جگہ بناؤ بھئی جگہ بناؤ

تحریر:انور ساجدی
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ باقی ملک میں سیاسی قیدی ہیں جبکہ بلوچستان میں جنگی قیدی ہیں تاہم انہوں نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ بلوچستان کے جنگی قیدیوں کے ساتھ جنیوا کنونشن کے مطابق سلوک کیا جائے۔ کوئٹہ کے علاقہ کواری روڈ پر واقع مشر محمود خان اچکزئی کے گھر پر انتظامیہ نے چھاپہ مارا ہے اس واقعہ پر بلاول بھٹو سمیت اہم رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔حالانکہ کوئٹہ میں آج کل جناب بلاول بھٹو کی حکومت قائم ہے تاہم انتظامیہ نے محمود خان کے گھرپر چھاپہ کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے گھر کے ساتھ واقع پلاٹ پر قبضہ چھڑوانے کے لئے کارروائی کی گئی تھی۔یہ پلاٹ انگریزوں کے دور میں شراب کشید کرنے کے کارخانے کیلئے الاٹ کیا گیا تھا۔اس کا نام کوئٹہ ڈسٹلری تھا۔ابتداء میں اس کا نام کوئٹہ بریوری تھا اور یہ آج کے بروری کے مقام پر قائم کی گئی تھی اور یہ علاقہ بریوری سے بروری ہوگیا تھا۔انگریزوں کے جانے کے بعد یہ کارخانہ مقامی لوگوں کے ہاتھ لگا جبکہ 1993 میں اسے ایک پارسی آباداں فریدون کو الاٹ کیا گیا۔چند سال بعد آباداں پراسرار طور پر غائب ہوگیا اور آج تک اس کا سراغ نہ مل سکا۔اس واقعہ کے بعد ڈسٹلری بند ہوگئی جبکہ اس کا لائسنس ایک چینی فرم نے حاصل کیا اور فیکٹری حب منتقل کر دی گئی۔
2010 میں جب ڈاکٹر مالک بلوچ وزیراعلیٰ تھے تو یہ بات گردش میں تھی کہ ڈسٹلری کا پلاٹ محمود خان اچکزئی کو الاٹ کر دیا گیا ہے۔اس کے بعد سے اب تک اس ضمن میں خاموشی رہی اور پوری وضاحت نہیں آئی کہ اصل واقعہ کیا ہے۔البتہ پلاٹ محمود خان کے زیرنگرانی تھا۔حالیہ دنوں میں اچانک یہ خبر آئی کہ حکومت نے پلاٹ واگزار کروا لیا ہے۔غالباً پلاٹ پر قبضہ واپس لینے کا فیصلہ نگراں حکومت نے کیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد اس وقت کیا گیا جب نئی حکومت قائم ہو گئی۔بہرحال پلاٹ پر قبضہ کا وقت غلط چنا گیا تھا کیونکہ اس وقت مشر محمود خان صدارتی امیدوار ہیں وہ بھی پی ٹی آئی کے۔اس لئے اس واقعہ کی شدت زیادہ محسوس کی گئی۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو چاہیے کہ وہ کوئٹہ ڈسٹلری کے پلاٹ کے بارے میں وضاحتی بیان جاری کرے۔
ریاست کے سیاسی حالات انتہائی پراسرار اور سمجھ سے بالاتر ہیں ایک طرف تحریک انصاف کو پختونخوا کی حکومت دیدی گئی وہ بھی فائر برانڈ لیڈر علی امین گنڈا پور کی قیادت میں۔اندر کھاتہ وہ مقتدرہ سے مذاکرات کر رہے ہیں لیکن بظاہر تند وتیز بیانات دے رہے ہیں۔انہوں نے منگل کو سیاہ لیموزین میں سوارہوکر اڈیالہ جیل جا کر اپنے قائد عمران خان سے ملاقات کی اور صوبائی کابینہ کے بارے میں مشورہ کیا۔انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد یہ مطالبہ کیا تھا کہ 9مئی کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے تاکہ پتہ چلے کہ ان واقعات کے پیچھے کون تھا ساتھ ہی انہوں نے اسلام آباد میں شہبازحکومت سے عدم تعاون کا اعلان بھی کیا۔اتفاق سے منگل کو ہی کورکمانڈر کانفرنس نے9مئی کے بارے میں سخت بیان جاری کیا اور کہا کہ9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو کسی صورت میں معاف نہیں کیا جائے گا۔
اڈیالہ جیل میں قیدی نمبر804 سے ملاقات کے بعد ایک اور فائر برانڈ لیڈر شیر افضل مروت نے کپتان کا یہ دلچسپ پیغام سنایا کہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی میں سرکاری ایم این اے حضرات کو کسی بھی صورت جپھی نہ ڈالیں اور ان سے دور رہیں۔انہوں نے احتجاج میں شدت لانے کا اعلان بھی کیا۔ایک طرف کپتان کے لئے آسانیاں اور دوسری جانب ان کی طرف سے احتجاج تیز کرنے کا فیصلہ دراصل کپتان اور مقتدرہ کا ایک دوسرے پر دباؤ بڑھانے کے حربے ہیں۔8فروری کے انجینئرڈ انتخابات کے نتائج حاکمان بالا کے گلے میں اٹک گئے ہیں۔اگر مولانا کے بقول جان بوجھ کر پختونخوا پی ٹی آئی کے حوالے کیا ہے تو اس میں ضرور کوئی حکمت عملی ہوگی۔اگر اندازوں کے برعکس پی ٹی آئی نے کلین سوئپ کیا تو یہ حکمرانوں کی نااہلی کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ پختونخوا کی نسبت پی ٹی آئی نے پنجاب اور کراچی میں بہترکارکردگی دکھائی لیکن وہاں پر نتائج کو ایسے مینج نہیں کیا گیا کہ پی ٹی آئی کی واضح کامیابی شکست میں بدل دی گئی ہو جس کی وجہ سے عجیب صورتحال پیدا ہوئی کیونکہ جیتنے والے اندر سے شرمندہ ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ اصل میں جیتے نہیں ہیں۔بہرحال جو بھی ہو ملک میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔دنیا نے بھی نئی حکومت کو تسلیم کرلیا ہے اور مبارک باد کے پیغامات بھیجے ہیں۔شہباز حکومت اپنی ہئیت میں کمزورترین حکومت ہے کیونکہ یہ ایک اقلیتی حکومت ہے اور یہ پیپلزپارٹی کی بیساکھیوں پر قائم ہے۔اس کے علاوہ اسے سخت ترین چیلنجز کا سامنا ہے۔معاشی بحران سب سے سنگین چیلنج ہے جبکہ قومی اسمبلی کے اندر پی ٹی آئی کی تعداد اورماحول بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔حکمرانوں نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے محروم رکھ کر ان نشستوں کو مال غنیمت سمجھ کر ان کی آپس میں بندربانٹ کی تاکہ پی ٹی آئی کی عددی اکثریت میں اضافہ نہ ہو۔اگر موجودہ ماحول برقرار رہا تو قومی اسمبلی کو چلانا مشکل ہوگا۔اگر فریقین کے روئیے یہی رہے تو آگے جا کر ایوان میں دو بدو جنگ بھی ہوسکتی ہے۔اس طرح کا ماحول پی ٹی آئی جان بوجھ کر پیدا کر رہی ہے تاکہ عمران خان کی رہائی کے لئے دباؤ ڈالا جا سکے۔طویل سزاؤں کے باوجود پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ ان کے بانی کو رہا کیا جائے۔اس سلسلے میں سینیٹ میں ایک قرارداد بھی پیش کی گئی اس سے قطع نظر پی ٹی آئی نہایت کامیابی کے ساتھ یہ بیانہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے کہ8 فروری کے انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی ہے۔عوام کی ایک بڑی تعداد اس بیانیہ کو برحق سمجھتی ہے۔ان کے جواب میں ن لیگ روزانہ وضاحتیں دے دے کر تھک چکی ہے لیکن اس کے بیانیہ پر کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔چنانچہ اگر حکومت چلی یا ایوان چلا تو دھاندلی والا مسئلہ بھی ساتھ چلے گا اور پی ٹی آئی اپنے بیانیہ سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ن لیگ کو چاہیے کہ وہ مزید وضاحتوں کا سلسلہ بند کر دے اور تحریک انصاف کو اپنے حال پر چھوڑ دے کیونکہ ن لیگ کے لئے دیگر مسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ان کے لئے معیشت کو بحال کرنا بڑا مشکل کام ہے جبکہ اس کے اختیارات بھی کافی حد تک سلب ہیں۔مثال کے طور پر نوازشریف اور شہبازشریف کی طرف سے کافی کوششوں کے باوجود اسحاق ڈار کو وزیرخزانہ نہیں بنایا گیا۔انہیں وزیرخارجہ بنانے کی بات ہورہی ہے۔اگر انہوں نے وزارت خارجہ کا قلم دان سنبھالا تو ملکی تاریخ کے ناکام ترین وزیرخارجہ ثابت ہوں گے۔عجیب بات ہے کہ ن لیگ دوسری بڑی جماعت ہے لیکن اس کے پاس باصلاحیت ٹیم موجود نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے وزیر خزانہ مستعار دیا جا رہا ہے کیونکہ حکمرانوں کو شک ہے کہ معیشت کو صرف ان کا نامزد کردہ شخص ہی چلا سکتا ہے اس کے ساتھ ہی نگراں دور میں ایف بی آر میں گرینڈ اصلاحات کا جو پروگرام بنایا گیا ہے اسے موجودہ دور میں روبہ عمل لایا جائے گا۔یہ پروگرام آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے عین مطابق اور معاشرہ کے کئی طبقات کیلئے تباہ کن ہے۔صاف ظاہر ہے کہ شہبازشریف کی منحنی یا نحیف و نزار حکومت کو آزادانہ فیصلوں کا اختیار نہیں ہوگا۔ہاں یہ ضرورہے کہ ایک فیصد اشرافیہ کو جاری مراعات برقرار رہیں گی جبکہ عوام پر مختلف ناموں سے ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے کا پروگرام ہے۔
ایک دلچسپ کلپ حال ہی میں اس وقت سامنے آیا جب وزیراعلیٰ بلوچستان میرسرفراز بگٹی اخبار نویسوں سے خطاب کر رہے تھے۔گوادر سے جماعت اسلامی کے ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمن کو اکابرین کے ساتھ جگہ نہیں مل رہی تھی تو پیچھے سے وہ آواز دے رہے تھے کہ جگہ بناؤ بھئی جگہ بناؤ۔کیا خوب بات ہے کہ اس ریاست میں کسی کو جگہ نہیں ملتی اور کسی کو اس کی صلاحیتوں کے برعکس اعلیٰ مقام مل جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے توقع کے مطابق بھٹو ریفرنس کا فیصلہ دیا ہے عدالت عظمیٰ نے تسلیم کیا ہے کہ بھٹو کو فیئرٹرائل سے محروم رکھا گیا جو کہ زیادتی ہے تاہم کوئی ایسا طریقہ کار نہیں کہ ماضی میں دی گئی سزائے موت کا ازالہ ہوسکے۔یہ فیصلہ پیپلزپارٹی کے لئے مٹی کے ناک کی مانند ہے اور وہ آئندہ بھی بھٹو کی پھانسی کو جوڈیشل مرڈر کا نام دیتی رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں