میاں صاحب کی رخصتی

تحریر : انور ساجدی
خبر آئی ہے کہ مسلم لیگ ن کے سپریم لیڈر میاں نوازشریف اپنے خاندان سمیت رمضان کے آخری عشرے میں عمرہ کی ادائیگی کے لئے جائیں گے۔ان کے ہمراہ شہبازشریف،محترمہ مریم نواز،حسن،حسین اوردیگر فیملی ممبرز ارض مقدس جائیں گے۔یہ بھی سنا ہے کہ باقی لوگ تو واپس آئیں گے لیکن میاں صاحب اپنے صاحبزادوں کے ساتھ وہاں سے عازم لندن ہونگے۔کہا جاتا ہے کہ وہ لندن میں قیام کے دوران اپنا میڈیکل چیک اپ کروائیں گے۔ان کا ولایت میں قیام کتنا عرصہ ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا اور ویسے بھی لندن میں اس وقت موسم بہار پورے شباب پر ہے۔ہر طرف ہرے بھرے درخت رنگ برنگے پھول اور دلکش نظارے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے سہانے موسم میں میاں جی کا دل خوب لگا رہے گا۔موسم اور پرآسائش سہولتوں کے پیش نظر میاں صاحب کو پوری گرمیوں کا موسم وہاںپر گزارنا چاہیے۔ان کا لندن یاترا اس لئے بھی بنتا ہے کہ وہ جلاوطنی ترک کر کے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے آئے تھے لیکن لاہور کے بے رحم ووٹرں نے انہیں بدترین شکست سے دو چار کر دیا۔حکمرانوں نے ووٹوں کے پورے ریکارڈ کو بگاڑ کرمیاں صاحب کی شکست کو معمولی کامیابی میں بدل دیا۔اس شکست کے باوجود وہ چاہتے تو اپنے بھائی کی جگہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھال سکتے تھے لیکن سمجھانے والوں نے انہیں سمجھایا کہ لاہور میں شکست کے بعد ان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ یہ عہدہ سنبھالیں۔خود میاں صاحب کو بھی اندر سے پتہ تھا کہ لاہور کے عوام نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔اس لئے میاں صاحب نے آخری سیاسی پراجیکٹ کے طور پر اپنی صاحبزادی محترمہ مریم کو پنجاب کی وزیراعلیٰ بنوا دیا۔

اس طرح سیاست میں میاں صاحب کا جو اصل زر تھا جو انہوں نے1980کی دہائی سے جوڑ کر رکھا تھا اس کا حصول بیٹی کو آگے لانے کی صورت میں کیش ہوگیا جبکہ ان کا باقی سارا سرمایہ ڈوب گیا۔2022 تک کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ مسلم لیگ ن کو پنجاب میں اتنی بدترین شکست ہوگی بلکہ عدم اعتماد کی تحریک کے دوران ساتھ دینے والے ایم این اے تحریک کی حمایت کے بدلے میں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ چاہتے تھے لیکن 8 فروری کے انتخابات میں ایسے کئی سیاسی بھگوڑے جنہوں نے ن لیگ کا ٹکٹ حاصل کیا تھا ضمانتیں ضبط کروا بیٹھے جبکہ فیصل آباد کے راجہ ریاض انتخابات میں کھڑے ہی نہیں ہوئے۔اگرچہ مقتدرہ نے ن لیگ کی واضح شکست کو کامیابی میں تبدیل کر دیا اور شہبازشریف کی قیادت میں مرکز میں اس کی حکومت بھی بنوا دی لیکن اگر یہ حکومت پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت کی طرح ناکام ہو گئی تو یوں سمجھو کہ ن لیگ کا بطور بڑی سیاسی جماعت یہ آخری سفر ہوگا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف کی سیاسی حماقتیں اسی طرح جاری رہیں تو ن لیگ کو فائدہ ہوگا ورنہ تو اس کا قصہ تمام۔

ادھر تحریک انصافف میں وکلاءکی بھرمار ہے لیکن انہیں پتہ نہیں تھا کہ پارٹی کے وقت پر انتخابات کروا کر الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا جاتا چنانچہ الیکشن کمیشن کو اچھا بہانہ ہاتھ آگیا اور اس نے تحریک انصاف کو رجسٹرڈ سیاسی جماعت کی فہرست سے نکال کر اس سے بلے کا نشان چھین لیا۔اس کے باوجود جب تحریک انصاف سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو سوال پیدا ہوا کہ خواتین،اقلیتوں اور دیگر پروانشل نشستوں کے حصول کےلئے کس جماعت میں شمولیت اختیار کی جائے۔عمران خان نے پہلے وحدت المسلمین نامی جماعت سے اتحاد کا اعلان کیا لیکن فوری طور پر فیصلہ بدل کر سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلی چونکہ اس جماعت نے پہلے سے کوئی فہرست نہیں دی تھی اس لئے تحریک انصاف کو ایک نشست بھی نہ ملی جبکہ تمام نشستیں باقی جماعتوں میں بندربانٹ کی گئیں۔اسی دوران عمران خان نے کافی غلط فیصلے کئے جن میں فائربرانڈ لیڈر علی امین گنڈاپور کو چیف منسٹر بنانے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔مقتدرہ نے خوشی خوشی گنڈاپور کو قبول کرلیا لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ بالآخر گنڈا پور عہدے سے الگ ہوں گے یا رات کی تاریکی میں انہیں وفاداریاں تدبیل کرنا پڑیں گی۔عمران خان نے سینیٹ کے ٹکٹ بھی جاری کرنے میں غلطیاں کی ہیں جس کے نتیجے میں حکمران اتحاد کو اکثریت ملے گی۔دیکھا جائے تو پاکستان کے معاشی اور سیاسی حالات پہلے سے بدتر ہیں لیکن1985ءسے ضیاءالحق نے جس مخلوق کو سیاسی طاقت بخش دی تھی 8 فروری کے انتخابات میں ان میں کافی کمی آ گئی ہے۔صوبہ پختونخوا میں تو ضیا کی باقیات اسمبلی نہیں پہنچیں البتہ قومی اسمبلی کے کچھ رکن اس دور کی نشانی ہیں۔یعنی ایک اور مقتدرہ نے ایسے لوگوں کو لانے کا بندوبست کیا جو اس کے حامی ہیں اور نظریہ ضرورت کے مطابق چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔بے شک ضیاءالحق نہیں مشرف نہیں لیکن نظریہ ضرورت کا سیاسی فلسفہ برقرار ہے۔اس نظریہ کی ضرورت اس لئے ہے کہ آزادانہ پارلیمنٹ کا وجود قابل قبول نہیں جبکہ حکمرانوں کے نزدیک محاذ آرائی کھڑا کرنے والے لوگ درکار نہیں ہیں۔اس لئے انہوں نے شہبازشریف اور زرداری کا انتخاب کیا۔زرداری نے یقین دلا دیا ہے کہ وہ مقتدرہ کی سیاسی غلطیوں اور معاشی ناکامیوں کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار ہیں جس کی مثال حال ہی میں ٹی ٹی پی کی جانب سے وزیرستان میں حملہ کے بعد قبرستان کے باہر زرداری کا زوردار کہنا ہے کہ ہم اپنے بیٹوں کے قتل کا بدلہ لیں گے۔اسی رات افغانستان کے اندر فضائی کارروائیاں کی گئیں جہاں تک شہبازشریف کا تعلق ہے تو وہ انتہائی تابع فرمان اور صلح کل ہیں لیکن نئے عارضی انتظام کے باوجود موجودہ سسٹم چلنے والا نہیں ہے اور نہ ہی دیوہیکل معاشی بحرانوں کو یہ حکومت حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ملک میں دہشت گردی بھی سر اٹھا رہی ہے جس کے بڑھنے کا خطرہ ہے کیونکہ ٹی ٹی پی نئی صف بندی کر رہی ہے اور القاعدہ سے مل کر نئی کارروائیاںشروع کر سکتی ہے۔

مجموعی طور پر حکمرانوں نے پرانی اور تجربہ کار نسل کو رخصت کر دیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ 70 سال سے اوپر کے سارے بابے بیکار ہیں۔اگرچہ شہبازشریف بھی74سال اور زرداری70 سال کے ہیں لیکن ایک دو سال کے لئے برے نہیں ہیں۔ادھر پی ٹی آئی کے بانی عمران خان بھی74سال کے ہوگئے ہیں جب تک کوئی نیا نظریہ ضرورت روبہ عمل نہیں آتا جو کہ بہت جلد آئے گا اس کہنہ مشق قیادت کو چلایا جائے گا اس کے بعد ظاہر ہے کہ نئے لوگوں کی ضرورت پڑے گی لیکن یاد رکھنے کی بات ہے جو بھی لوگ آئیںگے اسٹیٹس کو برقرار رہے گا۔البتہ میاں نوازشریف مکمل طور پر ریٹائرہوکر آرام فرمائیں گے یعنی پاکستانی سیاست کا اہم باب بند ہوگیا ہے ن لیگ کو شہبازشریف چلائیں گے یا مریم یہ ایک سوالیہ اور اختلافی نکتہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں