینڈیٹ سوفیصد جعلی ہے لہٰذا اسے اہم وزارتیں اور گورنرشپ دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سرے سے ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔یعنی سچ سچ ہوتا ہے اور بالآخر یہ سامنے آکر ہی رہتا ہے۔تحریک انصاف کا الزام ہے کہ الیکشن کمیشن یا آر اوز نے خاص ہدایات کے تحت ازخود جعلی نتائج بنائے جن میں ن لیگ کو زیادہ نشستیں دی گئیں۔الاٹ شدہ نشستوں کے باوجود اسے پی ٹی آئی پر عددی اکثریت حاصل نہیں ہے۔آزاد اراکین کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ ن لیگ میں شامل ہو جائیں اس کے باوجود اسے درکار اکثریت حاصل نہیں ہے۔تمام اتحادیوں کو ملا کر بمشکل حکومت سازی کے لئے مطلوبہ اکثریت پوری ہو جائے گی لیکن وہ کہلائے گی اقلیتی حکومت۔
نہ جانے یہ کیسا کھیل ہے2018 کے انتخابات میں یہ کھیل ن لیگ کے ساتھ کھیلا گیا اور اس سے کہیں پہلے2002 میں جنرل مشرف نے یہ کھیل پیپلزپارٹی کے ساتھ کھیلا تھا۔اصل مقاصد تو اعلیٰ حکمران ہی جانتے ہیں لیکن بظاہر عام آدمی،دانشور اور صحافی حیران ہیں کہ یہ اپنی ریاست کی سیاست میں ایسا گھناﺅنا کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے۔اس نے تو سیاست معیشت سماج اور اس کی اخلاقی اقدار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔سننے میں آ رہا ہے کہ ایک ایک حلقے پر ایک ایک ارب روپے خرچ کیا گیا یعنی ایک تہائی الیکشن کو نیلامی کے ذریعے خریدا گیا۔اگر یہ سب کچھ کرنا ہے تو نام نہاد جمہوریت کا راگ الاپنے کی کیا ضرورت ہے؟سیدھا کہہ دیا جائے کہ ریاست کا نظام خاص کنٹرول میں ہے جس کی ضرورت ہے کہ من پسند امیدواروں کو ہر قیمت پر کامیاب قرار دیا جائے اور ایک ایسی تابع فرمان حکومت بنا دی جائے جو کسی بھی معاملہ پر آزادانہ فیصلوں کی قدرت سے محروم ہو۔لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان کو زبردستی وزیراعظم بنایاگیا تھا تو امداد مانگنے کے لئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ ان کی انگلی پکڑ کر ملک ملک جاتے تھے۔جہاں وزیراعظم قرض امداد اور عطیات مانگتے تھے ان کے بعد جب پی ڈی ایم کی حکومت زبردستی بنائی گئی تو کاسہ گدائی شہبازشریف کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا لیکن 16 ماہ کے دوران یہ کاسہ زیادہ تر خالی ہی رہا۔البتہ پی ڈی ایم کی حکومت نے بے تحاشہ ٹیکس لگا کر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا جس کی وجہ سے عوام پر بوجھ تو پڑا لیکن معیشت قدرے سنبھل گئی۔پی ڈی ایم کی جگہ آنے والی نگراں حکومت نے ریکارڈ توڑ ڈالے۔یہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کرچکی ہے اس کے دور میں آئی ایم ایف نے منظور شدہ قرضے کی 70 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کردی جس سے معاملات ٹھیک طریقے سے چلے لیکن ن لیگ کی آنے والی حکومت کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔جناب بلاول بھٹو اور محترمہ مریم انتخابی مہم کے دوران اعلان کرچکے ہیں کہ3سو یونٹ بجلی مفت فراہم کی جائے گی لیکن آئی ایم ایف کا دباﺅ ہو گا کہ ان دو اشیاءکی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔ اسی طرح آئی ایم ایف پی آئی اے،ریلوے اور بجلی کمپنیوں کی نجکاری پر زور دے گا جوکہ پیپلزپارٹی کے منشور کے خلاف ہے لیکن چارو ناچار ایسا کرنا پڑے گا۔اسی دوران نگراں حکومت نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کر کے کراچی پورٹ کو ابوظہبی کو بیچ دیا یا جو بھی نام دیا جائے۔کراچی پورٹ کا انتظام ابوظہبی کے حوالے کر دیا گیا اس کے ساتھ ہی اندرون خانہ پی آئی اے کو بھی ٹھکانے لگا دیا گیا ہے۔معلوم نہیں کہ نئی حکومت اس پر عمل درآمد کرے گی کہ نہیں۔ریکوڈک کے حقوق سعودی عرب کو دینے کی بات مکمل ہوگئی ہے یہ تمام مسئلے شہبازحکومت کے گلے پڑنے والے ہیں۔باجوہ سر نے ریکوڈک کا فیصلہ بیرک گولڈ کے ساتھ آﺅٹ آف کورٹ سٹلمنٹ کے ذریعے کیا جبکہ سعودی عرب کو حکومت پاکستان کے نصف حصہ دینے کا فیصلہ بھی انہوں نے کیا۔اگر سعودی عرب ترس کھا کر یہ سودا منسوخ کر دے تو بچت ہو سکتی ہے ورنہ دونوں سرمایہ دار مل کر یہ منصوبہ چلائیں گے اور مالامال ہو جائیں گے۔اس معاہدہ میں حکومت بلوچستان اور اس وقت کے وزیراعلیٰ کا کیا کردار ہے یہ ایک سربستہ راز ہے۔عبدالقدوس بزنجو ہی بتا سکتے ہیں کہ ان سے کاغذ پر دستخط لئے گئے یا کچھ بتایا بھی گیا۔
شہبازشریف کی دھاندلی زدہ اور کمزور حکومت کو 25ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے چیلنج کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔مختلف قرضوں کی یہ اقساط رواں سال جون میں ادا کرنے ہوں گے۔اگر ریکوڈک کے سودے سے اتنی رقم ہاتھ لگ گئی تو معاملہ وقتی طور پر سنبھل جائے گا لیکن اس کے بعد وہی کاسہ گدائی ہوگی اور پاکستانی حکمران ہوں گے۔جو ملک ملک نگرنگر جا کر دست دراز کریں گے۔معیشت صرف اس صورت میں بہتر ہوسکتی ہے کہ جب پیداوار بڑھا کر برآمدات میں اضافہ کر دیا جائے لیکن فوری طورپر یہ ممکن نہیں ہے۔ایک بڑا مسئلہ پرائیویٹ بجلی کمپنیوں کو کھربوں روپے کی ادائیگی بھی ہے۔ جس کے حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں۔معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن اسحاق ڈار من موہن سنگھ نہیں ہیں جو بڑی اصلاحات کر کے ریاست کو ٹھیک سمت پر ڈال دیں ایک اور مشکل حکومتی معاملات میں مداخلت ہے۔اس مداخلت کو کم کرنے یا ختم کرنے کی صلاحیت آنے والی حکومت میں نہیں ہے ۔معلوم نہیں ہے کہ زرداری کو صدارت کا عہدہ کس شرط پر دیا جا رہا ہے۔یہ راز بعد میں کھل جائے گا۔جب عمران خان اور باجوہ نے سندھ کے جزائر مانگے تھے تو اس وقت ملک ریاض نے یہ ذمہ داری لی تھی کہ وہ عالمی سرمایہ کاروں کو لائیں گے اور ان جزائر کو ڈویلپ کرنے کے لئے ایک سو ارب ڈالر آئیں گے لیکن ملک ریاض اس وقت کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں۔عمران خان سے شراکت داری کی وجہ سے وہ دبئی بھاگے ہوئے ہیں اور اپنے بچے کھچے سرمائے سے وہاں پر منصوبہ بنا رہے ہیں۔ہاں اگر زرداری جو کہ ملک ریاض کے پارٹنر تھے ان کی صلح کروائیں اور انہیں دوبارہ بلا کر نہ صرف بحریہ ٹاﺅن کراچی مکمل کروائیں بلکہ بنڈل آئی لینڈ اس کے حوالے کر کے کافی سرمایہ لے آئیں تو معیشت آگے بڑھ سکتی ہے لیکن خطرہ ہے کہ190 ملین پاﺅنڈ کے کیس میں ملک ریاض کو بھی سزا ہو جائے گی۔اس سزا کو ختم کرانے میں برسوں لگ جائیں گے۔تاوقتیکہ ایسا وقت آ جائے کہ عمران خان کی جماعت دوبارہ اقتدار میں آ جائے اور وہ اپنے خلاف مقدمات ختم کروائیں تب ملک ریاض کی جان چھوٹ سکتی ہے ورنہ اس کا قصہ ختم۔القادر یونیورسٹی میں رشوت دینے کے سلسلے میں بھی ملک ریاض کو سزا ہوسکتی ہے۔اس مسئلہ کو زرداری صدر بن کر اور وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ مل کر کوئی راستہ نکال سکتے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
ایک اور اہم مسئلہ بلوچستان کا ہے۔مقتدرہ نے اس بدقسمت صوبے کو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے حوالے کیا ہے۔زرداری انتخابی جلسوں کے دوران کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسے منصوبے بنائیں گے کہ بلوچستان معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکے۔یہ پراسرار منصوبے کونسے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا۔البتہ یہ بات طے شدہ ہے کہ کوئی بھی حکمران آ جائے بلوچستان کے عظیم وسائل کوڑیوں کے مول بکتے رہیں گے۔ان تمام معاملات کو پوشیدہ رکھنے کے لئے اعلیٰ حکمران میڈیا پر لگی پابندیوں میں مزید اضافہ کریں گے۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو تو نگراں حکومت ہی ادھ موا چھوڑ کر جاری ہے۔اب تو سوشل میڈیا کی باری ہے۔سابق ٹوئٹر اور موجودہ ایکس کی بندش کو کئی ہفتے گزرچکے ہیں۔پیکا کے قانون کو بروئے کار لا کر صحافی اسد طور کو ایف آئی اے نے حراست میں لے لیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے چیف جسٹس اور ان کے بعض فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ایک وی لاگر عمران ریاض کو اسد طور سے پہلے گرفتارکرلیا گیا تھا ۔مطیع اللہ جان چونکہ ٹھوکریں کھا کر سمجھدار ہوئے ہیں اس لئے وہ الفاظ کے چناﺅ میں احتیاط کرنا سیکھ گئے ہیں جبکہ اسد طور ضرورت سے زیادہ سچ بولتے ہیں۔اتنا سچ کون برداشت کرسکتا ہے۔لوگوں کے ذہن میں ہوگا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیویارک ٹائمز کے خلاف کیسا محاذ کھولا تھا اور وہ پریس کانفرنسز میں گالم گلوچ پر اتر آئے تھے۔خدشہ ہے کہ دو صحافیوں کے بعد میڈیا پر مزید قہر توڑاجائے گا اور پیکا قانون کو شہبازحکومت بھی بے رحمی کے ساتھ استعمال کرے گی کیونکہ حکومت اعلیٰ حکام کے کہنے پر ایسا کرنے پر مجبور ہوگی۔وہ وقت دور نہیں جب یوٹیوب،فیس بک، ٹک ٹاک اور انسٹا گرام کو بھی ایکس کی طرح عوام کی دسترس سے باہر کر دیاجائے گا۔آخر روس،چین،سعودی عرب،شمالی کوریا اور ایران میں بھی یہی نظام رائج ہے۔اگر پاکستان میں ہوا تو حکمرانوں کو کیا فرق پڑے گا۔