گوادر کو ایسٹ، ویسٹ جرمنی کی طرح تقسیم کیا جارہا ہے، غلامی ایک دن بھی برداشت نہیں، سردار اختر مینگل

لاہور: بی این پی کے سربراہ سردار اخترمینگل نے خطاب کرتے ہوے کہا ہے کہ گوادر کو ایسٹ جرمنی اور ویسٹ جرمنی کی طرح تقسیم کیا جارہا ہے، بلوچستان کے شہریوں کا برابر کا شہری سمجھا جائے، غلام کی حیثیت سے ایک دن بھی رہنا قبول نہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے پی ڈی ایم کے لاہور میں منعقدہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ حکمران ان جلسوں کو جلسی کہتے ہیں میں بھی ان کو جلسے نہیں کہتا ہوں، میں تو ان کو ان حکمرانوں کا جو 70سالوں سے ہم پر سنگینوں سے حکمرانی کرتے آرہے ہیں کی نماز جنازہ سمجھتا ہوں۔آج بلوچستان سے آنے والے لوگ موجود ہیں، میں کسی سے گلہ نہیں کرتا ہے ہمارجسموں سے رستے ہوں خون کے چند قطرے میں آپ کے سامنے رکھوں گا، پھر آپ فیصلہ کریں کہ اس شورش کا ذمہ دار کون ہے ان 70سالوں میں ہم نے ایک دن بھی چین کا نہیں دیکھا،ہم نے بہت کچھ کھویا،ہمارے بچے ہم سے چھین لیے گئے، گاؤں اجاڑ دیئے گئے، ماؤں کے سامنے ان کے بچوں کا قتل عام کیا، لیکن ہم نے جمہوریت کا علم بلند رکھا،آج آپ جس غیر جمہوری اور آئین شکن نام نہاد حکمرانوں کیخلاف پر سر پیکار ہیں،آج آپ جس خلائی مخلوق کیخلاف لوگ جمع ہیں ہم ان کو خدائی مخلوق کیخلاف، جس قوت کیخلاف آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر پھینکا ہم 70سالوں سے ان کا مقابلہ کرہے ہیں، 70سالوں سے جو ظلم ہور ہا ہے، اس کا ذمہ دار پنجاب ہے، اگر اس کو روز اول سے اس اژدھا کو لگام دی جاتی تویہ صورتحال نہیں ہوتی، یہ جن جو بوتل سے نکلاہے اس کو قابو کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔
اگراہل پنجاب اس ملک کو بچانا چاہتاہے تو خلائی مخلوق کو اس کی حیثیت دکھادیں،یہ آپ لاہور والوں کی ذمہ داری ہے، اگر دوسرا بنگلہ دیش بنانا نہیں چاہتے تو اس بلا کو لگام بھی دے سکتے ہیں، بلوچستان کے لوگوں برابر کا شہری سمجھا جائے، ہم بحیثیت غلام ایک دن کیلئے بھی رہنا نہیں چاہتے، آپ کے 5دریا آپ کو مبارک ہو،ان سے سیرب ہونے والی فصلیں آپ کو مبارک،ان سے کچھ نہیں چاہئے، لیکن میرے لئے میری سرزمین کی سوکھی مٹی قابل احترام ہے، میرے سمندر کا کھارا پانی سر آنکھوں پر ہے، میر سرزمین کی معدنیات کا مالک وہا ں پر رہنے والے لوگ ہیں ہم پر فوجی آپریشن ہوئے۔ہم پر بھارت کی فوج نے آپریشن نہیں کیا، ہم پر جاپان کی فوج نے آپریشن نہیں کیا،امریکہ کی فوج نے ہم پر حملے نہیں کیے، انگریزوں نے ہم پر دوسو سال حکومت کی لیکن ہماری عزتیں محفوظ تھیں لیکن آج بلوچستان میں ہماری عزتیں بھی محفوظ نہیں پھر بھی توقع کیا جاتا ہے کہ ہم پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائیں، لگا رہے ہیں ہم اسمبلیوں میں ہیں۔ہم نے آئین کی حفاظت کی، لیکن ہماری عزتوں کی حفاظت کے لیے کوئی نہیں نکلا،ہماری لاشیں گرائی گئیں،10ہزار کے قریب نوجوان غائب ہیں ان کی مائیں بہنیں سڑکوں پر ہیں ان کے سروں پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں۔ سردار اختر مینگل نے جلسہ میں ایک بلوچی شعر بھی کہا، اور سامعین کے لیے شعر کی تشریح بھی کی،آج مینار پاکستان کے سائے تلے جہا ں قرار داد پاکستان منظور کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک جمہوری ریاست کا قیام ہوگا،آزاد رریا ست کا قیا م ہوگا، کیا واقعی یہ اسلامی ریاست ہے، کیا واقعی جمہوری ریاست ہے، کیا واقعی آپ لوگ آزاد ہیں، آپ انگریزوں سے آزادی حاصل کرکے وردی والوں کی غلامی میں آچکے ہو،ان 70سالوں میں ہم اور آپ نے ان کی غلامی کی ہے اگر یہا ں پر اسلا می نظام ہوتا،یااسلام،قران، کسی آیات یا کسی حدیث میں کہاں لکھا ہے کہ کسی مرے ہوئے شخص کے تابوت کو تالے لگائے جائیں،مجھے بتایا جائے کہ اسلامی تاریخ میں کس مملکت کے سربراہ کے جنازہ میں اس کے خاندان والوں کا اجازت نہیں دی گئی ہو،مجھے جمہوری ممالک کوئی واقعہ بتایا جائے، جس میں منتخب نمائندوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا، یا مجھے بتایا جائے کہ کس ملک میں بھاری مینڈیٹ رکھنے والے منتخب نمائندے کو جلاوطن کیا گیا ہویہ تاریخ ہمیں صرف اس ملک میں ملتی ہے،اگر صوبے خود مختا رہوتے تو بنگلہ دیش نہ بنتا،اگر جمہوریت ہوتی تو جنرل براہ راست 31سال حکومت نہیں کرتے،سیاسی معاملات میں مداخلت اور تو اور انہوں نے کاروبار بھی اپنے ہاتھ میں رکھے دیئے، ڈی ایچ اے بنے ہوئے ہیں، ایف ڈبیلو او ہے،احتساب سب کا ہونا چاہئے،میں تو یہ کہتا ہوں سب سے پہلے سیاستدانوں کا ہونا چاہئے،آسٹریلیا میں جزیرے خریدنے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے،دبئی میں موجود جنرل مشرف جو اپنے آپ کو شیر کہتا تھااس کا بھی احتساب ہونا چاہئے پیزہ بیچنے والوں کا بھی ہونا چاہئے،سردار اخترمینگل نے سامعین کو مخاطب کرتے ہوے کہا کہ گوادر کا نام تو سنا ہوگا،ہمارے گوادر کو باڑیں لگا کر ایسٹ جرمنی، ویسٹ جرمنی کی طرح تقسیم کیا جا رہا ہے، لوگوں کو بیدخل کیا جارہا ہے، ماہیگیروں کو سمندر میں نہیں جانے دیا جارہا ہے،ہم ترقی کے خلاف نہیں، وہ ترقی جس سے میرے وجود کو خطرہ ہے وہ مجھے قبول نہیں، وہ ترقی جسم میں میری زبان اور شناخت کو خطرہ ہو وہ ترقی کسی صورت قبول نہیں،

اپنا تبصرہ بھیجیں