حکومت ایک بار پھر اتحادی دباؤ میں؟

اتحادی جماعتوں کے ووٹ حاصل کرکے حکومت تشکیل دینا ایک حد تک آسان کام ہوتاہے کیونکہ ہر اتحادی کی پسند کے وعدے پر ہاں کہنے کے سوا کچھ نہیں کرنا پڑتا لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے ”اتحادی“ کئے گئے وعدوں پر عمل درآمد کا تقاضا شروع کر دیتے ہیں۔اتحادی بجٹ کی منظوری کا سارا سال انتہائی بیچینی سے انتظار کرتے ہیں اور ہر سال کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔مگر امسال وزیر اعظم عمران خان کی پریشانی ماضی کے مقابلے میں تھوڑی سی بڑھ گئی ہے۔اس مرتبہ انہیں اپنے دیرینہ ساتھی جہانگیر ترین کی شکل میں پارٹی کے اندر سے بغاوت کا سامناہے۔جہانگیر ترین پر الزام ہے کہ انہوں نے شوگر مافیا کا حصہ بن کر چینی کی قیمت بڑھا ئی اور اربوں روپے منافع کمایا۔اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور عوام کو مہنگائی کا بوجھ برداشت کرنا پڑا۔گندم اور آٹے کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیاگیا۔لیکن جہانگیر ترین کا دعویٰ ہے کہ وہ بیگناہ ہیں، ان کے خلاف کابینہ میں بیٹھے بعض افراد نے سازش کی ہے،(بے بنیاد)گمراہ کن اطلاعات پہنچا کر وزیر اعظم عمران خان کو ان کے خلاف مقدمات پر آمادہ کیا اور برسوں کی دوستی کو دشمنی میں بدل دیا۔کچھ عرصہ جہانگیرترین نے صبر کیا،آخر کار انہوں نے بھی نون لیگ کاراستہ اپنایا، پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور ایم پی ایزکو ڈنر پر بلایا، عدالت میں پیشی پر جمع ہونے کی درخواست کی اور میڈیا پر بیان بازی شروع کردی۔آہستہ آہستہ یہ تعداد 30تک جا پہنچی،وزیر اعظم سے ناراض اراکین کی ملاقات ہوئی، جہانگیرترین کے تمام مطالبات ان کی خواہش کے مطابق 100فیصد تومنظور نہ ہوئے البتہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ ان کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی، انصاف ملے گا۔بیرسٹر علی ظفر ان کے مقدمات کو دیکھیں گے۔ مئی کے آخر تک اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کر دیں گے۔گویا بات بجٹ اجلاس سے پہلے بن گئی تو ترین گروپ حکومت کو بجٹ سازی میں مدد دے گا بصورت دیگر مشکلات پیدا کرے گا۔سیاسی حلقوں میں مشہور ہے کہ اگر کوئی حکومت قومی اسمبلی سے اپنا بجٹ منظور نہ کرا سکے تویہ ناکامی حکومت کے خلاف عدم اعتماد سمجھی جاتی ہے۔لیکن پاکستان کی تاریخ میں کوئی حکومت بجٹ منظوری میں ناکام نہیں ہوئی، کوئی نہ کوئی تدبیر کرکے گنتی پوری کر لی جاتی ہے۔اس مرتبہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے،بجٹ منظوری کے آخری لمحات میں معلوم ہو سکے گا۔ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں سب کچھ ممکن ہے۔ چوہدری برادران کے خلاف نیب نے آمدنی سے زائد اثاثوں کے مقدمات ختم کرنے یا واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ مبصرین اس اعلان کو بھی پی ٹی آئی کی حالیہ مشکلات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ جہانگیرترین چاہتے ہیں ان کی دیرینہ خدمات کودیکھتے ہوئے حکومت کوئی ایسا طریقہ اپنائے جو ان کے شایان شان ہو،دنیا دیکھے دوست اور دشمن میں فرق ہوتا ہے۔وزیراعظم کسی قسم کی نظر آنے والی دینے سے بچنا چاہتے ہیں، انہوں نے ملاقات کے لئے آنے والے اراکین کو اپنی مجبوری بتا دی ہے، دو فارمولے نہیں ہو سکتے۔یہی وجہ ہے کہ ترین گروپ نے فیصلہ کیا ہے بجٹ اجلاس کا انتظار کرے گا، چینی کی قیمتوں میں من مانے اضافے، ٹیکسوں میں خورد برد، سب سڈی،اورعوام سے اربوں روپے سمیٹنے جیسے سنگین الزامات پر حکومت نرمی دکھاتی ہے یا نہیں، اپنی ضد پر قائم رہتی ہے؟حکومتی جواب دیکھ کر آئندہ حکمت عملی بنائی جائے گی۔تب تک یہ سسپنس برقرار رہے گا۔ وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والوں میں جہانگیر ترین شامل نہیں تھے۔ ملاقات کے فوراً بعد ترین گروپ کافی خوش تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ان کی تشویش بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔یاد رہے کہ ابھی پاکستان کی سیاست کے خدو خال بوجوہ واضح نہیں ہو سکے۔انہیں واضح ہونے میں وقت لگے گا۔گزشتہ کئی دہائیوں میں سیاست کا مزاج بگاڑا گیاہے، اسے سدھرنے میں بھی وقت لگے گا۔تجزیہ کار دستیاب شواہد کی روشنی میں اپنی رائے دیتے ہیں۔وہ عوام کومہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے والی حکمت عملی چاہتے ہیں ڈھائی سال بعد بھی مسائل اسی بلندی پر نظر آئیں جہاں ڈھائی سال پہلے تھے بلکہ اس سے بھی بلندتر ہو جائیں تو مبصرین اور اپوزیشن کی تنقید میں شدت آنا فطری امر ہے۔پی ٹی آئی کی مشکل یہ ہے کہ اسے وفاق اور پنجاب دونوں جگہ سادہ اکثریت بھی نہیں ملی۔اتحادیوں کی حمایت ادھر ادھر ہوجائے تو حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔دوسری جانب اتحادیوں کو شکایت ہے کہ ان کے ساتھ کئے گئے وعدے بھی تا حال پورے نہیں ہوئے۔ووٹرز کی ناراضگی ضمنی انتخابات میں سامنے آ رہی ہے۔کراچی میں پی ٹی آئی اپنی چھوڑی ہوئی نشست پرپہلی سے پانچویں پوزیشن پر پہنچ گئی، وفاق میں اقتدار رکھنے کے باوجودووٹرز اس قدر ناراض ہوں تو اپوزیشن کی خوشی میں اضافہ حیران کن نہیں۔ایسے سیاسی موسم میں پی ٹی آئی کے اپنے 30سے زائد اراکین مخالفت پر اتر آئیں تو اپوزیشن کو اپنی منزل (حکومت کوگھر بھیجنا) قریب نظر آنے لگتی ہے۔یہاں ایک بار پھر سیاسی معجزات عام آدمی کے لئے معمہ بن جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معجزات جس سیاسی جماعت کے حق میں آئیں اس کے لئے درست اور حکومت یاکسی دوسری پارٹی کے حق میں آئیں تو قابل اعتراض ہوتے ہیں۔ سیاست کااصلی روپ اس دھند کے چھٹنے کے بعد نظر آئے گا۔ ابھی عام آدمی کو ہر چہرے پر ”سلیکٹڈ“ کا ٹھپہ نظر آتا ہے۔عام آدمی کوآزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابی عمل کئی دہائیوں سے دیکھنے کونہیں ملا،ٹھپے والے انتخابات کے نتیجے میں سامنے آنے والے ہرچہرے پر ٹھپہ لگا ہوتا ہے۔ساری لاٹ ٹھپوں والی ہو توعام آدمی کیلئے بغیر ٹھپے والا سیاسی چہرہ تلاش کرنا ممکن نہیں رہتا۔الیکشن کمیشن نامی ایک آئینی ادارہ موجود ہے لیکن ریٹرننگ آفیسر خود سر ہیں،ڈسکہ کے انتخابا میں دھند کا عذر پیش کرکے رات بھی کسی”محفوظ“ مقام پر آرام کرتے ہیں، الیکشن کمیشن انہیں کچھ نہیں کہتا۔اب اسی قسم کا واقعہ کراچی کے انتخابات میں دیکھا گیا ہے۔دیکھیں الیکشن کمیشن کیا کرتا ہے؟ پی ٹی آئی نے اسی ماحول میں اقتدار سنبھالا ہے۔عددی قلت اس کے لئے روز اول سے درد سر بنی رہے گی۔ پہلے اتحادی آنکھیں دکھاتے تھے،اب جہانگیر ترین کے ساتھ مل کر اپنے یہی کام کرتے نظر آتے ہیں۔ عام آدمی حکومت کے لئے مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتا، خاموش تماشہ دیکھ رہا ہے۔ وزیر اعظم اپنے دیرینہ دوست کو کیسے راضی کرتے ہیں،اسی پر ان کا سیاسی مستقبل ہے۔ایک جانب سیاسی ساکھ ہے اوردوسری جانب دوست(بلکہ دوستوں کی بھیڑ)ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں