حکمرانوں کی خیالی دنیا
تحریر: انو ساجدی
پاکستان کے جو بھی حکمران ہیں وہ ایک خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔ان کا قول و فعل اعلانات اور اقدامات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔غالباً سن2005 کی بات ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے ایک میٹنگ بلائی اور خیال پیش کیا کہ کوئٹہ میں پانی کی قلت دور کرنے کےلئے پٹ فیڈر کینال سے کوئٹہ پانی کھینچا جائے ان سے کہا گیا کہ ایک تو پٹ فیڈر کا پانی بہت کم ہے دوسرا یہ کہ اسے سات ہزار فٹ کی بلندی پرپمپ کر کے چڑھانا پڑے گا تب ہی یہ پانی کوئٹہ تک پہنچ سکتا ہے۔جناب صدر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ کولپورکی بلندی سطح سمندر سےسات ہزار فٹ ہے۔
حال ہی میں جناب صدر آصف علی زرداری نے نوید سنائی کہ وہ تاجکستان سے پانی بلوچستان پہنچائیں گے اور وہاں کی لاکھوں ایکڑ زمین سیراب کر کے ملک کی پسماندگی اور غربت دور کریں گے۔مشرف کی طرح محترم زرداری کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ہندوکش سطح مرتفع پامیر یا ہمالیہ کی بلندیوں تک پانی پہنچانا اور وہاں سے صوبہ پختونخوا اور پنجاب سے گزار کر یہ آب حیات بلوچستان کے میدانوں تک پہنچانا ناممکن ہے۔ایک تو زرداری صاحب کے پاس اتنے وسائل نہیں دوسرا یہ کہ یہ ایک محض خیالی پلاﺅ کے سوا کچھ نہیں ہے۔موجودہ عہد میں کرنل قذافی نے ہزاروں کلومیٹر پائپ بچھا کر ایک زیرزمین دریا بچھایا تھا جس کا پانی بن غازی تک پہنچانا تھا لیکنطرابلس تک نوبت ہی نہیں آئی کیونکہ قذافی کا تختہ کر دیا گیا۔سعودی عرب نے حال ہی میں دنیا کے سب سے مہنگے پروجیکٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سمندر کا پانی میٹھا کر کے زیرزمین پائپ لائن کے ذریعے ایک 12ہزار کلومیٹر لمبا مصنوعی دریا بنائے گا۔
سعودی عرب کے پاس بے پناہ وسائل ہیں وہ یہ پانی زراعت کے لئے استعمال کرے گا کیونکہ سعودی عرب کی تین کروڑ کی آبادی کے لئے خوراک کی درآمد پر25 ارب ڈالر سالانہ خرچ کرنا پڑتا ہے جبکہ یہ رقم مصنوعی دریا کی کل لاگت کا 20 وا ں حصہ ہے جو فائدے کا سودا ہے۔سعودی عرب کو شدید فکرلاحق ہے کہ اس کی تیل کی آمدنی جلد اپنی وقعت کھو بیٹھے گی اس لئے وہ آمدنی کے دیگر ذرائع تلاش کر رہا ہے۔
اپنے نٹ کھٹ وزیراعظم میاں شہبازشریف دو روز قبل ریکوڈک کے امور سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت فرماتے ہوئے نوید سنا رہے تھے کہ ریکوڈک سے گوادر تک8سو کلومیٹر لمبی ریلوے لائن بچھائی جائے گی ساتھ ہی گوادر اور ریکوڈک کو سڑک کے ذریعے بھی ملا دیا جائے گا جب وزیراعظم یہ اعلان کررہے تھے تو اس وقت یہ خبر آئی کہ سندھ میں ایک مسافر ٹرین جوڑنے والا آلہ ٹوٹنے کی وجہ سے دوحصوں میں تقسیم ہوگئی اور ایک بڑا حصہ حادثے کا شکار ہوتے ہوتے رہ گیا۔جب ایک ریاست انگریزوں کے دور کی ریلوے لائن دوبارہ تعمیر نہیں کر سکتی تو وہ8سو کلومیٹر ریلوے لائن کیسے بنا سکتی ہے۔ہاں اگر ریکوڈک کمپنی اپنے وسائل سے یہ لائن تعمیر کرنا چاہیے تو کرسکتی ہے اس میں اسے بے شمار فوائد ہوںگے کیونکہ اگر وہ ماہانہ6 لاکھ ٹن خام مال نکالے تو یہ مال بآسانی اور برق رفتاری کے ساتھ گوادر پہنچ سکتا ہے جبکہ اس کی تعداد میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔وزیراعظم جوش خطابت میں یہ بات بھول گئے کہ گوادر پورٹ اس وقت غیر فعال ہے اور اسے فعال بنانے کے لئے کثیر رقم کی ضرورت ہے۔اسی طرح ریکوڈک کو ناگ سے بذریعہ سڑک ملانے کا پروگرام ہے۔ناگ سے پنجگور،کیچ اور گوادر جانے والی سڑک تقریباً اچھی حالت میں نہیں ہے۔اگر اس پر ہزاروں بھاری بھرکم ٹریلر چلیں گے تو یہ سمجھو کہ وہ سڑک ختم ہے۔کیا اتنے وسائل نہیںہیں کہ ایک اور سڑک تعمیر کی جائے۔مجھے تو یہ کام اعلانات خیالی اور شیخ چلی کے خواب لگتا ہے حکمران جانتے ہیں کہ
نہ نو من تیل ہوگا
اور نہ رادھا ناچے گی
باقی جو کچھ کرنا ہے وہ بیرک گولڈ نے خود کرنا ہے ہاں اگر سعودی عرب اس منصوبے میں شامل ہوگیا تو نئی سڑک اور ریلوے لائن کے منصوبے روبہ عمل آسکتے ہیں تاہم ریکوڈک تک وسیع مقدار میں پانی پہنچانا ناممکن ہے۔ یہ جو غیر سنجیدہ اعلانات ہیں ایسے منصوبے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔یہ اس بات کے مظہر ہیں کہ ہمارے حکمران اور ملک کو چلانے والے طاقت کے عناصر کس قدر سنجیدہ اور فہم و ادراک رکھتے ہیں۔ان کی حالت دیکھ کر عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ لٹیا ڈوب رہی ہے لیکن جو سابق حکمران تھے یا موجودہ ہیں وہ زیادہ فکرمند نہیں ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اس ملک میں رہنا نہیں ہے۔انہوں نے اس قدر زاد راہ جمع کر رکھا ہے کہ ان کی آئندہ آنے والی نسلیں بھی کھائیں تو یہ دولت ختم نہیں ہوگی۔البتہ قارون فراعین مصر اور نمرود کی دولت کی طرح یہ بھی شاید ا حراموں میں ان کی ممیوں کے ساتھ برآمد ہو جائے۔نہ صرف حکمران بلکہ بیوروکریسی سمیت جو جعلی اشرافیہ ہے وہ بھی ملک کو لوٹ کر بیرون ملک سیٹل ہوچکے ہیں۔تازہ مثال میاں نوازشریف کی ہے ان کے دونوں صاحبزادے برطانوی شہریت اختیار کرچکے ہیں جہاں ان کی دولت اربوں پاﺅنڈ تک جا پہنچی ہے۔لندن میں واقع360 جائیدادوں کی ٹرسٹی محترمہ مریم نواز ہیں اگرچہ ان کی اپنی شہریت برطانیہ کی نہیں ہے لیکن ان کا صاحبزادہ جنید صفدر مستقل سکونت رکھتے ہیں سابق وزیراعظم شوکت عزیز امریکی شہری ہیں جبکہ وہ لندن میں مستقبل سکونت رکھتے ہیں آج کل وہ شدید علیل ہیں اورلوٹی ہوئی رقم علاج کے سوا کام نہیں آ رہی ہے۔ان کا اکلوتا صاحبزادہ فوت ہوچکا ہے۔سنا ہے کہ جنرل کیانی، آسٹریلوی شہریت رکھتے ہیں لیکن کافی عرصہ وہاں مقیم رہنے کے بعد وہ واپس راولپنڈی آئے ہیں کیونکہ وہاں کا موسم ان کے لئے کارآمد نہیں تھا۔ایک اور مثال بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض کی ہے وہ اربوں ڈالر لوٹ کر بیرون ملک فرار ہوگئے۔ان کی لوٹ مار کے کئی وا قعات روزنامہ ڈان نے مختلف اوقات میں شائع کئے ہیں ایک تازہ واقعہ جو23 ارب کا ہے کل کے ڈان نے شائع کیا ہے۔ملک ریاض نے بحریہ ٹاﺅن کو کراچی سے جامشورو تک توسیع دی ہے نہ صرف یہ بلکہ کراچی کو فراہمی آب K-4 کی زمین پر بھی اس کا قبضہ ہے۔موصوف نے پہاڑی ندی نالوں پر قبضہ کر کے 20 ڈیم بھی بنا ڈالے ہیں جیسے سندھ کی زمینیں اس کے باپ کی ملکیت ہیں۔آج تک کسی نے نہیں پوچھا کہ بھائی آپ نے ندی نالوں اور جنگلات پر قبضہ کیسے کیا ہے۔سندھ حکومت نے آنکھیں بند کررکھی ہیں ملک صاحب جو75 سال کے ہوچکے ہیں سردست دبئی میں بیٹھے ہیں۔وہ لندن اس لئے نہیں جاسکتے کہ وہاں پر ان پر منی لانڈرنگ کی وجہ سے پابندی ہے۔اس لئے وہ پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت کے ذریعے بیرون ملک سرمایہ کاری کر رہے ہیں ملک صاحب اگرچہ عمر میں زرداری سے بڑے ہیں لیکن مرتبہ میں ان کے برخوردار ہیں۔زرداری آج کل ان کے لئے کوشش اس لئے نہیں کر رہے کہ انہیں جل دے کر عمران خان کے ساتھ مل گئے۔عمران خان نے انہیں قائل کیا کہ وہ آئندہ20برس تک حکمران رہیں گے۔ملک صاحب ان پر وارے گئے اور خود ہی مارے گئے۔جن لوگوں نے زبردست لوٹ مار کی ہے وہ سب عمر کے آخری حصے میں ہیں لیکن کسی کو یقین نہیں کہ وہ جلد مرنے والا ہے۔
ایک صاحب تھے عاصم سلیم باجوہ انہوں نے امریکہ میں پایا جونز کی فرنچائز ایک ارب20 کروڑ ڈالر میں خریدی۔ان کے پاس اور بھی رقم ہوگی وہ کتنی ہوگی یہ موصوف بھی مستقل طور پر امریکہ کو پیارے ہوئے ہیں۔جب سے نشاط گروپ کے سربراہ میاں منشا نے پیرس میں ایک ہوٹل خریدا ہے ان کا دل بھی وہیں لگ گیا ہے اور شاید وہ آخری ایام بھی وہاں پر گزاریں۔ظاہر ہے کہ پوری ایلیٹ اپنا رشتہ اپنے ملک سے توڑ چکی ہے تو اس نے اس ملک کو بچانے کےلئے کیا کوشش کرنی ہے۔کئی ایسے لیڈر ہیں جنہیں اقتدار ملے تو آ جاتے ہیں ورنہ اپنے اصلی دیس میں چلے جاتے ہیں۔وہ حکومت میں اس لئے آتے ہیں تاکہ مزید زاد راہ اکٹھا کرسکیں ان کا مستقل نعرہ ہے اور کھپے اور کھپے۔سنا ہے کہ 22 ہزار بیوروکریٹ غیر ملکی شہری ہیں تو کون رہ گیا۔یہ لوگ پوری لٹیا ڈبو کر ہی جائیں گے جب تک ریاست میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے یہ اسے نچوڑتے رہیں گے یہ لوگ تو کچے اور پکے کے ڈاکوﺅں سے بھی بدتر ہیں وہ شاید کسی ایک پر رحم کھائیں یہ کسی پر بھی رحم نہیں کھاتے۔