تہذیبی شکنی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کردار اور تیسری دنیا کا گرداب

تحریر : انجینئر محمد صدیق کھیتران

(گزشتہ سے پیوستہ )
اصل اسٹوری چھ مہینے قبل جاری کی گئی تھی تو اس وقت پڑھنے والوں کی تعداد 32 صفحوں پر مشتمل تھی۔ لیکن جب حکمران پارٹی کی سوشل ٹیم نے اس واقعہ کو اپنے پیچز پر نیا واقعہ بنا کر پیش کیا تو اس کو پڑھنے والوں کی تعداد 105،000 صفحوں پر پہنچ گئی۔اس طرح کہانی پڑھنے والوں کی تعداد 3281 گنا بڑھ گئی۔واقعہ کی رپورٹنگ کرنے والے اکاو¿نٹس ہولڈروں کو کنگھالاگیا تو بظاہر 26 اکاونٹ فیک نکلے۔ان کے پروفائلز کا موازنہ ہوا تو اکثر کا مخصوص علاقوں سے ہی تعلق نکل رہا تھا۔مثلا” ایک نے لکھا ہوا تھا کہ وہ سافٹ ویئر تجزیہ نگار ہے۔ اس کے اصل اکاونٹ کےبمطابق اس کے دوستوں کی کل تعداد صرف 17 تھی۔جبکہ وہ خود 100 سے زیادہ فیس گروپس کا ممبر تھا۔اس طرح ایک گروپ کے ارکان کی تعداد ہزاروں پر مشتمل تھی۔جب ایک فیک پیغام جاری ہوتا تھا۔ تو وہ براہ راست 30 سے 40 لاکھ افراد کے پاس چلاجاتا تھا۔اس جیسے ہزاروں دیگر فیک اکاونٹ روجیرو ڈیوریٹ کی سوشل ٹیم کا حصہ بنے۔موصوف ٹارگٹ کلر کی شہرت رکھتے تھے۔فلپائن کی انسانی حقوق کی تنظیم نے اس کے دور صدارت میں 27 ہزار افراد کی ماورائے عدالت قتل کی شکائتیں درج کرا رکھی تھیں۔ ملک میں جب آمر قابض ہوتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ انتظامیہ، مقننہ،کاروبار اور میڈیا کو کمزور کرتے ہیں۔یہی کام روجیرو ڈیوریٹ نے کیا۔اس نے بزنس مین رابرٹو آنگپن کی کمپنی کے خلاف میڈیا کو استعمال کیا۔جس سے اس کی کمپنی کے حصص کی قیمت 46.3% گر گئ۔ اس نے اپنے مئیر شپ دور کے دوست کی کمپنی یوفنگس کو سپورٹ کیا تو نا صرف ملک کا نیا بزنس ٹائیکوئن پیدا ہوگیا بلکہ اس کی کمپنی کے حصص کی قیمت 92% تک بڑھ گئ۔اسی طرح سابق سیکریٹری ہیومن کمیشن اور موجودہ سینیٹر لیلٰی ڈی لیما نے جب ماورائے عدالت ٹارگٹ کلنگ کے تحقیقاتی کمیشن کی سربراہ بنی تو اس کے خلاف گندی وڈیوز،الزام تراشی اور سزایافتہ منشیات فروش قیدیوں سے جھوٹی گواہیاں دلا کر 6 سال تک جیل میں رکھا گیا۔میڈیا کی 2021 کی نوبل انعام یافتہ صحافی ماریا رئیسہ پر 12 جعلی مقدمات چلاکر جیل میں بند رکھا گیا۔

اس کا نقصان یہ ہوا کہ دنیا سے نظریاتی سیاست سکڑ گئی۔اس کی جگہ پر شخصیات کو چلانے والی سیاسی جماعتیں آگے آگئیں۔ معاشروں میں مایوسی پھیلنے لگی ہے۔اکثر نوجوان جمہوری سیاست سے کنارہ ہوکر تشدد کا راستہ اختیار کرنے لگے ہیں۔سوشل میڈیا گاڑی کی طرح اپنا دشمن خود ہے جو بھی اس کی سیٹ پر سوار ہوجائے تو پھر جہاں وہ لے جائے اس ڈرائیور کی مرضی ہے۔سوشل میڈیا کی بات سرحدوں تک بھی محدود نہیں رہتی۔جو پیغام مقامی لگتا ہے وہ دراصل گلوبل بن جاتا ہے اور اسی طرح گلوبل پیغام بیک وقت لوکل بھی ہوتا ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں۔جس سے اکیسویں صدی میں دنیا کے اندر قانون کی حکمرانی اور جمہوری نظام کی دوراندیشی پر شکوک اٹھنے لگے ہیں۔کوئی موثر ریگولیٹری نظام نہیں رہا ہے۔آن لائن سوشل میڈیا کے انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن منیجرز ، دونوں کو استثنءحاصل ہے۔ یہی استثنءپھر آف لائن زندگی میں داخل ہوجاتا ہے۔ سماجی معاملات میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اثر پزیری ایک دیوتا کا روپ دھار چکی ہے۔جو ہماری زندگیوں کو جھوٹ، فریب اور ریاکاری کے وائرس سے متاثر کر رہی ہے۔ ڈس انفارمیشن ہی دراصل انسانوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیتی ہے۔سماج میں تشدد، بدگمانی، خوف ،غصہ ، نفرت اور بیگانگی کا ماحول معمول بن گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 122 ممالک میں قائم جمہوری نظام داو پر لگ گیا ہے۔ رجعت، آمریت اور مطلق العنانیت تیزی سے واپس آرہی ہے۔اکیسویں صدی کی سیاست میں نفرت، غصہ، جھوٹ،چوری ،دھوکہ اور تابعداری رواج پاچکی ہے۔حالانکہ حقائق کے بغیر سچائی کی تلاش ناممکن ہے۔ جب سچائی نہیں ہوگی تو اعتماد نہیں ہوگا۔اور جب کسی سماج میں یہ بنیادی اجزائے ترکیبی غائب ہو جایئنگے تو وہاں جمہوریت نہیں رہے گی۔ماہرین کہتے ہیں بظاہر دکھائی نہ دینے والا جوہری بم ہمارے انفارمیشن نظام کے اندر پھٹ چکا ہے۔اس کا چین ری ایکش ہر جگہ اور ہر زندگی کے ہر پہلو میں دکھائی دے رہا ہے۔ ٹیکنالوجی نے جیو انفارمیشن کی مدد سے جیو پولیٹیکل پاور حاصل کرلی ہے۔ سچی مگر پریشان کن بات یہ ہے فیک اطلاعاتی نظام نے آمروں کیلئے آسانیاں پیدا کردی ہیں۔دنیا میں واپس مذہبی شدت پسندی،نسل پرستی اور توسیع پسندی جیسے المیے جنم لے رہے ہیں۔2014 میں ہی روس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرکے سرعت سے کریمیا پر قبضہ کیا اور وہاں پہلے مرحلے میں تابعدار ریاست قائم کی۔قدیم قابضین کی طرح پھراس ریاست کو اپنی مملکت میں ضم کردیا۔ اس نے امریکی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارموں کواپنے ریاستی مقاصد کیلئےاستعمال کیا۔اس نے مسلسل جھوٹ پھیلا کر ایک نیا ماحول پیدا کیا۔پیغام رسانی اور جھوٹ کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کیلئے "بوٹس” کی فوج تیار کی۔ان کی مدد سے دنیا میں حقائق کو کاربن لگایا۔جب وہ اس محاذ پر کامیاب ہوا تو 8 سال بعد 24 فروری 2022 کو یوکرین پرحملہ آور ہوا۔اس جنگ کو دوسال سے زیادہ وقت گزر چکا ہے مگر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے دنیا انرجی کے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔تیل کی قیمت 56.33% تک بڑھ گئی ہیں۔خوراک کی پیداوار میں کمی اس کے علاوہ ہے۔دنیا مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گئی ہے۔

ہٹلر کے پروپہگنڈا وزیر "پاول جوزف گوئبلز” کہاکرتے تھے۔ اگر تم بہت بڑا جھوٹ بولتے ہو تو اس وقت تک اس کو دوہراتے رہو جب تک لوگ اس پر یقین نہ کرلیں۔ٹیکنالوجی اس جھوٹ کو ایک منٹ میں ہزاروں دفعہ دہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔شاید ایک وجہ یہ بھی ہو۔کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد نئے تقاضے نبھانے کیلئے اقوام متحدہ، نیٹو جیسے دفاعی اتحاد، میثاق عالمی انسانی حقوق اورعالمی عدالت انصاف جیسے ادارے بنائے گئے۔مگر 1990 کی دھائی میں ختم ہونے والی سرد جنگ کے بعد نئے تقاضوں کے مطابق ادارے نہ بن سکے۔ تہزیبی خلفشار کو سنبھالنے کیلئے آج دنیا کو نئے عالمی اداروں کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔جمہوریت اپنی جگہ وقعت کھو رہی ہے۔اس کو بچانا پورے پورے کرہ ارض کے 8 ارب انسانوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ مغرب کی نئی پود کو شاید جمہوریت کی اتنی قدر نہیں ہے۔ان کو جمہوریت کی ضرورت کو سمجھنے کیلئے تیسری دنیا خاص کر اسلامی ممالک سعودی عرب، ایران،مصر اور پاکستان جیسے ملکوں سے سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ہمارے ہاں تو اب تربت جیسے شہروں کی مئیر شپ پر بھی کروڑوں روپے اسٹیبلشمنٹ کو دینے پڑتے ہیں۔امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی میں جب طلبا کوامتحان کیلئے پرچہ دیا جاتا ہے۔تو طلبا کو پیپر شروع ہونے سے پہلے یونیورسٹی کے اعزازی کوڈ کی پابندی کیلئے دستخط کرنے پڑتے ہیں۔ایک دفعہ جب کمرہ امتحان میں طلبا دستخط کرلیتے ہیں تو اساتذہ سوال نامہ ان کے حوالے کرکے خود کمرہ امتحان سے چلے جاتے ہیں۔اس کے بعد پوری جماعت کسی کو نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔کیونکہ اب اس عہد کی پابندی سب کی مشترکہ ذمہ داری بن جاتی ہے۔

اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 23 کروڑ کا ملک جس میں 98.5% مسلمان آبادی ہو وہ 50 سالوں میں ایک دفعہ بھی شفاف انتخابات کیوں نہیں کراسکتا۔ ہمارے ملک کی کریم اپنے ناموں کے ساتھ کئی سابقوں و لاحقوں کے ساتھ جسٹس، جرنیل، سردار، سید زادہ ، مومن، الحاج اور حافظ ساتھ لگاتے ہیں۔ مگر تاریخ کے سامنے سب بے آبرو ہیں۔تاریخ گواہ ہے یہ فوجی آمر کسی کو مفت میں جمہوریت نہیں دیتے۔21 اگست 1983 کو فلپائن کے جلاوطن سیاسی راہنما نینو اکینو نے جب وطن واپس آنے کی حامی بھری۔تو وہاں پر1972 سے غاصب فرڈیننڈ مارکوس مارشل لا کی طاقت سے اقتدار پر قابض چلا آرہا تھا۔اس نے ملک میں ظلم و جبر کی انتہا کر رکھی تھی۔ اس دور کے حزب اختلاف کے سیاسی راہنما "نینواکینو” کو اپنی جان کی فکر رہتی تھی۔وہ میڈیا پر آکر کہتا رہا۔جلاوطنی میں بھی بلٹ پروف جیکٹ پہن کر گھر سے نکلتا ہوں۔اس کا خدشہ درست نکلا۔ جیسے ہی جلاوطنی چھوڑ کر وہ منیلا کے ائیر پورٹ پہنچا۔ابھی وہ جہاز کی آخری سیڑھی سے نہیں اتر پایا تھا کہ وہاں پر کھڑے فوجی نے سرپر گولی مار کر اس کو قتل کر دیا تھا۔ ان آمر لوگوں کو نہیں پتہ ہوتا۔ سیاست کبھی نہیں مرتی۔اکینو کی بیوہ” کوریزان اکینو” میدان سیاست میں اترگئی۔ 1986 کو فلپائن میں الیکشن ہوئے۔حسب عادت صدر مارکوس نے ہمارے نظام کی طرح فارم 47 کا بہانہ بنایا اور اپنی جیت کا اعلان کیا۔لاکھوں لوگ منیلا کی سڑکوں پر نکل آئے اورصدارتی محل کا گھیراو¿ کیا۔مارکوس نے گولی چلانے کا بھی حکم دیا۔مگر فوج نے احکامات ماننے سے انکار کیا۔ عوام کی جیت ہوئی جس کو "عوامی طاقت” کا نام دیا گیا۔

کیا پاکستان میں نینو اکینو جیسے واقعات کم ہوئے ہیں۔بنگلہ دیش کی جنگ، لیاقت علی کا قتل، فاطمہ جناح کی فوجی مخالفت، ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی، بے نظیر کا لاہور میں 50 لاکھ افراد کا استقبال، ایم آر ڈی کی قربانیاں، نوازشریف کا تین دفعہ اقتدار سے ہٹایا جانا اور بے نظیر بھٹو کی 2007 میں جلاوطنی سے پاکستان واپسی اور آج کے ملکی حالات سب درد ناک کہانیاں ہیں۔ یہ دردناک اور خونی واقعات ہی جمہوری جنگیں تھیں۔بے نظیر بھٹو جب دبئی سے واپس آرہی تھیں تو اس کو بھی اپنی جان کی فکر تھی۔ واپس آنے سے پہلے اس نے بھی برطانیہ کے مسٹر ڈیوڈ ملی بینڈکو ممکنہ قاتلانہ حملوں کی نشاندہی کی تھی۔اس کے باوجود جب کارساز کراچی میں اس کا قافلہ پہنچا تو دو خودکش بمبار بھیج کر 180 افراد کو مار دیا گیا۔کئی تحقیقاتی افسروں کو بعد میں راستوں سے ہٹایا گیا۔مگر اصل بات یہ ہے امریکہ اور برطانیہ اس کی جان بچانے میں ناکام رہے۔دو مہینے کے اندر اندر بے نظیر بھٹو کو بھی لیاقت باغ راولپنڈی کے کھلے میدان میں قتل کردیا گیا۔یہاں کی تاریخ بہرحال پیچیدہ ضرور ہے۔اس کے بعد آج تک تینوں سیاسی جماعتیں بشمول عمران خان مسلسل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حالت کمپرومائز کرنے کو جمہوری انقلاب سمجھتے ہیں۔ کوریزان اکینو کے جمہوری انقلاب کے بعد دنیا میں کئی مقامات پر تبدیلیوں کا سلسلہ چل نکلا۔کیونکہ وہ سچا عوامی طاقت کا جمہوری انقلاب تھا۔جبکہ ہم پاکستان میں پانچ سال کی ٹرم بھی عوامی طاقت سے نہیں گزار سکے۔ حقیقی انقلاب ایک جگہ نہیں رکتے۔1986 فلپائن کے انقلاب کے بعد 1987 میں کوریا،1988 میں برما و چین کا عوامی ابھار، 1989 میں مشرقی یورپ اور 1991 میں روس میں جمہوری انقلابات آئے۔ سلسلہ آگے بڑھا تو دنیا سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا۔

پھر کیا وجہ ہے۔ہماری طرح فلپائن بھی جمہوریت کی ٹوپی پہن کر واپس آمر گھرانوں کی غلام گردشوں میں جگہ بنا رہا ہے۔ 8 فروری 2022 کو 36 سال بعد مارکوس خاندان کے بیٹے فرننیڈو مارکوس جونیئر فلپائن کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی جاگیرداروں کی تیسری نسل اقتدار جبکہ جنرلوں کے پوتے لیڈر آف دی اپوزیشن بن بیٹھے ہیں۔جب مارکوس جونیئر نے فلپائن میں صدارتی امیدوار کے طور پر مہم چلائی۔ تو اس نےاپنے والدکے 1972 والے ترانے کو نئی موسیقی کی دھن میں ریلیز کیا۔گانے کے بول کچھ اس طرح تھے۔فلپائن ایک نیا ملک بنے گا۔ایک نیا راستہ اختیار کرے گا۔جمہور دور کی غلطیوں کی اصلاح کی جائے گی۔اور ایک نیا معاشرہ تخلیق کیا جائے گا۔حالانکہ ابھی تک گنیز بک آف ورلڈ میں اس کے والد کو دنیا کا سب سے بڑا 10 بلین ڈالر کے چور کا اعزاز حاصل ہے۔ آج بھی اس کی والدہ امیلڈا مارکوس کے قیمتی جوتوں کی کہانیاں ادبی تحریروں کا مواد بنتی ہیں۔ اس خاندان کی لوٹی ہوئی دولت کا ابھی تک صرف 3.4 بلین ڈالر واپس فلپائنی عوام کو مل سکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے والد کے دور میں 70 ہزار سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔34 ہزار افراد پر عقوبت خانوں میں تشدد کیا گیا۔3240 سیاسی کارکنوں کو قتل کیا گیا۔ اتنا ہونے کے باوجود ان کا 66 سالہ بیٹا اپنے باپ کی 60 سالہ پرانی وردی پہن کر عوامی اجتماعات سے مخاطب ہوتا ہے۔یہ سوشل میڈیا کی مینوپولیشن ہے جس نے وہاں کی نوجوان نسل کو تاریخ سے دورکردیا ہے۔ مارکوس جونیئر نے 2014 میں سوشل میڈیا کی طاقت دیکھ کر فیس بک پر بیان جاری کیا تھا۔ کہ ان کے والد پر چوری کا کوئی کیس ثابت نہیں ہوا۔ اس کی والدہ نے بدعنوانی کے تمام کیس عدم ثبوت کے بنا پر جیتے ہیں۔ یہ دونوں دعوے جھوٹ تھے۔بلکہ ان ہی دنوں مارکوس جونیئر نے اپنے پروفائل میں لکھا وہ آکسفورڈ اور وارٹن یونیورسٹی آف پنسلوانیہ سے ڈگری یافتہ ہے۔جوکہ سراسر جھوٹ تھا۔جب سنجیدہ لوگوں نے ان درغوگوئیوں کا پول کھولا۔تو پروفائل ہی بدل دیا گیا۔اس کے باوجود مارکوس جونیئر کے بیان کو 331000 بار شئیر کیا گیا۔32000 کمنٹس لکھوائے گئے۔369000 لوگوں سے مثبت رائے حاصل کی گئ۔جب الیکشن کا دن آیا تو 9 مئی 2022 کو فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ٹیکنالوجی ہنڈلرز نے بتادیا۔فلپائن کو جانا ادھر ہوگا جدھر ٹیکنالوجی چاہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں