مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
تحریر: انور ساجدی
میر عبدالقدوس بزنجو نے جس طرح آنکھیں بند کرکے ریکوڈک کی ڈیل پر انگوٹھا لگا دیا تھا اس پر انہیں ” نشان حیدر“ ملنا چاہئے تھا لیکن حکومت پاکستان نے اس شاندار خدمت پر انہیں صرف نشان امتیاز سے نوازا ہے۔ الیکشن ہارنے کے باوجود نہیں ایوان بالا کیلئے منتخب کرکے ایک اور انعام بھی دیا گیا ہے اس کے ساتھ ریکوڈک کا اربوں ٹن سونا حاصل کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ کو بھی چاہئے کہ وہ میر صاحب کی شاندار خدمات پر انہیں کسی بڑے انعام سے نوازے اگر وہ یہ انعام پہلے دے چکی ہے تو اچھی بات ہے۔
ریکوڈک کے کیس کو عالمی ثالثی عدالت میں بلوچستان کی سابقہ حکومتوں نے جو کارکردگی دکھائی اس پر ڈاکٹر صاحب بھی پرائڈ آف پرفارمنس کے حقدار تھے لیکن انہیں نظر انداز کردیا گیا۔ تھوڑا حصہ تو نواب ثناءاللہ کا بھی ہے انہیں بھی ڈاکٹر صاحب کی طرح نظر انداز کیا گیا۔
اس وقت ریاست کی جو معاشی صورتحال ہے وہ تو بڑے جانتے ہیں عام لوگ حالات سے بے خبر ہیں انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جو کوششیں کی جارہی ہیں ان کا کیا نتیجہ نکلے گا اگر چولستان کی لاکھوں ایکڑ زمین کارپوریٹ ایگریکلچر کے لئے مختص کی گئی تو بھی یہ یقینی نہیں کہ 30کروڑ عوام کی ضروریات پوری ہوں گی کیونکہ اس ملک میں بدانتظامی بہت ہے جتنے بھی قومی اثاثے ہیں وہ خسارے میں چل رہے ہیں اگر جدید ترین زرعی شعبہ سرکاری نگرانی میں فائدہ مند ثابت ہوا تو یہ اچھی بات ہوگی جتنی کوششیں ہورہی ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ گزشتہ 70 سالوں سے جاری پالیسیاں بالآخر ناکامی پر منتج ہوئی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی چیز کی صحیح منصوبہ بندی صحیح نہیں کی گئی ۔ واپڈا ہو، پی آئی اے ہو، اسٹیل مل ہو یا دیگر ادارے انہیں بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے تباہی سے دوچار کیا گیا۔ مستقبل میں بھی بیورو کریٹ یا اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہی منصوبے چلائیں گے لہٰذا کوئی ضمانت نہیں کہ زیر غور منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہوں یعنی کسی کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کرے۔ کس طرح ملک کو معاشی بدحالی اور عوام کو زندہ درگور ہونے سے بچائے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک میں فوجی اور منتخب حکومتیں بدترین ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ ایوب خان دور کے صنعتی انقلاب کا بڑا چرچا ہے لیکن یہ شروعات تھیں اور نتائج آنے سے پہلے اس انقلاب کو سیاسی فوائد کی خاطر عظیم کامیابی کا نام دیا گیا۔ ایوب خان نے زرعی ترقی کی جانب بھی پیش قدمی کی تھی لیکن ان کی زرعی ترقی اتفاق فاﺅنڈیشن میں بنائی ایک تھریشر کے سوا کچھ نہیں تھی۔ یحییٰ خان تین سال اقتدار میں رہے انہیں کسی بھی قسم کی ترقی سے کوئی سروکار نہیں تھا وہ رات کو پنجابی نغمے سنتے تھے اور یہ علم رکھتے تھے کہ اسکاٹ لینڈ کی وہسکی اچھی ہے یا فرانس کے مشروبات زیادہ عمدہ ہیں۔
1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے آکر تمام درمیانی بڑے درجہ کی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا۔ یہ سوشلزم کے عروج کا دور تھا اور بھٹو اپنے آپ کو سوشلسٹ لیڈر ثابت کرنے کے لئے قومی ملکیت پر زور دیتے تھے۔ لیکن ان کے اس عمل سے ملک میں سرمایہ کاری کا عمل رک گیا ۔ البتہ ابتداءمیں قومیائے گئے کارخانوں میں لاکھوں لوگوں کو روزگار دیا گیا جو وقتی ریلیف تھا، ایوب خان نے پنجاب کے چار دریا انڈیا کو بیچ کر تربیلہ ڈیم بنانے میں تو کامیابی حاصل کرلی لیکن یہ منصوبہ اس طرح کامیاب نہ ہوسکا جس طرح کہ دعویٰ کیا گیا تھا۔ آج تربیلہ مٹی اور ریت سے بھر چکا ہے ۔ اس میں پانی کی گنجائش کم ہوگئی ہے اور ا س میں جمع ہونے والا پانی زرعی ضروریات کے لئے کافی نہیں ہے۔ پاکستان میں دریاﺅں کا قدرتی بہاﺅ روک کر جو حرکتیں کی گئیں اس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی آرہی ہے، شمالی علاقہ جات کے گلیشیئر تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں۔ ایک وقت آئے گا جب ملک کا بڑا حصہ لق و دق صحرا میں تبدیل ہوجائے گا اس کے تدارک کے لئے حکمرانوں کے ذہن میں کوئی خاص منصوبہ نہیں ہے۔ وہ موسمیاتی تباہی کا رونا رو کر عالمی برادری سے وقتی فوائد حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ ملک کی صنعتی ترقی رک گئی ہے کیونکہ وسائل کا بیشتر حصہ ایک فیصد نودولتیہ جعلی اشرافیہ نے ہڑپ کررکھا ہے جس کی وجہ سے بجلی، گیس اور دیگر چیزوں کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ کوئی بھی صنعت منافع بخش ثابت نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح انفرااسٹرکچر بہت کمزور ہے سی پیک کے ذریعے جو وسائل آئے وہ بھی ناقص منصوبوں جیسے کہ موٹر ویز،میٹرو ٹرینوں، اورنج ٹرین اور کوئلہ سے چلنے والے ناکارہ بجلی گھروں کی نذر ہوگئے۔ ایک طرف قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا دوسری جانب کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا۔ معلوم نہیں کہ چین سی پیک کے فیز ٹو پر سرمایہ کاری کرے گا کہ نہیں کیونکہ آئی ایم ایف کو چینی قرضوں کی جو تفصیلات مبینہ طور پر فراہم کی گئی ہیں اس سے چین خفا ہے۔ ناصرف یہ پاکستانی حکمرانوں نے امریکہ سے تعلقات کے لئے جو کوششیں کی ہیں وہ ان کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتی ہیں۔ ادھر سی پیک کے جھومر گوادر پورٹ ناقص منصوبہ بندی پانی کے قدرتی بہاﺅ روکنے کی وجہ سے زیر آب آگیا اور مستقبل میں بھی ان کا یہی حال رہے گا۔ میرین ڈرائیو اور ایکسپریس وے کی وجہ سے گوادر زیادہ بارشوں کی صورت میں ایک مستقل جھیل میں تبدیل ہوجائیگا جس کی وجہ سے اس کے مکین شہر چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اگر شہر کو بچانا ہے تو موجودہ سڑکیں توڑنا پڑیں گی بارش کے پانی کی قدرتی گزرگاہوں کو بحال کرنا پڑے گا اور از سر نو سڑکیں تعمیر کرنا ہوں گی اس سے اربوں کھربوں کا ضیاع ہوگا۔ ایسے لگتا ہے کہ گوادر کے منصوبے ان لوگوں نے بنائے ہیں جن کی وجہ سے ڈیفنس کراچی سیلاب میں ڈوب جاتا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ اگر حکومتیں گوادر اور گراچی جیسے شہروں کو سیلاب سے بچا نہیں پاتیں تو انہوں نے اور کون سی توپ چلانی ہے۔ تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان طویل عرصہ سے کسی منصوبہ بندی کے بغیر چل رہا ہے۔ چنانچہ اتنے بڑے ملک کو دوبارہ ٹھیک کرنا ناممکن کام ہے کیونکہ اس کے لئے کھربوں ڈالر درکار ہیں۔ جبکہ پاکستان کے پاس قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کے لئے رقم نہیں ہے۔ باقی جو رہ گئے ا سکے اثاثے جیسے کہ ریکوڈک اور دیگر معدنیات ہیں انہیں جلد بازی میں ٹھکانے لگانے سے بہت زیادہ آئے تو 50ارب ڈالر آئیں گے جس سے ملکی ضروریات ایک سال تک پوری ہوسکتی ہیں اس کے بعد کیا ہوگا۔ صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ لی کوان، مہاتیر محمد اور ڈینگ زیاﺅ پنگ ثابت ہوسکیں۔ پاکستان کے پورے لاٹ میں کوئی وژنری لیڈر نہیں ہے۔ یہاں پر کوئی جواہر لعل نہیں جو دہلی انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی قائم کردیتا نہ ہی کوئی ڈاکٹر من موہن سنگھ ہے جس کی پالیسیوں نے آج انڈیا کو دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بنا دیا ہے۔ نامراد مودی کی بدترین پالیسیوں کے باوجود انڈیا 2030 میں جرمنی کی جگہ لے کر دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ بات یہ نہیں کہ پاکستان میں کوئی ایسا سیاستدان پیدا نہ ہوا جو ملک کو آگے لے جاسکے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہاں پر جمہوری عمل پر قدغن لگا کر اچھے لیڈروں کی بیخ کنی کی گئی اور قلندر کے چوہے پیدا کئے گئے۔ اگر 1956 میں حسین شہید سہروردی کو نہ نکالا جاتا تو بعد کے حادثات نہ ہوتے۔ اگر بھٹو کو پھانسی پر نہ لٹکایا جاتا تو آج پاکستان کی حیثیت ملائشیا کے برابر ضرور ہوتی۔ اگر ضیاءالحق محمد خان جونیجو کو برطرف نہ کرتا تو وہ بیورو کریسی کو لگام ڈال چکے ہوتے۔ اگر بے نظیر کو قتل نہ کیا جاتا تو جمہوریت کی موجودہ ڈمی صورت دیکھنے کو نہ ملتی۔ اب تو خیر سے مناسب سے یا درمیانہ درجہ کے لیڈر نواز شریف کو بھی منظر سے ہٹا دیا گیا ہے۔ عمران خان یعنی ان سے بھی کمتر لوگوں کو لایا گیا ہے ، یہ لوگ کیسے دیوہیکل مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ نتیجہ یہی ہوگا کہ ریاست کی بربادی جاری رہے گی۔ عوام غربت اور بھوک کی چکی میں پستے رہیں گے۔ آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ جاری رہے گا۔ تاوقتیکہ 2030 کے بعد حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ یہ تباہی انسانی ہاتھوں سے لائی ہوئی ہے۔ ”مین لیڈ ڈیزاسٹر“ اس کا کم از کم حل یہ ہے کہ ایک عدد آزادانہ انتخابات کروائے جائیں اور جو لوگ کامیاب ہوں اقتدار ان کے حوالے کیا جائے۔ یہ سیاست میں بلا وجہ مداخلت، جعلی انتخابات کا انعقاد، ہائی برڈ رجیم مسلط کرنا یہ سب کیا ہے۔ اس نے نظام کو کینسر لگا دیا ہے یہ مرض کا حل نہیں ہے۔
جب عمران خان نے ملکی اخراجات کم کرنے کیلئے وزیراعظم ہاﺅس کی گائے بھینسوں کی نیلامی کی تھی تو انقلاب فرانس کی مناسبت سے یہ واقعہ یاد آیا تھا کہ فرانس کی حکومت نے شاہی گھوڑے فروخت کئے تھے اس پر والٹیئر نے کہا تھا کہ گھوڑوں کی فروخت سے بہتر تھا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے گدھوں کو بیچا جاتا۔