خواتین پر سرمایہ کاری کریں اور ملکی پیداوار کو بڑھائیں

تحریر: محمد صدیق کھیتران
عورت کے حقوق کا مقصد عورت سے جڑے تمام جبر، عدم مساوات ، بے علم، وراثت میں حصے اور استحصال کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ وہ ایک ایسے سماج کی تشکیل چاہتی ہیں جہاں انسانوں کے درمیان برابری ہو اور ایک انسان دوست ماحول ہو، جہاں عورتوں کی جبری شادیاں نہ ہوں، ان کا قتل نہ ہو، ان کے خلاف جنسی تشدد اور تیزاب کے حملے نہ ہوں، انہیں کوئی ہراساں نہ کرے۔صنفی استحصال طبقاتی، قومی،قبائیلی اور مذہبی جبر سے جڑا ہوا ہے۔اسی طرح سرمایہ داری، جاگیرداری، سردار اور نیم جاگیردارانہ سوچ کے خاتمے کے بغیر عورت کی آزادی ممکن نہیں۔ ماں، بہن، بیٹی سب کی خوشی اور غمی اتنی ہی اہم ہے جتنی گھر کے مرد افراد کی ہے، خواتین کی تکلیف اور چہرے کی مایوسی گھر کے پورے ماحول کو متاثر کرتی ہے، لہٰذا گھر اور کاروبار کے فیصلوں میں ان کی مشاورت کو شامل کر کے اپنے سمیت ان کے ذہنی اعتماد کو جلا بخشنی چاہیے۔
اقوام متحدہ نے 1999ءکو ہر سال 8 مارچ کو یکساں طور پر پوری دنیا میں عالمی یوم خواتین منانے کا اعلان کیا۔ جو اب خواتین کے عالمی سطح پر سماجی رتبے، معاشی برابری اور انصاف کے حصول کا ذریعہ بن چکا ہے۔ جن کے مقاصد میں صنفی مساوات کے بارے میں آگاہی اور معاشرے میں خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے وسائل اکٹھا کرنا ہے۔ اقوام متحدہ ہر سال کیلئے اس دن کی مناسبت سے ایک موضوع یعنی ”تھیم“ جاری کرتی ہے۔ اس سال 2024ءکیلئے اس کا عنوان ”خواتین پر سرمایہ کاری کریں اور ترقی کو تیز کریں“۔
خواتین کی ملکی معاشی معاملات میں عدم شرکت سے صنفی عدم مساوات اور سماجی ترقی متاثر ہوتی ہے۔ اگر خواتین کی شرکت قومی پیداوار میں مردوں کے برابر کی جائے تو مجموعی ملکی پیداوار میں آسانی سے 60 فیصد تک اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ دنیا میں افرادی قوت کا 39 فیصد خواتین پر مشتمل ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ شرح 21 فیصد ہے جبکہ قومی سطح پر خواتین کی حصہ داری 26 فیصد اور مرد حضرات کا 84 فیصد ہے۔ ہمارے مقابلے میں بنگلا دیش کی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب 41.95 فیصد اور وہاں پر مردوں کی شرح 58 فیصد ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بنگلا دیش کی آبادی جو کسی وقت پاکستان کا 54 فیصد ہوتی تھی اب اس کی آبادی 16 کروڑ پر رک گئی، اس کے مقابلے میں46 فیصد والے پاکستان کی آبادی 24 کروڑ کو چھو رہی ہے۔ گلوبل جنڈر گیپ 2022ءکی رپورٹ میں 156 ممالک کی فہرست میں پاکستانی خواتین کی معاشی سرگرمیوں میں درجہ بندی 145، تعلیم میں 135، صحت عامہ میں 143 اور سیاسی امور میں شرکت 95 نمبر پر کھڑی ہے۔
ملکی الیکٹرانک میڈیا 24 گھنٹوں میں بلوچستان کو صرف 34 سیکنڈ دیتا ہے۔ یہ تھوڑا سا وقت کسی روڈ حادثے یا دیگر المیوں کی اطلاع تک محدود ہوتا ہے۔ یوں تو بلوچستان کا تنازعہ 10 مارچ 1948ءکے دن سے جاری ہے۔ اس دوران میر غوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل، نواب خیر بخش مری، ڈاکٹر عبد الحئی اور دیگر اکابرین نے بلوچستان کو صوبے کا درجہ دلوانے اور فیڈریشن میں اپنی صوبائی و علاقائی خود مختیاری کے حصول کیلئے متعدد دفعہ جیلوں کا سامنا کیا۔ بعض اوقات تلخیاں مسلح جدوجہد تک بھی چلی گئیں۔ ملک شروع کے 23 سال تک بغیر آئین اور واجبی سے دستوری نظم کے تحت چلتا رہا، جس سے علاقائی محرومیوں اور دولت کے غیر مساویانہ تقسیم نے شدید تضادات پیدا کیے۔ ان مسائل کے حل کیلئے 7 دسمبر 1970ءکو لیگل فریم آرڈر کے تحت آئین ساز اسمبلی کیلئے انتخابات کا انعقاد ہوا جس کی رو سے اسمبلی کو 120 دن کے اندر آئین کی تشکیل کی ذمہ داری کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ انتخاب کے نتیجے میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے 300 کے ایوان میں 167 اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 86 نشستیں حاصل کیں۔ عوامی لیگ کی قوم پرستانہ اکثریت، آئین سازی کے حوالے سے ایک متنازعہ مسئلہ بن گئی۔ خانہ جنگی ہوئی، ملک دو لخت ہوا۔ ان دنوں چونکہ ملک میں سینیٹ وغیرہ بھی نہیں ہوتی تھی۔ گویا ”یک ایوانی“ نظام کے انتخابات ہوئے۔ لیگل فریم آرڈر کے تحت 4 مہینے کے اندر مختص آئین کی تشکیل کو دو سال کا عرصہ لگ گیا۔ 1972ءمیں جا کر پہلا قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا، جس نے 12 اپریل 1973ءکو آئین تشکیل دیا۔ اس آئین کے اندر بھی شیڈول چہارم میں 47 سبجیکٹ پر قانون سازی کا اختیار صوبوں اور وفاق کو بیک وقت دے دیا گیا۔ آئین میں لکھا گیا تھا کہ یہ کنکرنٹ لسٹ بھی 10 سال کے اندر ختم کرکے تمام اختیارات صوبوں کے حوالے کیے جائیں گے، مگر ایسا ہو نہ سکا۔ اس دوران متعدد دفعہ بلوچستان میں شورشیں اٹھیں۔ 2002ءسے اٹھنے والی چھٹی شورش میں وفاق پرست رہنما نواب اکبر بگٹی سمیت 65 ہزار افراد اب تک مارے جاچکے ہیں، یا پھر لاپتہ ہیں۔ بلوچ سماج میں پولیٹیکل پولارائیزیشن گہری ہوتی گئی۔ ایک طبقہ فکر ملکی آئین کے اندر رہ کر صوبائی خود مختاری حاصل کرنا چاہتا تھا جبکہ دوسرا طبقہ فکر صوبے کی وسائل پر ملکیتی حقوق کے علاوہ کسی متبادل حل پر راضی نہ ہوا۔ ان دونوں سوچ کیخلاف ملکی مقتدرہ وفاق پرست جماعتوں کی سرپرستی کرتی رہی جو آج تک جاری ہے۔ اس قتل و غارت اور بے توجہی کے نتیجے میں غربت بڑھی۔ 1998ءکے ایک سروے کے مطابق اس وقت صوبے میں 41 فیصد تک غربت پہنچ گئی تھی جبکہ صوبے کا بجٹ بمشکل سے ایک سو ارب کے قریب تھا۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد اب صوبائی بجٹ 7 سو دو ارب تک پہنچ چکا ہے مگر غربت 72 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے۔ ملک میں اس وقت 44 فیصد ایسی غریب آبادی ہے جس میں سے 51 فیصد کے ذاتی اثاثوں کی مالیت 5 ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ ان میں اکثریت خواتین کی ہے جو اپنا زیور بھی ضرورت کے وقت نہیں بیچ سکتیں۔ شادی بیاہ پر دیا جانے والا زیور بھی پورے گھر کی مشترک جائیداد سمجھا جاتا ہے۔ عدم صنفی مساوات ارادتاً ہو یا پھر غیر ارادتاً ہو اور جس شکل میں بھی ہو وہ خواتین کے آگے بڑھنے کی راہ میں مشکلات پیدا کررہا ہے۔ یہ جاننا کہ صنفی عدم مساوات کا تعصب مردوں کے حاکمانہ طرز عمل میں موجود ہے۔ کافی نہیں بلکہ اس کیخلاف اقدامات اٹھانا ہی اہم تقاضا ہے تاکہ خواتین کو برابری کا مقام مل سکے۔تاریخی طور پر دیکھا جائے تو دنیا بھر کی خواتین کم و پیش ایک جیسے مسائل کا سامنا کرتی آئی ہیں جن میں چند ایک اسطرح ہیں۔
1 چلنے پھرنے اورمناسب ماحول میں رہنے کے حقوق
2 گھر میں صنفی عدم مساوات کا سامنا
3 جنسی تعصب پر متشددانہ رویوں کا سامنا
4 کام کے دوران جنسی ہراسگی
5 دفتروں اور کام والی جگاہوں پرامتیازی سلوک
6 تعلیم کےحصول میں سماجی رکاوٹیں
7 روزگار کے حصول میں نابرابری
8 ماں کی صحت اور خوراک کی کمی
9 بچپن کی شادیاں
10تولیدی مسائل اور اس سے جڑی مشکلات
11 خواتین کو ووٹ کا اختیار و آزادی
پاکستان کا آئین اپنے آرٹیکل 25 اور 26 میں بچوں اور خواتین کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔اسی طرح آرٹیکل 27 برابری اور روزگار کے یکساں مواقعوں کو تحفظ دیتا ہے۔جبکہ آرٹیکل 11 اور 37 خواتین کی جبری اغواکاری اور جسم فروشی کی ممانعت کرتا ہے۔
الیکشن کمیشن ایکٹ 2017ءمیں عورتوں کے انتخابات میں حصہ لینے کی ممانعت کو جرم قراردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو بھی پابند کرتا ہے کہ وہ جنرل سیٹوں پر 5 فیصد ٹکٹیں خواتین کیلئے مختص کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں یہاں پربھی خانہ پری کرکے ایسے علاقوں سے خواتین امیدواروں کی نامزدگی کرتی ہیں جہاں پرمتعلقہ جماعت کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ایک اور صورت بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثر رہنمااپنے گھر کی باصلاحیت لڑکیوں کو اس لیے بھی نظرانداز کرتے ہیں کہ اس طرح لڑکی کی شادی پر سیاسی وراثت کہیں دوسرے خاندان کے پاس منتقل نہ ہوجائے۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مختص سیٹوں پر بھی جماعتوں کے سربراہ اپنے ہی خاندانوں کی غیر سیاسی خواتین کو نامزد کرتے ہیں تاکہ کابینہ اور سینٹ ممبران کے انتخاب میں سودے بازی گھرکا راز بنی رہے۔ اس وقت ملکی افرادی قوت میں خواتین کی شراکت کا تناسب 26 فیصد ہے جس میں آفیسرز کا تناسب محض 5 فیصدتک ہے۔ اسمبلیوں میں بھی ان کی تعداد 5 فیصد ہی مقرر ہے۔ یہ تناسب کسی بھی حوالے سے اپنے ارد گرد کے جمہوری ممالک کے میعار سے مطابقت نہیں رکھتا۔وقت کا تقاضا ہے کہ خواتین کی تعداد کو اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں 25 فی صد تک بڑھایا جائے۔ پاکستان دنیا میں خواتین کی جمہوری اداروں میں نمائندگی کے اعتبار سے 160 ممالک کی فہرست میں سے 112 درجے پر کھڑا ہے۔ جوکہ تشویشناک حد تک عدم مساوات کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر علاقائی تناظر میں موازنہ کیا جائے توجنوب مشرقی ایشیا کے آٹھ ممالک میں ہم افغانستان کو چھوڑ کر آخری نمبر پر کھڑے ہیں۔ کوائف دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے اگر یہی صورت حال رہی تو پاکستان کو صنفی عدم مساوات ختم کرنے میں مزید 136 سال لگ جائینگے۔ اعداد شمار یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ خواتین معاشی طور پر غیر آسودہ ہیں۔اس غیرآسودگی کی وجہ انصاف کی عدم فراہمی ، جائیداد کی عدم ملکیت اور منافع بخش اثاثوں میں ان کی حصہ داری سے انکار ہے۔حتءکہ خواتین کو بینک اکاﺅنٹ رکھنے کی بھی اجازت نہیں ملتی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وراثت سے انکار خاندانوں کے اندر کی رکاوٹیں ہیں جوکہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ ان سماجی مسائل کی بنیاد خود غرضانہ پدرانہ سوچ کی عکاس ہے جس کی اجازت کوئی مذہب دیتا ہے اور ناہی کوئی ریت و رواج انفرادی جرم کی حصہ دار ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد خواتین کو زندگی میں ایک یا ایک زیادہ بار گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بلوچستان کے کیس میں یہ اعداد مزید تکلیف دہ ہیں۔ قبائلی طرز معاشرت عورت کی برابری میں ایک مستقل رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں تین دہائیوں سے جاری شورش نے بھی اس میں تباہ کن اضافہ کیا ہے۔ خاص کر گمشدہ افراد کا کرب مائیں، بہنیں، شریک حیات اور بیٹیاں گزشتہ 24 سال سے جھیل رہی ہیں۔
پاکستان بھر کی خواتین میں خواندگی کا تناسب 52 فیصد ہے جبکہ بلوچستان میں یہ گھٹ کر صرف 18 فیصد رہ جاتا ہے۔ ملک میں زچگی کے دوران اموات کی شرح ایک لاکھ میں 272 ہے جبکہ بلوچستان میں ان اموات کی شرح تین گنا یعنی 758 ہے۔ بلوچستان میں نہ صرف غربت زیادہ ہے بلکہ یہ خطہ اب کئی افریقی اور جنگ زدہ ایشیائی ممالک سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔ ایک انسان کو اپنی صحت برقرار رکھنے کیلئے روزانہ 25 سو کیلوریز درکار ہوتی ہیں۔ بلوچستان میں اس کا اوسط 11 سو کے آس پاس ہے۔ جس کا سب بڑا شکار مائیں ہوتی ہیں۔ ملک بھر میں عموماً 1000 خواتین عزت کے نام سے قتل کی جاتی ہیں جوکہ پوری دنیا میں اسطرح کے جرائم کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔ ان 1000 میں سے لگ بھگ 400 کا تعلق بدقسمتی سے ہمارے صوبے سے ہوتا ہے۔ ان خونخوار المیوں کے پیچھے اکثر زمین و دولت ہتھیانے، جبری رشتے کرنے اور قبائیلی رنجشوں جیسے جرائم کا دخل ہوتا ہے۔ خواتین کو بلوچستان میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ 2008ءکا باباکوٹ کا واقعہ ابھی تک کسی کو نہیں بھولا۔ بارکھان کی امیراں بی بی، فرزانہ بی بی اور اس کی 50 سالہ ماں گراناز کے واقعات سب کے سامنے ہیں۔ بدقسمتی سے ان وحشیانہ واقعات کے تانے بانے سابق اور موجودہ صوبائی وزرا کی بد اعمالیوں اور جبر و استبداد سے جاملتا ہے۔ ہم حکومت اورانسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قبائلیت کے نام پر حبس بے جا میں رکھنے اور نجی جیلوں جیسے ظلم کے خلاف موثر قانون سازی کرکے اس بھیانک عمل کے خلاف اپنا کردار ادا کرے۔
گرداب میں پھنسی حوا کی بیٹی ان مسائل کو اس وقت تک بھگتتی رہے گی جب تک خواتین میں خواندگی کو نہیں بڑھائی جاتی۔ اس وقت بلوچستان کی 10 میں سے 7 بچیاں اسکول نہیں پہنچ پارہی ہیں۔ ملک میں عدل فراہم کرنے کیلئے تین جوڈیشل قوانین موجود ہیں۔ایک انگریز کا کامن لا، دوسرا اسلامی شرعی لا اور تیسرا مقامی رواج کا قانون ہے۔ دیکھنے میں آیاہے دوسرے دو قوانین صرف خواتین کے حقوق چھیننے کے لئے بطور آلہ استعمال کیئے جاتے ہیں۔
صنفی عدم مساوات کے ان بدترین حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے حوصلے، تدبر، دانائی ،ایمانداری، بیدار ذہن اور ولولہ بھرے خدا ترس رہنما کی ضرورت ہے وہ اس وقت ممکن ہوگا جب بہتر قانون سازی ہوگی اور اس پر ایمانداری سے عمل کیا جائے گا۔ قانون سازی وہ پارٹی کرسکتی ہے جس کو آگاہی، خوف خدا، سنجیدگی اور آج کے تقاضوں کا ادراک ہو۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں سیاسی ورکروں کو منتخب کرانے کی راہ میں اسٹیبلشمنٹ نے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ یہاں انتخابات سے پہلے ٹھیکیداروں، اسمگلروں، بھتہ گیروں، جاگیرداروں، منشیات فروشوں، سماج دشمن عناصر اور بدنام زمانہ غنڈوں کی ریاستی مراکز میں لمبی لمبی میٹنگیں کروائی جاتی ہیں۔ وہاں کروڑوں روپے میں ایک ایک اسمبلی اور سینیٹ کی سیٹ کا سودا طے ہوتا ہے۔ پھر وہاں سے فہرستیں تیار ہوتی ہیں۔ انتخابات کی رات کو نتائج کو روک کر ان سماج دشمن عناصر کے سروں پر اقتدار کا ہما بٹھا دیا جاتا ہے۔ ایسے میں یہاں کی خواتین کو عدم مساوات کا ”جن“ بھگانے میں 136 سال نہیں بلکہ 300 سال بھی لگ سکتے ہیں۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا اس خطے کی بنت حوا خوف کے ڈر سے سہم کر کب تک زندگی گزارنے پر مجبور رہےگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں