عارف علوی کے بعد آصف علی زرداری

تحریر: انور ساجدی
پاکستان میں سیاست نام کی کوئی چیز نہیں ہے، جو بے اصولی حرکات و سکنات ہیں اسے سیاست کہا جاتا ہے، یہ بے اصولی سیاست اتنی بے رحم ہے کہ صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کو اپنے ہی صوبہ کی اسمبلی سے ایک بھی ووٹ نہیں ملا حالانکہ نیشنل پارٹی نے محمود خان کو ووٹ دینے کا اعلان کیا تھا لیکن ایک روز قبل ڈاکٹر صاحب پلٹا کھا گئے جسے آج یو ٹرن کہا جاتا ہے۔ صدارتی انتخاب میں شکست کے بعد محمود خان اچکزئی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایک رات قبل ڈاکٹر صاحب نے مجھے ووٹ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایک دن بعد ان کے پیر کیلے کے چھلکے پر پھسل گئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ نیشنل پارٹی کے فیصلہ کے برخلاف سینیٹ میں پارٹی کے دو اراکین طاہر بزنجو اور اکرم دشتی نے انہیں ووٹ دیا تاہم سردار اختر مینگل نے اپنے وعدے کے مطابق ان کے حق میں ووٹ ڈالا۔
بے رحم سیاست کی ایک بڑی مثال دیکھیے، انتخابی مہم کے دوران بلاول نے کئی بار کہا کہ وہ میاں نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں بننے دیں گے اور انہوں نے نہیں بننے دیا تاہم جب ان کے اباجان کو صدار بننے کے لئے ن لیگ کے ووٹ درکار تھے تو وہ کسی حیل و حجت کے بغیر مریم نواز کے پاس پہنچ گئے اور درخواست کی کہ ان کے والد محترم کو ووٹ دیا جائے۔ ن لیگ نے دل پر پتھر رکھ کر زراری کو ووٹ دیا کیونکہ اس وقت ن لیگ پیپلز پارٹی کے ہاتھوں میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ میاں نواز شریف نے کس دل سے زرداری کو ووٹ ڈالا ہوگا۔ سبھی جانتے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے لیکن مصلحت پاﺅں کی زنجیر بن جائے تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ کسے یاد نہیں کہ شہباز شریف نے کہا تھا کہ زرداری کو مال روڈ پر گھسیٹیں گے اور ان کا پیٹ چاک کرکے لوٹی ہوئی دولت باہر نکالیں گے لیکن آج کل وہ دونوں ایک دوسرے کے پیٹ کی خوب حفاطت کررہے ہیں کیونکہ یہی ان کا مشترکہ مفاد ہے۔
زرداری صدر منتخب ہوئے ہیں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تاہم ان کا دوسری بار منتخب ہونا غیر معمولی بات ہے۔ اگرچہ 18ویں ترمیم کے بعد صدر کا عہدہ علامتی ہے، جیسے کہ بلاول نے کہا تھا کہ میرے والد کوئن برطانیہ جیسے صدر بن رہے ہیں، یعنی ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ صدر اختیار نہ ہونے کے باوجود شرارت کرسکتے ہیں، حکومت کو تنگ کرسکتے ہیں اور خط لکھ کر وزیراعظم کو اس کی خامیوں اور غلطیوں کا احساس دلا سکتے ہیں۔ وہ چاہیں تو سازش بھی کرسکتے ہیں اور حکومت کو مشکل حالات سے دوچار کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے عارف علوی انتہائی ناکارہ صدر ثابت ہوئے ہیں وہ نہ اپنے وزیراعظم کو بچا سکے نہ پی ڈی ایم کو عمران خان کا تختہ الٹنے سے روک سکے اور نہ ہی مشکل حالات میں اپنے لیڈر کی مدد کرسکے۔ زرداری چونکہ ایک پارٹی کے سربراہ بھی ہیں اس لیے وہ اختیار نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ سیاست اتنی بے رحم ہے کہ آج کے اتحادی کل ایک بار پھر دشمن بن سکتے ہیں۔ مقتدرہ کے انتہائی قریب سابق وزیر فیصل واوڈا کا دعویٰ ہے کہ زرداری پہلے حکومت کو تھپکی بعد میں دھکا دیں گے۔ اگر پیپلز پارٹی حکومت میں شامل نہیں ہوتی ہے تو ایک طرح کا دھکا ہی ہوگا لیکن پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی ن لیگ کو دی گئی زبان کے مطابق حکومت کا ساتھ دے گی۔ دوسرے مرحلے میں شامل بھی ہوجائے گی لیکن چونکہ ان کی کیمسٹری نہیں ملتی اس لیے یہ دل سے ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کرتے، اگر حالات میں سدھار نہیں آیا تو آئندہ سال مارچ میں جب نئے امریکی صدر اپنا منصب سنبھالیں گے تو پاکستان میں بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑے گی۔ جس طرح پاکستان کے سوشل میڈیا پر عمران خان چھائے ہوئے ہیں امریکہ میں بھی پی آر کمپنیوں کے ذریعے ان کی طوطی بول رہی ہے۔ امریکہ میں ن لیگ کی پی آر بہت کمزور ہے جبکہ پیپلز پارٹی قدرے بہتر ہے۔
اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق ہورہا ہے۔ پہلے جعلی الیکشن ہوئے اس کے بعد صوبوں میں حسب منشا نتائج لائے گئے، جان بوجھ کر کے پی کے میں تحریک انصاف کو آنے دیا گیا حتیٰ کہ اسے حکومت سازی کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ اگر اڈیالہ جیل میں ہونے والے خفیہ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے نہ ہوئے تو حکومت کوشش کرے گی کہ کے پی کے میں گورنر راج لایا جائے۔ حالانکہ 18ویں ترمیم کے بعد اس کی گنجائش بہت کم ہے۔ جس دن تحریک انصاف کے خلاف نیا کریک ڈاﺅن شروع ہوا تو سمجھو کہ اڈیالہ جیل کے اندر ہونے والے خفیہ مذاکرات فیل ہوگئے ہیں۔ متقدرہ کو پتہ ہے کہ ن لیگ کی کامیابی کا بندوبست ان کی کاوشوں کی مرہون منت ہے اور ن لیگ بھی جانتی ہے کہ اس کی کامیابی کاسمیٹنگ ہے اس لئے اس کی حکومت وہی کام کرے گی جس کا اسے اختیار ہوگا حتیٰ کہ اہم وزارتوں کا فیصلہ بھی وزیراعظم مشاورت سے کریں گے یا جو احکامات دیئے جائیں گے ان کی تعمیل کریں گے۔ یہ توقع بالکل نہیں کہ شہباز شریف کسی مرحلے پر اختلاف یا ناں کریں گے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو زرداری صاحب بیٹھے ہیں اس مرحلے میں وہ خوب کام آئیں گے اور حکومت کے کان مروڑ کر اسے سیدھا کردیں گے۔ پاکستانی سیاست کے پیمانے کے مطابق ایک زرداری سب پر بھاری ہے کہ انہوں نے اکثریت حاصل نہ کرنے کے باوجود صدارت کا عہدہ حاصل کرلیا۔ سندھ اور کے پی کے گورنر کے عہدے حاصل کرلیے اور تیسری پوزیشن ہونے کے باوجود اس کی حیثیت بادشاہ گر کی ہے لیکن یہ سب سطحی باتیں ہیں۔ پاکستان جمہوریت سے کوسوں دور ہے، یہاں پر آئین کا مکمل نفاذ ہنوز ایک خواب ہے جبکہ پارلیمان کی بالادستی بھی کافی دور ہے۔ یہ کام صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب پاکستان میں منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں گے، جو جماعت جیتے اسے کسی حیل و حجت کے بغیر اقتدار منتقل کردیا جائیگا۔ جب تک انتخابات اور سیاست میں مداخلت رہے گی سیاسی جماعتیں ”بچہ جمہورا“ کا کردار ادا کرتی رہیں گی۔ یہ ریاست آئینی جمہوری اور خود مختار نہیں بن سکے گی۔
مجھے ذاتی طور پر افسوس ہے کہ مشر محمود خان کو اپنے صوبے سے ایک ووٹ بھی نہیں ملا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی کے نیپ سمیت تمام نام نہاد قوم پرست جماعتوں کو بہت بڑا سبق سکھا دیا گیا ہے اور ایک طرح سے ان کی مکمل بیخ کنی کی گئی ہے، یہ اگرچہ اس سلوک کی مستحق نہیں تھیں ” لیکن خود کردہ را علاج نیست“ ان جماعتوں نے کئی جہتی بے وفائی کا ارتکاب کیا وہ نہ ریاست کی بن سکیں اور نہ اپنے عوام سے عہد وفا نبھا سکیں۔ وہ اندر سے مقتدرہ سے ملی ہوئی تھیں لیکن کارآمد نہ تھیں وہ دوغلی اور مصلحت پسندی کی وجہ سے اپنے عوام کے ساتھ بھی کھڑی نہ ہوسکیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس ڈیجیٹل دور میں بھی عوام کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔ نیشنل پارٹی نے جب زرداری کی حمایت کا اعلان کیا تو ایک خودساختہ 8 نکاتی چارٹر کی منظوری کا بھی دعویٰ کیا جو کہ ایک مذاق اور افسوسناک عمل ہے۔ اگر اس کے ایم پی اے صاحبان نے زرداری اور سنیٹرز نے محمود خان کو ووٹ دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جماعت تقسیم ہوگئی ہے۔ اگرچہ اختر مینگل یک و تنہا رہ گئے ہیں لیکن وہ اس کے باوجود اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ محمود خان کے سامنے بھی کوئی آپشن نہیں۔ پختون عوام نے ان کے دیرینہ اور افکار رفتہ بیانیہ کو مسترد کردیا ہے۔ ان کو اپنی سیاسی حکمت عملی از سر نو طے کرنا ہوگی۔ بہتر ہوگا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ الائنس بنائیں یا اس میں ضم ہوجائیں کیونکہ بلوچوں اور پشتونوں کی نئی نسل نے غیر اعلانیہ اتحاد کرکے اپنے گول اور اہداف طے کرلیے ہیں لہٰذا پرانے دور کی پرانی سیاست کی گنجائش باقی نہیں رہی۔