سب سے بڑے پختون لیڈر کون؟
تحریر: انور ساجدی
جب عمران خان2014 میں ایک بڑے لیڈر بن کر ابھرے اور ہمارے سمیت سب کی کوشش تھی کہ انہیں ایک سرائیکی رہنما ثابت کیا جائے کیونکہ ان کی مادری زبان سرائیکی تھی لیکن پاکستان اور افغانستان کے پشتون بضد ہوئے کہ عمران خان پشتون لیڈر ہیں۔غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ صوبہ پختونخوا کے عوام جو2013 سے انہیں اقتدار میں لائے تو آج تک وہاں کے عوام پی ٹی آئی کی حمایت کر رہے ہیں۔اس مرتبہ تو انہوں نے کمال کر دیا وہاں پر تحریک انصاف کو کلین سوئپ دلوا دیا۔ افغانستان میں شاید انہیں اس وجہ سے پسند کیا جاتا تھا کہ وہ شروع سے طالبان کے حق میں تھے حتیٰ کہ انہوں نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت کئی ہزار ایسے جنگجوؤں کو فاٹا اور پختونخوا میں واپس آنے کی اجازت دی جو مشرف کے دورسے وہاں پر مقیم تھے اور وقتاً فوقتاً پاکستان کے اندر آکر کارروائیاں کرتے تھے۔وہ ہمیشہ زور دیتے تھے کہ افغانوں کو جنگ میں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔اس لئے ان سے مذاکرات کئے جائیں۔نہ جانے پختونخوا کے لوگ انہیں کیوں پسند کرتے ہیں وہاں پر انہوں نے 10 برس کے اندر کوئی خاص کام بھی نہیں کیا۔ان کا واحد میگا پروجیکٹ پشاور میٹرو یعنی بی آر ٹی ہے جو شدید ناکامی سے دوچار ہے۔اس کے باوجود ان سے سخت عقیدت اور سیاسی حمایت سمجھ سے بالاتر ہے۔2014 کو جب عمران خان نے دھرنا دے کر پارلیمنٹ ہاؤس کا محاصرہ کیا تھا نوازشریف کیمپ کے دو بڑے لیڈر میرحاصل خان بزنجو اور محمود خان اچکزئی تھے۔وہ عمران خان کے بڑے خلاف تھے جس کی وجہ سے عمران خان بھی محمود خان کو سخت ناپسند کرتے تھے۔خان صاحب نے کئی بار محمود خان کی نقلیں اتار کر ان کا تمسخر اڑایا تھا جبکہ ایک مرتبہ ان کی طرح چادر(پٹو)اوڑھ کر انہوں نے محمود خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔2018 کے انتخابات میں عمران خان کو باجوہ سر نے اس طرح کی کامیابی دلائی تھی جو موجودہ انتخابات میں ن لیگ کو دلوائی گئی ہے۔عمران خان نے تو120نشستیں جیتی تھیں جبکہ50 نشستیں ادھر ادھر سے پورا کر کے ان کی حکومت بنوائی گئی تھی لیکن ن لیگ کو تو بدترین شکست ہوئی۔تمام تر انجینئرنگ کے باوجود اس کی نشستوں کی تعداد محض73رہی۔اس لئے پیپلزپارٹی،ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ حکومت سازی کے لئے ن لیگ کی حمایت کریں۔ اس حکم نامہ کے بعد یہ ممکن ہوسکا کہ ن لیگ حکومت بنا سکے۔8 فروری کے انتخابات میں بلوچستان کے قوم پرستوں کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ ہوا۔محمود خان اور اختر مینگل بمشکل اپنی اپنی نشست جیت سکے جبکہ ڈاکٹر مالک
قومی پر ہار گئے صوبائی نشست پر انہیں کامیابی ملی۔اس شکست کی وجہ سے جہاں اور رہنماؤں کو بہت دکھ ہوا وہاں محمود خان اچکزئی نے اس کو بہت سنجیدہ لیا۔الیکشن کے دو روز بعد انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ لوگوں نے نوازشریف کو نہیں عمران خان کو ووٹ دیا ہے۔انہوں نے قومی اسمبلی میں ایک پردرد اور پرسوز خطاب بھی کیا جس سے متاثر ہو کر عمران خان نے فیصلہ کیا کہ محمود خان صاحب ان کی طرف سے صدارت کے امیدوار ہوں گے۔انہوں نے یہ فیصلہ آصف علی زرداری کو سبق سکھانے کے لئے کیا لیکن اس کا کوئی خاص فائدہ مشر محمود خان کو بھی نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے تو الیکشن ہار جانا ہے گو کہ زرداری کی جیت یقینی ہے لیکن محمود خان کم ازکم240 ووٹ لے کر ہی ہاریں گے۔یوں عمران خان نے میدان کھلا نہیں چھوڑا۔
صدارتی انتخاب کے بعد معلوم نہیں کہ محمود خان اپنے اصلی مقام یعنی پشتونخوامیپ کی طرف لوٹ جائیں گے یا عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ رہیں گے کیونکہ حالات نے ثابت کیا ہے کہ اس وقت 6کروڑ پشتونوں کے سب سے بڑے لیڈر عمران خان ہیں یا تمام پشتون عمران خان کو اپنا لیڈر مانتے ہیں۔حیران کن طور پر پنجابی بھی خان صاحب کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔پنجاب اور کراچی میں ان کی کامیابی یہی ثابت کرتی ہے۔بادی النظر میں عمران خان اس وقت مقبولیت کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ن لیگ نے الیکشن سے پہلے یہ کوشش کی تھی کہ انہیں پشتون قرار دے کر غیرمقامی ثابت کیا جائے لیکن اس کی ایک نہ چلی۔پنجاب کے طول و عرض میں لوک گلوکاروں نے خان صاحب کے درجنوں ترانے گا کر انہیں مقبول عوامی لیڈر ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 1988 میں انتخابات کے دوران ن لیگ کے سپریم لیڈر میاں نوازشریف نے بے نظیر کے خلاف مہم چلاتے ہوئے باقاعدہ طورپر یہ نعرہ لگایا تھا۔
جاگ پنجابی جاگ
تیرے پھگ نوں لگ گیا داغ
الیکشن کے دن ایم این اے عطا تارڑ نے بھی فتح کا جشن مناتے ہوئے کہا تھا کہ ایک صاحب کراچی سے الیکشن لڑنے لاہور آئے تھے ہم نے اسے شکست دے کر واپس کراچی پارسل کر دیا ہے حالانکہ شواہد بتا رہے ہیں کہ ن لیگ لاہور کی14میں سے ایک نشست پر بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی۔اس کے برعکس صرف جیت کا اعلان کیا گیا۔اگر دیکھا جائے تو عمران خان کو جس طرح لوگوں نے والہانہ طور پر ووٹ ڈالا یہ ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے یعنی عوام کسی تضحیک اور علاقائی مناسبت کو تسلیم نہیں کرتے۔بہرحال یہ اچھی بات ہے کہ بی این پی مینگل اور ڈاکٹر مالک نے محمود خان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔آخر وہ ایک دوسرے کے ہمسایہ ہیں۔ان کے اختلافات سیاسی ہیں ذاتی نہیں ہیں۔زرداری اور محمود خان کا کوئی تقابل ہی نہیں ہے۔محمود خان نے ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں جبکہ زرداری کی زیرمطالعہ رہنے والی کتابوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔البتہ زرداری ایک مین اسٹریم پارٹی کے سربراہ ہیں ان کے ووٹروں کی
تعداد80لاکھ سے زائد ہے۔انہیں پاکستانی سیاست کے گر خوب آتے ہیں اور وہ جوڑ توڑ کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ان کے مقابلہ میں محمود خان ایک سادہ سے آدمی ہیں اگرچہ ان کا سیاسی ورثہ ایک صدی پر محیط ہے لیکن سیاسی ورثہ جدید دور میں کامیابی کیلئے کافی نہیں ہے۔اب جبکہ محمود خان نے بھی جناب عمران خان کو سب سے بڑا پشتون لیڈرتسلیم کرلیا ہے تو کیا اچھا ہو کہ وہ اپنی جماعت کو تحریک انصاف کے مزید قریب لائیں اور عمران خان میں جس سیاسی وجدان کی کمی ہے وہ خان صاحب پورا کردیں۔محمود خان کی ضد میں ایمل ولی خان نے زرداری کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ماضی میں محمود خان اور اسفندیارولی ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں جبکہ اس سے قبل خان عبدالصمد خان شہید اور خان عبدالولی خان ایک دوسرے کے بدترین سیاسی رقیب رہے ہیں۔8فروری کے کم بخت جعلی انتخابات کئی تبدیلیوں کا موجب بنے ہیں۔بہتر ہوگا کہ بلوچستان میں نیشنل پارٹی بی این پی اور عوامی ایک دوسرے کے قریب آ جائیں کیونکہ ان کے درمیان نشستوں کا جھگڑا تھا جوباقی نہیں رہا۔اگر یہ جماعتیں مل کر چلیں تو ان کی نشستوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ چونکہ یہ پارلیمانی پارٹیاں ہیں اس لئے انتخابات میں حصہ لینا ان کی کمزوری ہے وہ کوئی انقلابی جماعتیں نہیں کہ ریاستی معاملات کو تہہ و بالا کر کے کوئی عوامی انقلاب برپا کر دیں۔انقلابی جماعت تو تحریک انصاف بھی نہیں ہے۔وہ آج بھی خفیہ مذاکرات میں حصہ لے رہی ہے جبکہ ظاہری طور پر وزیراعلیٰ کے پی کے امین گنڈاپور شہبازشریف کو وزیراعظم تسلیم نہیں کرتے۔اس کی مثال ماضی میں بھی موجود ہے اور اس عمل کا آغاز میاں نوازشریف نے کیا تھا۔1988 میں جب بے نظیر وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں تو وزیراعلیٰ پنجاب ان سے ملاقات کے روادار نہیں تھے۔ جب وزیراعظم لاہور آتی تھیں تو وہ ان سے نہیں ملتے تھے اور نہ ہی کسی اجلاس میں شریک ہوتے تھے۔علی امین گنڈاپور جو کچھ کررہے ہیں وہ دراصل پختونخوا میں گورنرراج کو دعوت دینے کے مترادف ہے کیونکہ کسی مخالف جماعت کے وزیراعلیٰ کو یہ حق نہیں کہ وہ وفاق کے خلاف بغاوت کرے۔وفاق آخر مجبور ہوکر سخت قدم اٹھائے گا۔