کھنڈرات میں خزانہ
(A Treasure In Ruins )۔ترجمعہ ۔ڈاکٹر دین محمد بزدار
قدیم مہر گڑھ چوروں اور تشدد کی بنا ضائع ہو گیا:۔
(Ancient Mehrgarh Lost to Thieves And Voilence )By Wu Mingren) مہر گڑھ آثار قدیمہ کی ایک بستی ہے۔جو پاکستان کے جنوب مغربی حصہ بلوچستان میں واقع ہے۔بلوچی زبان میں مہر کے معنی محبت اور گڑھ کے معنی جنت کے ہیں۔
مہر گڑھ جنوبی ایشیا میںپتھر کے زمانے کی سب سے اہم بستیوں میں سے ایک ہے۔وہاں پر ذراعت کے سب سے قدیم کچھ شواہد دریافت ہوئے ہیں ۔اس لیئے مہر گڑھ کو کبھی کبھار جنوبی ایشیا کاسب سے پہلا ذرعی بستی بھی کہا گیا۔ اس طرح مہر گڑھ وادی سندھ کی تہذیب جو تہذیبوں کے جھولوں (Cradles )میں سے ایک ہے کا پیش رو ہے۔ماہر آثار قدیمہ نے مہر گڑھ کے لو گوں کے پیشہ کو سات ترتیب وار زمانوں(Seven Chronological Periods )میں تقسیم کیا۔جو تصویر کشی کر تے ہیں کہ ہزاروں سال سے اس بستی کی کیسے ارتقا ہوئی۔مہر گڑھ دریا ئے سندھ کے مغرب میں درہ بولان سے کچھ فا صلے پر کچھی کے میدان میں واقع ہے ۔جو تاجروں حملہ آوروں اور خانہ بدوش قبائل کے راستے میں پڑتا ہے۔کچھی کا میدان ذر خیز اور پانی کی موجودگی کی وجہ سے انسانی آبادکاری کے لیئے موذوں ہے۔جبکہ درہ بولان تزویراتی ، جغرافیائی لحاظ سے اہم ہے جو اس بستی کو مغرب سے ملاتا ہے درہ بولان افغا نستان اور اس سے آگے سطح مرتفیٰ ایران اور مشرق میں ذر خیز قوس، وادی سندھ تک رسائی کا دروازہ ہے۔دوسرے لفظوں میں اسی پہاڑی درے نے مشرق کی جانب وادی سندھ اور مغرب میں دوسری ابتدائی تہذیبوں کے ما بین آمدرفت کو ممکن بنا یا ۔تاجر حملہ آور اور خانہ بدوش قبا ئل ہزاروں سال سے درہ بولان سے گزر رہے ہیں ۔درہ بولان نے اپنا تزویراتی اہمیت جدید دور میں بھی برقرار رکھا ، برطا نوی نو آباد کاروں نے بھی افغا نستان جانے کے لیئے اپنی مہموں میں اسی درے کو استعمال کیا ۔مہر گڑھ بلوچستان کے جدید شہروں کو ئیٹہ قلات اور سبی کے درمیان واقع ہے ، جبکہ مو ہنجو ڈارو اور ہڑپہ وادی سندھ کے دو بڑے شہری مرا کز ترتیب وارڑمہر گڑھ کے جنوب مشرق اور شمال مشرق میں واقع ہیں ۔
مہر گڑھ کی دریافت اور کھدائی:۔(Discovering and Excavating Mehrgarh )
مو ہنجو ڈارو اور ہڑپہ کے بر خلاف مہر گڑھ کی دریافت کسی حد تک بعد میں ہوئی۔مو ہنجو ڈاروکی موجود گی کا علم ما ہرین آثار قدیمہ کو 1911 سے تھی لیکن اس کی کھدائی 1920 سے شروع ہو ئی۔ہڑ پہ کی دریافت 1826 سے ہو گئی تھی ، لیکن اس پربھی کھدائی 1920 میں شروع ہوئی۔دوسری جانب مہر گڑھ کی دریافت 1974 میں ہوئی ،یہ دریافت فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ جین فرانکو ئس جیرگ نے کی ۔جیرگ جنوبی ایشیاکے آثار قدیمہ کا ماہر تھامہر گڑھ کے علاوہ دوسرے بستیوں جیسے نو شہرو ،جو مہر گڑھ سے 6کلو میٹر (3.73 ) میل کے فا صلے پر ہے ، پیرک،سبی،داو
¿ دا ،لعل شاہ،دمبولی اور شا گہیر میں کھدائی بھی اس کے ذمہ داری تھی ۔مہر گڑھ کی بستی 495 ایکڑ (دوسو ہیکٹر ،دو مربع کلو میٹر )پر مشتمل ہے۔جیرگ اور اسکی ٹیم وہاں 1974 سے1986 تک مسلسل کام کرتی رہی،پھر مہر گڑھ کی کھدائی دس سال کے لیئے بند کی گئی ۔1997 میں اس پر کام دوبارہ شروع کیا گیا ،ما ہرین نے چار سال مزید کام کیا ۔یہ مہم 2000 میں اختتام کو پہنچا۔یہ کام فرانسیسی آثار قدیمہ کے مشن اور پا کستانی آثارقدیمہ نے مشترکہ طور پر سر انجام دی۔جیرگ اور اسکے ٹیم نے مہر گڑھ میں کام کے دوران وہاں کی قدیم لوگوں کی بودو باش کے بارے کافی معلومات حا صل کیں۔
مہر گڑھ کی لمبی سکونت کی تا ریخ :۔(Mehgrah,s Extensive Occupation History )۔
مہر گڑھ ایک مستند کہا نی کی بستی ہے(Classic tell site )۔یہ بستی ہاتھ سے بنی ٹیلہ ہے۔جو وقت کے ساتھ ساتھ وجود میں آیا۔جب اس بستی کے با سیوں نے نئے تعمیرات پرانے کھنڈرات پر کر نا شروع کیئے تو یہ ٹیلا بلند ہوتا گیا اور کئی نسلوں بعد ایک کہا نی وجود میں آئی ۔مہر گڑھ میں بنا ئی گئی کئی ایسے ٹیلوں کی کھدائی کی گئی جن سے آ ثار قدیمہ کا ایک تسلسل (Sequence )وجود میں آیا ۔اس تسلسل کو سات زمانوں میں تقسیم کیا گیا جنہیں مہر گڑھ I تا VII کا نام دیا گیا ۔مہر گڑھ کی پہلی معلوم آبادی اس کے شمال مشرقی کونے میں دریافت ہوئی جسے MR3 کا نام دیا گیا۔آثار قدیمہ کے تسلسل میں اس وقت کو مہر گڑھ زمانہ Iکہا گیا اور یہ وقت 7000-5500 سال قبل مسیح کا تھا۔وہ وقت جو پتھر کے زمانے(Neolithic ) سے مطا بقت رکھتا ہے۔ا سوقت مہر گڑھ ایک چھو ٹی سی بستی تھی لوگ ذراعت اورمو یشی پالتے تھے۔اسوقت تہذیب اسرامک (Aceramic )تھی یعنی لوگ اسوقت مٹی کے برتن نہیں بنا رہے تھے۔ جو پتھر کے زمانے اور بعد کے زمانے کے دررمیان کی پہچان ہے۔اس کے بر خلاف مہر گڑھ کے باسی ٹو کری استعمال کرتے تھے اور ان پر بچومن(Bistumen )لگا تے تاکہ پانی سے محفوظ رہیں ۔آثار قدیمہ کے شواہد یہ بھی بتا تے ہیںکہ اسوقت کے لوگ تانبا بھی استعمال کرتے تھے جو وہ مقامی طور پر حاصل کرتے۔اس کے علاوہ پتھر اور ہڈی کے اوزار بھی استعمال میں لاتے ۔ بیرونی اشیا کی موجودگی جیسے سیپی (Sealshells )جو دور سا حل سمندر سے اور لاجورد افغا نستان سے لاتے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مہر گڑھ کے لوگ بیرونی دنیا سے پہلے سے روابط میں تھے۔مہر گڑھ I کے وقت اس کے لوگ گارے سے بنے گھروں میں رہتے جس کے اندر چار حصے ہوتے تھے۔ یہ گھر سیدھے کھڑے اور مستطیل شکل کے تھے ۔انکے گارے کی اینٹیں لمبی سگار نما تھیں ۔ان گھروں کی شکل (Form )با لکل ویسی تھی جیسے میسو پو ٹا میا(Mesopotamia ) میں سات ہزار سال قبل مسیح دریافت ہوئے تھے۔اس لیئے ان دو تہذیبوں میں روا بت کی بات کی جاتی ہے ۔ان روابت کے حق میں دوسرے شواہد میں ذر عت، دستکاری اور تجحیزوتکفین کے رسومات میں مماثلت بھی تھا۔
قدیم کسان اور ماہر دندان:۔(Early Formers And Dentists )
مہر گڑھ جنوبی ایشیا میں ذراعت کے آثار کی سب سے قدیم بستی ہے۔مہر گڑھ فیز Iمیں جو لوگ بستے تھے انہیں پلانٹ فوڈ (Plant food ) جنگلی جو، مقامی مکئی (einkorn )گندم (Emmer wheat )اور جنگلی انڈین جو جو لی(jujuly ) اور کھجور (phoenix dectylifera )کی خوراک تک رسائی حا صل تھی۔اس کے علاوہ گوشت بھی کھائی جاتی تھی۔گلہ کے پالتو جانور جیسے بھیڑ بکری ،مویشی اور جنگلی جانور جیسے ہرن، دریائی بھینس (water buffalo )اور ہاتھی کے با قیات ان کھنڈرات کے تہوں سے ملے ۔اس قسم کے جانوروں کے شکار سے ظاہر ہے کہ اس زمانے میں بلو چستان زیادہ تر وسیع میدانوں(savannah ) پر مشتمل تھا ۔ما ہر آثار قدیمہ نے مہر گڑھ سے دو اور دلچسپ مشاہدے، جس میں ایک قدیم دنیا کی سب سے پہلی معلوم کپاس کا نمونہ اور دوسرا زندہ انسانوں کے دانت کی ابتدائی ڈرلنگ کے ثبوت دیئے۔پہلی شواہد کی اشاعت آر کیا لو جیکل سا ئس کی میگزین میں 2002 میں ہوئی۔دوسری کی اشا عت نیچرمیگزین میں 2006 ہوئی۔کپاس کے دھا گوں کی دریافت مہر گڑھ سے دریافت ایک ڈھانچہ (Burial ) سے ملنے والے تانبے کے دانے(bead ) کی صفائی (Metallurgical study )کے دوران سا منے آئی، منریلائزیشن کے نتیجہ میںکچھ کپاس کے دھاگے محفوظ کئے گئے۔ سکین ما ئیکرو سکوپ اورروشنی منعکس کر نے والی ما ئیکرو سکوپ کی مدد سے تحقیق کرنے والے اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ دھاگے کپاس کے ہیں۔جہاں تک دانتوں پر ابتداائی کام کی بات ہے ماہرین نے گیارہ مستقل ڈرل شدہ کراو
¿ں (crown )نو انسانی ڈھانچوں میں شناخت کیں ۔دانتوں کا مشا ہدہ لا ئیٹ ما ئیکرو سکوپ اور ما ئیکرو ٹو مو گرافی سے کیا گیا۔ان مشاہدوں سے مخروطی بیلن نما اورمستطیل سے ملتے جلتے گڑھے اور کچھ سا ئیڈپرمشترکہ مر کز والی ابھا ریں پائی گئیں ۔ان تمام نشا نیوں سے ظاہر ہے کہ دانتوں کو ڈرل کیا گیا ۔تمام دانتوں کے گڑھوں کے کنارے ہموار تھے اس سے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ کام زندہ لوگوں پر کیا گیا اور بعد میں انہیں دانتوںسے خوراک چباتے رہے اس لیئے دانتوں کے کنارے ہموار ہو گئے تھے۔ان پتھر کے ڈرل کے سرپر چکماک لگی اوزار سے دا نتوں میں اس طرح گڑھے بنا نے میں ما ہرین کے مطا بق ایک منٹ سے بھی کم وقت لگا ہوگا۔تحقیق کاروں نے یہ بھی خیال ظاہر کیاکہ ڈرل کا ہنر پہلے کا ریگروں نے دانوں میں سوراخ کر نے کے لیئے دریافت کیا اور پھر اسے انسانی دانتوںمیں سوراخ کے لیئے استعمال کیاگیا۔
مہر گڑھ میں دستکاری اور برتن بنانے کام :۔( Ceramics and Crafts-work at Mehgarh. )۔
مہر گڑھ پیشہ کے دوسرے دور کومہر گڑھ II کا نام دیا گیا ہے ،جو 5500 سے4800 ق م تک کے وقت کا ہے۔اس وقت تک مہر گڑھ کے لوگ مٹی کے بر تن بنا نے کا فن جان چکے تھے۔لگتا ہے توجہ MR3 سے نئی جگہ MR4 پر ہو گیا تھا۔اسوقت تک ذراعت نے ترقی کر لی تھی اور ماہرین کے مطابق مقا می طور جو(Barley ) ذراعت کے 90%پر مشتمل تھی،اگر چہ نزدیک مشرق سے مہر گڑھ کے با سیوں کو گندم بھی میسر تھی۔ماہرین نے سورج پر خشک اینٹوں کی کئی عمار تیں بھی کھود نکا لیں ۔یہ بڑی مستطیل نما عمارتیں تھیں جنہیں پھر مناسب انداز سے چو کور ،مستطیل شکل میں تقسیم کیا گیا تھا۔ما ہرین کا خیال ہے یہ گھر نہیں تھے جیسے تہہ(Layer ) میں مہر گڑھ فرسٹ میں دریافت ہوئے تھے کیونکہ ان کے دروازے نہیں تھے۔اس کے علاوہ گھروں کے آثار نا پید تھے۔ان کے مطابق یہ یا تو غلے کے گودام تھے یادوسرے اشیا کے گودام ہوں جو لوگوں کے مشترکہ ہوں ۔ دوسرے آثار سے لگتا تھاکہ میر گڑھ میں اسوقت بہت سی چیزیں بن رہی تھیں ۔یہاں معاری کمرے جن کے گرد کھلی جگہیں تھیں جہاں دستکاری کے کام ہوتے ہونگے۔اس قسم کی زندگی مہر گڑھ میں پتھر کے زمانے کی میٹیریل کلچر(Material Culture )میں جو گزر گئی تھی میںبھی عیاں تھی۔ان دستکا ریوں کی بنیادی چیز دانے (beads ) تھے جو اس علاقہ کی پہچان تھی۔یہاں دانے بنا نے کی روایت وادی سندھ کی تہذیب تک قائم رہا۔مہر گڑھ سیکنڈ کے وقت دستکار کئی قسم کے دانے بنا تے تھے۔جیسے نرم پتھر، چونے اور ابرق کے دانے ، انہیں شاید پتھر یا تانبا سے ڈرل کیا جاتا ہو۔سخت پتھر جیسے عقیق سنگ یشت وغیرہ کے لیئے خاص قسم کے پتھر کے ڈرل استعمال ہوتے ہونگے۔مہر گڑھ میں سمندری سیپی کے زیورات بھی بنائے جاتے تھے۔ان دانوں اور شل کی زیورات سے ظاہر ہے کہ مہر گڑھ IIکے وقت کا فی تعداد میں غیر مکامی خام مال درآمد کیا جا تا تھا۔یہی حالت اگلے مر حلے مہر گڑھ IIIتک قائم رہی , جو 4800 سے 3500 ق م تک رہی ،جسے ابتدائی تانبے کا زمانہ (Early Chalcolithic )کہتے ہیں۔اب اس بستی کے لوگوں کی توجہ دوسری جگہ جسے MR-1 کا نام دیا کیا مرکوز ہوئی۔یہاں بھی سابقہ دور کی طرح گودام اور گھر ما ہرین نے دریافت کئے۔لیکن یہ پتھر کے زمانے والے آثار سے کافی زیادہ واضح تھے ۔مثلاًمکانوں کی بنیاد گارے اور بجری کی تھی اور اینٹیں سانچوں میں بنائی گئی تھیں ۔مہر گڑھ IV-VII کا زمانہ 3500-2500 ق م کا ہے ، اور یہ لیولز (Lavels ) تانبے کے زمانے کے ہیں ۔اب مہر گڑھ کے لوگ یہاں سے MR-1 میں چلے گئے ۔اس زمانے مٹی کے برتن اور دستکاری اس بستی میں پہلے کی طرح بنتی رہیں لیکن انکی خوبصورتی میںاضافہ ہوتا گیا۔
مہر گڑھ کو ترک کرنا:۔(Mehrgarh Is Abadened )۔
مہر گڑھ دور IVکے اختتام پرمہر گڑھ کے اکثر با سیوں نے اسے چھوڑ دیاتقریباً اسی وقت وادی سندھ کی تہذیب ترقی کی درمیانی منزل پر تھی ۔یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ مو سمی تبدیلیوں کی وجہ سے بلو چستان کا یہ علاقہ زیادہ خشک ہو گیاتھا اور اس پر ذراعت سود مند نہ رہی اس کے نتیجہ میں مہر گڑھ کے لوگوں نے وادی سندھ ہجرت کی جہاں مو سمی حالات مناسب تھے۔مہر گڑھ کی اہمیت کے باوجودمہر گڑھ آج نا گفتہ بہہ حالت میں ہے۔ اگر چہ مہر گڑھ اب یو نسکو کی میراث کی آز ما ئشی لسٹ (UNESCO Tentave Heritage List. )میں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مر کزی حکومت نے مہر گڑھ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔یہ الزام مر کزی حکومت پر ڈالا گیا کہ وہ مہر گڑھ کو یو نسکو کے سا منے مو ئثر انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہا۔مہر گڑھ کو اور بھی شدید مسا ئل کا سامنا ہے۔یہ جگہ 2002 میں رند رئیسانی قبا ئلی دشمنی کا” بد قسمت ہدف“ (Unfortunate victim (بنا ۔دونوں قبائل نے راکٹ مار کر اس جگہ کو بری طرح تباہ کیا۔اگر چہ اس جگہ پر رئیسانی قبیلے کا کنٹرول تھا لیکن رند بھی اس پر اپنا دعویٰ جتا رہے تھے ۔چیزیں جیسے ہیں انہیں ویسے رہنے دینے پر قناعت کر نے کی بجائے رندوں نے سادہ لوحی سے فیصلہ کرکے اس جگہ پر بلڈوزر چلا دیا(The Rind decided simply to buldose the site. )۔مقامی مسائل کے علاوہ مہر گڑھ کو بین لا العقوام مسائل بھی درپیش ہیں ۔اکتوبر 2014 کواٹلی کے حکام نے روم سے دو نوادرات ضبط کیں جو مہر گڑھ سے چرائے گئے تھے ۔2015 کے ایک مضمون میں بتا یا گیا کہ پا کستان کے بیورو کریسی کی عدم دلچسپی اور سرخ فیتے کی بنا ان چیزوں کی واپسی ممکن نہ ہو سکی۔سمگل شدہ نوادرات کا پکڑاجانا قابل تعریف ہے لیکن یہ مسلئہ کے جڑ کی نشان دہی نہیں کرتا ۔پاکستان میں غیر قا نونی نوادرات کی تجارت عام ہے۔مہر گڑھ اور ایسی دوسری جگہوںکے مستقبل کو یقینی بنانے کی خاطر نوادرات کے سمگلنگ کے مسلے پر حکومت پا کستان کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ……