بھوکے عوام اور سرخ قالین

تحریر: انور ساجدی
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
یہ شعر اردو تاریخ کے عظیم ترین شاعر مرزا اسد اللہ غالب کا ہے۔ غالب تمام عمر قرضے لے کرگزارہ کرتے تھے لیکن مے نوشی کی عادت ترک کرنے سے عاری تھے۔انہوں نے ساری عمر اسی فاقہ مستی میں گزاری اور دنیا سے چلے گئے۔ہمارے حکمرانوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے ریاست پر قرضوں کا بوجھ ہمالیہ جتنا ہے ہر شہری کا بال بال قرضوں سے بندھا ہوا ہے تمام حکومتی اخراجات عالمی اداروں سے قرض لے کر اور دوستوں سے امداد خیرات اور صدقات وصول کر کے چلائے جا رہے ہیں لیکن مجال ہے جو حکومت اپنے اخراجات میں کمی لائے۔ایسے وقت میں جب کہ ریاست8 ارب ڈالر کے قرضے کے حصول کے لئے آئی ایم ایف کی منتیں کر رہی ہے حکمرانوں کی پرآسائش زندگی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

چند ایک مثالیں حاضر ہیں۔دو روز ہوئے حکومت نے فیصلہ کیا کہ صدر مملکت صاحب اور چیف جسٹس آف پاکستان بیرونی دوروں کے لئے جہاز کا فرسٹ کلاس استعمال کریں گے جبکہ وزیراعظم ،چیئرمین سینیٹ،اسپیکر قومی اسمبلی، وزراء،سروسز چیفس، ایم این اے صاحبان اور گریڈ22کے افسرصاحبان بزنس کلاس میں سفر کریں گے۔ یہ جو کلاس ون اور بزنس کلاس ہیں صدر اور وزیراعظم کے دوروں کے دوران ان کی نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ یہ ہستیاں پورے کا پورا جہاز اکیلے استعمال کریں گے۔ایک اور ویڈیو حال ہی میں نظر سے گزری جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نومنتخب صدر پاکستان آصف علی زرداری ہیلی کاپٹر سے گڑھی خدابخش میں اتررہے ہیں جبکہ سرکاری اہلکاران کا جم غفیر سرخ قالین صدر کے راستے میں بچھا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ صدر کا پرائیویٹ دورہ تھا اور وہ اپنے شہداءکی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لئے گئے تھے۔اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس دورے پر کتنے بھاری اخراجات آئے ہوں گے۔

چند روز قبل ایک خبر آئی تھی کہ پنجاب کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز کی گاڑی کے نئے ٹائر خریدنے کےلئے حکومت نے پونے تین کروڑ روپے کی منظوری دی ہے۔ عام لوگوں کو تو مشکل سے ہی یقین آیا کہ ایک گاڑی کے ٹائروں کی قیمت3کروڑ روپے ہوسکتی ہے۔غالباً یہ بم پروف ٹائر ہوں گے اور لازمی طور پر محترمہ کی گاڑی بھی بم پروف ہوگی اور ان کے پاس بلٹ پروف اور بم پروف گاڑیوں کی تعداد ایک سے زائد ہوگی۔

ایک طرف76سالوں سے جو بھی حکومت آئی ہے اس کے پاس معیشت کو چلانے کےلئے واحد کارگر نسخہ کشکول تھا جس کا سائز حالیہ عرصہ میں کافی بڑھ گیا ہے۔ دوسری جانب رولنگ کلاس اور اشرافیہ ریاست پر رحم کھانے کے بجائے اپنی ناقابل برداشت پرآسائش اخراجات میں اضافہ کئے جارہی ہے۔اگرچہ یہ طے ہے کہ امریکہ کی آشیرباد سے آئی ایم ایف پانچ سال کے عرصہ کےلئے8ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری دے گا لیکن اس سے پہلے اسے ناکوں چنے چبوائے گا۔انڈین میڈیا کے مطابق انڈین حکومت نے آئی ایم ایف سے رجوع کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان سے یہ پوچھا جائے کہ قرضے کی جو رقم ملے گی وہاں کہاں خرچ ہوگی؟۔ان دنوں آئی ایم ایف پر انڈیا کا غلبہ ہے۔انڈین پروپیگنڈے کے مطابق پاکستان قرضہ کی رقم سوشل اپ لفٹ اور ترقیاتی پروگراموں کے بجائے سیکورٹی کی مد میں خرچ کرے گا جس سے ہندوستان کو تشویش ہے۔لازمی بات ہے کہ پہلے پاکستان آئی ایم ایف کو مکمل یقین دہانیاں کروائے گا اس کے بعد ہی قرضہ کی اقساط جاری کرے گا۔انڈیا کے وی لاگر مسلسل پروپیگنڈے کر رہے ہیں کہ چین جان بوجھ کر پاکستان کو قرضوں میں جکڑ رہا ہے اس سے وہ کچھ بڑا حاصل کرنا چاہتا ہے یعنی جس طرح اس نے قرضوں کے بدلے سری لنکا کے پورٹ ہمبن ٹوٹا کو اپنی ملکیت میں لے لیا اسی طرح وہ پاکستان کا ایک بڑا اثاثہ حاصل کرے گا بظاہر تو چین پاکستان کو65 ارب ڈالر کے قرضے دے چکا ہے اور پاکستان نے آئی ایم ایف کو قرضوں کی کل مالیت بتا بھی دی ہے تاہم انڈیا مصر ہے کہ پاکستانی حکومت نے 25 ارب ڈالر کے قرضے چھپائے ہیں یعنی چینی قرضوں کی کل مالیت90 ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ واضح رہے کہ کافی عرصہ سے چین اپنے قرضوں کی وصولی کو التواءمیں ڈال رہا ہے کیونکہ ادائیگی کے لئے پاکستان کے پاس رقم نہیں ہے۔چونکہ بھارت ایران کا چاہ بہار پورٹ بنا رہا ہے اس لئے اسے گوادر پورٹ اچھا نہیں لگتا یہ پورٹ چینی اوراوورسیزپورٹ ہولڈنگ کمپنی کے تصرف میں ہے یعنی پروپیگنڈے کا مقصد یہ ہے کہ چین گوادر پورٹ کی ملکیت قرضوں کے بدلے حاصل کرے گا۔بدقسمتی سے پاکستان کی معاشی صورتحال اس قدر دگردوں ہے کہ آج کل اس کی80فیصد آبادی روٹی روٹی پکار رہی ہے خط غربت سے نیچے لوگوں کی تعداد50 فیصد بتائی جاتی ہے لیکن اصل میں یہ 60فیصد سے اوپر ہے۔غلط پالیسیوں نے لوگوں کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ وہ صرف روٹی روٹی کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن روٹی دستیاب نہیں ہے۔روزگار روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے ۔آئے دن صنعتی یونٹ بند ہوتے جا رہے ہیں۔زرعی زمینوں پر بہت ہی طاقت ور بلڈر مافیا نے قبضہ کرلیا ہے اور وہ دھڑا دھڑ کنکریٹ کے پہاڑ کھڑا کر رہا ہے جس کی وجہ سے ایک جانب زراعت کم اور دوسری جانب صنعتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔پاکستان کے سرمایہ کار رئیل اسٹیٹ کے سوا اور کسی کام پر پیسہ لگانے کو تیار نہیں ہیں۔یہ لوگ اپنا پیسہ تیزی کے ساتھ دبئی اور مغربی ممالک میں منتقل کر رہے ہیں۔اندازہ لگائیے کہ ریاست کے صدر کا کاروبار رئیل اسٹیٹ ہے،وزیرخارجہ کا کاروبار رئیل اسٹیٹ ہے،وزیراعظم کے خاندان کا بیرون ملک کاروبار جائیدادخریدنا ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی بہن علیمہ خان کے ذریعے امریکہ میں اربوں کی جائیداد خریدی۔عمران خان اور زرداری نے ملک ریاض کی سرپرستی کر کے انہیں کھربوں روپے کمانے کا موقع دیا جبکہ ملک ریاض غریب لوگوں کے گاﺅں،گوٹھ اور زرعی زمینوں پر قبضہ کر کے اپنے پروجیکٹ بنا رہا ہے۔وفاقی وزیر علیم خان پارک ویو کمپنی کے مالک ہیں اور وہ پنجاب میں ملک ریاض کو ٹکر دے رہے ہیں۔نہ جانے اور کتنے حکومتی اکابرین ہوں گے جن کا کاروبار رئیل اسٹیٹ ہے اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ ملک کے اہم ترین ادارے بھی رئیل اسٹیٹ کا کاروبار چلا رہے ہیں۔ پاکستان کے اس وقت کے حالات ایسے ہیں جو1990 کی دہائی میں بیروت کے تھے۔وہاں پر بڑی بڑی بلڈنگز کھڑی کی گئیں لیکن ملک دیوالیہ ہوگیا۔

پاکستان کی رولنگ کلاس اور جعلی اشرافیہ جو کچھ کر رہی ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ان کے اقدامات سے ایسے لگتا ہے کہ یہ اپنی ریاست کو جان بوجھ کر ناکام ریاست میں تبدیل کر رہے ہیں۔ان کو بڑا زعم ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی ریاست ہے۔اگر عوام کو تادیر روٹی نہ ملی تو کیا معلوم کہ ایٹمی ہتھیار تلف کر کے روٹی کا بندوبست کرنا پڑے۔28 مئی1998 کے دوران جب ایٹمی دھماکوں کی تیاری مکمل تھی تو صدر بل کلنٹن نے دھماکے نہ کرنے کے بدلے 5ارب ڈالر دینے کی پیشکش کی تھی یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر تھی۔کیا معلوم کہ امریکہ سوچ رہا ہو کہ پاکستان کے تمام قرض ادا کر کے ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کروا دیں گے۔ شہبازشریف کی گزشتہ حکومت کے دور میں عالمی ایٹمی ایجنسی کے سربراہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور وزیراعظم سے ملاقات بھی کی تھی لیکن اس دورے کا آج تک مقصد معلوم نہیں ہوسکا ۔ ویسے بھی ایٹمی ہتھیار سویلین حکومتوں کے دسترس سے باہر ہیں۔گمان یہی ہے کہ ایٹمی بریف کیس بھی وزرائے اعظم کے پاس نہیں ہوتا جبکہ باقی دنیا میں جہاں صدارتی نظام ہے وہاں پر یہ کمانڈ صدر اور جہاں پارلیمانی نظام ہے وہاں پر وزیراعظم کے پاس ہوتا ہے۔پاکستانی سویلین لیڈروں پر آج تک اعتماد نہیں کیا جا سکا اورجب تک یہ سسٹم موجود ہے وہ اعتماد کے بحران کا شکار رہیں گے۔

بدقسمتی سے پاکستانی منتخب نمائندوں کے پاس ویژن کی کمی ہے وہ جامع معاشی پروگرام بنانے کے بجائے سطحی اور عامیانہ اقدامات پر جنہیں نمائشی بھی کہا جاسکتا ہے یقین رکھتے ہیں۔مثال کے طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی کوئی افادیت نہیں ہے اگر اس پروگرام کی رقم پیداواری مد میں لگا دی جاتی تو لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا۔اسی طرح ناتجربہ کار اور حکومتی معاملات سے نابلد پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے غریبوں کی امداد کےلئے 10 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے اس پیکیج کے پیکٹ پر اپنے والد میاں نوازشریف کی تصویر پرنٹ کروائی ہے۔یہ ایک تضحیک آمیز عمل ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور وزیراعلیٰ پنجاب کا پیکیج مزید بھکاری پیدا کرنے کی ذریعہ ہیں۔ہزاروں لوگوں کو ساری رات قطار میں کھڑا کر کے انہیں دو ہزار روپے اور آٹے کا ایک تھیلا دینا انسانیت کی توہین اور تضحیک آدمیت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے دہلی کے جواہر لال انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی نقل میں ایسا ایک ادارہ پنجاب میں قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔نہرو انسٹی ٹیوٹ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ادارہ سمجھا جاتا ہے اس کی بدولت اس وقت تمام امریکی کارپوریشنوںکے سربراہ انڈین ہیں۔بھارت نالج اکانومی کی وجہ سے دنیا کا نمبر دو ملک بن گیا ہے جبکہ پاکستان اس سے 70سال پیچھے ہے۔

مریم کے ابا جان نے تین دفعہ وزیراعظم بن کر ایسا ادارہ قائم کرنے کے بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہی چچا جان کوئی ایسا وژن رکھتے ہیں اس کے علاوہ ملک کو چلانے والے جو اصل اکابرین ہیں ان کی توجہ بھی اس طرف نہیں ہے۔لہٰذا سمجھ سے بالاتر ہے کہ چن چن کر نااہل افراد کو کیوں یہ ملک چلانے کی بار بار ذمہ داری دی جاتی ہے۔اس نااہلیت کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔مقام افسوس ہے کہ پاکستان دنیا کے ترقی کے انڈیکس میں شامل ہی نہیں ہے محترمہ مریم نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ لاہور ملتان اور پنڈی کے بعد پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی میٹرو بسیں چلائی جائیں گی۔ محترمہ کو یہ معلوم نہیں کہ یہ پروجیکٹ اربوں کا نقصان کر رہا ہے جبکہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق جو موٹرویز ہیں ان کا سالانہ خسارہ ایک کھرب70 ارب روپے ہے۔تمام منصوبے اور پروجیکٹ شدید ناکامی سے دوچار ہیں لیکن ہمارے حکمران لاہور شہر کو تباہ کرنے والے پروجیکٹ اورنج ٹرین کی سیٹی کی آواز سن کر خوش ہو رہے ہیں۔حکمرانوں کو معلوم نہیں کہ30 کروڑ کی بھوکی آبادی کے فاقے کیا رنگ لا سکتے ہیں۔ایک ذرا سی جھلک8 فروری کے انتخابات کے دوران ظاہر ہوئی تھی جب عوام نے ن لیگ کو دھتکار دیا تھا۔خیر وژن تو تحریک انصاف کے پاس بھی نہیں ہے اور کسی کے پاس کیا ہوگا لیکن ن لیگ کی شکست کو بدترین کامیابی میں تبدیل کر کے ظاہر کیا گیا کہ اس ملک میں جمہوریت اور جمہور کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ن لیگ کو دوبارہ اٹھنے میں بہت وقت لگے گا بہت وقت لیکن ہائبرڈ رجیم لانے سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔یہ صرف اپنی ذہنی تسکین اور زعم کے لئے کہ ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں۔روسی صدر پیوٹن کی طرح سعودی ولی عہد ایم بی ایس کی طرح چینی صدر شی پنگ کی طرح اور شمالی کوریا کے آمر بوائے آن کی طرح۔

اپنا تبصرہ بھیجیں