بھارتی بینک بھی منی لانڈرنگ میں ملوث

فناشل کرائمز انفورسمنٹ رپورٹ کے مطابق بھارت کے 44بینکوں نے2011سے2017 کے درمیان 3201غیر قانونی ٹرانزیکشنز کے ذریعے5.1ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کی ہے۔منی لانڈرنگ کا پیسہ دہشت گردی، منشیات اور مالی فراڈ کے لئے استعمال کیا گیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ منی لانڈفنگ میں بھارتی نوادرات کے اسمگلرز بھی شامل ہیں۔انڈین پریمئر لیگ میں بھی منی لانڈرنگ کا پیسہ استعمال ہوا ہے۔ امریکی ادارے فن سین کی رپورٹ میں دستاویزی شواہد کے ساتھ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دنیا کے بڑے بینک منی لانڈرنگ اور دھوکے بازی میں ملوث ہیں۔مجرموں نے گمنام برطانوی کمپنیوں کے ذریعے کالا دھن سفید کیا ہے۔امریکی رپورٹ میں کئے گئے انکشافات سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ ایف اے ٹی ایف بھی اس کا نوٹس لے گی۔ پاکستان کو اسی قسم کے الزامات کی بنیاد پر گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔ گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے اپوزیشن کی شدید مزاحمت کے باوجود فیٹف کی شرائط کے مطابق مطلوبہ قانون سازی میں مصروف ہے۔ 27میں سے 14شرائط پوری کی جا چکی ہیں، اکتوبر میں پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ گرے لسٹ سے نکال دیا جائے یا مزید شرائط منوانے کی ضرورت ہے، کچھ عرصہ اور گرے لسٹ میں رکھا جائے۔تاہم بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ فی الحال دکھائی نہیں دیتا۔امریکی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد بھارت کے لئے مشکل پیداہو گئی ہے۔اگر پاکستان نے اپنا مقدمہ درست انداز میں لڑا تو بھارت کے لئے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔اس میں شک نہیں کہ ماضی میں یورپ اور امریکا نے منی لانڈرنگ کی حوصلہ افزائی کی،اس لئے کہ جائز اور ناجائز کی بحث میں پڑے بغیر انہیں دولت کے انباردرکار تھے۔لیکن تجربے سے انہوں نے سیکھا کہ یہ فارمولہ مافیاز کو جنم دیتا ہے، اس لئے کالا دھن مجرمانہ ذہنیت بھی اپنے ساتھ لاتا ہے، ریاست کے استحکام اور سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔اصل میں قانون شکنی اور کالا دھن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔یہ ممکن نہیں کہ کالا دھن کسی ملک میں جمع ہو اور وہاں قانون شکن عناصرسر نہ اٹھائیں۔ پاکستان ہو یا بھارت دونوں نے اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے کالے دھن کے ثمرات سے مستفید ہوئے اور دونوں نے کالے دھن کے منفی اثرات بھی برداشت کئے۔ پاکستان نے امریکی مفادات کی جنگ میں کود کردہشت گردی کا بڑے قریب سے سامنا کیا۔بھارت بھی کئی ریاستوں میں مشکلات سے دوچار ہے۔وجہ دونوں جگہ کالا دھن ہے۔بھارتی حکومت مانے یا نہ مانے اسے عالمی دباؤ کے نتیجے میں منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔پوری دنیا کالے دھن کی مخالف ہے، یہی نہیں ہوسکتا کہ بھارت جیسے بڑے ملک کو رعایت دی جائے اور پاکستان جیسے چھوٹے ملک کی گردن پر بلیک لسٹ کی تلوار رکھ کر اس سے تمام شرائط منوائی جائیں۔5اگست2019کی آئینی ترامیم کے نتیجے میں بھارت ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ایک جانب اسے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگانے کے لئے 9لاکھ فوجی تعینات کرنے پڑے اور دوسری طرف چینی مسلح افواج کی بڑی تعداد میں ایل اے سی عبور کرنے سے نئے مسائل کاسامنا ہے۔کورونا وائرس بھی بھارت کے لئے ایک پریشان کن مسئلہ بنا ہوا ہے۔معیشت تاریخ کی بدترین کساد بازاری سے دوچار ہے۔سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ چین کل تک معاشی ترقی میں بھارت کا پارٹنر تھا آج بھاری فوج کے ساتھ لداخ میں اپنی پوزیشن مزید بہتر بنانے میں مصروف ہے۔سرحدی مخاصمت کا دوسرا نقصان یہ ہوا ہے کہ بھارت عالمی سطح پر اس حمایت سے بھی محروم ہوگیا ہے جو کل تک بعض معاملات میں چین کی خاموشی کی صورت میں حاصل تھی۔ فیٹف میں منی لانڈرنگ کی امریکی رپورٹ پر چین خاموش نہیں رہے گا۔بھارت حکومت نے اپنے ہاتھوں جو اقدامات کئے ہیں ان کے نتیجے میں خطے کی جغرافیائی صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ دو ایٹمی قوت کی حامل ریاستیں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے تیار دکھائی دیتی ہیں۔چین کا رویہ جارحانہ ہے۔چینی رویہ میں تبدیلی کے عوامل سے بھارتی حکومت واقف ہوگی۔لیکن اگر دونوں بڑے ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو ہمسایہ ممالک بھی اس سے متأثر ہوں گے۔جنگ کا دائرہ پھیلنے کے امکانات موجود ہیں۔تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔جنگ کی اپنی زبان ہوتی ہے، طاقت ور فریق مصالحتی فارمولہ ڈکٹیٹ کرتا ہے۔امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹ چند روز پہلے بھارتی اخبارات میں چھپ چکی ہے۔انہوں نے توبھارت کے حوالے سے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ لیا ہے۔شائد بھارت کو اس بے وفائی کی توقع نہ ہو، مگر پاکستان امریکی سیمابی مزاج کو قریب سے دیکھ چکا ہے۔امریکا دوستی نبھانے کا قائل نہیں، اسے مفادات عزیز ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ دو ایٹمی طاقتیں چند میٹر کے فاصلے پر مورچہ زن ہوں اور دیرتک خاموش رہیں۔چین کی جانب سے یہ جملہ ایک تنبیہ سمجھا جائے کہ اگر انڈیا نے پہلی گولی چلائی تو اسے دوسری گولی چلانے کی مہلت نہیں ملے گی۔ توقع کی جانی چاہیئے کہ بھارتی حکومت اس مختصر سے جملے کی گہرائی اورشدت کا اندازہ لگانے میں غلطی نہیں کرے گی۔معاملات گفت و شنید سے طے کر لئے جائیں عافیت اسی میں ہے۔دوسرا کوئی آپشن نہیں، امریکی تھنک ٹینکس نے بھی یہی مشورہ دیا ہے۔ بھارتی حکومت سمجھداری کا ثبوت دے۔دانستہ یا نادانستہ ایک غلطی کر چکی ہے، دوسری غلطی کی گنجائش نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں