آخری کوشش

تحریر: انور ساجدی
موجودہ حکمران جو ہاتھ پیرمارہے ہیں اسے آخری کوشش کا نام دیا جاسکتا ہے۔اقلیتی حکومت کے سربراہ جن کی زبردستی دو تہائی اکثریت بنا دی گئی ہے اندر سے ڈرا ،سہما اور خوفزدہ ہے کیونکہ اسے اپنی اصل طاقت کا علم ہے۔کئی لوگ نئے انتظام کو سافٹ ٹیک اوور کا نام دیتے ہیں جو کہ غلط ہے۔اس کی بنیاد تو راحیل شریف نے رکھی تھی جبکہ باجوہ نے2018 کو انتخابات مینج کر کے عمران خان کی زبردستی اکثریت بنائی تھی۔جیسے کہ موجودہ حکومت کی بنائی گئی ہے۔اصل سافٹ ٹیک اوور باجوہ صاحب کا تھا ان کا خیال تھا کہ عمران خان ان کے ممنون اور احسان مند ہوں گے اور وہ وزیراعظم کی کرسی پر تو براجمان رہیں گے لیکن حکومت خود باجوہ صاحب چلائیں گے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔جوں جوں عمران خان کو تحربہ حاصل ہوتا گیا وہ اپنے اختیارات استعمال کرنے لگے آخر وہ دن بھی آگیا جب عمران خان نے دل گردہ پکڑ کر باجوہ صاحب کو ”نو“ کہہ دیا۔مسئلہ تھا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید کے تبادلہ کا جب فائل عمران خان کے پاس پہنچی تو انہوں نے اسے کئی دن تک روکے رکھا۔زیادہ تاخیر ہوئی تو باجوہ صاحب خود خان صاحب کے پاس چلے گئے۔دوبدو ملاقات میں بھی عمران خان نے نو کہہ دیا۔جس پر تعلقات خراب ہوگئے۔اگرچہ عمران خان نے کوئی مہینہ بعد باجوہ صاحب کی بات مان لی لیکن تعلقات میں دراڑ آ گئی تھی۔حالانکہ کافی عرصہ تک صورتحال یہ تھی کہ عالمی اخبارات کارٹون چھاپتے تھے کہ باجوہ عمران خان کی انگلی پکڑ کر انیں ملک ملک لے جا رہے ہیں ایسا بھی ہوا کہ باجوہ صاحب نے اپنی توسیع کا آرڈر خود ٹائپ کروایا پہلے دو مرتبہ غلط ڈرافٹ ہوگیا تھا لیکن فروغ نسیم جیسے کایاں وزیر سے یہ غلطی نہیں ہوسکتی تھی۔عمران خان کے کہنے پر جان بوجھ کر سقم پیدا کیا گیاتھا تاوقتیکہ باجوہ نے وزیرقانون کے دفتر میں بیٹھ کر اپنا آرڈر خود ہی ٹائپ کروایا تھا۔باجوہ بھی عمران خان کو تابع فرمان اور ناتجربہ کار سمجھ کر خود ہی معاملات طے کرنے لگے لیکن جب اختلافات زیادہ بڑھ گئے تو باجوہ صاحب نے اپنے ہی کاشت کرد ہ پودے کو کاٹ دینے کا فیصلہ کرلیا۔اس مقصد کے لئے انہوں نے آصف علی زرداری کی خدمات سے استفادہ کا فیصلہ کرلیا جب عدم اعتماد کے معاملات کافی آگے بڑے تو نوازشریف کو اعتماد میں لے لیا گیا تھا۔اس طرح عمران خان کو اقتدار سے رخصت کر دیا گیا لہٰذا جو سافٹ ٹیک اوور ہے وہ موجودہ حکومت کو ورثہ میں ملا ہے۔البتہ جس طرح تمام جماعتوں کو یک جا کر کے اکیلے تحریک انصاف کے مقابلہ میں اتارا گیا تو یہ اچھا خاصا مشکل کام تھا لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ تمام تر غلطیوں اور کوتاہیوں کے باوجود عمران خان نے اپنا پیغام اور شخصیت کی سحرانگیزی عوام کے دلوںمیں راسخ کر دی تھی۔8فروری کے انتخابات اس بات کے ثبوت ہیں کہ تمام جماعتیں بھی مل کر تحریک انصاف کو شکست سے دوچار نہ کرسکیں۔اس لئے حکمرانوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑے اور اتحادی جماعتوں کی جیت کو یقینی بنانا پڑا۔البتہ مولانا کو اس مصنوعی جیت کے ثمرات سے محروم رکھنے کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔اب جبکہ حکومت سازی مکمل ہوئی ے کابینہ بن گئی ہے تو شہبازشریف کافی گھبرائے ہوئے ہیں۔بڑے میاں صاحب نے ذاتی شکست کو دل پر لے کر دستبردار ہونا ہی بہتر سمجھا۔شہباز حکومت کی پہلی کامیابی آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات تھے۔ چونکہ اس وقت امریکہ راضی تھا اس کے ایک پسندیدہ شخص کو فنانس منسٹر بھی بنایا گیا تھا تو آئی ایم ایف ناں نہ کرسکا۔اگر امریکہ ناراض ہوتا تو اسٹاف لیول کے معاہدے کی نوبت ہی نہ آتی یہ معاہدہ کیا ہے۔عام آدمی کے قتل کے مترادف ہے۔حکومت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرتی رہے گی۔پیٹرول پر18فیصد جی ایس ٹی لگائی جائے گی جس کے نتیجے میں 29فیصد مہنگائی جمپ کر کے39فیصد پر پہنچ جائے گی۔عام لوگ بجلی اور گیس استعمال کرنے کے قابل نہیں رہیں گے اور نہ ہی وہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی دے پائیں گے۔اسی اثناءمیں یہ بات سامنے آ گئی ہے کہ ملک کے معاشی اور مالیاتی امور ایس آئی ایف سی چلائے گا۔اثاثوں کو بیچنا ہو پرائیویٹائز کرنا ہو سرمایہ کاری کی ترغیب دینا ہو یا دیگر پالیسیاں بنانا یہ کام کابینہ کا نہیں ہوگا بلکہ ایس آئی ایف سی کا ہوگا۔ظاہری طور پر وزیراعظم اس کے اجلاسوں کی صدارت کرتے دکھائی دیں گے۔اصل میں ان کا کام احکامات کی بجا آوری کرنا ہوگا۔ایک اہم ہدف این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیئر کم کرنا ہے۔بہت جلد اس سلسلے میں عملی اقدامات کا اظہاآغاز ہوگا۔اس مقصد کے لئے زرداری سے سنجیدہ گفتگو جاری ہے کیونکہ وہ ابتدائی طور پر یہ فارمولہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔وزیراعظم نے چاروں صوبائی وزراءاعلیٰ کا اجلاس بلا کر واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ صوبے مرکز کی مدد کریں۔معلوم نہیں کہ اس کام کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت پڑے گی یا اس سے بالاہی بالا کوئی ترکیب نکالی جائے گی۔بظاہر این ایف سی کے فارمولہ کے تبدیل کرنے کے لئے آئینی ترمیم درکار ہے جہاں تک زرداری صاحب کا تعلق ہے تو انہوں نے بھی موجودہ نظام میں رہنا ہے سندھ کی حکومت کو سینے سے لگا کر رکھنا ہے اور زندگی کے آخری چند سال حکومت کے مزے لینے ہیں۔لہٰذا امکانی طور پر انہیں سمجھوتہ کرناپڑے گا کیونکہ شہبازشریف نے جو جملے کہے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ایک اور پروگرام میں جائے بغیر بچ نہیں سکتا۔بظاہر یہ بہت سخت الفاظ ہیں معلوم نہیں کہ اس جملہ سے ان کی کیا مراد ہے۔آیا آئی ایم ایف کے پروگرام کے بغیر پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا یا بحیثیت ریاست اپنی ہئیت کھو بیٹھے گا اس کی مزید وضاحت ضروری ہے۔ویسے اگر این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی کر کے صوبوں کا حصہ کم بھی کر دیا جائے تو صوبوں کے عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ زیادہ رقم ملنے کے باوجود صوبائی حکومتیں اپنے عوام کے لئے کچھ نہ کرسکیں بلکہ رقم ضائع ہی ہوگئی۔کم از کم بلوچستان پختونخوا اور سندھ کی حد تک تو ایسا ہی ہے۔بلوچستان تو کافی عرصہ سے مہرگڑھ کے کھنڈرات اور پنوں قلعہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔اگرچہ ثبوت نہیں لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ 2008 سے اب تک بلوچستان میں کھربوں روپے ہڑپ کئے گئے اس کا فائدہ چند وزراءاور بیورو کریسی نے اٹھایا ہوگا کیونکہ سالہاسال تک جعلی منصوبے اس صوبے میں بنائے گئے جن کی تکمیل صرف کاغذوں تک محدود رہی۔اندھیر نگری اتنی ہے کہ کسی ایک معاملہ کی بھی تحقیقات کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔کھربوں روپے شیرمادر کی طرح ایک مافیا کو بخش دئیے گئے۔سندھ کا بجٹ تو پنجاب کے بعد دوسرا بڑا بجٹ ہے لیکن سندھ کے دیہات کو چھوڑئیے اس کے شہروں کا برا حال ہے اور شہروں کا حال چھوڑئیے کراچی کا حال دیکھئے جو کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ایس آئی ایف سی کے اقدامات سے یہی لگتا ہے کہ اصل حکمرانوں کو سیاست دانوں پر اعمتاد نہیں ہے۔اس لئے وہ تمام معاشی معاملات خود دیکھیں گے لیکن پاکستان کو دیوہیکل بحرانوں سے نکالنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔اسے ایک طرف دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے تو دوسری جانب معاشی بدحالی ،بیڈگورننس اور نااہلی کے مسائل درپیش ہیں۔ان تمام مسائل کی جڑ مختلف حکومت کی ناقص پالیسیاں ہیں۔انہی پالیسوں کی وجہ سے ایک اچھی خاصی ریاست ناکام ریاست میں تبدیل ہوگئی۔سوال یہ ہے کہ 25یا30 کروڑ آبادی کے ملک کو کس طرح اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے گا۔ایک بڑا مسئلہ غیر پیداواری اخراجات کا ہے جس کا بوجھ ریاست کی قوت سے بڑھ چکا ہے۔تمام ہمسایہ ممالک سے تعلقات خراب ہیں اس لئے سیکورٹی ریاست کے تقاضے پورے کرنے ہیں جس کی وجہ سے اخراجات ناقابل برداشت ہوگئے ہیں۔صوبوں کا یہ حال ہے کہ جوآئندہ پہلی آئے گی تو پختونخوا حکومت اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کرسکے گی۔بلوچستان کو فوری طورپر مزید وسائل مہیا نہ کئے گئے تو وہاں پر بھی ایک آدھ مہینہ کے بعد تنخواہوں کے پیسے نہیں ہونگے البتہ سندھ اور پنجاب کی صورتحال بہتر ہے۔ایک بدترین مسئلہ رواں سال25ارب ڈالر کی ادائیگیاں بھی ہیں۔یہ بھاری رقم کہاں سے آئے گی۔سعودی عرب سے ریکوڈک کے حصص کی خریداری کی بات جاری ہے۔وہ پہلے مان گیا تھا معلوم نہیں اب رکاوٹ آ گئی ہے کہ گرم جوشی نظر نہیں آ رہی ہے۔

ایک اہم مسئلہ دو کشتیوں کی سواری ہے۔ہمارے حکمران بیک وقت چین اور امریکہ کو خوش کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔حالانکہ چین اور امریکہ ایک دوسرے کے سخت مخالف اور حریف ہیں یہ دو کشتیوں کی سواری ترک کرنا پڑے گی۔جہاں تک سی پیک کے دوسرے مرحلے کا تعلق ہے تو یہ بھی پنجاب میں بنے گا تمام صنعتی زون پنجاب میں ہوں گے۔بلوچستان اسی طرح رہے گا۔ کیونکہ چین نے کہہ دیا ہے کہ سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کئے جائیں ۔گمان یہی ہے کہ بلوچستان میں کارروائیاں تیز کی جائیں گی عین ممکن ہے کہ ایک اور آپریشن شروع کیا جائے۔

حکمرانوں کی سوچنے کی بات ہے کہ کوہ ہندوکش سے لے کر کوہ باتل تک اگر بارود کی بو پھیل جائے جگہ جگہ بد امنی ہو عوام غیر مطمئن ہوں تو مزید خونریزی سے کیا حاصل ہوگا۔ترقی و استحکام کے لئے امن کی ضرورت ہے۔پہلے کام کے طور پر امن قائم کیا جائے اس کے لئے تدابیر تلاش کرنی چاہئیں ورنہ ترقی ناممکن ہوگی اور سیاسی ومعاشی استحکام صرف خواب رہ جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں