یہ کمپنی چلنے والی نہیں ہے

تحریر : انور ساجدی
دہشت گردی کا مستقل مسئلہ، کبھی جج صاحبان کا مسئلہ کبھی عمران خان کے معاملے اوپر سے دو نمبر الیکشن سونے پر سہاگہ مولانا کی حکومت گرانے کی دھمکی،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوپر کی سطح پر حکمرانوں کے درمیان جو شدید اختلافات تھے وہ اپنی جگہ موجود ہیں اور 8فروری کے انتخابات نے ان کو مزید مہیمز دی ہے۔ایک بے اختیار کمزور حکومت جس کا واحد کام بیانات جاری کرنا اور خوش کن اعلانات کے سوا کچھ نہیں ہے ان کمزوریوں اور خامیوں کی موجودگی میں یہ کمپنی کیسے چلے گی؟ اور ملک کو جو آئینی سیاسی اور معاشی بحران درپیش ہیں انہیں کس طرح حل کرسکے گی؟۔
کافی عرصہ سے یا ٹی ٹی پی سے عمران خان کے معاہدہ کے بعد جو واقعات ہو رہے ہیں پی ڈی ایم کی سابق حکومت اورن لیگ کی موجودہ حکومت ان کے تدارک میں ناکام ہے۔ایک ہفتہ میں سی پیک پر دو حملے ہوئے اور پانچ چینی انجینئرز جان سے چلے گئے۔ اگرچہ اس واقعہ پر چین کا بیان سفارتی آداب کے تحت تھا لیکن اس کی ناراضگی قدرتی بات ہے۔یہ تقریباً مستقل پریکٹس ہے کہ ہر بڑے واقعے کے بعد حکمرانوں کی جانب سے تندوتیز بیانات دئیے جاتے ہیں۔انکوائری کا اعلان کیا جاتا ہے جب کچھ عرصہ کے بعد لوگ بھول جاتے ہیں تو معاملہ داخل دفتر کیا جاتا ہے اور حکمران اپنے مشاغل میں مگن ہو جاتے ہیں۔

بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ کافی زمانہ سے جو رولنگ کلک ہے یا جو نام نہاد جعلی اشرافیہ ہے یہ ریاست چلانے میں ناکام ہے ان کی غلط پالیسیوں اور غلط فیصلوں نے ریاست کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔اگر یہ کہا جائے کہ جنرل ضیاءالحق اور جنرل حمید گل کی نافذ کردہ دوغلی خارجہ پالیسی دنیا کی بدترین پالیسی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔پاکستان نے روس اور امریکہ جیسے ہاتھیوں کی لڑائی میں چیونٹی کی مانند بلاوجہ کود کر اپنی بربادی کی بنیاد خود ہی رکھی۔حال ہی میں امریکہ نے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ اس نے شروع کی تھی اور پاکستان کو استعمال کیا تھا اگر اس جنگ کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ گیا تو پاکستان کو کیا حاصل ہوا۔تمام تر فائدہ تو امریکہ کے حصے میں آیا اور اس کی جان طویل ترین سرد جنگ سے چھوٹ گئی۔افغان وار کے وقت چونکہ امریکہ اور نام نہاد سوشلسٹ ریاست چین ایک پیج پر تھے اس لئے پاکستان کے لئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا اسی طرح طالبان کے خاتمہ کے لئے امریکہ نے افغانستان پر جو حملہ کیا اس پر بھی چین خوش تھا کیونکہ ایسٹرن ترکستان موومنٹ کے باغی افغانستان اور پاکستان میں مقیم تھے لیکن اب معاملہ وہ نہیں رہا۔چین اور امریکہ عالمی تناظر میں ایک دوسرے کے بدترین دشمن بن گئے ہیں چین نہیں چاہتا کہ امریکہ اس کے ریجن میں بالادستی حاصل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے طالبان سے تعلقات استوار کرلئے ہیں اور افغانستان کی سمندر تک رسائی کےلئے کام کر رہا ہے۔اسی طرح وہ نہیں چاہتا کہ امریکہ پاکستان پر اپنا اثرونفوذ بڑھائے لیکن پاکستان کی مجبوری ہے کہ وہ امریکہ کا ساتھ نہ چھوڑے کیونکہ چین نے قرضوں کا سلسلہ تو اب شروع کیا ہے جبکہ امریکہ تو1950سے امداد دیتا آ رہا ہے۔پاکستان کا بیشتر جنگی سازوسامان امریکہ سے آتا ہے اور اصل حقیقت یہی ہے کہ پاکستان دو عالمی طاقتوں کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہے۔وہ دونوں کو چلانا چاہتا ہے اور دونوں کے ساتھ چلنا چاہتا ہے لیکن جلد یا بدیر ایسا ممکن نہ ہوگا۔

اس عجیب و غریب کیفیت نے پاکستان کی خودمختاری داﺅ پر لگا دی ہے۔چند سال قبل جب امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا دی تھیں تو دنیا کے بیشتر ممالک ایران کے ساتھ لین دین نہیں کرتے تھے لیکن انڈیا اور روس نے یہ لین دینا بند نہیں کیا تھا۔انڈیا آج بھی ایران سے تیل خرید رہا ہے۔اس پر امریکہ کا زور کبھی نہیں چلا لیکن پاکستان کی خودمختاری کا یہ حال ہے کہ امریکہ نے حال ہی میں پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ ایران گیس پائپ لائن پروجیکٹ سے دور رہے ورنہ وہ اقتصادی پابندیوں کی زد میں آ جائے گا حالانکہ گزشتہ روز امریکی غلام ملک عراق نے ایران سے گیس خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔نہ جانے کیوں امریکہ نے سعودی عرب کو ساحل بلوچستان پر ریفائنری لگانے سے بھی روک دیا ہے۔ بظاہرشہباز حکومت سی پیک کے دوسرے مرحلے کے لئے چین سے گفت و شنید کررہی ہے لیکن سیکورٹی کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر مزید منصوبے آنا اور غیر ملکی سرمائے کا آنا بڑا ہی ناممکن ہے۔وہ وقت دور نہیں کہ جب پاکستان کو حتمی طور پر چین اور امریکہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا اور امکانی طور پر پاکستان امریکہ کا انتخاب کرے گا۔پاکستانی حکمران پوری طرح جانتے ہیں کہ چین حکومتیں تبدیل کرنے کی سازش کی صلاحیت نہیں رکھتا جبکہ امریکہ اس کا ماہر اور بڑا کھلاڑی ہے۔حال ہی میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اور خطے کی بڑی فوج کی وجہ سے پاکستان کو چھوڑنا نہیں چاہتا کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ ان دو عوامل کی وجہ سے پورے ریجن بلکہ عالمی امن تہہ و بالا ہوسکتا ہے۔چین واحد ملک ہے جس نے پاکستان کا بڑا ساتھ دیا ہے۔انفرااسٹرکچر کی ترقی ہو یا ایٹمی پروگرام اس نے ہر جگہ تعاون کیا ہے۔چشمہ کے مقام پر جو ایٹمی بجلی گھر اور دیگر تنصیبات لگ رہی ہیں وہ چین کے تعاون کا واضح ثبوت ہے۔اس کے برعکس امریکہ مدد تو کرتا ہے لیکن وہ پیروں میں بیڑیاں بھی ڈالتا ہے۔امریکہ کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔ایک طرف عمران خان کا الزام ہے کہ اس کا تختہ امریکہ نے الٹا دوسری جانب اس الزام کے باوجود امریکہ عمران خان کا ساتھ دے رہا ہے اور مان رہا ہے کہ 8 فروری کے انتخابات میں زیادتی ہوئی ہے وہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہا ہے معلوم نہیں کہ یہ کیا ٹوپی ڈرامہ ہے۔

روزنامہ جنگ نے خبر دی ہے کہ پاکستان میں ٹرائیکا کا دور واپس آگیا ہے۔ملک کو تین بڑے مل کر چلا رہے ہیں۔یہ خبر کئی لحاظ سے درست نہیں ہے کیونکہ اس وقت کوئی ٹرائیکا نہیں ہے۔اختیارات کا سرچشمہ صرف ایک ہے اور حکومت وقت وزیراعظم اور صدر صاحب انہی کے تابع فرمان ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیراعظم سے ہٹ کر ٹیم میدان میں نہ اتاری جاتی جس کی زندہ مثالیں احد چیمہ، محسن نقوی اور فواد حسن فواد ہیں۔اسی طرح انوارالحق کاکڑ سمیت کمپنی کے خاص لوگ سینیٹ میں آگئے ہیں اگر کل ضرورت پڑی تو کاکڑ صاحب آسانی کے ساتھ چیئرمین کے عہدہ پر آسکتے ہیں اور زرداری کی جگہ قائم مقام صدر کے طور پر کام آگے بڑھا سکتے ہیں۔یہ جو جج صاحبان اپنی بے عزتی کا رونا رو رہے ہیں ان کی شکایت تو شہبازشریف یا زرداری سے نہیں ہے بلکہ کہیں اور سے ہے۔شہبازشریف اتنے پریشر میں ہیں کہ وہ چیف جسٹس سے مل کر معاملہ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جج صاحبان کے سخت ایکشن سے پتہ چلتا ہے کہ عمران خان کی وجہ سے ہر جگہ ہر سطح اور ہر مقام پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔حکمران تقسیم کا شکار ہیں اور وہ ڈھونگ انتخابات کے ذریعے اپنی مرضی کی حکومت تو بنوانے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ حکومت ابھی تک ٹیک آف نہیں کرسکی ہے اور نہ ہی آئندہ اس کے چلنے کا امکان ہے۔یعنی اس وقت عدلیہ تقسیم ہے مقننہ تقسیم ہے بیوروکریسی تقسیم ہے اور پریس مکمل طور پر دم چھلا بن چکا ہے۔اوپرکی سطح پر رات کی تاریکی میں بڑی بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں لیکن معاملات سدھرنے کا نام نہیں لیتے۔یہ جو مولانا اچانک عمران خان سے دشمنی ترک کر کے اپنے سابق اتحادیوں کی حکومت گرانے کی دھمکی دے رہے ہیں یہ بھی خالی ازاسرار نہیں ہے۔ان کے پیچھے بھی کوئی بڑا گروپ کام کررہا ہے۔حالانکہ مولانا کو ان کے جثہ کے مطابق نشستیں دی گئی ہیں۔مخصوص نشستوں کی بندربانٹ میں بھی انہیں اچھا خاصا حصہ ملا ہے لیکن یہ اس کے باوجود ان کا غصہ کافی پراسرار لگتا ہے۔

جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو وہاں کافی عرصہ سے جو تباہی اوربربادی چلی آرہی ہے اس میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔پہلے سے موجود انسانی المیہ اتنا بڑھ سکتا ہے کہ اس کا تصور کرنا ہی محال ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں