عمران خان،جہانگیر ترین اور گاؤں کی سڑک

انور ساجدی

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تحریک انصاف کے اندر جہانگیر ترین گروپ بن چکا ہے گوکہ اس کی حیثیت ابھی ہلکی پھلکی موسیقی کی ہے لیکن اسے راگ ملہار یاپکے راگ میں بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی جوں جوں اس کی طاقت بڑھے گی اس کی سودے بازی یا بلیک میلنگ کی پوزیشن بھی بڑھ جائے گی اس گروپ کے بانی عمران خان کے سابق دست راست جہانگیر خان ترین ہیں لیکن دراصل اس کی تشکیل کے ذمہ دار خود عمران خان ہیں کیونکہ جب انہیں جہانگیر خان ترین کی حقیقت اور اصلیت کاپتہ تھا تو انہوں نے2018ء کے عام انتخابات اور بعدازاں حکومت سازی میں ان کی خدمات کاسہارا کیوں لیا جب لیا تھا تو ان پر ہاتھ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی عمران خان کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ ایک تہی دست شخص25برس کے عرصے میں کھرب پتی کیسے بناسیدھے راستے سے کوئی بھی اتنی مدت میں کھرب پتی نہیں بن سکتا جہانگیر خان نے عمران خان کی مدد مفت میں تو نہیں کی تھی انہوں نے اپنے جہاز کو رکشہ یونہی نہیں بنایا تھا قدرتی بات ہے کہ عمران خان کے حکومت میں آنے کے بعد وہ اپنی بے تحاشہ اور بے حساب دولت میں مزید اضافہ کرنا چاہتے تھے شروع میں انہوں نے لمبا ہاتھ ڈالا اور کامیابی بھی ملی لیکن اکیلے واردات کرنے کی وجہ سے وہ ناپسندیدہ بن گئے یہ پاکستانی پاور پالیٹکس کادستور ہے کہ خود کھاؤ سب کو کھلاؤ اس فارمولے پر صرف زرداری نے کمال خوبی سے عمل کیا جبکہ نواز،شہباز بھی کھانے میں کسی اور کو شریک کرنے کے روادار نہیں تھے اسی وجہ سے گرفت میں آگئے ان کیخلاف چینی اسکینڈل بنوانے میں مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر کاہاتھ تھا یہ ہاتھ عمران خان کی آشیرباد کے بغیر اٹھ نہیں سکتا تھا چنانچہ وزیراعظم نے یہ ببانگ دہل اعلان کیا کہ وہ چینی مافیا کو درس عبرت بناکر چھوڑیں گے ان کی مراد جہانگیر ترین سے تھی لیکن ترین اور خان صاحب میں ایک بڑا فرق ہے ترین صبروتحمل سے کام لیتے ہیں اور بدلہ باری آنے پر لیتے ہیں جبکہ خان صاحب بدلہ لینے کااعلان پہلے کرتے ہیں عمل کی نوبت بعد میں آتی ہے اس لئے اکثروبیشتر ان کے دعوے دھمکیاں دھر کے دھرے رہ جاتی ہیں انہوں نے اقتدار کے شروع میں کہا تھا کہ وہ نوازشریف کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ ان کی پوری زندگی جیلوں میں گزرے گی اسی طرح کااعلان انہوں نے زرداری کے بارے میں بھی کیا تھا لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ نوازشریف خان صاحب کو جل دے کر خصوصی طیارے سے لندن چلے گئے خان صاحب صرف کف افسوس ملتے رہ گئے انہوں نے شہباز اور مریم کو بھی ساری عمر جیل میں رکھنے اوردرس عبرت بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن دونوں عدالتوں کے ذریعے آزاد ہوگئے۔خان صاحب کی ذہینت کے بارے میں ایف آئی اے کے سابق سربراہ بشیر میمن نے جامع وضاحت کی ہے ان کے بقول خان صاحب نے انہیں بلاکر کہا کہ وہ جن کرپٹ شخصیات کے بارے میں ایکشن لینا چاہتے ہیں وہ فوری طور پر ہونا چاہئے اس پر بشیر میمن نے سمجھایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے خان صاحب نے معصومیت سے کہا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جو چاہتے ہیں وہ تو فوری طور پر ہوجاتا ہے میمن نے کہا کہ سروہاں پربادشاہت ہے جمہوریت نہیں ہے پارلیمنٹ نہیں ہے آزاد عدلیہ نہیں ہے اگریہاں بھی بادشاہت آجائے تو آپ ولی عہد جیسی کارروائی کرسکتے ہیں گویا خان صاحب کے ذہن کے کسی گوشے میں شاہی خواہشات موجزن ہیں لیکن وہ موجودہ نظام میں بادشاہ نہیں بن سکتے جبکہ ولی عہد بننے کی عمرباقی نہیں رہی بعض لوگ تو انہیں اب بھی وزیراعظم کی بجائے ولی عہد سمجھتے ہیں کیونکہ جو لوگ انہیں اقتدار میں لائے ہیں وہ بادشاہ یا بادشاہ گر ہیں۔چنانچہ ان کا لایا ہوا شخص ظاہر ہے کہ ولی عہد ہی ہوسکتا ہے اصل حکمران نہیں۔
خان صاحب کو ایک بڑی خوش فہمی اپنی عمر کے بارے میں ہے ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح ملک میں صدارتی نظام آجائے جس کے ذریعے وہ مزید 10برس تک اقتدار میں رہیں ان کی یہ خواہش ان کے قریبی ساتھیوں اور وزراء کے لبوں سے اکثر باہر آجاتی ہے خان صاحب70سال کی عمر میں بھی خود کو40سال کا گبرو جوان سمجھتے ہیں اور مزید10سال انہیں کامیابی کیلئے درکار ہے معلوم نہیں کہ وہ کونسی کامیابی تلاش کررہے ہیں انکے اردگرد جو بھی مافیاز ہیں وہ انکے قابو میں تو آئے نہیں وہ کیسے پاکستانی پاور اسٹرکچر کی بلاؤں کو قابو میں لاسکتے ہیں یہ ترین گروپ یا دیگربلیک میلر انہی بلاؤں کی تخلیق کردہ مخلوق ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جونہی خان صاحب وزیراعظم بننے کی کوشش کرتے ہیں اس کارآمد مخلوق کو میدان میں چھوڑا جاتا ہے رواں مہینہ ہی خان صاحب جہانگیر ترین سے رات کی پچھلے پہر خفیہ ملاقات کرنے پر مجبور ہوئے تھے جس کے بعد ان کیخلاف کارروائی میں کمی لائی گئی اب جبکہ بجٹ سر پر ہے تو گروپ کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا ہے اگربلیک میلنگ نہ مانی گئی تو پنجاب کے بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ ڈالی جائے گی جبکہ معاملہ مزید بڑھنے پر وفاقی بجٹ کی راہ میں بھی روڑے اٹکائے جائیں گے یہ سب کچھ ترین صاحب کی طاقت کی وجہ سے نہیں ہورہا ہے بلکہ خان صاحب نے جن کاموں سے انکار کیا ہے انہی کی وجہ سے ہورہا ہے فریقین کے درمیان ناچاقی ضرور ہے لیکن گفت وشنید کا سلسلہ جاری ہے اور توقع یہی ہے کہ خان صاحب سرنڈر ہوجائیں گے کمال ہوگا کہ اگر وہ دوسال نکال جائیں بلکہ انہیں اپنا ہدف یہی مقرر کرنا چاہئے کہ کسی طرح باقی ماندہ مدت پوری ہوجائے ورنہ وہ اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہ کرسکے تبدیلی جس بلا کا نام ہے لوگ وہ تو بھول چکے ہیں انقلاب اور سونامی کی باتیں تو الف لیلیٰ کی کہانیاں معلوم ہوتی ہیں خوشحالی اورروزگار تو دور کی بات اگر 80فیصد آبادی کودو وقت کی روٹی بھی مل جائے تو غنیمت ہے اگرچہ خان صاحب کی ناکامیوں کی اکیلے ذمہ دار وہ خود نہیں ہیں ان میں کچھ قدرت کا حصہ بھی ہے مثال کے طور پر کرونا کی وبا نے معیشت کو پیچھے دھکیل دیا حالانکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ کرونا نہ آتا تو خان صاحب کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا کرونا کی وجہ سے کئی ارب ڈالر کی رقم بطور امداد ملی قرضوں کی ادائیگی موخر ہوگئی اور دیگرسہولیات کا حصول بھی ممکن ہوا چین اور سعودی عرب سے تعلقات دوبارہ استوار ہوگئے لیکن سعودی عرب کی مہربانیاں اب بھی مشکوک ہیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ خان صاحب کس چیز کا وعدہ کرکے آئے ہیں یہ راز کچھ عرصہ بعد ہی افشا ہوگا البتہ سعودی عرب کی خواہش پر عمران خان صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے سے رہے اسرائیل نے حال ہی میں جو مظالم فلسطین پر ڈھائے ہیں اس کے بعد پاکستان تو کیا خود سعودی عرب بھی کافی عرصہ تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا اصل میں دنیا کے بیشترممالک اپنے مفادات کے تابع ہوتے ہیں اسرائیل نے گیارہ دن تک غزہ پر وحشیانہ بمباری کی جس کی ساری دنیا نے مذمت کی لیکن چین جو کچھ اپنے مسلمانوں پر ظلم ڈھارہا ہے اس پر ساری دنیا خاموش ہے کیونکہ چین اسرائیل سے کہیں بڑی طاقت ہے اور اسے کوئی ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں چین خاموشی کے ساتھ مسلمانوں کی نسل کشی اور بیخ کنی کررہا ہے اس نے لاکھوں مسلمانوں بچوں کو نازی جیسے کیمپوں میں منتقل کردیا ہے جہاں انہیں مسلمان شناخت سے محروم کیاجارہا ہے چین مسلمانوں کی غیرمسلموں کے ساتھ جبری شادی کروارہا ہے اس نے ایسٹرن ترکستان موومنٹ کو بری طرح کچل دیا ہے اور انسانیت کیخلاف مظالم تقریباً جنگی جرائم کامرتکب ہوا ہے اسرائیل کے مقابلے میں چین کے مظالم مسلسل اور ناقابل قبول ہیں لیکن نیل کے ساحل سے لیکر کاشغر تک سارے مسلمان حکمران خاموش ہیں بلکہ کاشغر تو خود مظالم کی آماجگاہ ہے چین تیزی کے ساتھ جدید سامراج کاروپ دھاررہا ہے اور ساری دنیا کی ایک تہائی دولت پر قابض ہوچکا ہے تمام مسلمان آمر جابر اور ملوکی حکمران ان مظالم پر خاموش ہیں ضمیر نام کی کوئی چیز ان کے ہاں موجود نہیں ہے۔
جس طرح تحریک انصاف کی صفوں میں اختلافات نظرآرہے ہیں اسی طرح بلوچستان کی جماعت باپ میں بھی اختلاف بڑھتے جارہے ہیں کچھ عرصہ قبل جام صاحب نے جلال میں آکر اپنے ہم ضلع وزیر محمد صالح بھوتانی کے محکمے چھین لئے تھے جس پر بھوتانی نے علم بغاوت بلند کردیا لیکن قسمیں وعدوں کے باوجود کسی نے ساتھ نہیں دیا جس پر مجبور ہوکر انہوں نے وزیرکی حیثیت سے اپنااستعفیٰ گورنر کے پاس بھیج دیا جو انہوں نے فوری طور پر منظور کرلیا کافی دنوں سے اسپیکر عبدالقدوس بغاوت کیلئے پرتول رہے تھے لیکن پرواز سے پہلے جام صاحب ان کے پرکاٹ دیتے تھے درمیان میں ظہور بلیدی بھی آمادہ پہ بغاوت ہوئے لیکن منفعت چھین جانے کی وجہ سے پرانی تنخواہ پر دوبارہ کام کرنے لگے حقیقت یہ ہے کہ باپ پارٹی اندرسے ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہے لیکن غیرمرئی طاقتوں سے اسے اب تک ٹوٹنے سے بچاکے رکھا ہے اگرجام صاحب کو اوپر کی حمایت حاصل نہ رہے تو ان کا اقتدار کسی وقت بھی ڈانواں ڈول ہوسکتا ہے اصل میں جام صاحب نے باالکل الگ طبیعت پائی ہے وہ اقتدار اور اختیارات میں کسی کو شریک نہیں کرتے اپوزیشن کو تو وہ تسلیم ہی نہیں کرتے اس لئے ان بیچاروں کے فنڈز روک کر گزراوقات میں رخنہ انداز ہوتے ہیں وہ اتنے الگ تھلک ہیں کہ ماضی کے وزرائے اعلیٰ کے برعکس ان کی کوئی کچن کابینہ بھی نہیں ہے۔
کھانے کے تو ویسے شوقین نہیں ہیں ضرورت پڑنے پر کوئٹہ کے ریستورانوں سے کھانے منگوالیتے ہیں آج کل ان کازورچینی کھانوں پر ہے جام صاحب کادعویٰ ہے کہ ان کے دور میں رشوت ختم ہوگئی ہے لیکن محمد صالح بھوتانی نے دعویٰ کیا ہے کہ اکثر منصوبے کاغذوں پر بنتے ہیں کم از کم دور دراز علاقوں میں بننے والی سڑکیں زمین پر نظر نہیں آتیں حالانکہ کاغذوں پر انہیں مکمل دکھایا گیا ہے ہوسکتا ہے کہ باقی منصوبوں کا بھی یہی حال ہو اس سلسلے میں لیاقت شاہوانی وضاحت کے ذریعے حکومتی نکتہ نظرسامنے لاسکتے ہیں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں