آواران کے غریب زمباد ڈرائیور اور مالکان مسیحا کے منتظر

تحریر: ارشد اقبال

ضلع آواران کی ڈیڑھ لاکھ سے زائد آبادی کا وسیلہ روزگار زراعت (زمیندری، بزگری) ہی ہے۔ اس کے علاوہ آبادی کا تھوڑا بہت حصہ خلیجی ممالک میں مزدوری پر منحصر کررہا ہے۔ یہاں فی گھر کمانے والے ایک سے دو اور کھانے والے پانچ سے گیارہ یا بیشتر افراد پر مشتمل ہیں۔ یہاں سال بھر زمیندار گندم، جو، پیاز اور کپاس وغیرہ کاشت کرکے ملکی ضروریات پورا کرنے میں ہم کردار ادا کررہے ہیں۔ البتہ آواران کے زمینداروں کا دیگر فروٹس اور سبزیوں کی کاشت کاری میں رجحان بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔

ضلع آواران کی آبادی کا ایک مختصر حصہ باڈر آئل ٹریڈ سے وابستہ ہے۔ ایک زمباد گاڈی پر دو خاندانوں سمیت ڈپو مالکان، ہوٹل والے، گیراج والے وغیرہ اپنا رزق حلال کما کر کھا رہے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک یہ کاروبار چیک پوسٹوں پر معقول بھتہ دے کر آزادنہ طور پر کیا جاتا تھا۔ مگر حکومتی پابندیوں بعد اس کاروبار پر قدغن لگائی گئی اور آج کل باڈر آئل ٹریڈ ٹوکن سسٹم پر چل رہا ہے۔

ٹوکن سسٹم ایک ڈیجیٹل راہداری ہے۔ جس میں زمباد مالک کی گاڑی اور ڈیٹا درج ہیں۔ مہینہ میں فی زمباد ایک ٹوکن الاٹ کیا جاتا ہے۔ یعنی سرکاری طور پر ایک زمباد گاڑی مہینے میں صرف ایک ہی دفعہ باڈر پر جاسکتا ہے۔ مگر زمباد والے مہینے میں اپنے ٹوکن سے باڈر جانے بعد اگلی دو تین دفعہ دیگر ذرائع سے خریدی گئی ٹوکن لےکر باڈر چلے جاتے ہیں۔

ضلع آواران سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی دور حکومت میں ان کے آبائی ضلع کے زمباد مالکان کو اسپشل کوٹہ سے ایک زمباد یونین کے ذریعے ٹوکن جاری کیا جاتا تھا۔ جس میں ضلع کے روزانہ ستر گاڑیاں ٹوکن سے بارڈر جاسکتی تھیں۔ البتہ یونین والے روازنہ فی گاڑی تین ہزار روپے بطور کمیشن وصول کرتے تھے۔ یہ سلسلہ عبدالقدوس بزنجو کی دور حکومت کے آخری دن تک جاری رہا۔ نگران وزیراعلیٰ بلوچستان کے آتے ہی آواران کا بارڈر کوٹہ بند کردیا گیا۔ تب سے آج تک آواران کے زمباد ڈرائیور اور مالکان ٹوکن سسٹم کی بحالی کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔

آواران سے تعلق رکھنے والے زمباد مالکان آواران کے وہ نوجوان ہیں جنہوں نے بیروزگاری سے تنگ آکر اپنے بہو، بیوی اور بیٹیوں کے زیورات کوڑیوں کے دام فروخت کرکے زمباد گاڑیاں خریدی تھیں۔ مگر آج یہ نوجوان اتنی قربانیاں دینے اور خرچہ کرنے کے بعد بھی بیروزگار ہیں۔ مکران سے ڈاکٹر عبدالمالک اور آواران سے چیئرمین خیر جان بلوچ اور ضلع آواران سے پندرہ ہزار ووٹ لینے والے وزیر زراعت جام کمال خان سے گزارش ہے کہ وہ آواران کے زمباد مالکان کی فوری باڈر رسائی یقینی بنائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں