عرش سے فرش تک

تحریر: انور ساجدی
کراچی کی ایک سڑک پر گزرتے ہوئے مجھے سیلانی ،عالمگیر ٹرسٹ،اسلامی ٹرسٹ کے دسترخوان اور جے ڈی سی کا موبائل دستر خوان نظر آیا۔پہلے بحریہ ٹاﺅن بھی کئی دسترخوان چلاتا تھا لیکن منافع میں کمی کے باعث اس نے بند کر دیا۔کراچی کے علاوہ لاہور،راولپنڈی اور دیگر مقامات پر بھی غربا کو مفت کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ برسوں پہلے غربا عبداللہ شاہ غازی اور داتا دربار جاتے تھے جہاں خیرات کے چاول اور زردہ مفت مل جاتا تھا۔کوئٹہ میں ملنگ کا ہوٹل اور کراچی کے سندھی مسلم سوسائٹی میں کیفے محمود کے باہر موالی نشئی اور دیگر غربا بڑی تعداد میں نظر آتے تھے اور شاید یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔عمران خان نے سیلانی کی مدد سے لنگرخانے کھولے تھے اور اربوں روپے دھان کر دئیے تھے ان کے جاتے ہی سلسلہ بند ہوگیا۔رمضان شریف میں ایک خبر میڈیا پر آئی کہ ایک نمائشی سیٹھ نے اپنے لنگرخانے کے ذریعے غریبوں کے لئے ایک افطار کا اہتمام کیا جس میں دیگر لوازمات کے ساتھ شترمرغ کا گوشت خاص طورپر پیش کیا گیا۔ پاکستان میں شترمرغ کا گوشت سب سے مہنگا ہے۔ویسے تو لنگر خانے کھولنا ثواب کا کام ہے لیکن پاکستان میں یہ ایک بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے۔کلفٹن کے بلاک8 میں سیلانی کے لنگرخانے میں بڑی تعداد میں بکرے بندھے نظر آتے ہیں۔یہ بکرے صاحب ثروت لوگ لے آتے ہیں تاکہ غریبوں کا پیٹ تازہ گوشت سے بھرا جا سکے۔ آبادی اور غربت میں اضافہ کی وجہ سے بھیک مانگنا، لنگرخانوں سے جاکر غذا حاصل کرنا اور دسترخوان کھولنا ایک بہت بڑا اور منافع بخش بزنس بن چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ ضرورت مند بھی ان سے فیضیاب ہوتے ہوں لیکن اکثر تعداد نشئی لوگوں کی ہے جو رات کو چوری چکاری کر کے نشہ کا سامان لے آتے ہیں اور خیراتی لنگرخانوں سے مفت کا کھانا کھاتے ہیں۔اس عمل نے غربا اور فقیروں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک سروے آیا تھا جس کے مطابق پاکستان کے بھکاریوں کی تعداد3کروڑ80 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے جو کل آبادی کا20فیصد حصہ بنتا ہے لیکن درحقیقت بھکاریوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔تمام بڑے شہروں اور خاص طور پر کراچی میں بھکاریوں کے جتھے سڑکوں پر نظرآتے ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق ملک کے دیگر علاقوں سے ہوتا ہے۔پاکستان تشکیل تو پایا تھا ایک ویلفیئر اسٹیٹ کے طور پر لیکن حکمرانوں اور اداروں کی غلط پالیسیوں نے76 سال کے دوران اسے نہ صرف انحطاط کا شکار کر دیا بلکہ قوموں کی برادری میں اسے شدید پستی میں گرا دیا۔فیس بک کے ایک سروے کے مطابق ایشیاءکے48 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر44ہے۔اتنی پستی اور پسماندگی کا شکار کوئی اور ملک نہیں ہے۔ ایک اور سروے کے مطابق پاکستان کا تعلیمی اور صحت کا بجٹ ساری دنیا سے کم ہے جبکہ اس کے غیر منافع بخش کاموں کا بجٹ سب سے زیادہ ہے۔اس کی وجہ سے پاکستان تعلیم،تکنیک اور جدید ٹیکنالوجی کی دوڑ میں کسی شمار میں نہیں آتا۔ساتھ ہی یہ خبر آئی تھی کہ انڈیا کی سافٹ ویئر ایکسپورٹ سعودی اور عراق کی تیل کی مالیت سے بڑھ گئی ہے۔ہوا یہ کہ پاکستان میں گنگا جمنی پروفیسروں نے حقیقت سے دور اور خیالی کہانیوں پر مبنی نصاب ترتیب دیا۔اس نصاب نے سائنس دان اور موجدوں کے بجائے محمد بن قاسم،احمد شاہ ابدالی،غوری اور غزنوی پیدا کئے۔اگر پیدا نہیں کئے تو طلباءیہی سمجھتے ہیں کہ نسیم حجازی کے ناولوں کے یہ کردار ہی اصلی ہیرو ہیں۔صفدر شاہ فرماتے ہیں کہ 1965ءکی جنگ کے دوران ہری پگڑی پہنے کچھ فرشتہ نما بزرگ انڈیا کے میزائلوں کو ہاتھ سے پکڑ کر پھینک دیتے تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ شاہ جی1971 کو یہ بزرگ کہاں چلے گئے تھے توجواب ندارد۔دو سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام اور قدیر خان پیدا ہوئے تھے لیکن ہری پگڑی پہنے ہوئے بزرگوں نے ان کا وہ حشر کر دیا جو ہزار سال پہلے البیرونی،الخوارزمی،امام ابوحنیفہ اور دیگر اکابرین کا کیا گیا تھا۔ڈاکٹر عبدالسلام نے پہلا نوبل پرائز جیتا لیکن مسلک کی وجہ سے انہیں دھتکار دیا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ 76سالوں کی بدعنوانیوں،کرپشن اور بیڈ گورننس نے پاکستانی قوم کو بھکاری بنا دیا۔یہاں پر بھکاریوں کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔پہلے درجہ میں تو عام لوگ اور پیشہ ور بھکاری ہیں دوسرے درجہ میں اعلیٰ افسران تیسرے درجہ میں وزراءاور پارلیمنٹ کے اراکین جبکہ اعلیٰ درجہ کے بھکاریوں میں بڑے بڑے سیٹھ اور خاص لوگ شامل ہیں۔یہ لوگ سب سے زیادہ فائدے میں ہیں۔معاشرہ میں انہیں بڑا بڑا سیٹھ کہا جاتا ہے لیکن یہ خزانہ اور معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور میں ان سیٹھوں نے ہیرپھیر کر کے ایک رات میں اسٹاک ایکس چینج کے ایک سو ارب روپے لوٹ لئے تھے۔یہ سبسڈی ،امداد،قرضوں ،ری فنڈ اور ری بیٹ کے نام پر مسلسل لوٹ مار کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔دیانت داری اور ایمانداری کے مجسم لیڈر عمران خان نے ایک ہی دن میں کورونا کے نام پر آئی ہوئی عالمی امداد میں سے3 ارب ڈالر کی خطیر رقم ان بھکاری سیٹھوں میں تقسیم کر دی تھی۔ماضی میں بیوروکریسی کا طبقہ منصوبوں میں سے کک بیک اور کمیشن وصول کرتا تھا لیکن کافی عرصہ پہلے یہ کام ایک اور طاقتور طبقہ نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔باعث شرم واقعہ ہے کہ جس دن شہبازشریف،ان کی بھتیجی مریم نواز اور وفد کے دیگر اراکین سعودی ولی عہد کو کورنش بجا لانے اور عمرے کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب میں موجود تھے تو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ تین ہزار چار سو پاکستانی بھکاریوں کو گرفتار کر لیا گیا جو پاکستانی زعما گئے تھے وہ بھی دراصل صدقہ خیرات،امداد اور قرض مانگنے گئے تھے لیکن ان کی عزت رکھی گئی۔کوئی تین سال پہلے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں سعودی عرب کے وزیرخزانہ نے کہا تھا کہ آئندہ کسی کو امداد نہیں ملے گی۔البتہ سرمایہ کاری کو فوقیت دی جائے گی۔یہی غرض لے کر شہبازشریف سعودی عرب گئے تھے ان کی درخواست پر وزیرخارجہ ایک بڑے وفد کے ساتھ پاکستان آیا یہاں پر پاکستانی حکومت نے ریکوڈک،پی آئی اے اور متعدد دیگر ادارے ان کے سامنے پیش کر دئیے یہ بھی کہا کہ سمندر میں جہاں چاہو ریفائنری قائم کردو۔اسلام آباد میں فائیو اسٹار ہوٹل بناﺅ۔بھاشا ڈیم بھی لے لو۔اس رپورٹ کی جب تفصیلات سامنے آئیں گی تو لوگوں کے ہوش اڑ جائیں گے۔ہم تو معیشت کے طالب علم بھی نہیں بلکہ صفا کورے ہیں لیکن اگر یہ اثاثے بک بھی گئے یا ان پر سرمایہ کاری بھی ہوئی تو ان کی بدولت اتنا بڑا ملک اتنی بڑی آبادی اور اتنے زیادہ اخراجات کیسے چلیں گے اور پورے ہوں گے۔شہباز حکومت تو ہاتھ پیر ماررہی ہے کوشش کر رہی ہے لیکن ملک کو اس حال میں پہنچانے میں متعدد حکومتوں اور شخصیات کا کردار ہے۔اگر ایک ریاست اپاہج ہے تو اس کے ریلوکٹے معذور حکمران اسے کیسے21ویں صدی کے چیلنجوں سے نکال باہر کریں گے۔

ناقص منصوبہ کیا ہوتا ہے کہ عرب امارات کے سیلاب برد ہونے کے واقعہ سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔دبئی کی عالی شان عمارتوں کا دبدبہ ایک طوفانی بارش نے ملیا میٹ کر دیا ہے جبکہ پاکستان میں سرے سے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں ہے۔پالیسیوں کا کوئی تسلسل نہیں ہے۔ہر حکومت اپنی پالیسی ایڈہاک ازم کی بنیاد پر لاتی ہے۔عالم یہ ہے کہ رات کو وفاقی حکومت تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے صبح وزیراعلیٰ پنجاب اپنے والد میاں نوازشریف کے ہمراہ تندوروں کا معائنہ کر کے روٹی کی قیمت کم کرنے کا حکم دیتی ہے۔بھلا جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو روٹی سمیت دیگراشیاءکی قیمتیں کیسے کم ہوسکتی ہیں۔حیف ہے مریم نواز پر کہ انہوں نے بزرگ والد محترم اور پارٹی کے سپریم لیڈر کو عرش سے گرا کر تندوروں تک پہنچا دیا ہے۔ماضی میں پرائس کنٹرول کے اہل کار اور اعزازی مجسٹریٹ یہ کام کرتے ھتے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے لیڈروں کا کیا لیول رہ گیا ہے۔نوازشریف کی اس بے تکریمی سے بہتر ہے کہ انہیں باقی ماندہ زندگی لندن میں گزارنے کی اجازت دی جائے۔انہیں رائے ونڈ اور لاہور میں نظربند کرنا اور تندور کمیٹی سے مذاکرات پر مجبور کرنا کم عقلی کی انتہا ہے۔ان حالات و واقعات سے عیاں ہے کہ مستقبل قریب میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔معیشت سیاست اور آئینی بحران میں مزید اضافہ ہوگا کوئی ایسی لیڈرشپ نہیں جو ان بحرانوں کو حل کرسکے۔جنرل ضیاءالحق کے دور میں شہر شہرپرائس کنٹرول کمیٹیاں بنی تھیں کوئٹہ کی کمیٹی کے اعزازی سربراہ سردار خیرمحمد تاجک تھے خدا کی قسم ان کی کارکردگی مریم اور نوازشریف سے بہترتھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں