امریکہ کی دھونس دھمکی اور دباﺅ کی پالیسی مزید نہیں چلے گی! روسی صدر

انٹرویو- ٹکر کارلسن
تخلیص و ترجمہ: حفیظ حسن آبادی
جب سے یوکرائن بحران شروع ہوا ہے ا±س دن سے تادم تحریر روسی آن لائن ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے پابندیوں کی زد میں ہیں۔ روس پر اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ معاشی( تجارت سے لیکر بینکنگ سیکٹر تک ) سیاسی ،سیاحتی پابندیاں لگی ہیں. ان بندشوں کے گھیرے میں پوری دنیا میں اور خاص کر تیسری دنیا میں تمام بین الاقوامی خبریں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے ہاں سے فلٹر ہو کر آتے ہیں۔ایسے میں جب ایک طرف پابندی ہو اور معلومات یکطرفہ ہوں تو حق اور باطل کا تعین مشکل ہو جاتا ہےاسی مشکل کو آساں کرنے امریکی صحافی مسٹر ٹ±کر کارلسن نے رشین فیڈیشن کے صدر مسٹرولادیمیر ولادیمیروچ پوتن کا دوگھنٹے سات منٹ کا طویل و جامع انٹرویو کیا ہےجسےاب تک صرف ایکس سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر اکیس کروڑ لوگوں نے دیکھا ہے۔
اس سے اس انٹرویو کی مقبولیت اور روسی صدر کے باتوں کی اہمیت اور ا±نھیں س±ننے کا عالمی دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انٹرویو میں کئی چھبتے سوالوں کا تفصیلی جواب موجود ہے۔جیسے نورد اسٹریم کس نے دھماکے سے ا±ڑایا ،یوکرائن میں جنگ کے اصل محرکات کیا تھے،روس امن کیلئے بات چیت کیلئے آمادہ ہے کہ نہیں ،امن مذاکرات کیوں شروع نہیں کئے جارہے،روس میں ڈالر کی بندش اور ا±س پر پابندیوں کے کیا اثرات مرتب ہوئے،کیا مستقبل میں چین روس کو اوور شیڈو کرے گا کیا روس چین کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوفزدہ ہے کہ نہیں ،برہکس بمقابلہ جی سیون کون کہاں ر±کا اورکون آگے بڑھ رہا ہے ،روس کا نیٹو ممبر بننے میں کیا امر مانع رہی ،دنیا میں نئی صف بندیاں ہورہی ہیں کیا ان تغیرات میں امریکہ اپنی بالا دست پوزیشن برقرار رکھ پائے گا کہ نہیں،یوکرائن بحران کے خاتمے کیلئے کیا کیا جائے ؟ وغیرہ وغیرہ جیسے اہم سوالوں کے جوابات کیساتھ روس اور یوکرائن کے خونی و روحانی رشتوں کی تاریخ پر مسٹر پوتن نے ابتدایہ میں سیر حاصل وضاحت کی ہے جو سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے۔ اسی اہمیت کو مدنظر رکھ کر ہم نے اسے اپنے قارئین کیلئے روسی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔مترجم
ٹاکر کارلسن : محترم صدر مملکت آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں وقت دیا تاکہ ہم آپ سے چند سوال پوچھ سکیں۔آپ نے چوبیس فروری دوہزار اکیس کو اپنے قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر ہم یوکرائن پر حملہ نہیں کرتے تو امریکہ اور نیٹو اچانک ہمارے ملک پر حملہ کرتے۔امریکہ میں اس بیان کو پاگل پن سے تعبیر کرتے ہیں ہمارے لئے یہ جاننا دلچسپ ہے کہ آپ کیسے اس نتیجے پر پہنچے کہ امریکہ یا نیٹو اچانک روس پر حملہ کر نے والے ہیں ؟
مسٹر پوتن :مسلہ یہ نہیں کہ امریکہ روس پر حملہ کرنے والا ہے اور میں نے ایسا کچھ کہا بھی نہیں ہے۔۔۔۔ مجھے لگا تھا کہ ہم سنجیدہ گفتگو کرنے والے ہیں۔یہ ٹاک شو ہے یا سنجیدہ گفتگو (پوتن نے ٹھوکتے ہوئے سوال کیا )
ٹاکر کارلسن : (ہنستے ہوئے ) سنجیدہ گفتگو ہے
مسٹر پوتن : یہ اچھی بات ہے۔جہاں تک مجھے علم ہے آپ تاریخ کے طالب علم رہے ہیں تو میں آپ کیلئے چند منٹ تاریخ کے اوراق پلٹتا ہوں۔ابتدائ کرتے ہیں اس سے کہ یوکرائن کیساتھ ہمارے رابطے کہاں سے شروع ہوئے ہیں اور یہ کہ یوکرائن کہا ں سے آئی۔
روسی حکومت آٹھ سو بیاسٹھ عیسوئی میں سینٹرلائز ہوگئی جب روس کے شمال مغربی شہر نووگراد والوں نےبادشاہ رورِک کو اسکنڈنیویا سے بلایا۔اسی تاریخ کے پیش نظر اٹھارہ سوبیاسٹھ کو روس نے اپنی حکومت کی تشکیل کا ہزاروں سال تجلیل کیا تھا۔آج بھی وہاں نووگراد میں روس کے ہزارسال پورا ہونے کا مجسمہ نصب ہے پھر اس کے بعد اٹھارہ سو بیاسی کو بادشاہ علیگ تخت نشین ہوا جورورِک کا جان نشین تھا کیونکہ رورِک جلدی فوت ہوا تھا اور ا±س کا بیٹا کمسن تھا۔ علیگ نے کیف جاکر وہاں دو بھائیوں کا تختہ ا±لٹ کر ا±سے اپنے تصرف میں لایاجو اس سے قبل رورک کے ہی نامزد نمائندے تھے۔یوں روس کے دو سینٹر ایک نووگراد اور دوسرا کیف میں تشکیل پا گیا۔دوسرا تاریخی واقعہ جو روس کی تاریخ میں بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ نوسو اٹھاسی کوجب روس میں عیسائیت کو قبولیت ملی اور آنجہانی رورِک کےپڑپوتے ولادیمیر نے خود عیسائیت قبول کرکے روس کوآرتھوڈکس عیسائیت (مشرقی عیسائیت ) کے دائرے میں لایااس کے بعد روس کی سینٹرلائز حکومت تشکیل پاکر مضبوط ہونا شروع ہوئی۔
مشترک جغرافیہ، مشترک بود وباش ،مشترک روابط ،مشترک زبان اور روس کے عیسائیت کی قبولیت کے بعد مشترک مذہب اور سب پر ایک بادشاہ کی حکومت جس نے روس کی حکومت کو مرکزیت اور قوت بخشی۔لیکن کچھ وقت بعد تخت پر رسہ کشی اور شاہی خاندان میں رنجشوں کے سبب روس کا اتحاد بکھر گیااور وہ چھوٹے چھوٹے اکائیوں میں تقسیم ہو کر بَٹ گیا۔اسمیں کوئی انوکی بات نہیں تھی یورپ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا مگر روس کا ایسے ٹکڑوں میں تقسیم ہونا چنگیز خان کیلئے آسان شکار ثابت ہوا جو ا±س وقت اپنے زوروں پر تھا ا±س نے اور ا±سکے جانشین باتی خان نے روس وارد ہو کر ہر طرف لوٹ مچائی تقریباًتمام شہروں کو تاراج کیاجنوبی علاقے جہاں کیف تھا اور دوسرے شہرتھے وہ اپنی جدگانہ حیثیت برقرار نہیں رکھ سکےجبکہ شمالی شہروں میں کچھ نے اپنی خودمختاری کو کسی حد تک اس شرط پر برقرار رکھا کہ وہ چنگیزخان کو خراج دینے آمادہ ہوئے۔
اس کے بعد پھر سے ماسکو کو مرکز بنا اور اس کے اردگردسب اکھٹے ہونا شروع ہو کر روسی حکومت کی تشکیل نو میں لگ گئے۔روس کے جنوبی علاقے جہاں کیف ہے وہ علاقے آہستہ آہستہ لیتھوانیاکے بادشاہ کی طرف کچنے لگے جس کی طرف یورپ کے کئی ممالک پہلے سے مائل تھے۔ا±ن علاقوں کیلئے ”لیتھوفسکایا روسکایا “ کا اصطلاح مروج تھا کیونکہ ا±س حکومت کی تشکیل میں روسیوں کی کثیر تعداد شامل تھی وہ قدیم روسی زبان میں بات کرتے تھےمذہب ا±نکی آرتھوڈکس تھی پھر لیتھونیا اور پولینڈ کے بادشاہوں نے اتحاد کیا چند سال بعدا±نکے درمیان ایک اور مذہبی معاہدہ ہوا جس کے تحت کچھ علاقوں کے چرچ آرتھوڈکس سے نکل کر روم کے پوپ کے زیر اثر چلے گئے اور یوں یہ زمینیں لیھتوانیا اور پولینڈ کے قبضے میں چلے گئےتو پولینڈ والوں نے ا±نھیں اپنی شناخت ترک کرکے پولش میں تبدیل یا ضم کرنے کی کوششیں شروع کردیں اپنی زبان بھول کر پولش زبان اپنانے کی طرف راغب کیا اور یہ خیال ا±نکے زہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی کہ ا±نکی الگ پہچان ہے وہ روسی نہیں ہیں۔چونکہ وہ سرحد (روسی میں “ھو کرائے “ کا مطلب کنارے میں واقع یا کنارے میں بسنے والے لوگ ) پر آباد ہیں وہ روسی نہیں یوکرائنی ہیں۔شروع میں ا±ن کیلئے ”ھو کرائنی “ اصطلاح اس لئے استعمال ہوتا تھا کہ وہ روس کے سرحد نشین لوگ تھےدوسرے لفظوں میں وہ روس کی سرحدوں کے محافظ تھے ۔وہ روسی تھے ا±نکی الگ نسلی پہچان نہیں تھی۔پولینڈ والے ا±نھیں ضم کرنے کی کوشش میں تھے مگر ا±ن (روسی زمین پر آباد لوگوں ) کے ساتھ بہت متشددانہ رویہ رکھے ہوئے تھےان مظالم کے نتیجے میں روسی زمین پر آباد لوگوں نے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد شروع کیا ا±نھوں نے وارسا (پولینڈ کا دارالحکومت )کو خط لکھ کر اپنے حقوق کے دفاع کا مطالبہ کیااور کہا کہ کسی وفد کو کیف بھیج دیں تاکہ وہ یہاں کے حالات کا قریب سے جائزہ لے۔
کارلسن : معاف کرنا میں تاریخ میں الجھ گیا کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ کب کی باتیں ہیں ؟
پوتن : یہ تیرویں صدی کی باتیں ہیں۔آگے سولہ سو چوون یا اس سے بھی کچھ وقت پہلے وارسا سے درخواست کیا گیا کہ ا±ن کے ہاں کسی روسی آرتھوڈکس کوبھیج دیں مگر وارسا نے ا±نھیں کوئی جواب نہیں دیا یا یو ں کہیے کہ ا±نکی درخواست کو درخوراعتنا نہیں سمجھا وہاں سے مایوس ہوکر ا±نھوں نے ماسکو سے یہی درخواست کیاتو ماسکو نے ا±نھیں اپنی پناہ میں لے لیا(اسی وقت مسٹر پوتن کارلسن کو ا±ن تاریخی خطوط اور دستاویزات کی کاپیاں دیتا ہے ) ان دستاویزات میں ا±س وقت کے کیف کے حاکم بگدان ملینسکی کے وہ خطوط ہیں جہاں وہ پولینڈ کی طرف سے انکار پر روسی شہنشاہ سے ا±نھیں اپنی پناہ میں لینے کی درخواست کرتاہےیہ ا±ن روسی زمینوں کے انضمام کی درخواست و دستاویزات ہیں جن کو آج ہم یوکرائن کہتے ہیں۔روس ا±نھیں فوراً لینے آمادہ نہیں تھا کیونکہ اس سے یہ خدشہ تھا کہ پولینڈ سے جنگ ہوجائے گی کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سولہ سو چوون کو ا± س وقت کےروسی پارلیمنٹ ”زیمسکی سبور “نے اس کی منظوری دی اور قدیم روس کی زمینیں پھر سے روس میں شامل کئے گئے۔جس طرح اندیشہ تھا کہ پولینڈ کے ساتھ جنگ چڑھ جائے گی ٹھیک ویسا ہی ہوا روس اور پولینڈ کے درمیان جنگ شروع ہو کر تیرہ سال تک جاری رہی بعد میں تصفیہ ہوااور ا±س تصفیہ کے بتیس سال بعد پولینڈ کیساتھ سولہ سو چوون کو دائمی امن کا معاہدہ دستخط ہوا جس کی رو سے دریا ئے دینیپر کے کنارے سے لیکر کیف تک سب علاقے روس کے تصرف میں آگئے جبکہ دینیپر کا دائیں کنارہ پولینڈ کے حصے میں چلا گیا۔بعدازاں اکتھرینہ دوئم کے زمانے میں روس نے اپنے تمام تاریخی اراضی بشمول جنوبی و مغربی سب واگزار کئے۔
پہلی جنگ عظیم کے وقت اس یوکرائنیزیشن کے خیال کوآسٹریا کے جنرل ہیڈکوارٹر نے اچھالنا شروع کیا اور اس کو خوب ہوا دیا۔اس کا مقصد سمجھ میں آنے والی ہے کیونکہ وہ کسی بھی صورت مدمقابل یعنی روس کو کمزور کرنا چاہتے تھے ا±نکی خواہش تھی کہ روس کے سرحدی پَٹی پر اپنے لئے موافق ماحول ایجاد کرے۔یہ آئیڈیا کسی زمانے میں پولینڈ میں پیدا ہوکر پھیلا تھا کہ سرحدی روسیوں کو یوکرائنی کی الگ پہچان دے کر ا±نھیں روس کے خلاف کھڑا کیا جائے اب وہ آسٹریا کے جی ایچ کیوکے توجہ کا مرکز بنا۔اسی دو¿راں یوکرائن کی آزادی کے تھیوری بنانے والے پیدا ہوگئے مگر ان دانشوروں کے ہجوم کا بھی یہی مطالبہ تھا کہ یوکرائن ایک آزاد ملک بنے مگر اس کیلئے لازم ہے کہ ا±سکے تعلقات روس کے ساتھ اچھے ہونے چائیں ا±نھوں نے اس پر بارہا زور دیا۔ انیس سو ستر ہ کے انقلاب کے بعدبالشوک قیادت نے کوشش کی کہ حکومت کو منظم کرکے چلائے لیکن ا±نکے خلاف سوویت یونین کے اندر خانہ جنگی شروع ہوئی اس جنگ میں پولینڈ بھی شامل تھا جس کے ساتھ انیس سو بائیس کو امن معاہدہ ہوااور ا±س معاہدے کے تحت دریا دینیپر کے دائیں جانب کا مغربی حصہ پھر پولینڈ کے تصرف میں گیا جبکہ انیس سو ا±نتالیس کوجب پولینڈ نے ہٹلر کیساتھ اتحاد کر کے اس کے ساتھ امن معاہدہ کر کے چیکوسلواکیہ کو ٹکڑوں یں تقسیم کرنے میں ا± س کا شریک کار رہا۔
کارلسن : آپ کہتے ہیں کہ یوکرائنی روسی ہیں اور یوکرائن صدیوں سے روس کا حصہ رہا ہے تو آپ نے صدر ہوتے ہی کیوں یوکرائن پر قبضہ نہیں کیا اور دوہزار چوبیس کو ا±س پر حملہ کیا حالانکہ آپ کے پاس ا±س وقت بھی کافی اسلحہ تھا؟
مسٹر پوتن : میں ا±س طرف آو¿ں گا مگر پہلے اس تاریخی خلاصہ کو ختم کرنا چاہوں گا۔ہوسکتا ہے کہ یہ موضوع خشک اور تھکا دینے والا ہومگر بہت سی باتوں اور حقائق کو جاننے کیلئے ضروری ہے کہ اس بحث کو مکمل کرکے سمیٹا جائے۔
کارلسن : نہیں یہ بالکل تھکا دینے والا نہیں
مسٹر پوتن : تو پھر ٹھیک ہے مجھے یہ س±ن کر خوشی ہوئی کہ آپ اس کو قابل توجہ سمجھتے ہیں۔۔۔۔جیسے کہ میں نے اوپر کہا پولینڈ نے ہٹلر کیساتھ اتحاد کیا مگر ا±سے اپنی فوجیں آگے بڑھانے دنیسک کوری ڈور نہیں دیا جس سے ا±نکے تعلقات میں کٹاس آگئی جو بعد میں ہٹلر کا پولینڈ پر حملے کا سبب بناپولینڈ اتحادی تھا مگر ہٹلر کی ہر بات ماننے آمادہ نہ تھا جس سے ہٹلر نے اپنے منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ محسوس کرتے ہوئے یکم ستمبر انیس سو ا±نتالیس کو پولینڈ پر حملہ کیا۔میں نے ا±س وقت کے تاریخی دستاویزات کا مطالعہ کیا ہے جن کی رو سے سوویت یونین نے انتہائی نیک نیتی اور خلوص کا مظاہرہ کیا تھا۔ سوویت قیادت نے پولینڈ سے اجازت طلب کیا تھاکہ وہ سوویت سپائیوں کو اپنی زمین سے گزرنے راستہ دے تاکہ وہ ہٹلر کے خلاف چیکو سلواکیہ کی مدد کرسکیں مگر پولینڈ نے اجازت نہیں دی بلکہ پولینڈ کے ا±س وقت کے وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ اگر سوویت طیارے بھی پولینڈ کی فضا سے گزریں تو وہ ا±نھیں مار گرائیں گے۔یہ بات اتنی اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی اور پولینڈ ہی اپنی ا±س سیاست کاشکارہو گئی جو ا±س نے چیکو سلواکیہ کے خلاف اپنائی تھی۔
مولوتوف اور روبنتروپ کے معروف معاہدے کے تحت مغربی یوکرائن سمیت وہ تمام اراضی واپس سوویت یونین کا حصہ بنے جو صدیوں سے روس کا حصہ تھے۔یوں سوویت یونین کے دائرے میں روس کے وہ تمام اراضی واگزار ہوئے جو مختلف ادوار میں مختلف معاہدات کے تحت ا±س سے الگ کئے گئے تھے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ تمام علاقے قانونی طور پر سوویت یونین کا حصہ بنے۔پولینڈ کو معاوضے کے طور پر اسکونا جرمنی کے مشرقی اراضی دئیے گئے جو پولینڈ کا مغربی حصہ کہلاتا ہے۔
انیس سو بائیس کو جب بالشوکوں نے یوایس ایس آر کی تشکیل کاآغاز کیا تو ا±نھوں نے سوویت یوکرائن بنایا جس کا اس سے قبل کہیں بھی بحیثیت ریاست وجود نہیں تھا۔ (جاری ہے )
اسٹالن نے تجویز رکھا کہ ان ریپبلکس کو وسیع اختیارات دئیے جائیں مگر وہ مرکز کا اٹوٹ رہیں جبکہ سوویت یونین کے بانی لینن نے اس بات پر زور دیا کہ ان ریپبلکس کو اس حد تک حقوق حاصل ہوں کہ جب وہ محسوس کریں کہ وہ ساتھ گزارہ نہیں کرسکتے تووہ الگ ہو کر آزاد ہوسکتے ہیں۔
یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ سوویت یوکرائن ریپبلک میں وہ علاقے شامل کئے گئے جو کبھی بھی یوکرائن کے حصے نہیں رہے تھے یہاں تک کہ بحراسودکا کنارہ جو اکتھرینہ دوئم کے زمانے میں روس میں شامل کئے گئے تھےجن کا تاریخ میں کبھی بھی کسی بھی دو¿ر میں یوکرائن کیساتھ کو ئی ربط نہیں رہا ہے۔اگر ہم پلٹ کر سولہ سو چوون کو لوٹیں وہاں بھی جدید یوکرائن کے چند ٹکڑے ہیں وہاں دور دور تک بحر اسود کا یوکرائن سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔
کارلسن : آپ کی معلومات انسکلوپیڈیا کی طرح وسیع ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے حکومت میں بائیس سال گزارے مگر اس دو¿راں اس موضوع پر کیوں کوئی بات نہیں کیا ؟
مسٹر پوتن : سوویت یوکرائن کو وسیع علاقے ملے جو کبھی اس کے نہیں رہے تھے خاصکر بحر اسود کے علاقے جو روس نے روس ترکیہ جنگ کے نتیجے میں حاصل کئے تھےاور وہ علاقے ا±س وقت نیو روس کہلاتے تھے۔اس میں بڑی بات یہ ہے کہ سوویت یونین کے بانی لینن نے یوکرائن کو یہی شکل دیا۔یوکرائن ریپبلک سوویت یونین کے دائرے میں ترقی کرتا گیا اور نہ جانے کیوں بالشوک بھی کسی حد تک یوکرائنیزیشن میں ملوث رہےاس کا مطلب یہ نہیں کہ ماسکو میں قیادت کی اکثریت یوکرائن کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے بلکہ ا±س وقت مرکز میں سیاست کا رحجان ایسا تشکیل پاچکا تھاکہ قومیتوں کی جڑیں مضبوط کئے جائیں قوموں کی زبانیں ا±نکی ثقافت،ا±نکے رہن سہن ،ا±نکا ادب وغیرہ سب محفوظ رہ کر ترقی کریں جویقیناً ایک درست عمل تھا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یوکرائن کو نہ صرف پولینڈ سے حاصل کئے گئے علاقے ملے جو آج مغربی یوکرائن کہلاتے ہیں بلکہ کچھ ھنگری اور کچھ رومانیہ کے علاقوں کو بھی سوویت یوکرائن کے ساتھ شامل کیا گیا۔مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں یوکرائن ایک مصنوعی ملک ہے جسے اسٹالن نے بنایا۔
کارلسن : آپ کے خیال میں ھنگری اور دیگر ممالک جن کے اراضی بزور قبضہ کرکے یوکرائن میں شامل کئے گئے ہیں واپس اپنے تاریخی ملکوں کو واپس کئے جائیں اور سولہ سو چوون کی سرحدوں پر سب واپس لوٹ جائیں؟
مسٹر پوتن : میں یہ نہیں کہتا کہ سولہ چوون کےمعاہدے پر عمل درآمد ہو اور میں نہیں جانتا کہ ایساممکن ہے بھی کہ نہیں البتہ اتنا ضرور کہتا ہوں کہ مغرب میں استالن کی حکومت کو رجیم کہتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ ا±س نےمتشددانہ فیصلے کئے ہیں ،سنگین انسانی حقوق کی پائمالیاں کی ہیں اورمختلف قوموں کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں وغیرہ وغیرہ تو اس کے پیش نظر وہ قومیں حق رکھتی ہیں کہ اپنے مقبوضہ علاقوں کے واگزاری کی بات کریں کوئی انھیں یہ حق دیتا ہے کہ نہیں یہ الگ بات ہے۔
کارلسن : کیا آپ نے اس سلسلے میں ا±ربن (ھنگری کے صدر )سے بات کی ہے کہ وہ یوکرائن کے قبضے میں اپنے علاقوں کی واپسی کی بات کرے ؟
مسٹر پوتن : نہیں کبھی نہیں !اس موضوع پر میری ا±س سے کبھی تبادلہ خیال نہیں ہوا۔تاہم یہ بات میں اچھی طرح جانتا ہوں جو ھنگرین وہاں رہتے ہیں ا±نکی خواہش ہے کہ وہ اپنے تاریخی وطن ھنگری کا حصہ بنیں۔ایک دلچسپ کہانی شئیر کرتا ہوں اَسی کی دہائی میں میں گاڑی پر لینن گراد( موجودہ سانت پیتربورگ )سے سوویت یونین کے سیر کو نکلاجاتے جاتے کیف سے ہوتے ہوئے مغربی یوکرائن پہنچا وہاں ایک شہر ہے بیریگاوئے وہاں یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی جب
دیکھا تمام شہروں ،دیہاتوں ،دکانوں وغیرہ کے نام روسی اور ایک ایسے زبان میں لکھے ہیں جو میں نہیں جانتا اوروہ زبان ھنگرین تھی تمام بورڈ وغیرہ روسی اور ھنگرین زبان میں لکھے گئے تھے کہیں بھی یوکرائنی میں کچھ بھی نہیں لکھا گیا تھاآگے جاتے ہوئے ایک گاو¿ں میں ایسے لوگ ملے جو حویلیوں کے باہر تری پیس سوٹ کیساتھ کالی سلینڈر والی ٹوپی پہنے بیٹھے تھے۔میں نے لوگوں سے پوچھا کیا یہ آرٹسٹ ہیں اور کسی شوٹنگ کے لباس میں ہیں مجھے کہا گیا نہیں یہ ھنگرین ہیں یہ ا±نکا قومی لباس ہے میں نے استفسار کیا ھنگرین یہاں کیا کررہے ہیں تو مجھے کہا گیا یہ ا±نکی زمین ہے وہ اپنی زمین پر اپنی پوشاک میں بیٹھے ہیں۔انھوں نےسوویت دو¿ر حکومت میں اپنا سب کچھ سنبھال کے رکھا تھا۔
کارلسن : یقیناً بہت سے ممالک اور بہت سی قومیں بہت سی سرحدی حد بندیوں کو درست نہیں مانتے خاص کر بیسویں صدی میں مگریہاں بات یہ ہے کہ آپ نے یہ باتیں پہلے کیوں نہیں کیں خاص کر گزشتہ دو برسوں سے۔آپ نے کہا تھا کہ آپ کو جسمانی طورپر خطرات درپیش ہیں ،امریکہ اور نیٹو کی طرف سے حملوں کے خطرات کے پیش نظر آپ نے یہ قدم ا±ٹھایا ہےکیا میں آپ کو درست سمجھا ہوں ؟
مسٹر پوتن : ہو سکتا ہے میری تفصیلی تشریع آپکے انٹرویو کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو اس لئے میں نے شروع میں کہا تھا کہ ہم سنجیدہ گفتگو کرنے والے ہیں یا آپ ٹاک شو چاہتے ہیں تو آپ نے کہا تھا سنجیدہ گفتگو ہوگی لہذا آپ مجھ سے ناراض نہ ہوجائیں ( کارلسن زور سے ہنستا ہے اورمسٹر پوتن اپنی گفتگو جاری رکھتا ہے ) ہم ا±س مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے سوویت یوکرائن کی تشکیل ہوتی ہے۔
بعدمیں انیس سو بیانوے آتا ہے جب سوویت یونین ٹوٹ جاتا ہےتو یوکرائن کو جو کچھ بڑے بھائی(روس ) کی طرف سے مفت میں ملا تھا اپنے ساتھ لے گیااب میں بہت اہم بات کی طرف جارہاہوں جو بہت ہی غور طلب ہے وہ یہ کہ اگرغور سے دیکھا جائے تو سوویت یونین کا خاتمہ یہاں کی لیڈرشپ کی طرف سے رضاکارانہ طور پر ہوا جہاں تک روسی قیادت کا یوکرائن سے تعلقات سے متعلق خیال ہوگااس بارے میں ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ یوکرائن بارے چند بنیادی حقائق کے سبب مطمئن ہوں گے کہ ہمارے تعلقات خوشگوار اور برادرانہ رہیں گے پہلا یہ کہ ہم ایک زبان بولتے ہیں یوکرائن کی نوے فیصد لوگ روسی بولتے ہیں دوسرا خونی رشتے وہاں ہر تیسرے آدمی کے روسیوں کیساتھ خونی رشتے اور دوستانہ تعلقات ہیں تیسرا مشترکہ کلچر ،تہذیب و تمدن چوتھا مشترکہ تاریخ مشترکہ مذہب ،پانچواں گہرے اور مفاد بخش اقتصادی رابطےیہ ساری چیزیں اتنی بنیادی ہیں کہ جو صدیوں سےایک ملک میں ایک ساتھ رہنے سے یہ احساس دلانے کافی ہوں کہ ہم آئندہ بھی اچھے ہمسایوں کی طرح بہتر تعلقات استوار کرکے رہیں گے۔
یہاں ایک اور بات انتہائی اہم ہے جو مغربی دنیا کے لوگوں کو جاننا ضروری ہے وہ یہ کہ یہاں کی قیادت نے رضاکارانہ طور پر سوویت یونین کا خاتمہ کیا اور یہ قدم ا±نکی طرف سےمغربی دنیا کو ایک خیرسگالی پیغام تھا کہ اب وہ نظریاتی اختلافات باقی نہیں رہے جسکی بنیاد پر ایک جارہانہ رقابت چل رہی تھی۔روسی قیادت کو توقع تھی کہ امریکہ اور نام نہاد "مہذب دنیا”ا±نکی اس دریادلی کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی اور ا±نکے ساتھ اتحاد اور ایک ساتھ کام کرنے کی راہیں تلاش کرے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ ا±س وقت بھی کئی زہین لوگ تھے جو درست مشورہ دے رہے تھے ا±ن میں جرمنی کے معروف سیاستداں ھیگن باربل شامل ہیں جس نے سوویت یونین کے بکھرنے سے پہلے سوویت قیادت کو مشورہ دیا کہ دو جرمن ریاستوں کو ملانے سے پہلے یہاں یورپ کے تحفظ کیلئے نیٹو کی جگہ نیا اتحاد تشکیل دیا جائے جس میں امریکہ ،روس ،جرمنی ،کینیڈا اور دیگر مرکزی یورپ کے ممالک شامل ہوں اور ا±نھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایسا نہیں ہوا اور نیٹو برقرار رہ کر پھیلتا رہا تو آج جس سرد جنگ کے کشمکش کے خاتمہ کا ہم جشن منائیں گے کل اس سے بھی بڑا مصیبت یہاں ہمارے پہلو روس کے سرحد پر سر ا±ٹھائے گا مگر کسی نے ا±نکی نہیں س±نی جب اس نے دیکھا کوئی میری بات س±ننے تیار نہیں تو وہ ناراض ہو کر یہ کہکر چلا گیا کہ اگر آپ لوگ میری بات نہیں مانتے تو میں آئندہ ماسکو نہیں آو¿ں گا یہ ساری باتیں ہماری آرکائیو کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔بعد میں بالکل ویسا ہی ہوا جس طرح ا±س نے کہا تھا۔
کارلسن : امریکہ میں بھی لوگ ایسے سمجھ رہے تھے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تعلقات میں بہتری آئے گی مگر ایسا نہیں ہوا کہیں ایسا نہیں کہ مغرب طاقتور روس سے خوفزدہ ہے لیکن طاقتور چین سے نہیں ڈرتا ہے اس بارے میں آپکی رائے کیا ہے ؟
مسٹر پوتن :(اطمنان سے )مغرب مضبوط روس کی نسبت مضبوط چین سےکئی زیادہ خوفزدہ ہے روس کی آبادی ایک سو پچاس ملین ہے جبکہ چین کی آبادی ڈیڑھ ارب ہے اور وہ بڑی تیزی سے ترقی کے منازل طے کررہا ہے پانچ فیصد سالانہ کے ریٹ سے ترقی کررہاہے اس کے ترقی اور نشو و نما کے امکانات ناقابل بیان حد تک بڑے ہیں۔آج چین کی معشیت حجم اور قوت خرید میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جس نے امریکہ کو کب کا پیچھے چھوڑ دیا ہےتاہم آج اس بحث میں نہیں الجھیں گے کہ کون کس سے ڈرتا ہے بلکہ اس پربات کرتے ہیں کہ آپ ( امریکہ) نے ہمیں دھوکہ دیا جو ہم یہ توقع کئے ہوئے تھے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغرب روس کو اپنے "برادرانہ "اجتماعی فیملی کا حصہ بنائے گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہمیں کہا گیا کہ نیٹو مشرق کی طرف نہیں پھیلےگا مگرا±نھوں نے وعدہ خلافی کی اور ایک بار نہیں بلکہ پانچ دفعہ وعدہ خلافی کی۔ اس عرصے میں ہم نے بار بار کہا کہ ہم سے روا رکھا گیا یہ جارحانہ رویہ ٹھیک نہیں کیونکہ اب ہم آپ کے اپنے ہیں یہاں اب سوشلزم نہیں بلکہ آپکی طرح مارکیٹ اکنامی ہے آئیں گفت و شنید کے زریعے تمام معاملات نمٹائیں گے۔
ابتدائ میں سب اچھا دکھائی دے رہا تھا دونوں طرف بڑی گرمجوشی تھی ایلسن نے امریکہ کا دورہ کیا کانگریس سے خطاب کیا ہے ا±س نے کہا "خدا امریکہ کو محفوظ رکھے "یہ ساری سرگرمیاں یہ باتیں ہماری طرف سے اس بات کے اشارے تھے کہ ہمیں اپنے پاس آنے دو اس دو¿راں وہاں مغرب میں بوریس ایلسن کی بڑی تعریفیں ہونے لگیں لیکن جونہی یوگوسلاویہ میں حالات بگڑ گئے اورا±س نے اصولی طور پر ہمارے قومی و مذہبی قریبی سربوں کے حق میں بولنا شروع کیا تو امریکہ نے یو این کے چارٹر کے خلاف وہاں بیلگراد پر بمبارمنٹ کی اورا±ن کے "دوستی "کا جن اپنے دشمنی کے بھیانک شکل کیساتھ بوتل سے باہر آگیا۔جب ایلسن نے یواین او کے چارٹر کا حوالہ دیا تو ا±سے برملا کہا گیا کہ یو این او کے قوانین اب پ±رانے ہوچکے ہیں جبکہ آج سب ا±نہی بین القوامی قوانین کاحوالہ دیتے ہیں جن کے بارے میں ا±س وقت کہتے تھے کہ یہ قوانین زائدالمعیاد ہیں اور انھیں بدلنے کی ضرورت ہے۔ہم بھی کہتے ہیں کچھ قوانین میں ترمیم و بہتری کی گنجائش موجود ہے ا±ن میں بہتری لائی جائے تاکہ دنیا میں طاقت کا توازن برقرار رہے۔
بیلگراد پر حملوں کی مخالفت کی وجہ سے مغرب میں ایلسن پر کیچڑ اچھالناشروع ہوا ا±س کے خلاف طرح طرح کی باتیں کی جانے لگیں ا±نھیں عقل و خرد سے عاری شرابی بیوڑا کہا گیا۔
سن دوہزار کو میں نے اقتدار سنھبالا تو میں نے کہا یوگوسلاویہ کا موضوع اب بند ہوچکا ہے چلو ایک بار پھر سے سرد مہری کا شکار تعلقات میں بہتری لانے اور ا±س دروازے کو کھولنے کی سعی کریں جسے روس نے کھولنے کی کوشش کی تھی اس بارے میں میں نے پہلے بھی کھلے عام بات کی ہے یہاں پھر دہراتا ہوں کہ یہاں کریملن میں میں نے بل کلنٹن سے کہا "بل آپ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں کہ روس نیٹو ممبر بننے کے خواہش کا اظہار کرے ،اور کیا ایسا ممکن ہے کہ روس نیٹو کا ممبر بنے ؟
ا±س نے کہا
یہ دلچسپ سوال ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ ممکن ہے
لیکن شام کو جب ہم عشایہ میں ملے تو ا±س نے کہا
میں نے اپنے ٹیم سے مشورہ کیا ہے تو ا±نھوں نے کہا ہے کہ فی الحال یہ ممکن نہیں
کارلسن : کیا آپ سنجیدہ تھے ؟
مسٹر پوتن : ہم قریب آنے اور ایکساتھ کام کرنے سنجیدہ تھے اس لئے ا±نکا موقف جاننے یہ سوال کیا
کارلسن : اگر جواب ہاں میں ہوتاتو کیا آپ نیٹو کا حصہ بننے آمادہ تھے
اگر دوسری طرف سے جواب مثبت ہوتا تو اسکے بعد اس موضوع پر بحث مباحث کے دروازے کھلتے ہم کسی نہ کسی راہ کی تلاش میں شاید کسی نتیجے پر بھی پہنچتے مگر ابتدائ میں "نہیں "نے تمام دروازے بند کردئیے۔
کارلسن: لگتا ہے آپ کو اس منفی جواب سے بہت تکلیف ہوئی ہو گی
مسٹر پوتن : نہیں ہمیں کوئی تکلیف یا افسوس نہیں ہوا یہ فقط حقائق کا اظہار ہے جو میں کررہا ہوں ہم ایک دوسرے کے منگیتر تو نہیں تھے جو جدائی سے تکلیف یا افسوس ہو بس ا±نکے جواب سے ہم یہ سمجھ گئے کہ وہاں کوئی ہمارا منتظر نہیں۔ ا±نھوں نے کیوں ہمیں منفی جواب دیا اس سوال کا جواب ہمارے پاس نہیں آپ ا±ن سے جاکر پوچھ لیں ۔میں ا±ن کی طرف سے اسکی وضاحت نہیں کر سکتا البتہ اندازہ لگا سکتا ہوں کہ شائد ا±نھوں نے یہ سوچا کہ یہ ایک وسیع جغرافیہ کا ملک ہے جس کا کئی معاملات بارے اپنا نکتہ نظر ہے وغیرہ وغیرہ ۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ نیٹو میں معاملات کیسے نمٹائے جاتے ہیں مسلہ یوکرائن اسکی تازہ مثال ہے امریکہ نے بٹن دبایا اور سب نیٹو ممالک ا±س کے پیچھے ہو لئے حالانکہ وہاں جو کچھ ہورہا ہے کئی یورپی ممالک کو پسند نہیں مگر وہ امریکی فیصلے کے سامنے کھڑے نہیں ہوئے۔اس کے بعد ہم نے مختلف طریقوں سے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کی اس دو¿ران مشرق وسطیٰ، عراق میں واقعات رونما ہوئے اختلاف نظر رکھنے کے باوجود ہم نے بہت ہی سلیقے اور احتیاط سے امریکہ سے کہا کہ وہ شمالی قفقاز میں علیحدگی پسندوں اور دہشتگردوں کی حمایت نہ کرے مگر انھوں نے اپنی سیاسی، اطلاعاتی، اقتصادی اور یہاں تک کہ جنگی مدد و حمایت جاری رکھی
ایک دفعہ یہی بات میں نے اپنے امریکی ہم منصب سے براہ راست کہا کہ آپ لوگ قفقاز میں دہشتگردوں کی مدد کررہےہیں تو ا±س نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیا آپ کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ امریکہ ایسا کررہا ہے ؟
میں نے کہا بالکل کیونکہ میں نے اس گفتگو کیلئے پوری تیاری کی ہوئی تھی اور اسکے سامنے ثبوتوں پر مبنی فائل رکھا ا±س نے فائل کھول کر دیکھا کچھ دیر پڑھنے کے بعد(معذرت کیساتھ )اپنی ایڈمنسٹریشن کو گالی دیتے ہوئے کہا میں ان کا۔۔۔۔ پھاڑ دوں گا
اسکے بعد ہم عملی اقدامات اور جواب کا انتظار کرتے رہے مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تومیں نے فیڈرل سیکورٹی سروس (سابقہ کے جی بی ) کے ڈائرئکٹر کو کہا کہ اپنے چینل سے سی آئی اے کو خط لکھ کر ا±س گفتگو اور ا±نکے صدر کے وعدے پر عمل درآمد کے بارے میں پوچھ لے انھوں نے ایک دو خط لکھے بعد میں سی آئی اے کی طرف سے جواب آیا جو ہمارے ریکارڈ میں موجود ہے۔ا±ن کا جواب تھا کہ ہم اس سلسلے میں روسی اپوزیشن سے رابطے ہیں ا±نھوں نے کہا ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ درست ہے لہذا یہ سلسلہ جاری رہے گا
کارلسن : امریکہ کے نکتہ نظر سے روسی حکومت کا اپوزیشن کون تھا ؟
پوتن : چیچن علیحدگی پسند دہشتگرد جو روس کے خلاف لڑ رہے تھے وہ انھیں ہماری اپوزیشن کہہ رہے تھے روس کیساتھ وعدہ خلافی کا یہ دوسرا واقعہ تھا تیسری بار روس کو الگ رکھنے بہت بہت اہم بات ہوئی جب امریکی میزائل ڈیفینس سسٹم پر کام کی ابتدائ ہوئی تو ہم نے بہت عرصے تک ا±نھیں یہ قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ کام مت کیجئے ۔بعد میں جب میں ب±ش سینئر کے دعوت پر امریکہ گیا تو وہاں ہماری ا±نکی ایڈمنسٹریشن اور خود صدر سے بہت ہی سنجیدہ بات چیت ہوئی۔ ہم نےتجویز دیا کہ امریکہ اکیلے میں یہ کام کرنے کے بجائے امریکہ ،روس اور یورپ مل کر اشتراک عمل سے مشترک میزائل ڈیفینس سسٹم بنائیں کیونکہ ہمارے خیال میں اگر کسی نے الگ ایسے سسٹم پر کام کرنا شروع کیا تو وہ ہمارے لئے خطرات پیدا کرسکتا ہے۔گوکہ ا±س وقت امریکہ کی طرف سے رسمی طور پر یہی کہا جاتا تھا کہ یہ سسٹم ایران سے راکٹوں کے حملوں کے خطرات کے پیش نظر ا±سی کے خلاف بنائی جارہی ہے اوریہی دلیل اس کے بنانے کا محرک تھا۔ میں نے کہا کہ تصور کریں کہ ہمارا یہ ممکنہ پروجیکٹ دنیا میں تحفظ کے حوالے سے کس قدر بے مثال اسٹرٹیجی اہمیت کا حامل ہوگا کہ ہم اس کی مدد سے عالمی طور بیشمار بنیادی اہمیت کے حامل چیزوں پر براہ راست اثر انداز ہوکر ا±نھیں توازن میں رکھنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔اس دو¿راں شائدکئی باتوں پر ہم ایک دوسرے سے اختلاف نظر رکھیں بحث مباعث کریں مگر ایک بات طے تھی کہ ہم عالمی سیکورٹی کے حوالے سے مطمئن ہوتے مجھے کہا گیا کہ کیا آپ سنجیدگی سے یہ تجویز رکھ رہے ہیں جب ہم نے ہاں کہا تو ہمیں کہا گیا کہ ہمیں سوچنے کیلئے وقت درکار ہوگی میں نے کہا بالکل آپ اس پر سوچیں۔ بعد میں امریکی وزیر دفاع بل گیٹ یہاں آیا ا±س کے ساتھ سی آئی اے کا ڈائریکٹر اور وزیر خارجہ کنڈلیزہ رائز بھی تھیں ا±ن سے گفتگو میں میرے ساتھ روسی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع شریک تھے ا±نھوں نے اطلاع دیا کہ ہم آپ کی تجویز پر غور خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آپ کا تجویز درست اور قابل عمل ہے ہم بہت خوش ہوئے کہ کسی ایک نکتے سے اشتراک عمل کا آغاز تو ہوگیا۔ اگلے لمحے انھوں نے کہا کہ ہم راضی ہیں مگر کچھ شرائط کیساتھ۔
کارلسن : اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کےصدور نے دو دفعہ آپ کے تجاویز کو درست مانا ہے مگر ا±نکے ایڈمنسٹریشن ا±ن کے فیصلوں پر اثر انداز ہوکر ا±نھیں انکار پر مجبور کیا ہے؟
پوتن : بالکل ایسا ہی ہے آپ کہہ سکتے ہیں کہ بالآخر انھوں نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ وہ ہمارے ساتھ ملکر اشتراک عمل کیلئے آمادہ نہیں۔تب ہم نے کہا کہ اگر آپ اکیلے ڈیفینس سسٹم بنانے جارہے ہیں تو ہم بھی جوابی اقدامات ا±ٹھا کر ایسے تباہ ک±ن حملے کی صلاحیت رکھنے والے راکٹ و میزائل بنائیں گے کہ جنہیں آپ کا ڈیفنس سسٹم روک نہ پائے۔تو ہمیں کہا گیا کہ ہم آپ کے خلاف کچھ نہیں بنارہے آپ جو چاہے بنا لیں تو ہم یہ سمجھیں کہ آپ جو بنا رہے ہیں وہ امریکہ کے خلاف نہیں ہوگا۔ہم نے کہا ٹھیک ہے اور جواب میں ہم نے ہائپرسونک مار کرنے والے میزائل بنائےاور وہ بھی براعظموں کے درمیان فاصلوں کر چھیرتے ہوئے بلاسٹک میزائل !کہ جن کو ہم روزانہ کی بنیاد پر بہتر سے بہتر بنارہے ہیں اور ہم آج ہائپر سونک مار کرنے والے سسٹم بنانے میں امریکہ سمیت تمام دنیاسے بہت آگے ہیں ہم یہ رقابت نہیں چاہتے تھے بلکہ ہماری خواہش تھی کہ اشتراک باہمی سے آگے بڑھا جائے مگر ہمیں دور دھکیلا گیا ۔
اب نیٹو کو مشرق کی طرف نہ پھیلانے کے موضوع کی طرف آتے ہیں ا±س وقت وعدہ کیا گیا کہ نیٹو مشرق کی طرف ایک انچ بھی نہیں پھیلایا جائے گا وعدہ کیا گیا مگر اس پر دستاویز وغیرہ نہیں بنایا گیا کہ جس پر طرفین دستخط کرتے اسی سے فائدہ ا±ٹھاتے ہوئے ا±نھوں نے نیٹو کو پانچ بار پھیلایا ۔وہاں پری بالٹک ریاستوں کو کھینچ کر شامل کیا سارے مشرقی یورپ کو نیٹو کاحصہ بنایا اور اب دیکھو یوکرائن تک پہنچ گئے۔
دوہزار آٹھ کو بخارسٹ(رومانیہ ) سمٹ میں کہاگیا کہ یوکرائن اور جارجیاکیلئے نیٹو کے دروازے کھلے ہیں لیکن جرمنی ،فرانس اور کچھ دیگر ممالک اس فیصلے کے خلاف تھے مگر بعد میں ہمیں کہا گیا کہ ب±ش نے ہم پر دباو¿ ڈالا ہے کہ ان کو نیٹو کا حصہ نہ بنایا جائے اس لئے ہم نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ بعد میں کہا کہ یوکرائن کو نیٹو ممبر شپ نہیں دی جائیگی ہم نے پوچھا کیوں اب یوکرائن کو شامل نہیں کیا جائے گا پہلے تو دوہزار آٹھ میں آپ لو گ انھیں ساتھ لینے بڑے پ±ر ا±مید دکھائی دے رہے تھے تو کہنے لگے وہ اور وقت تھا پہلے ہم پر ا±نھیں ساتھ لینے دباو¿ تھا بعد میں ساتھ نہ لینے پر دباو¿ ڈالا گیا تو میں نے کہا اگر آپ اتنی جلدی دباو¿ میں آتے ہیں تو کیا خبر کل کسی اور دباو¿ میں کیا فیصلہ کر بیٹھیں گے۔ ا±ن کے حرکات ا±نکی باتیں بچوں جیسی سطحی ہیں جن میں کوئی سنجیدگی کوئی منطق نہیں۔ ہم ہر طرح کی بات چیت کیلئے تیار ہیں مگر بات کریں تو کس سے کریں ؟ کسی بھی بات کی کوئی گارنٹی نہیں۔
اب آتے ہیں یوکرائن کی طرف کہ ا±س کے بارے میں میں نے ابتدائی مقدمے میں کہا کہ کیسے ہم ایک دوسرے کیساتھ صدیوں سے سیاسی،اقتصادی،مذہبی و خونی رشتوں میں بندھے ہیں ا±سے جب سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ایک فرمان (ڈکلئیریشن )کے زریعے آزادی دی گئی ا±س میں لکھا ہے کہ یوکرائن ایک نیوٹرل ریاست ہوگی لیکن دوہزار آٹھ کو ا±س کے لئے اچانک نیٹو کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ۔یہ کیسا ڈرامہ ہے ؟ دیکھیں ہمارے اور مغربی پارٹنرز کے درمیان معاہدات میں یہ سناریو شامل نہیں تھا۔ یوکرائن میں جتنے بھی صدور آئے ہیں سب نے جنوب مشرقی یوکرائن کی لابی کی طرف جھکاو¿ رکھتے ہوئے یہ کوشش کی کہ روس کیساتھ بہتر تعلقات برقرار رہیں یہ بہت پ±ر ہجوم وبااثر لابی ہے اور اِسے توڑ کر روس کے خلاف پالیسی بنانا بہت مشکل تھا ۔الیکشن میں کوچما کے بعدوکتر یونوکووچ جیت گیا مگر امریکہ کے کہنے پر اسکی کامیابی کو تسلیم نہیں کیا گیا اور ایک ہی الیکشن کےتیسری بار انعقاد کا بندوبست کیا گیا جسکی یوکرائن کے آئین میں کوئی گنجائش نہیں یہ دراصل ریاستی کودتا تھا۔ امریکہ نے اس ریاستی کودتا کی حمایت کی کیا کوئی امریکہ میں یہ تصور کرسکتا ہے کہ اگر الیکشن میں کسی کے خواہشات کے مطابق نتیجے نہیں آئے تو وہ تیسری بار الیکشن کروائے جس کی وہاں کے آئین میں گنجائش نہیں۔ امریکی مداخلت کے نتیجے میں وکتر یوشنکا صدر منتخب ہوا جسے مغرب کا حمایت یافتہ کہا جاتا ہے لیکن ہم نے ا±س کے ساتھ بھی تعلقات استوار کئے وہ ماسکو دورے پر آئے ہم وہاں کیف دورے پر گئے۔ہماری ا±نکے ساتھ غیررسمی ملاقاتیں بھی ہوئیں ہم نے اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کی کہ ا±س کاجھکاو¿ مغرب کی طرف ہےبلکہ ہم اس بات کے قائل رہے ہیں کہ جو بھی تبدیلی آنی ہے وہ یوکرائن کے اندر سے آئے اور کوئی بیرونی قوت ا±س پر اثر انداز نہ ہو۔بحرحال یوکرائن میں حالات بگڑ گئے اور وہ اپنی حکومت سنھبال نہیں پائے اور وکتریونوکووچ واپس اقتدار میں آئے ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ اچھا سیاستداں تھا کہ نہیں ہم اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتے تاہم ا±س کے دو¿ر میں جب یوکرائن کا مغربی ممالک کیساتھ ایسوسیشن کا سوال آیا تو ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور اس بارے میں ہمیشہ طرح بالکل اطمنان کا ردعمل دیا مگر جب ہم نے ان کے ایسوسیشن کے دستاویز کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اس سے ہمارے لئے مسلے کھڑے ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمارے یوکرائن کیساتھ لمبی مشترک سرحد ہے ، اوپن کسٹم بارڈر ہے ،آزادانہ تجارت و بغیر ویزہ آمد ورفت ہے۔ا±س دستاویز کے مطابق یوکرائن اپنی سرحد یورپی ممالک کیلئے کھول دے گا اور وہ(یورپی ممالک ) یوکرائن کے زریعے ہماری مارکیٹ تک بے دھڑک رسائی حاصل کریں گے۔تب ہم نے کہا یہ قدم ہمارے لئے قابل قبول نہیں اگر یوکرائن ایسا معاہدہ کرے گا تب ہمیں مجبوراً یوکرائن کیلئے اپنی کسٹم بارڈر بند کرنی پڑے گی۔یونوکووچ نے بیٹھ کر حساب لگا نا شروع کیا کہ اس معاہدے سے یوکرائن کو کتنا فاہدہ اور کتنا نقصان ہو گا۔اندازہ لگانے کے بعد ا±س نے اپنے یورپی دوستوں سے کہا کہ ایسا معاہدہ دستخط کرنے سے قبل وہ اس پر غور و غوض کریں گے ۔جونہی اس نے ایسا کہا اس کے بعد مغربی ممالک کی پشت پناہی میں یوکرائن کے اندر توڑ پھوڑ شروع ہوئے اور بحرانوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ بات میدان تک پہنچی جو بعدازاں کودتا کے زریعے حکومتی تبدیلی پر منتج ہوئی۔
کارلسن : کیا یورپ کے بہ نسبت روس کیساتھ تجارت میں یوکرائن کو زیادہ فائدہ تھا ؟
پوتن :بالکل بلا کسی تردید کے ایسا ہی ہےمگر یہاں بات صرف تجارت کی نہیں بلکہ باہمی روابط کی ہے کہ جنکی بنیاد پریوکرائن کی پوری معشیت کھڑی ہے۔دونوں طرف کے باہمی روابط آپس میں ایسے ملے ہوئے تھے خاص کر انٹرپرائزز کے شعبے میں کارخانوں کے درمیان گہرے روابط ایسے تھے کہ ایک شعبے میں یوکرائن ہماری ضرورتوں کو پورا کرتا تو دوسرے شعبے میں ہم ا±نکے تقاضوں کو پورا کرتے۔
اس میں افسوسناک بات یہ ہے کہ منتخب حکومت کے خلاف کودتا کیا گیا اس سے پہلے ہمیں امریکہ کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ہم حزب اختلاف کی مدد اور حوصلہ افزائی نہیں کریں گے وہاں آپ لوگ یونوکووچ کو سنھبالیں کہ وہ حزب اختلاف کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرے تاکہ سیاسی معاملات داخلی طور پر خود بخود ٹھیک ہوجائیں ۔ہم نے کہا ٹھیک ہے اور یونوکووچ نے طاقت کے استعمال سے اجتناب کیا جس طرح امریکہ نے ہم سے کہا تھا لیکن امریکہ کی برقرار مدد سے حزب اختلاف نے مسلح حملہ کرکے کودتا کیا۔اس رویے کو کیا نام دیا جائے کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ہماری حیثیت ا±نکی نظروں میں کیاہے؟
کارلسن : آپ کے خیال میں یہ کس کا کام تھا ؟
پوتن : یقیناً سی آئی اے کی مدد سے یہ سب کچھ ہوا ،ٹیکنیلکی ا±نھوں نے ٹھیک کیا جو وہ چاہتے تھے وہ حاصل ہوگیا حکومت تبدیل کرنا چاہتے تھے وہ تبدیل ہوگئی مگر سیاسی لحاظ سے یہ نا قابل تلافی غلطی تھی سیاسی قیادت کو یہ دیکھنا چاہیئے تھا کہ مستقبل میں اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔
دوہزار آٹھ کو یوکرائن کیلئے نیٹو کے دروازے کھولے دوہزار چودہ کو کودتا کرایا اور یہ تمام معنوں کیساتھ کودتا ہی تھا جن لوگوں نے اس کودتا کو تسلیم نہیں کیا ا±نھیں تشدد کا نشانہ بنا کر ہرطرح سے تنگ کیا جانے لگا ،کریمیا کیلئے خطرات پیدا کئے جن کے پیش نظر ہم نے کریمیا کو اپنے زیرسایہ لیا ،دنباس میں جنگ شروع کیا وہاں عام لوگوں کیخلاف گن شپ کیساتھ آرٹیلری کااستعمال کیا یہی سے سب کچھ شروع ہوا جن کے ثبوت ویڈیوکی شکل میں موجود ہیں کہ کیسے گن شپ سے دنیسک پر حملہ کیا جارہا ہے۔ ایک شدید فوجی آپریشن شروع کیا جس میں کامیاب نہیں ہوئے تو پھر سے تیاری کرکے دوبارہ فوجی آپریشن کیا ۔عذر کیا تھا کہ ہم فوجی قوت سے اس علاقے کو فتع کریں گے اور دوسری طرف نیٹو ا±ن کیلئے دروازہ کھول رہاتھا اس صورتحال میں ہم کیسے تشویش میں مبتلا نہیں ہوتے اور سب کچھ ایسے ہی رہنے دیتے؟ اگر ہم ا±س صورتحال میں خاموش رہتے اور کچھ نہیں کرتے تو یہ ہماری طرف سے مجرمانہ عمل ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ امریکی سیاسی قیادت نے ہمیں بزور دیوار سے لگایا ا±ن کا یہ عمل روسی ریاست کو تباہ کرسکتا تھااس لئے ہمارے پاس ردعمل دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ایسے حالات ہم اپنے ہم مذہب اور روسی بہن بھائیوں کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتے تھے جب ا±ن پر ٹینک چڑاھئے اور گن شپ سے گولے گرائے جارہے تھے۔ کارلسن : پر یہ سب کچھ جنگ سے آٹھ سال قبل ہوا تھا تو اب کس چیز نے آپ کو یہ بڑا قدم ا±ٹھا نے مجبور کیا ؟
ہمیں سخت اقدامات ا±ٹھانے کیلئے یوکرائن میں کودتا نے مجبور کیا یاد دلاتا چلوں کہ ا±س وقت اپوزیشن اور ونوکووچ کے درمیان تین یورپی ممالک جرمنی ، پولینڈ اورفرانس نے گارنٹر کے طور پر ایک معاہدہ کرایا جس پر انکے دستخط مووجود ہیں مگر بعد میں اپوزیشن نے اس معاہدے کو توڑتے ہوئے کودتا کیا لیکن ان ممالک نے ایسی چپ سادھ لی جیسے کچھ ہوا نہیں ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امن معاہدے کے گارنٹر ہیں سب بھول گئے جیسے ا±س معاہدے کو کسی نے دستخط کرنے کے بعد نذر آتش کیا ہو۔ مجھے علم نہیں کہ امریکہ میں اس معاہدے کے بارے میں جانتے ہیں کہ نہیں جہاں تین یورپی ممالک نے دونوں طرف سے طاقت کا استعمال نہ کرنے کی گارنٹی دی تھی اور اپوزیشن نے ا±س معاہدے سے روگردانی کی تھی ؟ ان ممالک نے حالات کو کشیدگی کی طرف جانے سے روکنے اور سیاسی حل تلاش کرنے کے بجائے طاقت کا استعمال اور کودتا کی حمایت حالانکہ اسکی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ یونوکووچ قبل از وقت نئے انتخابات کرانے کیلئے تیار ہوگیا تھا اور اگر الیکشن ہوتے تو ونوکووچ کے جیتنے کے امکانات بالکل نہ ہونے کے برابر تھے نتیجے میں ظاہر ہے اپوزیشن جیت جاتا سب یہ جانتے تھے مگر ا±نھوں نے یہ پ±رامن سیاسی راستہ اختیار کرنے کے بجائے تشدد کا راستہ اپناتے ہوئے کودتا کرایا ۔ ا±نھوں نے کیوں ایسا کیا ؟کوئی نہیں جانتا کیوں کریمیا کیلئے مشکلات ایجاد کئے؟ کیوں دنباس پر بمبارمنٹ کی ؟ کیوں اتنی قربانیاں کیوں بے گناہ لوگوں کا خون بہایا ؟
یہیں سے غلط اندازہ لگانے کا پتہ چلتا ہے سی آئی اے یہی تباہی اور کودتا چاہتا تھا ا±س کا مقصد پورا ہوگیا لیکن سیاسی طور پر یہ ایک بدترین غلطی تھی وہ یہ سب کچھ قانون کے دائرے میں رہ کر کرسکتے تھے نہ اس میں لوگ مارے جاتے ،نہ اس تبدیلی کیلئے امریکہ کے ایک نائب صدر کے مطابق تقریباً پانچ بلین ڈالر خرچ ہوئے ہیں وہ نہ ہوتے ،اور نہ کریمیا ہاتھ سے جاتا مگر ا±نھوں نے طاقت کے نشے میں چور غلط راستہ چ±نا ۔ میں یقین سے کہتا ہوں اگر میدان میں خونین واقع نہ ہوتے،نہتے لوگوں کے خلاف فوجی آپریشن نہ ہوتا تو ہم بالکل بھی کسی بھی صورت مداخلت نہیں کرتے۔ سچ کہوں جو تبدیلیاں بعد میں رونما ہوئیں ا±ن کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ کیونکہ ہم زہنی طور پر یہ قبول کرچکے تھے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جو سرحدی حدبندیاںسوویت ریپبلکس کے درمیان ہوئی ہیں ا±ن سرحدوں کو نہ چھیڑا جائے۔لیکن ہم نے کبھی یہ قبول نہیں کیا تھا کہ نیٹو کو پھیلایا جائے نہ ہم یہ قبول کرسکتے تھے کہ یوکرائن نیٹو میں شامل ہو، وہاں نیٹو اڈے بنیں اور کوئی ہمیں اعتماد میں نہ لے۔اس عرصے میں ہم نےبارہا ا±نھیں ایسا کرنے سے منع کیا مگر کسی نے ہمیں س±ننے کو ضروری نہیں سمجھا۔اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ آخری واقعات کے رونما ہونے کا محرک کیا تھا وہ یہ تھا کہ کیف کی موجودہ قیادت نے اعلان کیا کہ وہ مینسک معاہدوں کا پابند نہیں جیسے کہ آپ کو علم ہے وہ معاہدے ودہزار چودہ کے واقعات کے بعد دستخط ہوئے تھے جن میں دنباس میں جنگ بندی کیساتھ امن کی طرف لوٹنے کا منصوبہ تھا۔یوکرائن کے وزیرخارجہ اور صدر سمیت تمام آفیشلز بار بار کہتے رہے کہ ہمیں مینسک معاہدہ پسند نہیں دوسرے لفظوں میں وہ اس کو ماننے تیار نہیں تھے۔ سال ڈیڑھ قبل جرمنی اور فرانس کے سابقہ سربراہوں نے صاف گوئی سے الاعلان کہا کہ ہم نے مینسک معاہدہ پر دستخط کیا تھا مگر ہم شروع دن سے ا±س پر عمل کرنا نہیں چاہتے تھے۔سادہ لفظوں میں ا±نھوں نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا۔
کارلسن : کیا آپ نے کسی طریقے سے امریکی صدر ،اسٹیٹ سیکریٹری یا کسی اور اہم عہدہ دار کو بتایا کہ اگر آپ یوکرائن کو مسلح کرنا بند نہیں کریں گے تو آپ جوابی اقدامات کریں گے ؟
ہم نے بارہا امریکی حکام اور یورپی یونین کے سربراہاں کو کہا کہ اس پروسس کو روکا جائے اور مینسک معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے ۔اگر سچ کہا جائے ہم تو خود ٹھیک طریقے سے نہیں جانتے تھے کہ ہم یہ سب کچھ کیسے کریں گے کیونکہ ان معاہدات میں دنباس کوبہت سی آزادیاں دی گئیں تھیں جو یوکرائن کیلئے ا±نھیں پورا کرنا مشکل تھا مگر ایک بات بالکل واضع ہے کہ ہم بالکل خلوص نیت سے اس مسلے کو حل کرنا چاہتے تھے ہم اس بات پر راضی تھے کہ دنباس جہاں یوکرائن نے فوجی آپریشن سے تباہی مچائی تھی لوگوں کو کسی نہ کسی طرح قائل کریں کہ وہ یوکرائن سے علیحدہ نہ ہوں۔دیکھیں یہ کام اتنا آسان نہیں تھا کہ ا±نھیں پھر سے یوکرائن کا حصہ بننے راضی کیا جائے مگر ہم یہ توقع کئے ہوئے تھے کہ جب حالات بہتر ہوں گے لوگ احساس تحفظ محسوس کریں گے ۔زندگی اپنے نارمل ڈگر پر چلناشروع کرے گی لوگ ترقیاتی کام دیکھیں گے ا±نھیں نوکریاں ملیں گے تنخواہیں لیں گے ،پینشن وغیرہ لیں گے جب سماجی و اقتصادی زندگی میں بہبود آئے گی اور اپنائیت کا احساس پیدا ہوگا تو لوگ پ±رانے زخم بھول جائیں گے۔ لیکن وہ اس طرح اس مسلے کا حل نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ سب کچھ فوجی طاقت کے استعمال سے اپنے طریقے سے ٹھیک کرنے پر یقین رکھتے تھے جب کہ ہم اسکی اجازت دے نہیں سکتے تھے ۔ نہ صرف یہ کہ وہ مینسک معاہدوں سے روگردانی کررہے تھے ا±وپر سے جنگی تیاریاں کرنے لگے۔ دوہزار چودہ کو ا±نھوں نے جنگ شروع کی ہمارا مقصد اس جنگ کا خاتمہ ہے دوہزاربائیس کی جنگ کسی جنگ کی شروعات نہیں بلکہ ا±س جنگ کے خاتمے کی کوشش ہے جو یوکرائن نے دوہزار چودہ کو شروع کیا تھا۔

کارلسن : کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اس جنگ کو ختم کرسکتے ہیں ؟کیا آپ نے اس جنگ سے اپنے اہداف حاصل کرلئے ہیں ؟
پوتن : نہیں ہم نے اپنے اہداف حاصل نہیں کئے ہیں کیونکہ اس جنگ کا ایک مقصد نازی ازم کا قلع قمع ہے وہاں نیونازی ازم کے تمام تحاریک و سرگرمیوں کا خاتمہ !یہ ا±ن مسائل میں سے ایک ہے جس پر ہم نے ہمیشہ بات کی ہے ۔پچھلے سال آخری بار استنبول میں جو بات چیت اختتام پذیر ہوئے یاد رہے وہ بات چیت ہماری طرف سے منقطع نہیں ہوئے تھے ۔اس سلسلے میں یورپی یونین کے رہنماو¿ں کی طرف سے بارہا ہمیں کہا گیا کہ کسی نتیجے پر پہنچنے اور کسی دستاویز پر دستخط کرنے سے پہلے اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔ ہمیں فرانس اور جرمنی کے رہنماو¿ں نے کہا کہ ایسے حالات میں کیسے کسی معاہدے پر پہنچ کر دستخط کئے جاسکتے ہیں جب کنپھٹی پر بندوق رکھی ہو۔اعتماد سازی کیلئے لازم ہے کہ آپ کی فوجیں کیف کا محاصرہ ختم کردیں ہم نے کہا ٹھیک ہے جونہی ہماری فوجیں پیچھے ہٹ گئیں یوکرائنی بات چیت کرنے والی وفد استنبول میں طے شدہ معاہدات کے دستاویزات کو پھینک کر گفت و شنید کے پروسس سے الگ ہو گئی اور یوکرائن امریکہ اور اسکے یورپی اتحادیوں کی مدد سے لمبی جنگ کیلئے تیاری کرنے لگ گئی۔ ایسے حالات آگے بڑھ گئے جو آج تک ا±سی سمت رواں دواں ہیں۔
کارلسن : آپ کے خیال میں ڈی نازیفکیشن کیا ہے؟
پوتن : یہ ایک بہت ہی بہترین سوال ہے اور میں خود اسکی طرف آنا چاہتا تھا۔بقول مغربی تجزیہ نگاروں کے آزادی حاصل کرنے کے بعد یوکرائن نے اپنی شناخت کی بازیابی کیلئے جدوجہد شروع کی لیکن اس سلسلے میں ا±نھیں کوئی معقول دلیل دستیاب نہیں ہوئی تو ا±نھوں نے ا±ن جعلی لوگوں کو اپنا ہیرو بنایا جو دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے اتحادی تھے۔ یاد ہے اس سے قبل میں نے کہا تھا کہ جب انیسویں صدی کے اوائل میں یوکرائن کے آزادی کےنظریہ ساز پیدا ہوئے تو ا±نھوں نے بھی یوکرائن کے آزاد ریاست سے روس کے اچھے اور بردرانہ تعلقات استوار و برقرار رکھنے پر زور دیا تھا۔ تاریخی طور یوکرائن کے جو علاقے لتھوانیا اورپولینڈ کے قبضے میں رہے ہیں وہاں ا±ن پر سخت مظالم ڈھائے گئے ہیں اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ یوکرائینی اپنی شناخت کھودیں۔یوکرائینیوں کے زہن میں یہ مظالم اپنے نقوش چھوڑ گئے جس سے ایک سخت گیر قوم پرستی کے رجحان کی آبیاری ہوئی اور دوسری جنگ عظیم کے دو¿راں وہ اس ا±مید سے ہٹلر کے اتحادی بن گئے کہ وہ انھیں آزادی دلائے گا۔
ہٹلر کی فوج اور ایس ایس نے سارے گندے کام انہی کے زریعے کروائے ان کی مدد سے پولینڈیوں ، روسیوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا گیا یہاں سے وہ نفرت پیدا ہوکر شدت پکڑگئی۔ا±نکی رہنمائی بہت ہی بدنام زمانہ لوگ کررہے تھے جیسے بندیرا،شوشکیووچ جدید یوکرائن میں ان لوگوں کو قومی ہیرو بنایا گیا ۔یہ ہے اصل مسلہ۔ ہمیں بار بار کہا جاتا ہے کہ شاونزم و نازی ازم دوسرے ملکوں میں بھی ہے اگر وہ قابل تحمل ہیں تو یوکرائینی قوم پرستی اور نازی ازم کیوں قابل برداشت نہیں ؟تو ہم ا±نھیں کہتے ہیں کہ تنگ نظر قوم پرستی اور نازی ازم جہاں بھی ہے ہم ا±نکے خلاف ہیں اور ا±نھیں کچلتے ہیں مگر یوکرائن میں ا±نھیں قومی ہیرو بنایا گیا ہے ا±نکے مجسمے بنائے گئے ہیں ،ا±نکے جھنڈے لئے اجتماعات کئے جاتے ہیں وہ جرمن نازیوں کی پیروی میں مکا لہرا کر نعرے بازی کرتے ہیں کھلے عام ا±ن کی پیرو ی کرتے ہیں جنہوں نے بلاتفریق پولینڈی،یہودی اور روسیوں کا قتل عام کیا یہ ہے دیگر ممالک اور یوکرائن میں قوم پرستی کا بنیادی فرق۔
ہم انھیں کہتے ہیں کہ وہ روسی قوم کا ایک حصہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم الگ قوم ہیں ہم کہتے ہیں ٹھیک اگر آپ ایسا کہتے ہیں ہم کوئی اعتراض نہیں کریں گے لیکن الگ پہچان بنانے کیلئے لازم نہیں ہے کہ آپ نازی ازم کو اپنی الگ شناخت بنانے کی بنیاد بنائیں۔
امریکی صحافی نے بات کاٹتے ہوئے ایک سوال پوچھنے کی کوشش کی مگر پوتن نے روکتے ہوئے کہا نہیں پہلے آپ کے نیو نازی ازم پر سوال کے جواب کو مکمل کرتے ہیں۔۔۔ اوربات آگے بڑھایا۔۔ پچھلے دنوں یوکرائن کا صدر کینیڈا گیا وہاں کینیڈین پارلیمنٹ کے سامنے ایک شخص کو اسپیکر پارلیمنٹ نے متعارف کرایا کہ اس شخص نے دوسری جنگ عظیم میں روسیوں کے خلاف لڑا ہے پوری پارلیمنٹ نے کھڑے ہوکر ا±ن کا ستقبال کیا یوکرائن کے صدر نے بھی سب کیساتھ کھڑے ہوکر استقبال میں تالیا ں بجائیں حالانکہ یوکرائینی صدر خود نسلی طور پر یہودی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں روسیوں کے خلاف کون لڑا تھا ؟ ظاہر ہےہٹلر اور اس کے پیروکا ر لڑے تھے۔ پتہ لگا نے پر معلوم ہوا کہ یہ شخص ایس ایس فورسز کا حصہ تھا جس نے اپنے ہاتھوں سے روسیوں ، پولینڈیوں اور یہودیوں کا قتل کیا تھا۔کیا کوئی یہ تصور کرسکتا ہے کہ کینیڈین پارلیمنٹ میں ایسے آدمی کا کھڑے ہو کر تالیاں بجا کر استقبال کیا جاتا ہے جو ہزاروں لوگوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہو۔مغرب میں لوگ ان چیزوں سے اچھی طرح باخبر ہیں مگر ان پر مجرمانہ طور پر آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔
کارلسن : اب آپ کیا کریں گے ؟ ہٹلر کو مرے ہوئے اَسی سال گزر گئے ہیں جرمنی بھی اب وہ جرمنی نہیں رہا مگر پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ اس نازی ازم کے آگ کو بجھا کر ہی دم لوں گے ؟
پوتن : آپ ب±را نہ مانیں آپ کا سوال بظاہر بہت لطیف ہے مگر حقیقت میں بہت ہی ناگوار ہے۔آپ کہتے ہیں اَسی سال ہوگئے ہیں ہٹلر کو مرے ہوئے یہ بات درست ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ ا±س کا کام زندہ ، جاری وساری ہے جن لوگوں نے روسیوں ،پولینڈیوں اور یہودیوں کا قتل کیا وہ اب بھی زندہ ہیں اور یوکرائن کا موجودہ صدر کینیڈا کے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر ا±س کیلئے تالیاں بجاتا ہے۔کیا اس کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس نظریے کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے ؟ اور خاص کر ان واقعات کے بعد جو ہمارے سامنے رونما ہورہے ہیں۔جب ہم نازی ازم کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ا±ن تمام عناصر کا خاتمہ جو اس نظریے کو تقویت دینے سرگرم عمل ہیں۔
کارلسن : چلوٹھیک ہے میں اپنے سوال کو مزیدایک نکتے پر مرکوز کرنے کی کوشش کروں گا۔۔۔۔ برائے مہربانی بتائیے آپ کسی ایسے ملک میں جہاں آپکی حکومت نہیں وہاں کی ثقافت،احساسات ،تاریخ اور نظریات کو کیسے کنٹرول کریں گے؟
پوتن : شاید آپ کو ناقابل یقین لگے مگر حقیقت یہ ہے کہ استنبول گفت وشنید کے دو¿راں ہم باہمی طور پر ایسے فارمولے پر متفق ہوگئے تھے جو تحریری طور پر موجود ہے جس کے تحت یہ طے پایا تھاکہ یوکرائن میں نیونازی ازم کی گنجائش نہیں ہوگی یہاں تک کہ قانونی طور اس کی ترویج پر پابندی ہوگی۔ مسٹر کارلسن ہم نے نکتہ مشترک ڈھونڈا تھا اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی تھی کہ گفت و شنید کے زریعے ہمارے درمیان تمام مسائل حل کئے جاسکتے ہیں ۔یہاں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس سے یوکرائن کو بحیثیت ایک خود مختار ریاست شرمندگی محسوس ہو۔کیا دنیا میں کسی ملک کو یہ اجازت ہے کہ وہ نازی ازم کا پروپگنڈہ کرے ؟ نہیں ایسا نہیں کسی کو اس کی اجازت نہیں
کارلسن : تو پھر جنگ بندی کیلئے ابھی تک بات چیت کیوں نہیں ہورہی ؟
بات چیت ہوئی تھیں اور وہ اعلیٰ سطح تک پہنچ بھی گئیں تھیں جہاں ہم جنگ بندی کے قریب پہنچے تھے ، جیسے کہ میں نےپہلے کہا جونہی ہماری فوج نے کیف کا محاصرہ ختم کیا دوسرے فریق نے تمام دستاویزات کو کچرے کے ڈبے کے حوالے کیا اور امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں کے ہدایات کے مطابق روس سے فتع تک لڑنے کا فیصلہ کیا اور اس پر سوا یہ کہ یوکرائن کے صدر نےآرڈر پاس کرکے روس کیساتھ گفت و شنید کو قانونی طورپر منع کیا۔اب ہم کیسے بات کریں جب فریق ثانی نے خود کو بات چیت سے قانونی طور پر منع کیا ہے؟ ہمیں پتہ ہے کہ مسلے کے حل کیلئے مختلف تجاویز سامنے لائے جارہے مگر ان تجاویز پر غور وخوض اور انھیں کسی نتیجے پر پہنچانے کیلئے گفت وشنید کی ضرورت ہے جس پرا±نھوں نے بندش لگائی ہے۔
کارلسن : اگر آپ بات چیت کریں گے یقیناً یوکرائنی صدر سے نہیں بلکہ امریکی صدر سے کریں گے۔آپ نے اس سلسلے میں آخری بار کب جوئے بائڈن سے بات کی ہے ؟
پوتن : مجھے یاد نہیں کہ کب بائیڈن سے میری بات ہوئی ہے
کارلسن : ( تجسس و حیرانگی سے ہنستے ہوئے ) آپ کو یا د نہیں کہ کب آپ نے امریکی صدر سے بات کی ہے ؟
پوتن : نہیں یاد نہیں ! کیا میرے لئے لازم ہے کہ میں ہر چیز کو یاد رکھوں۔ہمارے اپنے داخلی سیاسی ،سماجی مصروفیات بہت زیادہ ہیں ہر بات کو یاد نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ تاہم اگر ضرورت ہو تو ہمارے ریکارڈ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آخری بار ہماری ا±ن سے کب بات ہوئی تھی
کارلسن : وہ تو یوکرائن کے جنگ کی مالی مدد کررہا ہے جس کے خلاف آپ لڑرہے ہیں

پوتن : یہ بات درست ہے کہ وہ یوکرائن میں جنگ کیلئے مالی مدد فراہم کررہا ہے لیکن میری ا±ن سے بات اسپیشل آپریشن سے پہلے ہوئی تھی میں ا±س کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں سمجھتا نہ میں نےکبھی ایسا کیا ہے تاہم اتنا ضرور کہوں گا کہ میں نے ا±نھیں کہا کہ جو کچھ یوکرائن میں ہورہا ہے آپ لوگ اسکی حمایت کررہے ہیں وہ درست نہیں بلکہ یہ آپ لوگوں کی طرف سے ایک تاریخی غلطی ہوگی جو روس کو دیوار سے جا لگانے دھکہ دے رہے ہیں یہ بات میں نے کئی بار دہرایا
کارلسن : تو پھر ا±نھوں نے آپ کو کیا جواب دیا ؟
پوتن : معذرت کیساتھ ! یہ سوال آپ ا±ن سے کیجئے آپ امریکہ کے شہری ہیں آپ کیلئے یہ سوال پوچھنا اتنا مشکل نہیں
کارلسن : اس کا مطلب ہے اسپیشل آپریشن کے بعد آپ کی ا±ن سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے؟
پوتن : نہیں میری کوئی بات نہیں ہوئی ہے لیکن ہمارے رابطوں کے مختلف چینلز ہیں جو آپس میں برقرار ہیں۔۔۔۔ آپ کو یا د ہے میں نے امریکن ڈیفینس میزائل سسٹم کے بارے میں اپنے تجویز کے بارے میں کہا تھا کہ آئیں ایک ساتھ مشترکہ ڈیفیس سسٹم بنائیں گے پوتن نے یاددہانی کرائی اور کارلسن نے تصدیق میں”ہاں "کہا تو پوتن بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ جن لوگوں کے سامنے یہ بات چیت ہوئی تھی وہ سب حیات ہیں آپ ا±ن سے بھی پوچھ سکتے ہیں۔۔۔۔سابق صدر،کنڈالیزہ رائس،مسٹر گیٹس ،امریکی انٹیلیجنس سروس کے موجودہ ڈائریکٹر مسٹربورنس جو ا±س وقت روس میں امریکی سفیر تھے اور بہت ہی کامیاب سفیر تھے وہ سب ان ڈائیلاگز کے گواہ ہیں آپ سابقہ باتوں کا ا±ن سے اور نئے باتوں پر امریکی جواب بارے بائیڈن سے پوچھ سکتے ہیں۔
کارلسن : لیکن یہ بات دنیا میں عام لوگوں کیلئے قابل تشویش ہے کہ اگر آپ لوگوں کے درمیاں بات چیت کا دروازہ بند ہوا تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں اور نوبت نیوکلیئر جنگ تک پہنچ سکتی ہے۔ آپ کیوں بائیڈن کو فون کرکے نہیں بتاتے کہ آئیں اس مسلے کو حل کریں ؟
پوتن : ہمارے مخلتف اداروں کے درمیان رابطہ ہے ہماری باتیں ا±ن تک پہنچتی ہیں ا ور ا±ن کی باتیں ہم تک پہنچتی ہیں۔ جہاں تک جنگ کے خاتمے کی بات ہے ہم نے ا±نھیں کہا ہے کہ اگر واقعی آپ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں تو وہ بہت ہی آسان ہے امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرائن کو اسلحہ سپلائی بند کریں جنگ چند ھفتوں کے اندر ختم ہو جائے گی اس کے علاوہ ا±ن سے اور کیا بات کریں ؟ اس کے بعد مختلف تجاویز پر غور و خوض شروع ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کیا بات ہوسکتی ہے ؟ یا میں ا±سے فون کرکے بولوں کہ آپ فلاں فلاں اسلحہ یوکرائن کو دے رہے ہیں اس سے ہم خوف کے مارے کانپ رہے ہیں براہ مہربانی ایسی اسلحہ نہ بھیجیں ! کیا بات کریں ؟۔
"کارلسن : کیا آپ کے خیال میں یورپ اس چیز سے خوفزدہ ہے کہ یہ جنگ پھیل سکتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ بات نیوکلیئر جنگ تک جا پہنچے ؟
پوتن : وہ ایسا بولتے ہیں اور وہ ایسا بول کر اپنے لوگوں کو روسی حملوں کے خوف میں مبتلا کرکے ڈرانا چاہتے ہیں یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔لیکن جو سنجیدہ تجزیہ نگار،سمجھ بوجھ رکھنے والے سیاستداں اور سنجیدہ دانشور ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ”فیک "بے بنیاد پروپگنڈہ ہے ۔
کارلسن : آپ اس سناریو کو کیسے دیکھتے ہیں جب روسی فوجیں پولینڈ یا لاتھویا میں داخل ہوجائیں ؟
پوتن : ایسا صرف ا±س صورت میں ہوسکتا ہے جب پولینڈ کی طرف سے روس پر حملہ ہو بصورت دیگر ہمارا لاتھویا ،پولینڈ یا کہیں اور کوئی دلچسپی نہیں کہ جس کیلئے ہم اپنی فوجیں بھیجیں۔ہم کیوں ایسا کریں ہمیں اسکی ضرورت نہیں۔۔۔۔ وہاں ہماری دلچسپی کیلئے کچھ نہیں البتہ وہاں سے ہمارے لئے ایک تسلسل کیساتھ مشکلات ایجاد کئے جارہے ہیں
"پوتن : دیکھیں ا± ن کی طرف سے اس دلیل کی بنیاد پر ایک خوف موجود ہے کہ آپ نے یوکرائن پر حملہ کیا اور آپ کی اس براعظم کے اور ملکوں سے شکایتیں ہیں اس وجہ سے آپ کسی بھی وقت کسی اور ملک پر حملہ کرسکتے ہیں کیا آپ ایسا کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کاکسی کے ساتھ کوئی جغرافیائی تنازع و تضاد نہیں ؟”

پوتن : بالکل ، بالکل اسکے کوئی امکان نہیں !یہ جاننے اور سمجھنے کیلئے بہت بڑے تجزیہ نگار اور دانشور ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ ایسا سوچنا عقل و خرد کے منافی ہےکہ آپ کوئی بین القوامی جنگ چھیڑ کر ا±س میں کھود جائیں۔ بلاشبہ عالمی جنگ پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرے گی۔تاہم اس ممکنہ تباہی کو روکنے زرائع موجود ہیں۔ایک عرصے سے سب کو ڈرایا جارہا ہے کہ روس آج ،کل ،پرسوں نیوکلیئر اسلحہ استعمال کرے گا ۔یہ ساری باتیں عام لوگوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے کی جارہی ہیں تاکہ امریکہ اور یورپ کے ٹیکس ادا کرنے والوں سے زیادہ زیادہ پیسہ نکال کر یوکرائن کے جنگی تھیٹر میں روس کے خلاف جنگ میں جھونک دیئے جائیں۔ مقصد کیا ؟ روس کو زیادہ سے زیادہ کمزور کیا جائے۔
کارلسن : کل امریکہ کے ایک سینئیر سینیٹر چک شومر نے کہا کہ ہمیں یوکرائن کی مدد جاری رکھنی چائیے اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو امریکی فوجیوں کو روسیوں کے خلاف براہ راست لڑنے یوکرائن کے میدان جنگ میں ا±ترنا ہوگا آپ ایسے بیان کے بارے میں کیا کہیں گے ؟
پوتن : یہ اشتعال انگیزی ہے اور وہ بھی بہت سستی اور بھونڈی اشتعال انگیزی ! یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ امریکی سپاہی یوکرائن میں کیوں لڑنے ا±تریں گے۔ وہاں اجرتی جنگجوو¿ں کی کمی نہیں ا±ن میں امریکی بھی ہیں۔وہاں سب سے زیادہ پہلے نمبر پر اجرتی سپاہی پولینڈ سے ہیں امریکہ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ تیسرے نمبر پر جارجیا ہے۔ اگر کسی کی خواہش ہے کہ وہاں اپنی ریگولر آرمی بھیجے تو یہ قدم عالمی بحران کا پیش خیمہ بن کر پوری دنیا کے امن کو خطرے سے دوچار کر سکتا ہے ۔کیا امریکہ یہی چاہتا ہے ؟ ہزاروں کلومیٹر دور جنگ کیلئے آنا ! ۔۔۔۔۔ کیا آپ لوگوں کے وہاں کوئی اورمسلے مسائل، مصروفیات نہیں ؟ آپ لوگوں کو سرحد پر بڑے مشکلات درپیش ہیں ، امیگریشن کے پہاڑ جیسے مسائل ہیں ، تینتیس ٹریلین ڈالر گورنمنٹ کے قرضوں کا مسلہ موجود ہے۔ان سب کی موجودگی میں آپ کے سپاہی یوکرائن لڑنے کیلئے آئیں گے۔ یہ جانتے ہوئے کہ آج کی عالمی صورتحال کیا ہے اور یہ بھی کہ روس اپنے مفادات کیلئے آخری حد تک جا سکتا ہے۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ عقل ِسلیم سے کام لیتے ہوئے روس کیساتھ جنگ کے بجائے باہمی احترام سے ایک دوسرے کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بات چیت کے زریعے معاملات طے کرنے راہیں تلاش کی جائیں ؟میرے خیال میں یہ دانشمندانہ طرز عمل ہوگا ۔
کارلسن : کس نے نوردسٹریم کو دھماکے سے ا±ڑایا ؟
آپ نے ا±ڑایا پوتن نے ٹاکر کی طرف ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے مزاح میں کہا
کارلسن : نہیں میں نے نہیں ا±ڑایا ا±س دن میں اپنے ڈیوٹی پر تھا کارلسن نے مسکراتے ہوئے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا
پوتن : ہاں آپ نے یہ کام نہیں کیا ہےاور اسکے لئے آپ کے پاس گواہی بھی موجود ہوگی مگر سی آئی اے کے پاس اپنی صفائی کیلئے کوئی گواہی دستیاب نہیں ہوگی۔
کارلسن : کیا آپ کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ یہ کام نیٹو یا سی آئی اے نے کیا ہے ؟
پوتن : دیکھیں میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتا ہوں جوایسے موقعوں پر کہا جاتا ہے کہ ایسے کاموں کے مجرم کے شناخت کیلئے سب سے پہلے ا±ن کو ڈھونڈنا چائیے جو اس کے منافع خور ہیں لیکن یہاں یہ بھی کہنا چائیے کہ کس کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کیونکہ ایسا چاہنے والے شائد بہت ہوں مگر ہر ایک میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ بحر بالٹک کی گہرائی میں جا کر ایسے دھماکے کرائے۔اصل مجرم کی شناخت کیلئے ان دو باتوں کو ملایا جایا کہ کون اسکا بنیفشری ہے اور کون ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تومجرم کی پہچان میں آسانی ہوگی۔
کارلسن : میرے خیال میں تاریخ میں یہ صنعتی دہشتگردی کی بدتریں مثال ہے اورجس نے تباہ کن حد تک آلودگی بھی پھیلائی ۔جس طرح آپ کہتے ہیں آپ کے خفیہ اداروں کے پاس ناقابل تردید شوائد موجود ہیں کہ اسے کس نے کیا ہے تو پھر آپ ان ثبوتوں کو دنیا کے سامنے لاکر انکے پروپگنڈوں کا منہ کیوں بند نہیں کرتے ؟
پوتن : (پوتن ہنستے ہوئے ) پروپگنڈے کی اس جنگ میں امریکہ سے جیتنا مشکل ہے کیوں کہ پوری دنیا کہ میڈیا امریکہ کے کنٹرول میں ہے یہاں تک کہ یورپ کے کئی بڑے میڈیا ہاوسز امریکہ کی فنڈنگ سے چلتے ہیں۔ کیا آپ یہ نہیں جانتے ؟ ۔۔۔۔۔ اس جنگ میں پاو¿ں رکھا جاسکتا ہے مگر اس کے نقصانات فوائد سے کئی زیادہ ہیں ایسا کرکے ہم اپنے معلومات کے زرائع کو اوپن کریں گے نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلنے والا پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ کس کا کام ہے یہاں تک امریکہ کے اپنے تجزیہ نگار بھی یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ یہ کس نے کیاہے۔
کارلسن : آپ نے جرمنی میں کام کیا ہے اور ا±ن کے بارے بہت سی باتیں اچھی طرح جانتے ہیں آپ کے خیال میں اگر ایسا ہے کہ امریکہ نے یہ دھماکہ کرایا جس سے سب سے زیادہ جرمنی کو نقصان ہوا۔میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ آخر کیوں خاموش ہیں ؟
پوتن : یہ بات میری سمجھ میں بھی نہیں آتی کہ جرمن کیوں خاموش ہیں۔ میرے خیال میں جرمنی کی موجودہ قیادت اپنے قومی مفاد ات کے بارے میں سوچنے کے بجائے مغرب کی اجتماعی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر پالیسی بناتے ہیں۔اس کے علاوہ ا±نکا عمل یا بے عملی کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔
دیکھیں نارتھ اسٹریم 1ا±نھوں نے دھماکے سے ا±ڑایا لیکن نارتھ اسٹریم 2ابھی تک صحیح سلامت ہے ا±س کے زریعے یورپ کو گیس کی سپلائی کی جاسکتی ہے ا±سے جرمنی نے خود بند کیا ہے۔اس کے علاوہ براستہ پولینڈ بھی ہم یورپ کو گیس فراہم کرسکتے ہیں ا±س پائپ لائن کو پولینڈ نے بند کیا ہے۔جرمنی کے اقتصادی مدد کی بدولت پولینڈ کی معشیت چل رہی ہے ا±نھوں نے جرمنی کیلئے جانے والے راستے کو بند کیا ہے۔اگر جرمنی واقعی چاہتا ہے کہ ا±سے روس سے سستے داموں گیس سپلائی ہو تو وہ اپنے اتحادی پولینڈ سے کہہ دے کہ وہ راستہ کھول دے۔
اسی طرح دو راستے یوکرائن سے ہوتے ہوئے جرمنی جاتے ہیں جن کے زریعے بھی ہم جرمنی کو گیس
فراہم کرسکتے ہیں۔ یوکرائن نے ا±ن میں سے ایک کو بند کیا ہے۔ جرمنی یوکرائن کا اتحادی ہے اور امریکہ کے بعد وہ دوسرا ملک ہےجویوکرائن کو سب سے زیادہ اقتصادی و جنگی مدد فراہم کررہا ہے۔جرمنی یوکرائن سے کہہ سکتا ہے کہ ہم آپکی اتنی مدد کررہے ہیں آپ ہمارے لئے روس سے آنے والے گیس سپلائی کا دوسرا راستہ کھول دیں۔روس سے گیس نہ ملنے کی وجہ سے ہم یورپ سے تین گناہ زیادہ قیمت ادا کرکے گیس حاصل کرنے پر مجبور ہیں جس ہماری اقتصادی قوتِ مسابقت زیرو پر آکر ر±ک گئی ہے لوگوں کا معیار زندگی ب±ری طرح متاثر ہوچکی ہے۔ہم نےگیس سپلائی بند نہیں کی ہے بلکہ ا±نھوں نے خود گیس لینا بند کیا ہے۔(سامنے پڑے ٹیبل کو ہاتھ سے تپتپاتے ہوئے ) جسطرح اس لکڑی میں دماغ نہیں وہاں کے لیڈروں کا سر بھی دماغ سے ایسے ہی خالی لگتا ہے۔وہاں کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو اسکی اہلیت نہیں رکھتے۔
کارلسن : اس وقت دنیا دو قطبوں میں تقسیم ہوگئی ہےایک حصے میں سستی توانائی ہے اور دوسرے میں مہنگی توانائی ہے میرا اگلا سوال اسی سلسلے میں ہے کہ آپکے خیال میں اس صورتحال میں عالمی قوتوں کی صف بندیاں ، اتحاد وغیرہ کیسے ہوں گی کون کس کا اتحادی بنے گا اور کون مخالف سمت چلنے کا انتخاب کرے گا؟
پوتن : آپ کہتے ہیں دنیا دو قطبین میں تقسیم ہوگئی ہے جبکہ میں کہتا ہوں سر دو قطبوں میں تقسیم ہے ایک حصہ تعمیری سوچ کیلئے جوابدہ ہے جبکہ دوسرا حصہ کسی اور معاملے کیلئے۔ مگر دونوں ملکر ایک کامل سر اور دماغ بناتے ہیں ہم کہتے ہیں دونوں قطبین ملکر ایک پ±رامن دنیا بنائیں ،محفوظ جینے کا حق مشترک ہو اور سنہرےبلین سے ہٹ کر جب ہم سوچنے لگیں گے تب دنیا میں استحکام ،ترقی اور متوقع اقدامات و پروگریس ہوگی۔ اگر سر دو حصوں میں تقسیم ہے تو یہ ایک سخت بیماری ہے اور دنیا اس وقت اس مرض سے جھوج رہی ہے اسکا علاج بہت ضروری ہے میرے خیال میں ایماندارانہ صحافت اس کے درمان کیلئےڈاکٹر کے طور پر کام کرکے اسکے دونوں حصوں کو جوڑنے اہم کردار ادا کرسکتی ہے
کارلسن : میں ایک مثال دینا چاہتا ہوں جیسے کہ امریکن ڈالر نے کسی حد تک پوری دنیا کو متحد کئے رکھا تھا کیا آپ کے خیال میں آئندہ ڈالر ریزرو کرنسی کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھے گی یا روس پر پابندیاں اسکی حیثیت پر اثر انداز ہوئی ہیں ؟
پوتن : میرے خیال میں ڈالر کو خارجی سیاست کے مسابقت میں دباو¿ کے اوزار کے طور پر استعمال کرنا امریکہ کی سیاسی قیادت کی بدتریں اسٹراٹیجی غلطی تھی۔ڈالر امریکہ کی بالادستی کی بنیاد ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ امریکہ جتنا چاہتا ہے ڈالر چھاپتا رہتا ہے اور انھیں پوری دنیا میں پھیلاتا ہے۔امریکہ میں اس وقت تین فیصد کے قریب افراط زر ہے جو امریکہ کیلئے قابل برداشت ہے مگر ڈالر کسی توقف کے بغیر چھاپے جارہے ہیں اور داخلی قرضے تینتیس ٹریلین ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں یہ کوئی معمولی بات نہیں مگر اس کے باوجود پوری دنیا میں یہی ڈالر امریکہ کی بالادستی کا زریعہ ہے۔جس دن امریکی سیاسی قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو خارجی سیاست کے مسابقت میں دباو¿ کےزریعے کے طور پر استعمال کیا جائے ا±سی دن ا±نھوں نے امریکہ کی بالادستی کو نشانہ بنایا ۔میں یہاں غیرادبی اصطلاح استعمال کرنا نہیں چاہتا لیکن اتنا کہتا ہوں کہ یہ ایک احمقانہ فیصلہ تھا ،یہ ایک بدتریں غلطی تھی۔ دیکھیں اب دنیا میں کیا ہورہا ہے یہاں تک امریکہ کے اتحادی اپنے ڈالر ریزرو میں کمی کررہے ہیں وہ ادھر ا±دھر جھانک رہے ہیں اور اپنے آپکو محفوظ کرنے کی راہیں تلاش کررہے ہیں۔اگر امریکہ کچھ ممالک کے خلاف پابندیاں عائد کرتا ہے جیسے رقم کی ادائیگی ، رقم کی ترسیل وغیرہ پر بندش ملکوں کے سرمایوں کومنجمد کرنا وغیرہ یہ امر دنیا کیلئے قابل تشویش ہے اور یہ عالمی طور پر سب کیلئے پ±ر خطر سگنل ہے ۔
ان پابندیوں سے قبل دوہزار دو تک ہمارے یہاں روس میں اَسی فیصد بین القوامی تجارت میں وصولی اورادائیگیاں ڈالر اور یورو میں ہوتی تھیں۔ پچاس فیصد کے قریب ڈالر میں ادائیگیاں ہوتی تھیں اب یہ گٹ کر تیرہ فیصد پر آگئی ہے۔ہم نے تو ڈالر کے استعمال پر پابندی عائد نہیں کی تھی اور ہم نے اس کے لئے کوشش بھی نہیں کی۔امریکہ نے ہمارے ڈالر کے استعمال پر پابندی لگائی ۔میں سمجھتا ہوں یہ پاگل پن کی انتہا ہے جس نے سب سے پہلے امریکہ کے اپنے مفادات کو نقصان پہنچایا امریکہ کے ٹیکس دینے والوں اور اسکے مجموعی معشیت کو خسارے سے دوچار کیا جو امریکہ کے طاقت کے سرچشمے کو نشانہ بنایا۔
پہلے چینی کرنسی یوہان میں ہمارے وصولی و ادائیگیاں تین فیصد تھے اب چونتیس فیصد ہیں اسی طرح چونتیس فیصد کے قریب روبل میں وصولی و ادئیگیاں ہو رہی ہیں۔امریکہ نے کیوں ایسا کیا ؟ ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ا±نھوں نے یہ قدم ایک غلط فہمی میں شکار ہوکر ا±ٹھایا ہوگاکہ ایسا کرکے وہ روس کو دھڑام تختہ گرائیں گے مگر کچھ نہیں گرا بلکہ ان اندازوں کے برعکس کئی دوسرے تیل پیدا کرنے والے ممالک نے بھی یوہان میں تجارت شروع کیا ہے۔آپ لوگ اندازہ لگا رہے ہیں کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے یا ان تغیرات سے بے خبر ہیں ؟کیا امریکہ میں کوئی یہ سب کچھ سمجھنے کی کوشش کررہا ہے کہ ا±نکی قیادت کیا کررہی ہے یا نہیں ؟ آپ کسی بھی تجزیہ نگار یا سنجیدہ آدمی سے پوچھیں وہ آپ کو بتائے گا کہ امریکہ کیلئے ڈالر کی اہمیت کیا ہے لیکن آپ نے خود اس کے قتل کا سامان کیا۔کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں وہاں امریکہ میں بہت سے لوگ اسے سنگین غلطی قرار دے رہے ہیں۔
کارلسن : آپ کا تجزیہ درست لگتا ہے میرا اگلا سوال یوں ہے کہ آپ نے مسابقت کیلئے ایک طاقت کا قربت چھوڑ کر دوسرے کو ہمنوا بنایا جیسے برہکس( برازیل، روس ،ہند،ساو¿تھ افریقہ اتحاد ) کی فعال سازی جس میں چین موجود ہے جو سب پر حاوی ہوگا اور اس سے ان ممالک کی خودمختاری اور برہکس کو خطرہ ہوسکتا کیا آپ کیلئے یہ امر قابل تشویش نہیں ؟
پوتن : یہ بے معنی ڈرانے والی باتیں ہیں جن سے ہم اچھی طرح واقف ہیں ہم چین کیساتھ ہمسایے ہیں جس طرح قریبی رشتہ داروں کا انتخاب نہیں کیا جاتا اسی طرح ہمسایوں کے انتخاب کا اختیار بھی آپکے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔پہلے ہمارا ا±ن کے ساتھ ایک ہزار کلومیڑ لمبی سرحد ہے دوسرا ہم صدیوں سے قربت میں رہ کے ایکدوسرے سے مانوس ہوچکے ہیں تیسرا چین کی خارجہ پالیسی متشدد انہ نہیں ہے ا±ن کی خارجی پالیسی کی بنیادکمپرومائز کی راہیں تلاش کرنے کے فلسفے پر بنی ہے اور ہم اس کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔ ہمیں اکثر یہ کہا جاتا ہے خاصکر یہ خوف میں مبتلا کرنے والی بات جو آپ نے ابھی بہت ہی ملائم لہجے میں کہا۔ چین کے تجارت کا حجم رشین فیڈریشن کی بہ نسبت یورپ سے کئی زیادہ ہے آپ جاکر یورپین سے پوچھ لیجئے وہ چین سے نہیں ڈرتے ہیں ؟ شائد ڈرتے ہوں گے مگر حقیقت یہ ہے وہ خود چین سے قریب آنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے خاصکر پچھلے دنوں جب ا±نھیں اقتصادی بحرانوں کا سامنا ہوا تو وہ سب سے پہلے چین سے مدد لینے گئے۔ یورپین مارکیٹ میں چین کی سرمایہ کا ری اپنے آب و تاب سے جاری و ساری ہے۔ کیا خود امریکہ میں چین کی سرمایہ کاری و بزنس قابل توجہ نہیں؟ ہاں یہ بات بھی ہے کہ وہاں یہ کوشش ہورہی ہےکہ سیاسی فیصلے اس نوعیت کہ ہوں کہ چین کے اثرورسوخ کو محدود کیا جائے لیکن میں یہ بات برملا کہتا ہوں یہ کام اپنے آپکو خسارے میں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں یہ ایک نازک شعبہ ہے یہاں من مانی کے فیصلے نہیں کئے جاسکتے جس طرح ڈالر کولے کر غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا گیا یہاں بھی یہی کوشش کی جارہی ہے چین کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل اچھی طرح سوچنا چائیے۔ایسے لگتا ہے جو لوگ اس بارے میں پالیسی بنا رہے ہیں ا±ن میں دوراندیشی کا شدید فقدان ہے۔ یہ بات میں کھل کر کہتا ہوں اگر چین کے بارے میں یواین کے قواعد و ضوابط کے خلاف فیصلے مسلط کئے گئے تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گےاور اس کا نقصان سب سے زیادہ امریکہ کا ہی ہوگا۔
کارلسن :آپ نےکچھ دیرقبل کہا کہ اگر دو متحارب الائنس نہ ہوں تو دنیا میں بہتری ہو گی ہوسکتا ہے امریکہ کی موجودہ قیادت آپ کے خلاف ہے جس کی وجہ سے تعلقات میں تناو¿ ہے کیا آپ کے خیال میں بائیڈن کے بعد نئی ایڈمنسٹریشن کے آنے سے تعلقات میں بہتری کے امکانات موجود ہیں ؟ یا آپ کے خیال میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟
پوتن : اس سے پہلے کہ میں آپ کے اگلے سوال کا جواب دوں اجازت دیجئے کی میں پچھلے سوال کے جواب کو پایہ تکمیل تک پہنچاو¿ں۔۔۔۔ میں نے اور میرے ہم منصب و دوست شی جین پنگ نے فیصلہ کیا کہ ہم رواں سال باہمی تجارت کے حجم کو دو سوبلین ڈالر تک پہنچائیں گے لیکن اب ہم نے اسے بڑھا کر دو سو تیس اور چین کے اعداد و شمار کے مطابق دوسو چالیس بلین ڈالر تک لے کر جائیں گے۔اس میں اہم بات یہ ہے کہ ہمارے درمیان تجارت متوازن ہے جوایک دوسرے کو تکمیل بخشتا ہے ہائی ٹیکنالوجی ، توانائی اور سائنسی تحقیقات کے شعبہ جات میں ہم ایکدوسرے کےساتھ تعاون اور تجارت کررہے ہیں۔
جہاں تک برہکس کی بات ہے جو روس اس سال اسکی سربراہی کررہی ہے وہ (برہکس) بڑی تیزی سے ترقی کے منازل طے کررہی ہے۔انیس سو بانوے میں بین القوامی اقتصاد میں سات ملکوں کے اتحاد یا جی سیون (برطانیہ ،اٹلی،فرانس، جرمنی ، کینیڈا،جاپان اور امریکہ ) کا حصہ سینتالیس فیصد تھا اور دوہزار بائیس کو گر کر تینتیس فیصد تک نیچے آگئی اور برہکس ممالک انیس سو بیانوے میں عالمی اقتصاد میں فقط سولہ فیصد کے حصہ دار تھے جبکہ آج سات ملکوں کے اتحاد سے ا±س کا حصہ کئی زیادہ ہے۔برہکس ممالک کی ترقی کا یوکرائن کے واقعات سے کوئی بھی تعلق نہیں۔میں دنیا میں نئی ترقی و نشونماکی بات کررہا ہوں جنہیں روکنا کسی کے بس میں نہیں جس طرح سورج روز طلوح ہوتا ہے کوئی ا±سکے آڑے نہیں آسکتا یہاں بھی عالمی تبدیلیوں کو کوئی متوقف نہیں کرسکتا بہتر یہی ہے کہ ان تبدیلیوں کو روکنے کے بجائے ا±ن کیلئے تیاری کرکے ا±ن کے ساتھ چلنے کی سعی کی جائے۔
مندرجہ بالاحقائق کے باوجود امریکہ طاقت کے استعمال سے سب کچھ اپنے حساب سے چلانے کی کوشش کررہا ہے۔کہیں پابندیاں ،کہیں دباو¿،کہیں بمبارمنٹ ،کہیں طاقت کا استعمال یہ سب کچھ ایک غلط فہمی کے باعث کیا جارہا ہے آپکی سیاسی قیادت یہ سمجھنے نے قاصر ہے کہ دنیااپنے معروضی حالات کے مطابق ا±سی رفتار سے تبدیل ہورہی ایسے میں لازم ہے کہ آپ انتہائی ہوش و حواس کے ساتھ ایک ایک قدم ا±ٹھا کر اپنے معیار کو برقرار رکھیں۔معذرت کیساتھ اگر کوئی طاقت کے بل بوتے پر روس یا کسی اور ملک پر بالادستی کا خواہشمند ہے تو کھل کر کہوں ا±سے سخت مزاحمت کیساتھ بدتریں مایوسی ہوگی۔
آپ ابھی پوچھ رہے تھے کہ اگر امریکہ میں نئی ایڈمنسٹریشن آئے گی تو روس کیساتھ امریکی تعلقات میں بہتری آئے گی کہ نہیں۔میں سمجھتا ہوں یہاں سربراہ کاکوئی کردار نہیں میرے ب±ش کیساتھ بہت اچھے تعلقات تھے جس کو شائد امریکہ میں گاو¿ں کا بھولا نوجوان کہتے ہیں مگر میں یقین سے کہتا ہوں وہ بہت سمجھدار اور ہرمعاملہ بارے اچھی معلومات رکھتا تھا اور وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا یا کررہاہے۔ لیکن ا±س نے بھی روس سے متعلق کئی غلطیاں کیں جیسے کہ میں نے ا±س کے بارے میں کہا تھا کہ دوہزار آٹھ کوانہی کے دباو¿ پر یورپ نے بخارسٹ میں یوکرائن کیلئے دروازے کھول دئیے تھے حالانکہ ذاتی طور پر میرے ا±نکے ساتھ بہت اچھے راہ ورسم تھے۔ ٹرمپ کے ساتھ بھی میرے اچھے تعلقات تھے مگر میں سمجھتا ہوں یہاں ذاتی تعلقات کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ بات امریکہ کے اشرافیہ اور معاشرے کے مزاج کا ہے اگر وہاں اس تصور کا راج ہے کہ کسی بھی قیمت پر امریکی بالادستی قائم کرنی ہے تو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ سب کچھ مزید الجھ کر بگڑ جائے گا۔ ہاں اگر وہاں یہ سوچ پیدا ہوگی کہ دنیا میں تبدیلیاں معروضی حالات کے تقاضوں کے مطابق ہورہے ہیں اور امریکہ خود کو ا±نکے سانچے میں ڈالنے کی کوشش میں اپنے پاس موجود امکانات کا درست استعمال کرے تو شائد وہ اپنی عالمی اثرو رسوخ کو برقرار رکھ سکے۔
ایک چیز دیکھیں کہ چین کی معشیت قوت خرید کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر ہے ا±س نے کب کا امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا
ہے دوسرے نمبر پر امریکہ ہے پھر ہندوستان ہے جسکی آبادی اب ڈیڑھ ارب ہے اسکے بعد جاپان اور پانچویں نمبر پررشین فیڈریشن ہے۔ پچھلے سال تمام امبارگو اور پابندیوں کے باوجود روس کی معشیت یورپ میں پہلے نمبر پر رہی۔اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ڈالر کے استعمال پر پابندی، سوفٹ سسٹم سے اخراج ،تجارت پر پابندیاں ،ہمارے تیل لے جانے والے بحری باربردار جہازوں پر بندشیں ، طیاروں کے خلاف بندشیں۔ پوری دنیا میں اگر کسی ملک پر سب سے زیادہ پابندیاں لگی ہیں وہ ہمارے ملک کے خلاف لگی ہیں۔تمام شعبوں میں ہر طرف اور ہر طرح کی پابندیاں مگر وہ ہماری نشوونماکی رفتار کو نہیں روک سکے اور ہم اس دو¿راں یورپ کی پہلی بڑی معشیت بن کر ا±بھرے۔امریکہ اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے جو اوزار استعمال کررہا ہے وہ کام نہیں کرتے وہ از کاررفتہ ہیں۔ ایسے میں سوچنا چائیے کہ کیا کیا جائے۔اگر وہاں کی سیاسی اشرافیہ میں یہ شعور پیدا ہوگی تو ضرور تبدیلی آئے گی اور ملک کا سربراہ ا±س زاویے سے سوچنا شروع کرے گا جو ا±سکے ووٹرز چاہتے ہیں اور یہ سوچ تمام پالیسی سازوں اور فیصلہ ساز وں کے ہاں نیچے سے اوپر تک پیدا ہوگی تو بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔
کارلسن : آپ دو مختلف سسٹم کو زیر بحث لارہے ایکطرف آپ کہتے ہیں کہ ووٹرز کی خواہشات کے مطابق پالیسیاں بنتی ہیں دوسری طرف کہتے ہیں کہ وہاں کی اشرافیہ پالیسیاں بناتا ہے ۔آپ ایک لمبے عرصے تک اقتدار میں رہے ہیں آپ کے خیال میں امریکہ میں کون پالیسیاں بناتا ہے؟
پوتن :”میں نہیں جانتا ! امریکہ ایک الجھا ہوا ملک ہے ایک لحاظ سے کنزرویٹو ملک ہے مگر تیزی سے تغیرپذیر ملک ہے ہمارے لئے آسان نہیں کہ اس کے میکانزم کی تہہ تک پہنچیں کہ کون انتخابات میں فیصلے کرتا ہے اور وہ بھی ایسا کہ ہر اسٹیٹ اپنا انتخابی پروسس الگ ریگولرائز کرتا ہےکہ کس ا±میدوار کو ہٹا نا ہے کس کو رکھنا ہے ہر ایک کا اپنا قانون ہے دومراحل کا رواج ہے۔۔۔ وہ ایک مشکل سسٹم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں دو بڑی پارٹیاں ریپلکن اور ڈیموکریٹک ہیں اِن پارٹیوں کے اندر بھی لابیز ہیں جو فیصلے کرتے ہیں پالیسیاں بناتے ہیں ۔
میرے خیال میں روس کے بارے میں امریکی قیادت نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تشدد ، دھمکی اور دباو¿ کی بنیاد پر جو پالیسیاں بنائی وہ انتہائی غیر موثر اور بے بنیاد تھیں ۔نیٹو کا پھیلانا ،قفقاز میں انتہا پسندوں کی حمایت ،انٹی میزائل سسٹم کا بنانا یہ سارے اقدامات ہمارے خلاف دباو¿ کے اوزار تھے۔دباو¿ دباو¿ دباو¿ اور آخر میں یوکرائن کو نیٹو کی طرف کھینچنا۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی متشددانہ پالیسی کیوں بنائی گئی ؟ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ ان بیروزگار لوگوں کے زہنوں کا اختراع ہے جو پہلے سوویت یونین کے خلاف کام کرنے میں ماہر تھے جو مختلف سینٹروں میں کام کرتے تھے اب نئے حالات میں ا±ن کے پاس کچھ نیا نہیں تھا تو ا±نھوں نے اپنے سابقہ سوویت یونین سے نفرت کی بنیاد پر نئی پالیسیوں کی بنیاد رکھی وہ اس بات پر خوش تھے کہ ا±نھوں نے نئی قیادت کو اس بات پر قائل کیا کہ سوویت یونین کے بعد اب روس کو بھی ا±سی طرح دباو¿ میں رکھنے کی پالیسی برقرار رکھی جائے تاکہ روس کو مزیدٹکڑوں میں تقسیم کرکے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی تشکیل کی جائے اور ا±نھیں اپنی مرضی کے تابع کرکے ا±نکے استعداد اور وسائل کو لے کرمستقبل میں ا±نھیں چین کے خلاف استعمال کیا جائے۔یہ ایک غلط پالیسی تھی ۔اس غلط فہمی سے نکلنے کیلئے امریکہ کو نئے دماغوں کی ضرورت ہے جو ارد گرد کے حالات کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ا±نھیں سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نئے معروضی تقاضوں کے مطابق پالیسی بناسکتے ہیں۔
انڈونیشیا کو دیکھئے کس طرح آگے بڑھ رہی ہے ا±سکی معشیت انتہائی سرہت سے ترقی کررہی ہے اور وہ بہت جلد دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے صف میں کھڑی ہوگی۔کسی کو اچھا لگے کہ ب±را لگے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہاں ہم یہ مانتے ہیں کہ امریکہ میں بےشمار مسائل کے باوجود ا±نکی معشیت کسی حد تک توازن میں ہے شرع نمو بھی ب±ری نہیں شائد دواعشاریہ پانچ فیصد ہے۔لیکن ا±س کے معیار کو برقرار اور مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے لازم ہے کہ رویوں میں تبدیلی لائی جائےجیسے کہ میں نے پہلے کہا دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور ہم اس پروسس کو روک نہیں سکتے اور اس کا انحصار اس پر بھی نہیں کہ یوکرائن کے واقعات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
امریکہ کےاپنے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ نئے عالمی تبدیلیوں کی وجہ سے امریکہ اپنے سابقہ پوزیشن سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہی ہے ۔یہ تبدیلی ناگزیر ہے یہ الگ بات ہے کہ یہ تبدیلی تیزی سے آئے ،آہستہ سے آئے ،خوش اسلوبی سے آئے یا سختیوں کے ساتھ آکر گزرے۔یہ چیزیں وہ لوگ لکھ رہے ہیں جو امریکہ مخالف نہیں ہیں وہ بس حقیقت کا ادراک کرکے لکھ رہے ہیں اور ہم ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔
کارلسن : آپ نے کہا نیٹو کو پھیلانا آپ کے ساتھ وعدہ خلافی ہے اور اس سے روس کے وجود کیلئے خطرہ ہے۔ کیا امریکہ کی طرف سے یوکرائن کی مسلسل حوصلہ افزائی سبب بنی کہ آپ وہاں اپنی فوجیں بھیجیں ؟
پوتن : میں پھر دہراتا چلوں کہ ہم نے بار بار یہ کہا کہ ان مسائل کے حل کیلئے کوئی راہ تلاش کی جائے جو یوکرائن میں دوہزار چودہ کے گورنمنٹ کودتا کے بعد پیدا ہوئے ہیں مگر کسی نے ہماری نہیں س±نی۔یوکرائن کی قیادت جو مکمل طور پر امریکہ کے تابع تھی اس نے کھلم کھلا کہا کہ وہ مینسک معاہدے کو نہیں مانتا اور ا±نھوں نے متنازعہ علاقوں میں جنگی سرگرمیاں برقرار رکھیں اور ساتھ میں امریکہ کی مدد سے ان علاقوں کو بہ زور اپنے قبضے میں رکھنے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں یادوسرے لفظوں میں وہاں اڈوں کی تعمیر کا کام ہوتا رہا یوکرائن میں قانون پاس کیا گیا کہ روسی ایک بغیر ٹائٹل قوم ہے۔اور ساتھ میں قانون منظورکیا جو بغیر ٹائٹل اقوام کے حقوق محدود کرتا ہےیہ یوکرائن میں کیا گیا وہی یوکرائن جسے روسی قوم سے جنوب مشرقی علاقے تحفے میں ملے ا±سےیوکرائن میں قوم ِبلاعنوان قرار دیاگیا۔آپ کے خیال میں یہ درست رویہ تھا ؟ان تمام واقعات نے مل کے وہ ماحول بنایا جس سے ہم ا±س جنگ کا خاتمہ کرنے اقدامات ا±ٹھانے مجبور ہوئے جویوکرائن کے جدید نازیوں نے دوہزار چودہ کو مسلح ہوکر شروع کیا تھا۔
کارلسن : کیا آپ کے خیال میں زیلینسکی کو اتنی اختیار حاصل ہے کہ وہ اس جنگ کو ختم کرنےکوئی بات چیت کرے ؟
پوتن : میرے لئے یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ ہمیں کئی باتوں کی تفصیل کا علم نہیں مگر میرے خیال میں ا±سکے پاس صلاحیت ہونی چائیے کیونکہ ا±س کا والد دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے خلاف لڑا ہے ایک دفعہ میں نے ا±سے یاد دہائی کرائی تھی کہ ولودیا (بے تکلفی میں روسی میں ولادیمیر کو ولودیاکہتے ہیں۔مترجم)یہ تم کیا کررہے ہو۔کیوں نیو نازیو کی یوکرائن میں حوصلہ افزائی کررہے ہو۔ جواب میں ا±س نے کیا کہا میں نہیں کہوں گا یہاں اسکی تفصیل میں جانا درست نہیں۔بحر حال ا±سکے پاس اختیار ہونا چائیے کیونکہ وہ یوکرائنی عوام کے اس خواہش کی تکمیل کیلئے آیا کہ وہ یوکرائن میں امن لائے گا ا±س کے اسی وعدے کے پیش نظر لوگوں نے ا±سے بھاری اکثریت سے ووٹ دے کر کامیاب کیا تھا لیکن جب وہ حکومت میں آیا تو میرے خیال میں ا±سے دو چیزوں کا ادراک ہوا پہلا نیونازیوں اور قوم پرستوں کیساتھ الجھنا ٹھیک نہیں کیونکہ وہ متشدد ہیں وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتے ہیں اوپر سے امریکہ ا±نکی ہر طرح سے مدد اور سرپرستی کررہا ہے اور ہمیشہ ا±ن قوتوں کی مدد کرتا رہے گا جو روس کے خلاف برسرپیکار ہوں گےیہ راستہ ٹھیک ہے کیونکہ یہ محفوظ و منافع بخش ہے۔ا±س نے اپنے ووٹرکو دھوکہ دیا جو یوکرائن میں امن لانے کے وعدے پر ا±س کا انتخاب کرچکے تھے۔
کارلسن : آ پ کے خیال میں اب دوہزار چوبیس کو اسکے پاس آپ سے آزادانہ طور پر بات کرنےکی آزادی ہے کہ جس سے کسی امن کی توقع کی جاسکے؟
پوتن : کیوں نہیں وہ تو خود کو حکومت کا منتخب سربراہ کہتا ہے حالانکہ ہم دوہزار چودہ کے بعد وہاں کے تمام انتخابات کو حکومتی کودتا کا تسلسل کہتے ہیں۔ امریکہ یورپ بلکہ پوری دنیا ا±سے سربراہ ممکت مانتا ہے تو ا±س کے پاس اختیار ہونا چائیے۔ہم نے بھی ا±س سے استنبول میں بات چیت کئے تھے ہم ایک معاہدے کے قریب پہنچے تھے وہ یہ سب جانتا تھا یوکرائن کی طرف سے مسٹر اراخامیا ا±نکی طرف سے مذاکراتی گروپ کا سربراہ تھا وہ آج بھی رادا (یوکرائنی پارلیمنٹ )میں حکومتی جماعت کی قیادت سنبھالے ہوئے ہےا±س کے دستخط ا±س مبینہ دستاویز پر موجود ہیں جوہمارے درمیان جنگ بندی اور امن کے قیام کیلئے طے پایا تھا۔جس کے بارے میں ا±س نے پارلیمنٹ میں الاعلان کہا تھا کہ ہم جنگ بندی کے قریب پہچ گئے تھے کہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم مسٹر جانسن نے آکر ہمیں قائل کیا کہ ہم روس کے ساتھ فتح تک لڑیں وہ اسمیں ا±س وقت تک ہماری مدد کریں گے جب تک روس سے ہم نے وہ سارے زمین واگزار نہیں کئے ہیں اور ہم نے ا±س کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے جنگ کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ۔اب اس بات کا انحصار ا±ن پر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ بات چیت کرتے ہیں کہ نہیں ا±وپر سےا±نکے صدر کا فرمان ہے کہ روس کے ساتھ کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہوگی اگر وہ واقعی جنگ بندی اور اس مسلے کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ا±ن کا صدر اپنا فرمان واپس لے اور بات چیت کا دروازہ کھولے۔عجیب بات ہے کہ ہم ہرطرف سے س±ن رہے ہیں کہ روس بات چیت کیلئے راضی ہے کہ نہیں۔بھئی ہم نے بات چیت سے انکار کب کیا جو بات چیت کیلئے راضی ہونے یا نہ ہونے کا سوال پیدا ہوا۔اس بات پر افسوس کا اظہار کیا جاسکتا ہے کہ یوکرائنی وفد کے سربراہ کے بقول طرفین ڈیڑھ سال قبل جنگ بندی کے قریب پہنچ چکے تھے اور ہم جنگ بندی کیلئے تیار تھے لیکن برطانیہ کے سابق وزیر اعظم کا مشورہ مان کرجنگ جاری رکھنے آمادہ ہوئے۔آج کہاں ہے مسٹر جانسن لیکن یوکرائن میں جنگ تو جاری ہے ۔
کارلسن : یہ بہت اچھا سوال ہے آپ کے خیال میں ا±س نے ایسا کیوں کیا ؟
پوتن : اس کا جواب کسی کے پاس نہیں البتہ یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ا±س طر ف سب اس غلط فہمی مبتلا تھے کہ روس کو میدان جنگ میں ہرایا جائے گا یا کسی کم عقل نے خلوص دل سے کچھ کرنے کی کوشش کی مگر عقل و خرد کی فقدان سے مات
کھاگیا۔
کارلسن : آپ نے روس اور یوکرائن کے درمیان ایک اور تعلق کا زکر کیاکہ یہ دونوں آرتھوڈکس عیسائی ہیں آپ ایک عیسائی ملک کے سربراہ ہیں اس تعلق کا آپ پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں ؟
پوتن : جیسے کہ میں نے پہلے کہا کہ بادشاہ ولادیمیر نےنو سو اٹھاسی کو جب اپنی ماں ملکہ اولگا کی پیروی میں عیسائیت قبول کیاپھر اپنے قریبیوں کو عیسائیت کے دائرے میں لایا پھر سارے روس میں اس مذہب کو پھیلانے کا اہتمام کیا جولادینیت سے عیسائیت کی طرف آنے کا تھا وہ ایک طویل سلسلہ رہا ہے۔
نتیجتاً آرتھوڈکس مشرقی عیسائیت نے روس میں لوگوں کے شعور میں اپنی گہری جڑیں پیوست کیں بعد میں جب روس وسیع ہوکر پھیلنے لگا اور اسمیں دوسری قومیتیں سمونے لگے جو دیگر مذاہب کے پیروکار تھے جیسے اسلام ،یہودی ،بدھ مت وغیرہ روسی ا±ن کے ساتھ ہمیشہ باہمی احترام ،تحمل اور ہم آہنگی کے ساتھ رہے۔اسی میں روس کی قوت پنہاں ہے کہ ا±س نے تمام مذاہب کیلئے یکساں احترام و برداشت کے رویے کواپنائے رکھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ روس میں موجود جتنے بھی بنیادی مذاہب ہیں ا±ن سب کے اقدار مشترک ہیں اور روس کے تمام حکمرانوں نے ہمیشہ مذکورہ قومیتو ں کے ثقافتی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے جو مختلف ادوار میں روس میں شامل ہوئے ہیں۔میرے خیال میں یہی بات روسی سلطنت کی بنیاد رہی ہے اور یہی بات آج ہمارے تحفظ ،ترقی اور استقامت
کی ضمانت ہے۔یہی بات ہے کہ آج جتنے بھی قومیتیں روس میں آباد ہیں وہ روس کو اپنا مادر وطن کہتے ہیں۔امریکہ یا یورپ میں لوگ دوسرے ملکوں لاطینی امریکہ یا کہیں اورسے آتے ہیں وہ وہاں رہتے ہیں مگر وہ امریکہ یا یورپ کو اپنا دوسرا وطن کہتے ہیں جبکہ یہاں سب کا وطن روس ہے اور ا±ن کا روس کے سوا کوئی دوسرا وطن نہیں ہم سب مل کر ایک بہت بڑے فیملی کو تشکیل دیتے ہیں۔
کارلسن : آپ کہتے ہیں کہ عیسائیت ایک انسان دوست اور ایک پ±رامن مذہب ہے جیسے حضرت عیسیٰ نے کہا تھا کہ اگر کوئی آپ کو ایک تھپڑ مارے تو تم اس کا جواب دینے کے بجائے اس کو اپنا دوسرا گال پیش کرو۔عیسائیت جنگ اور قتل کے خلاف ہےتو کیسے ایک عیسائی لیڈر دوسروں کو مارنے یا ا±ن سے جنگ کرنے کا کہتا ہے؟
پوتن : جب بات اپنے اور اپنے فیملی کو بچانے اور ا±نکے دفاع کی آتی ہے تو کوئی امرمانع نہیں ہوسکتا کہ ہم حملہ آور کاہاتھ ہر لحاظ اور ہرطریقے سے روکیں۔ہم نے کسی پر حملہ نہیں کیا یہ سب کچھ یوکرائن میں حکومتی کودتا اور دنیسک و دنباس میں ریاستی سرپرستی میں پ±رتشدد واقعات سے شروع ہواہم اپنا، اپنے لوگوں، اپنے وطن اور اپنے مستقبل کا دفاع کررہے ہیں۔جہاں تک اجتماعی طور پر مذہب کی بات ہے ا±س کا اظہار ظاہری نمائش سے نہیں ہوتا کہ آپ روزانہ چرچ جائیں یا زمین پر ماتھا رگڑ لیں بلکہ ا±س تعلق دل سے ہے۔بنیادی طور پر ہماری ثقافت انسانیت دوست ہے جیسے کہ مغرب میں روسی مصنف دستایفسکی کو ایک عظیم روسی مصنف مانتے ہیں ا±س نے روسی ثقافت اور روسی روحانی وابستگیوں کے بارے میں بہت لکھا ہے۔آپ کے مغرب کے لوگ زیادہ تر مادی منفعت کو مدنظر رکھ کر سوچتے ہیں جبکہ روسی اگلے جہاں کی دائمی زندگی ، ا±وپر والے کی خوشنودی اوراخلاقی اقدار کے بارے میں سوچتے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ مغرب کی یہ سوچ غلط ہے ہوسکتا ہے کہ وہ آج کے سرمایہ دارانہ نظام زندگی کے تما م شعبوں کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ بظاہر ہم ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں مگر حقیقت میں ہمارے اخلاقی اقدار اور سوچنے کا زاویہ مختلف ہے۔
کارلسن : کیا آپ کے خیال میں ہماری دنیا کو غیرمرئی قوتیں چلا رہی ہیں یا کوئی روحانی طاقتیں سب کروا رہی ہیں ؟
پوتن : نہیں میں ایسا نہیں سمجھتا بلکہ میرے خیال میں دنیا اپنے داخلی قوانین کے مطابق چل کر آگے بڑھ رہی ہے تاریخ میں ہمیشہ یہ ہوتا رہا ہے کہ کچھ قومیں ترقی کرکے عروج کو پہنچی ہیں کچھ بکھر کر تنزل کاشکار ہوئی ہیں یہ ایک پروسس ہے ۔جو شروع سے ہوتا آیا ہے کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ چنگیز خان سے لیکر رومن سلطنت تک کئی سلطنتیں قائم ہوئیں ان سب میں رومن امپائر سب سے مضبوط اور پھیلی ہوئی تھی جو اپنے طور پر بہت ترقی کررہی تھی بعد میں جب ا±ن میں ظلم و ستم بڑھنے لگیں تو وہ اپنے گناو¿ں کے بوجھ تلے دب کرختم ہوگئیں لیکن ا±س انہدام کا پروسس پانچسو سال تک چل کر اختتام پذیر ہوا ا±س وقت اور آج کے کسی بھی پروسس کے تکمیل کی مدت میں یہ فرق ہے کہ ا±س وقت یہ رفتار بہت ہی س±ست تھی جب کہ آج یہ رفتار نما تیز ہے۔
کارلسن : توپھر آپ کے خیال میں مصنوعی زہانت کا دو¿ر کب شروع ہونے والاہے ؟
پوتن : اس سوال کا جواب دینے کیلئے اس میں ماہر ہونا ضروری ہے ا±سے ریاضی آنا چائیے ،مصنوعی زہانت میں ماہر ہونا چائیے تاہم میں کوشش کرتا ہوں اس پر اظہار خیال کروں۔دیکھیں میرے خیال میں انسانیت کو بڑے چیلنجز درپیش ہیں جینیات کے شعبے میں ایک قوی اور ناقابل تسخیر آدمی ،ماہرمعاشیات،ناقابل شکست جنگجو،سائنسدان، دانشور۔کھلاڑی وغیرہ بنانا۔۔۔۔۔ آج کل کہتے ہیں اہلن مسک نے امریکہ میں ایک آدمی کے دماغ میں چِپ نصب کیا ہے
کارلسن : آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
پوتن :مسک کو روکنا ناممکن ہے اور میرے خیال میں وہ وہی کرے گا جو وہ کرنا چاہتا ہے وہ ایک زہین آدمی ہے بہتر یہی ہے کہ ا±س کے ساتھ مشورہ کرکے اشتراک باہمی کے نکات تلاش کئے جائیں تاکہ اس پروسس کو کسی قانونی دائرے میں لایا جائے اور انسان کو اس پروگریس کے بارے میں مکمل دسترس ہونی چائیے تاکہ کل یہ پروگریس خود انسان کیلئے خطرے کا سبب نہ بن جائے۔جیسے کہ نیوکلیئر طاقت حاصل کرنے کے بعد جب انسانیت نے اس سے اپنی وجود کو خطرے میں محسوس کیا تو نیوکلئیر پاور رکھنے والے ملکوں نے ا±سے انسان کے تابع کرنے قانون بنائے کیونکہ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اس کے ساتھ معمولی بے احتیاطی دنیا میں تباہی مچاسکتی ہے۔جس دن جینیاتی ترقی،مصنوعی زہانت یا کسی اور شعبے میں ترقی بارے یہ خیال آئے گا تو لوگ اس سے بچنے کی راہیں ڈھونڈنا شروع کریں گے کیونکہ کسی بھی پروگریس کو روکنا ممکن نہیں بہتر یہی ہے کہ ا±نھیں انسانیت کے بھلائی کیلئے قوانین کے تابع رکھا جائے۔
کارلسن : میں آپ کے سامنے بتیس سالہ ایوان گرشکووچ کا مسلہ رکھنا چاہتا ہوں جو امریکی صحافی ہے اور ایک سال سے روس کے جیل میں ہے امریکہ میں یہ مسلہ بہت زیر بحث ہے کیایہ ممکن نہیں کہ آپ خیرسگالی کے تحت ا±سےرہا کریں اور ہم ا±سے اپنے ساتھ امریکہ لے جائیں ؟۔
پوتن : ہم نے خیرسگالی کے تحت اتنے اقدامات ا±ٹھائے ہیں کہ ہمارے خیرسگالی کا کوٹہ ختم ہوچکا ہے۔کسی نے ہمارے خیرسگالی کے جذبے کے تحت ا±ٹھائے گئے اقدامات کا جواب خیرسگالی سے نہیں دیالیکن اس کے باوجود ہم اصولی طور پر اس بات پر آمادہ ہیں کہ متعلقہ لوگ ایسے کیسز پر تبادلہ خیال یا ا±ن کا تبادلہ کریں۔ متعلقہ لوگوں سے میرا مطلب دونوں طرف سے خفیہ اداروں کے حکام اور وہ ایک دوسرے سے ہمیشہ رابطے میں ہیں اور وہ اس موضوع پر بات چیت کررہے ہیں ہمارے درمیان ایسی کوئی رکاوٹ حائل نہیں جو اس مسلے کے حل کے سامنے آئے ہم اس مسلے کو حل کرنا چاہتے ہیں مگر وہاں کچھ شرائط زیر بحث ہیں جو طرفین کے درمیان طے ہونے ہیں۔میرے خیال میں یہ مسلہ بات چیت کے زریعے حل ہو سکتی ہے۔
کارلسن : یہ صدیوں سے چلی آ رہی ریت ہے کہ ایک ملک دوسرے کے جاسوس کو پکڑتاہے دوسرا ملک بدلے میں ا±س کا کوئی جاسوس پکڑتا ہے پھر وہ ان کا تبادلہ کرتے ہیں لیکن یہ توایک معصوم لڑکا ہے جس کا ان چیزوں سے کوئی واسطہ نہیں! ہوسکتا ہے ا±س نےانجانے میں آپ کےملکی قوانین کی خلاف ورزی کی ہو لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ جاسوس نہیں۔ہوسکتا ہے کہ ا±س کی درجہ بندی غلط ہوگئی ہے اور اس کے بدلے کسی جاسوس کے بجائے کسی اور عام شہری کے تبادلے کا مطالبہ کیا جائے۔؟
پوتن :اس پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے کہ کون جاسوس ہے اور کون نہیں لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جن کا تعین قانون کرتا ہے جیسے کہ اگر کوئی شخص غیر قانونی طریقے سے خفیہ معلومات حاصل کرتا ہے تو یہ عمل جاسوسی کہلاتا ہےاور یہ شخص انہی کاموں میں مصروف تھا ہوسکتا ہے کسی نے ا±سے ایسا کرنے مجبور کیا یاا±س نے بے احتیاطی سے ایسا کیا ،یا شعوری طور پر جان بوجھ کر کرتا رہا یا کسی اور وجہ سے وہ یہ سب کرنے لگا تھا اس سے فرق نہیں پڑتا مختصر یہ کہ وہ جو کچھ کررہا تھا وہ جاسوسی کہلاتا ہے اور ا±سے رنگے ہاتھوں ا±س وقت پکڑا گیا تھا جب وہ سازشی طور پرخفیہ معلومات غیر قانونی طریقے سے حاصل کررہا تھا۔
کارلسن : آپ کے خیال میں وہ نیٹو یا امریکہ کیلئے کام کررہا تھا یا وہ بحثیت صحافی اپنا کام کر رہا تھا لیکن اتفاقاً ا±س کے ہاتھ میں وہ معلوما ت آگئی جس تک ا±س کی رسائی نہیں ہونی چائیے تھی؟
پوتن :میں نہیں جانتا وہ کس کیلئے کام کررہا تھا لیکن یہ بات دہراتا ہوں کہ جب کوئی شخص خفیہ معلومات سازشی انداز اور غیرقانونی طریقے سے حاصل کرتا ہے وہ جاسوسی کہلاتا ہے۔میں نہیں کہتا کہ وہ امریکہ یا کسی اور ادارے کیلئے کام کررہا تھا لیکن اتنا طے ہے کہ اس نے وہ معلومات م±ناکو کیلئے اکھٹے نہیں کئے تھے کیونکہ م±ناکو کو ا±ن کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ بہتر ہے کہ اس بارے میں خفیہ ادارے آپس میں پروفیشنل لیول پربات کریں۔ہم نے بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں کئے ہیں اور بعض دفعہ ہم کسی ایک نکتے پر متفق بھی ہوئے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ بات چیت کسی شور وغوغا کے بغیر خاموشی کے ماحول میں کئے جائیں۔
کارلسن :میں آپ سے ایک اہم سوال پوچھنا چاہتا ہوں ہو سکتا ہے آپ اسٹراٹیجی کے پیش نظر اس کا جواب نہ دیں مگر ا±سے آپ کے سامنے رکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یوکرائن میں جاری جنگ کسی دن پھیل کر پوری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے تو اس سے بچنے کیلئے آپ امریکہ کو فون کرکے بتائیں کہ آئیں اس مسلے کو حل کرتے ہیں ؟
جواب : میں نے شروع میں کہا تھا کہ ہم نے کبھی بات چیت سے انکار نہیں کیا ہےیہ مغربی ممالک اور ا±ن کا حمایت یافتہ یوکرائن کی قیادت ہے جو بات چیت کی راہیں بند کئے ہوئے ہے۔امریکہ یوکرائن کو جنگ کیلئے بھہتر ارب ڈالر دے چکا ہے دوسرے نمبر پر جرمنی اور دیگر یورپی ممالک ہیں جو یوکرائن کو اسلحہ اور پیسے دے رہے ہیں وہ یوکرائن سے کہہ دیں کہ جا کر بات چیت کرے اور ا±س کے صدر سے کہیں کہ اپنا احمقانہ فرمان واپس لے لے جس کے تحت کوئی شخص روس کے ساتھ بات چیت نہیں کرسکتا۔
کارلسن : یہ بات بہت افسوسناک ہے کہ امریکہ کی ہدایت اور برطانیہ کے وزیراعظم کے کہنےپر یوکرائن میں جنگ بندی کی مخالفت کی گئی۔جب آپ جانتے ہیں کہ وہاں تمام اقدامات امریکہ کے کہنے پر ہوتے ہیں تو آپ براہ راست امریکہ میں بائیڈن ایڈمنسٹریشن سے کیوں بات نہیں کرتے؟
پوتن :ہم سمجھتے ہیں امریکہ کے کہنے پر زیلینسکی نے روس سے بات چیت متوقف کئے اب جب امریکہ میں یہ اِدراک آگئی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ روس کے ساتھ بات بند کرنا ٹھیک فیصلہ نہیں تھا تو وہ ا±نھیں پھر سے شروع کرنے کوئی شائستہ وضاحت ڈھونڈ یں اس سے کسی کے اَناکو ٹھیس نہیں پہنچنا چائیے۔ہم نے بات نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا یہ ا±ن کا فیصلہ تھا اب وہ اپنے فیصلے کو واپس لے لیں بس اتنی سی بات ہے۔ا±نھوں نے غلط فیصلہ کیا اب ہم ا±ن کے لئے ا±س غلط فیصلے کی اصلاح کی راہیں تلاش کریں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا وہ اپنی غلطی کو خوددرست کریں ہمیں بات چیت شروع کرنے میں کوئی مسلہ درپیش نہیں۔
کارلسن : میں یہ سوال تصدیق کرنے کیلئے پوچھ رہاہوں جیسے کہ میں سمجھ چکا ہوں کہ آپ یوکرائن کے مسلے کو گفت و شنید کے زریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔کیا میں آپ کو درست سمجھ چکا ہوں ؟
پوتن : بالکل ! ہم استنبول بات چیت کے زریعے جنگ بندی کے قریب پہنچ چکے تھے ایک جامع دستاویز یوکرائن اور رشین فیڈریشن کے وفود نے تیار کر کے ا±س پر اتفاق رائے ہوئی تھی طرفین کے دستخط ا±س دستاویز پر موجود ہیں۔یوکرائن کے وفد کے سربراہ نے اس بارے بیان دیا تھا کہ ہم جنگ بندی پر اتفاق رائے پید اکرچکے تھے اور اگر درمیان میں برطانیہ کی خواہش پر مسٹر جانسن جنگ جاری رکھنے کی بات نہ کرتے تو ڈیڑھ سال قبل جنگ بندی ہو چکی ہوتی ہم نے جنگ بندی کا سنہرا موقع گنوا دیا ا±ن کا یہ بیان آن دی ریکارڈ موجود ہے۔اگر وہ سمجھتے کہ ا±نھوں موقع ہاتھ سے گنوا کر غلطی کی ہے تو ا±س کی درستگی کرکے پھر سےبات چیت کے آغاز کیلئےاقدامات کریں۔ہوسکتا ہے وہ ہم پر الزامات لگائیں کہ ہم نے جنگ شروع کی ہے پھر ہم انیسو بیانوے میں ہم سےکئے گئے وعدوں کو یاد دلائیں گے جو ہمیں کہا گیا تھا کہ نیٹو کو نہیں پھیلایا جائے گا پھر ہم یوکرائن میں حکومتی کودتا کی بات کریں گے وہاں بیگناہ لوگوں کے قتل اور خونین آپریشن کی بات کریں گے یوں الزام جواب الزام سے بات دور تلک جائے گی اور نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا بہتر یہی ہے کہ جہاں سے بات چیت منقطع کئے گئے ہیں وہاں سے پھر سے شروع کئے جائیں۔
کارلسن : کیا آپ کے خیال میں نیٹو کیلئے یہ بات باعث شرمندگی نہیں کہ جو علاقے دوسال قبل یوکرائن کا حصہ تھے آج روس کے تصرف میں ہیں؟
پوتن :میں نے پہلے کہا تھا کہ وہ اپنے لئے کوئی باعزت راستہ ڈھونڈ لیں اور راستے موجود ہیں اگر ا±ن پر چلنے کی خواہش اور نیت ہو۔ابھی تک تو وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ روس کو میدان جنگ میں اسٹراٹیجی حوالے سے شکست دینا ہے۔ اب لگتا ہے وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ایسا کرنا مشکل ہے یا ناممکن ہے۔میرے خیال میں ایسا بالکل بھی ممکن نہیں ہےاور یہ بات مغرب میں ا±ن لوگوں کے سمجھ میں آگئی ہے جو اس جنگ کا باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں اگر وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں تو آگے بڑھ کر راہیں تلاش کریں ہم ہمہ وقت ڈائیلاگ کیلئے تیار ہیں۔
کارلسن : کیا آپ یہ کہنے کیلئے تیار ہیں کہ نیٹو آپ جیت گئے آو¿ بیٹھ کر بات کریں اور جو جہاں پہ ہے ا±سے رہنے دے کر مسلے کا حل تلاش کریں ؟
پوتن : اس بات کا انحصار بھی اس پر ہے کہ بات چیت شروع ہوں۔جو کوئی شروع کرنا نہیں چاہتا بلکہ یوں کہنا بہتر ہے کہ چاہتے وہ بہت ہیں۔یہ نہیں کہ میں دیکھ رہاہوں وہ بات چیت کیلئے بیتاب ہیں بلکہ میں دقیق جانتا ہوں کہ وہ ہم سے بات چیت کیلئے بیقرار ہیں مگر جانتے نہیں کہ کیسے ا±ن کا آغاز کیا جائے۔ا±نھوں ( ہمارے مخالفین )نے بڑی کوششوں سے حالات کو اس نہج تک پہنچایا ہےاب وہ اس سے نکلنے کا راستہ بھی خود تلاش کریں۔ یوکرائن میں نہ ختم ہونے والی موبلائزیشن ،سیاسی کشمکش ،داخلی ہیجانی کیفیت سب کی موجودگی میں ہم بہ دیر یا زود آپس میں بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں گے۔میں یہاں بہت اہم بات کہنے جارہا ہوں جو شائد آج کے واقعات کی روشنی میں عجب لگے مگر یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ قوموں کے درمیان تعلقات کسی نہ کسی دن استوار ہوں گے۔میں آپ کو میدان جنگ سے تازہ واقعہ کی مثال دینا چاہتا ہوں پچھلے دنوں یوکرائن کے کچھ سپاہی ہمارے سپائیوں کے گھیرے میں آگئے یہاں سے ا±نھیں آواز دیا گیا کہ آپ گھیرے میں ہیں آپ کے بچنے کے امکانات نہیں ہیں ہتھیار پھینک دو ہم تمہاری جان بخشی کریں گے۔دوسری طرف سے صاف روسی زبان میں آواز آتی ہے کہ “ روسی ہتھیار نہیں پھینکتے “وہ لڑے اور سب کے سب مارے گئے۔وہ آج تک خودکو روسی مانتے ہیں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی حد تک خانہ جنگی ہے جو مغرب نے ہم پر مسلط کیا ہوا ہے۔مغرب میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس طریقے سے روسیوں کو بانٹ کر روس کو ٹکڑے ٹکڑے گا مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے اور ہم پھر ملیں گے یکجا ہوں گے۔حکومت یوکرائن میں کیوں آرتھوڈکس گرجاہوں کو ا±کھاڑرہی ہے کیونکہ وہ زمینوں کو نہیں روحوں کو جوڑتا ہےاور کسی میں اتنی طاقت نہیں جو ہمارے روحوں کو تقسیم کرے۔ یہی پہ بات ختم کریں یا آپ کے مزید سوال باقی ہیں ؟
ٹکر کارلسن : شکریہ مسٹر پریذیڈنٹ بس اتنا ہی کافی ہے ایک بار آپ کے قیمتی وقت کا بہت بہت شکریہ۔ (ختم ش±د)

اپنا تبصرہ بھیجیں