بلوچی تھیریم آج کے ڈائنوسار

تحریر : انور ساجدی
کیا پاکستان موجودہ حکومت کے دور میں سری لنکا بننے جا رہا ہے؟ کم از کم تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا یہی خیال ہے جبکہ نئے وزیر خزانہ اورنگزیب جو کہ وزیر بننے سے ایک دن پہلے ہالینڈ کی شہریت چھوڑ کر پاکستانی شہری بن گئے ہیں ان کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی منظوری کے بعد3کروڑ ڈالر ملیں گے۔موجودہ پروگرام رواں سال ختم ہو جائے گا جس کے بعد ایک طویل دورانیہ کے پروگرام کے لئے ایک بار پھر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے گا۔نئے وزیرخزانہ کے بڑے بڑے بلند وبانگ دعوے ہیں ان کے مطابق پاکستان پہلے جو انٹرنیشنل بانڈز اور سکوک مغربی مارکیٹ میں پیش کرتا تھا اب چینی مارکیٹ کو استعمال کر کے ہم کئی ارب ڈالر اکٹھا کریں گے۔یہ ایسے دعوے ہیں کہ جو2018 میں وزیرخزانہ بننے کے بعد عمران خان کے نابلد وزیرخزانہ اسد عمر کیا کرتے تھے۔جب انہوں نے 6 ماہ کے دوران معیشت کی نیا ڈبو دی تو آخرکار شوکت ترین کو لانا پڑگیا۔ماہر معیشت قیصر بنگالی کا خیال ہے کہ اورنگزیب بھی اسد عمر اور اسحاق ڈار کی طرح ناکام ہوجائیں گے اور ایک سال کے اندر موجودہ حکومت کو ایک نئے وزیرخزانہ کا بندوبست کرنا پڑے گا۔نوازشریف کے دور میں اورنگ زیب کے والد نے سوئس حکومت کو خط لکھا تھا کہ بے نظیر کے کھاتے میں جو 6 کروڑ ڈالر جمع ہیں وہ لوٹی ہوئی رقم ہے جو کہ پاکستان کی ملکیت ہے لہٰذا یہ رقم ضبط کر کے پاکستان کے حوالے کی جائے۔چنانچہ سوئس حکومت نے بے نظیر کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ قائم کیا تھا تاہم سخت قانونی جنگ کی وجہ سے حکومت پاکستان یہ مقدمہ ہار گئی تھی۔البتہ نوازشریف کے سہولت کار اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری آف کوئٹہ آف لائل پور آف ہریانوی نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بے عزت کر کے عہدے سے ہٹا دیا تھا کیونکہ چوہدری صاحب کے حکم پر انہوں نے سوئس حکومت کو بے نظیر کے خلاف کارروائی سے متعلق خط لکھنے سے انکارکر دیا تھا۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ آج سوئس مقدمہ کے شریک ملزم اور اس سے مستفید ہونے والے آصف علی زرداری صدر کے عہدے پر فائز ہیں جبکہ اس کے سخت ترین مخالف کے بیٹے وزیر خزانہ بن گئے ہیں۔اورنگزیب وزیر بننے سے پہلے ایک بڑے بینک کے سربراہ تھے جبکہ انہیں عالمی اداروں میں کام کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہے۔قیصر بنگالی کے مطابق ایک بینک چلانا اور بات ہے اور ایک ملک چلانا دوسری بات ہے۔لہٰذا جو بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان سے نمٹنا بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ حکمران دور رس معاشی اصلاحات کے خلاف ہیں۔وہ سرسری اقدامات کر کے وقتی طور پر بحرانوں کو ٹالتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے معیشت میں کوئی بہتری نہیں آتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دائمی رولنگ کلک یا ہمیشہ کے حکمران اشرافیہ کی مراعات کم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔اس کے برعکس وہ عوام کا خون نچوڑکر اشرافیہ کی مراعات میں مزید اضافہ کا خواہاں ہے۔آج ہی کی رپورٹ ہے کہ ملکوں کے انڈیکس میں پاکستان کا نمبر164 ہے یعنی2سو چھوٹے بڑے ممالک کی فہرست میں پاکستان آخری نمبروں پر ہے۔
نئے وزیرخزانہ نے جو عارضی حل پیش کیا ہے وہ چھوٹے دکانداروں،تنخواہ دار طبقہ ،رئیل اسٹیٹ اور زرعی آمدنی پر مزید ٹیکسوں کا نفاذ ہے جبکہ اس سال گندم کی بہت اچھی فصل ایک غیبی امداد ہے لیکن بہت جلد حکمران اضافی گندم ایکسپورٹ کر کے اربوں روپے کمائیں گے اور سال کے آخر میں کئی گنا مہنگے داموں دوبارہ باہرسے گندم منگوا کر مزید کھربوں کمائیں گے یعنی حکمران صرف اپنے پیٹ کا سوچتے ہیں اور وہ اپنی ریاست اور عوام سے بالکل مخلص نہیں ہیں۔حالیہ برسوں میں چاہے وہ عمران خان کی حکومت ہو یا شہبازشریف کی مختصر حکومت یہ پریکٹس کئی بار کی جا چکی ہے ۔چینی کی پیداوار کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت نیچے نہیں آ رہی ہے۔جو کچھ ہو رہا ہے اسے کیا نام دیا جائے۔ بیڈگورننس،ناسمجھی یا کرپشن عوام اتنے باشعور ہیں کہ وہ خود طے کرسکتے ہیں۔

8فروری کے الیکشن یا آکشن کے ذریعے عجیب و غریب فیصلے سامنے آئے ہیں۔پہلے تو رولنگ پارٹی کے سپریم لیڈر نوازشریف کو آﺅٹ کیا گیا جس کے نتیجے میں راہ ہموار کی گئی کہ انتہائی تابع فرمان شخصیت میاں شہبازشریف کو وزارت عظمیٰ پر لایا جائے جو کہ صلح کل ہیں حالانکہ تمام شر کوششوں اور انتظامات کے باوجود قومی اسمبلی میں ن لیگ کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔دوسرا فیصلہ یہ کیا گیا کہ جے یو آئی کے سپریم لیڈر مولانا فضل الرحمن کو حکومت سازی سے بے دخل کیا جائے۔مولانا شکر کریں کہ پشین کی سیٹ ان کو مل گئی جو کہ یتیم علاقہ ہے ورنہ اپنے صوبے سے تو وہ مکمل رخصت ہوچکے تھے۔مولانا نے تو الیکشن سے پہلے کیا کیا سہانے سپنے نہیں دیکھے تھے انہیں پکا یقین تھا کہ نوازشریف وزیراعظم بنیں گے تو صدارت جلیلہ کے عہدے پر وہ جلوہ افروز ہوں گے لیکن حکمرانوں نے ان کے سارے سپنے کانچ کی طرح توڑ ڈالے۔مولانا کو خوش گمانی تھی کہ پی ٹی آئی جو کہ زیرعتاب ہے وہ انتخابات میں بری طرح شکست کھا جائے گی جس کے نتیجے میں صوبہ پختونخواہ کی حکومت پکے پھل کی طرح ان کی جھولی میں آگرے گی لیکن حکمرانوں کی فیصلے بھی نرالے ہیں انہوں نے زبردستی پی ٹی آئی کو کامیاب کر کے پختونخوا ان کے حوالے کر دیا۔ادھر مولانا کو پختہ یقین تھا کہ اس بار جی ڈی اے سندھ میں تاریخی کامیابی حاصل کرے گی جس کی وجہ سے جے یو آئی پہلی بار سندھ حکومت میں حصہ دار بن جائے گی لیکن ان ارمانوں پر بھی پانی پھر گیا جس کی وجہ سے مولانا بہت غصے میں آ گئے اس لئے انہوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیا اور دھمکی دی کہ وہ تحریک چلائیں گے لیکن کچھ دور سوچ کر ان کے اراکین نے حلف اٹھا لیا۔کہاں مولانا زرداری کو کاٹنے کے لئے تیار تھے اور کہاں سینیٹ کی نشستوں کے لئے ان سے سمجھوتہ کرلیا اور چیئرمین کے عہدے کے لئے بارگیننگ کرلی۔لگتا ہے کہ مولانا کچھ عرصہ کےلئے صبر و شکر کر لیں گے اس کے بعد وہ تحریک کا اعلان کریں گے غالباً اس سلسلے میں انہیں تحریک انصاف کی معاونت بھی حاصل ہو جائے گی لیکن سیاست اور حکومت عجیب وغریب چیزیں ہیں۔الیکشن کے بعد تک اور وزیراعلیٰ کا حلف اٹھانے تک علی امین گنڈا پور بڑے گرج برس رہے تھے لیکن حالات نے انہیں وزیراعظم شہبازشریف سے ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے اور انہیں وزیراعظم تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔علی امین گنڈاپور جاسوسی فلموں کا کردار لگتے ہیں۔کیا معلوم کہ سارے گینگ میں اصل حاکموں کے قریبی شخص وہی ہوں جنہیں کسی رکاوٹ کے بغیر وزیراعلیٰ بننے دیا گیا۔ادھر پارلیمنٹ کی رکنیت کے بغیر پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا ہے۔اس اقدام کا مقصد تحریک انصاف کے چیئرمین اور اراکین کو تکلیف پہنچانا ہے کیونکہ اڈیالہ جیل میں جو خفیہ مذاکرات ہوئے تھے وہ پہلے مرحلے میں ناکام ہو گئے تھے۔اس طرح وزیرخزانہ بھی ایسے شخص کو لایا گیا جو کہ پارلیمنٹ کے رکن نہیں ہیں حتیٰ کہ وہ پاکستان کے شہری بھی نہیں تھے۔اسحاق ڈار کو وزارت خزانہ سے دور رکھنے اور نقوی کو وزیر داخلہ بننے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دو اصحاب خاص مشن پر ہیں کیونکہ تمام دوست ممالک نے واضح کر دیا ہے کہ آئندہ ہم سے کوئی قرض،امداد اور عطیہ طلب نہ کیا جائے۔اگر آپ کے پاس کوئی منافع بخش منصوبہ ہے تو اس پر سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔پاکستان کے تمام دوست ممالک انڈیا اور مصر کا رخ کر رہے ہیں۔جہاں انہیں زیادہ منافع ملنے کی توقع ہے۔پاکستان چونکہ سرمایہ کاری کے حوالے سے محفوظ ملک نہیں ہے اس لئے قیمتی اثاثوں کی فروخت کے سوا اس میں اور کوئی کشش نہیں ہے اس لئے نئے وزیر خزانہ سرعت کے ساتھ ریکوڈک کی ڈیل کو مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔پی آئی اے کی نجکاری بھی پایہ تکمیل تک پہنچائی جائے گی اور اسٹیل مل کی بیش بہا زمینوں کو جلد ٹھکانے لگایا جائے گا۔سندھ میں اس کے علاوہ اور کیا وارداتیں ہوں گی جناب زرداری کو اس لئے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ لایا گیا ہے جبکہ ایم کیو ایم کو بھی انعام کے طور پر 17نشستیں دی گئی ہیں جب سندھ کے بیش بہا وسائل پر ہاتھ صاف کیا جائے گا تو یہ دونوں سہولت کار بن کر خاموشی اختیارکریں گے۔اورنگزیب کو لانے کا بڑا مقصد یہ ہے کہ وزیراعظم اور اس کی حکومت معیشت کے حوالے سے آنکھیں بند رکھیں گے کیونکہ زراعت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے جو فیصلے ہوں گے وہ نوتشکیل ادارہ کرے گا۔

جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے اللہ جانے اس کے ساتھ کیا ہوگا۔وہاں پر کافی زمانے سے بیڈ گورننس کا دور دورہ رہا ہے۔اس عہد زریں میں حکومت نام کی جو چیز تھی اس کی عمل داری صرف بجٹ کے حساب کتاب اور جعلی منصوبوں تک محدود تھی۔ اس لئے وہاں پر انتہائی غیرانسانی صورتحال دیکھنے میں آ رہی ہے۔نئے وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی میں کیا صلاحیتیں ہیں وہ جلد سامنے آ جائیں گی۔زرداری صاحب بلوچستان کے لئے کیا کریں گے اور یہاں سے کیا لے کر جائیں گے وہ پتہ چلنا زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔البتہ تاجکستان سے پانی لاکر بلوچستان کے وسیع صحرا کو لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل کر دینا کوئی قابل عمل نہیں لگتا۔جناب زرداری کو چاہیے کہ پہلے اقدام کے طور پر دریائے سندھ سے بلوچستان کے حصے کا جو پانی سرقہ ہو رہا ہے وہ اس کا سلسلہ بند کر کے بلوچستان کو اپنا حق دلائیں۔جہاں تک بگٹی صاحب کا تعلق ہے تو ان کے لئے فوری چیلنج یہ ہے کہ بے قابو سرکاری ملازمین اور سرکش بیوروکریسی کو کیسے قابو میں لایا جائے۔بیڈ گورننس کی وجہ سے بلوچستان اس وقت غیرفعال صوبہ ہے اور اس کی سرکاری مشینری مکمل طورپر ناکارہ ہے جبکہ ایم پی اے حضرات اپنے حصے کے فنڈز کے علاوہ اربوں روپے منصوبوں کے نام پر لے جا رہے ہیں اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو بلوچستان مہر گڑھ کے آثار قدیمہ اور پنوں قلات سے زیادہ مختلف نظر نہیں آئے گا۔
ایم پی اے فنڈز کو کارآمد شکل دینا ایک بہت مشکل کام ہے کیونکہ اقلیتی حکومت کے لئے ایم پی اے حضرات کو ناراض کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں