ریاست کاوسائل سے مہنگائی روکنے کا اعلان

وزیر اعظم عمران خان نے سوشل میڈیاپرجاری اپنے ٹوئیٹ پیغام میں کہا ہے کہ آج پیر0 202سے حکومت اشیائے خوردونوش کی قیمتیں نیچے لانے کے لئے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لائے گی۔ انہوں نے مزید کہا ہے:”ہم پہلے ہی یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں ہونے والی مہنگائی کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا ملک میں اشیائے خوردونوش کی واقعی قلت ہے یا پھر یہ مافیاز کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی وجہ سے ہے؟ اس کے علاوہ اس بات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ بین الاقوامی منڈیوں میں دالوں اورپام آئل کی قیمت میں اضافہ تو اس کی وجہ نہیں؟ یوں تو اس قسم کا اعلان ہمیشہ خوش آئند کہلاتاہے لیکن موجودہ حالات میں اعلان کی بجائے اس پر عملدرآمد کی ضرورت تھی۔جیسے ہی مہنگائی کا گراف نیچے آتا لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے کہ کھانے پینے کی اشیاء سستی ہوگئی ہیں۔اعلان اقتدار ملنے کے ڈھائی سال بعد کیا جائے تو اس پر کوئی تبصرہ مناسب نہیں۔پہلے 100دن میں اشیائے خوردنی کی قیمتیں کم ہوجانی چاہیئے تھیں۔مگر بوجوہ حکومت کی پہلی ترجیح یہ نہیں تھی۔حکومت کوسابقہ دور میں لئے گئے بیرونی قرضوں کی فوری ادائیگی کا سامناتھا جبکہ ملکی خزانہ اس قابل نہیں تھا۔ زر مبادلہ کے ذخائر انتہائی کم تھے۔تجارتی خسارہ برآمدات کے مقابلے میں دو گنا تھا۔فوری ادائیگی نہ کی جاتی تو ملک کو دیوالیہ قرار دیئے جانے کا خطرہ تھا۔یہ آپشن خودکشی کے مترادف ہوتا۔حکومت نے اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق دوست ممالک سے قرض لے کر قرضوں کی مطلوبہ اقساط ادا کر دیں۔اور عالمی سرمایہ داری قواعد و ضوابط ایسے ہیں کہ بیمار معیشت والے ملک کو پہلے آئی ایم ایف کے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے حکمران اپنے ملک کو مستحکم معیشت دینے میں بری طرح ناکام رہے۔ چلیں دیر آید درست آید کے مصداق اس اعلان کو بھی مثبت انداز میں دیکھتے ہوئے توقع کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں عام آدمی کی جان روزانہ کی بنیادوں پر بڑھتی ہوئی مہنگائی سے چھوٹ جائے گی۔اشیائے خوردنی بالخصوص گندم،دالیں، سبزیاں اور پام آئل کی درآمد کسی بھی حکومت کے لئے باعثِ شرم ہونی چاہیئے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔وسیع و عریض زرخیز زمین، محنتی،جفاکش اور سستی افرادی قوت موجود ہے۔پانی کی فراوانی ہے مگر ذخیرہ کرنے کی گنجائش بہت کم ہے۔ 60کی دہائی کے بعد ڈیم بنانے پر کسی جمہوری حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔پانی جیسی قدرتی نعمت کو سیلابی عذاب بنا ڈالا۔اس سے زراعت و معیشت دونوں کو نقصان پہنچا۔سب جانتے ہیں قحط سالی دو تین سال بعدپاکستان کا رخ کرتی ہے۔ڈیم تعمیر نہ کئے جانے کی وجہ سے بارانی علاقوں میں رہنے والے شدید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔شہروں کی جانب نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔شہر پہلے ہی بے ہنگم کچی بستیوں کے باعث اسٹریٹ کرائمز،غربت، بیماری اور بے روزگاری جیسے سماجی مسائل کا مزید بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔بھکاریوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہاہے۔پاکستان کو ہر شعبے میں مناسب منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔یہاں مردم شماری بھی سیاسی تنگ نظری کی بناء پر بروقت نہیں کرائی جاتی۔درست اور سائنسی بنیادوں پر باقاعدگی سے مردم شماری نہ کرائی جائے تو کوئی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، پاکستان کی پسمانددگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مردم شماری جیسا بنیادی کام دہائیوں تک کھٹائی میں پڑا رہتا ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت نے دیہی معیشت کو اٹھانے کے لئے انڈا، مرغی اور بھینسوں کٹو ں کا نام لیا مگر نیم دلانہ اقدامات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔حالانکہ زرعی بینک اس شعبے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ چند غیر سرکاری تنظیمیں اور مائیکرو بینک اپنی بساط بھر کوشش کر رہے ہیں۔لیکن وہ ایک سال میں مکمل قرضہ واپس لینے کی شرط کے ساتھ20فیصد شرح سود پر قرض دیتے ہیں۔ قرض کی ادائیگی ماہانہ بنیادوں پر کی جاتی ہے۔مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو 20ہزار روپے قرض دیں تو اس سے ہرمہینے 2ہزار روپے کی 12اقساط(24ہزارروپے) وصول کرتے ہیں۔(اوور ہیڈ اخراجات اور نادہنگی کا رسک پورا کرنے کے لئے ای جی اوز اس سے کم پر کم نہیں کر سکتیں)۔ حکومت اس سے ملتی جلتی حکمت عملی کم شرح سودکے ساتھ زرعی شعبے کو ترقی دے سکتی ہے۔مڈل مین کو ہٹا کر کھیت سے مارکیٹ میں ریٹیلرز کو براہ راست فراہمی کے ذریعے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔یہ مشکل دکھائی دے تو مڈل مین(آڑھتی) کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تاکہ کہیں تو چیک اینڈ بیلنس ہو۔ مادر پدر آزادی کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یاد رہے عام آدمی کو اعلانات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ مہنگائی کی روک تھام چاہتا ہے۔مہنگائی میں اضافہ عام آدمی کی قوت خرید کم کردیتا ہے۔دو سال سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا اسی اثناء میں اشیائے خوردی کی قیمتی دو گنی ہو گئی ہیں، گویا عام آدمی اپنی تنخواہ سے دوسال پہلے والی اجناس خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، آدھی مقدار پر پہنچ گیا ہے۔کرایہ مکان، بجلی اور گیس کے بل حکومت خود ماہانہ بنیادوں پر بڑھا رہی ہے۔ عام آدمی کی چیخیں نکل رہی ہیں۔حکومت نے مہنگائی پر فوری قابو پانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اگر جلدٹھوس اقدامات نہ کئے تو بھوکا انسان غم و غصے میں کچھ بھی کر سکتا ہے۔پی ڈی ایم عام آدمی کی مہنگائی سے بڑھنے والی مشکلات پر حب علی میں نہ سہی بغض معاویہ میں ہی سہی،آواز تو اٹھا رہی ہے۔ اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے جیسا کھیلے گی ویسا پھل پائے گی۔حکومتیں عام آدمی کی مشکلات کم کرنے کے لئے کوئی کام نہ کر سکیں تو ان کے برسر اقتدار رہنے کاجواز باقی نہیں رہتا۔دو سال دوماہ گزر چکے عام آدمی خاموش رہا۔لیکن یہ خاموشی لا محدود نہیں صبر کا پیمانہ ایک دن لبریز ہو جاتا ہے۔اس سے پہلے ہی حکومت مہنگائی کا سر کچلے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں