پرویز رشید کی خواہش

تحریر: انورساجدی
مسلم لیگ ن کے سینئررہنمااور مریم بی بی کے سیاسی اتالیق پرویز رشید نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ اپلوڈکی ہے جس میں اٹلی کے سابق صدر اور فاشٹ پارٹی کے لیڈرمسولینی اور ساتھیوں کی لاشیں دکھائی گئی ہیں جنہیں ناراض عوام نے ایک پل پر الٹالٹکادیا تھا۔پرویز رشید کے مطابق مسولینی بھی تبدیلی کا نعرہ لے کر آیا تھا اس نے اپنے دوراقتدارمیں اٹلی کو تباہ کردیا وہ اپنے خلاف کوئی بات نہیں سنتا تھا ساری اپوزیشن کوجیلوں میں رکھتا تھا پھر ایک دن عوام نے اس کو ساتھیوں سمیت پکڑ کر الٹالٹکادیا۔
پرویزرشید نے یہ مثال عمران خان اور ساتھیوں پرفٹ کی ہے انکے خیال میں عمران خان ایک آمر ہیں ان کی جماعت تحریک انصاف فاشٹ پارٹی کی طرح کام کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ ملک میں کوئی اپوزیشن نہ ہو۔یہ تو معلوم نہیں کہ مسولینی اورعمران خان میں کیا یکسانیت ہے ان میں کیا کیا چیزیں مماثل ہیں لیکن ایک بات درست ہے کہ خان صاحب موجودہ اپوزیشن کو چور،ڈاکو اور کرپٹ کہہ کر اسے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں حال ہی میں جب اٹارنی جنرل خالد جاوید نے انہیں مشورہ دیا کہ آئین کی روسے چیئرمین نیب کی تقرری کے بارے میں لیڈرآف اپوزیشن سے مشاورت ضروری ہے تو خان صاحب نے کہہ کرمشورہ رد کردیا کہ شہبازشریف کی کرپشن چیک کرنے کیلئے ان سے مشاورت کی کیا ضرورت ہے انہوں نے فوری طور پر اپنے وزیراطلاعات فوادچوہدری سے کہا کہ وہ مشاورت رد کرنے کا ٹی وی پراعلان کردیں اسی دوران وزیرقانون فروغ نسیم نے کہا کہ مشاورت تو ضروری تھی لیکن خان صاحب کا موڈ نہیں بنا گویا آئینی تقاضے بھی ان کے موڈ کے تابع ہیں انہوں نے چیئرمین نیب کو توسیع دینے اور نیاچیئرمین نہ لانے کا فیصلہ ہی اس لئے کیا تاکہ شہبازشریف سے ملاقات اور مشاورت نہ کرنا پڑے نہ صرف یہ بلکہ نئے ترمیمی احتساب آرڈیننس میں انہوں نے یہ ذمہ داری صدر کے سپرد کردی ہے کیونکہ وہ اپوزیشن رہنماؤں اور خاص طور پر شہبازشریف کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے قومی اسمبلی کو نظرانداز کرکے انہوں نے آرڈیننس کے ذریعے اپنا مقصد پورا کیا یعنی وہ قومی اسمبلی کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں ہوا یہ کہ جب خان صاحب وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اسمبلی آئے تو بلاول بھٹو نے مبارکباد دیتے ہوئے انہیں مسٹرسلیکٹڈ وزیراعظم کے نام سے مخاطب کیا بعض دیگر لوگوں نے بھی تنقید کی جس پر انہیں غصہ آیا اور انہوں نے فرمایا کہ اس قومی اسمبلی میں کیاجانا ہے جہاں تنقید اور ہلڑ بازی کے سوا اور کچھ نہ ہو جواب میں خان صاحب نے اپنے اراکین اسمبلی سے کہا کہ وہ اپوزیشن سے زیادہ ہلڑ بازی اورشوروغل مچائیں شائد خان صاحب کو معلوم نہیں تھا کہ دنیا بھر کی اسمبلیوں میں اپوزیشن نعرے بازی کرتی ہے اور حکومت کیخلاف آوازے کستی ہے بلکہ برسراقتدار جماعتیں اس کا جواب صبروتحمل سے دیتی ہیں لیکن خان صاحب منفرد لیڈر ہیں وہ اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر سمجھتے ہیں اس طرز عمل سے قومی اسمبلی اپنی دقعت کھوبیٹھی انہی کالموں میں کافی عرصہ پہلے لکھا گیا تھا کہ اگر اپوزیشن ناکام ہوگئی تو خان صاحب ایسا آمر بن جائیں گے کہ ہٹلر مسولینی پنوشے اور کم ال ان کو یک جاکیاجائے تو خان صاحب کی شخصیت مکمل ہوگی یا ایوب خان یحییٰ خان اور جنرل مشرف کے اوصاف یک جاکئے جائیں تو شائد خان صاحب کی شخصیت مکمل ہوجائے لیکن مجبوری یہ ہے کہ ملک میں نام نہاد پارلیمانی جمہوریت رائج ہے اس لئے خان صاحب فی الحال ماضی کے آمروں جیسا نہیں بن سکتے ہاں اگرموقع ملے تو وہ ان سے بھی بڑھ کر ثابت ہونگے۔خان صاحب کیلئے 22 نومبر 2022ء یعنی پورا ایک سال بڑا نازک اور پرخطر ہے اگر یہ مدت انہوں نے کامیابی سے عبور کرلی تو ان کے اصلی رنگ وروپ عوام کے سامنے آجائیں گے اس ایک سال کے دوران بہت کچھ ہوسکتا ہے کہ بازی پلٹ سکتی ہے اور کچھ نہ ہوا تو خان صاحب کے ہاتھ میں ایک بڑی بازی لگ سکتی ہے جن کے نتیجے میں وہ سکون کے ساتھ 2023 ء کا انتخاب لڑیں گے نہ صرف لڑیں گے بلکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ساتھ لڑیں گے کیونکہ ان کی ضد ہے کہ وہ ہرقیمت پر یہ مشین رائج کرکے رہیں گے انہوں نے آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین کو توسیع دے کر بتادیا ہے کہ ووٹنگ مشین کو رائج کرنا بھی ایک آرڈیننس کی مارہے۔
یہ حکومت کمال کی ہے شروع کے تین سالوں میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو نیب کے ذریعے رگڑالگا جب اپنی پاری آئی تو ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے نیب کے دانت نکال دیئے تاکہ پینڈورا زدہ انکے ساتھی نیب کی گرفت سے آزاد رہیں اورنہ ہی ان سے گندم،چینی،بجلی،گیس اور ایل این جی مہنگے داموں خریدنے کے بارے میں نیب کو پوچھنے کا کوئی اختیار ہو اسی وجہ سے اپوزیشن کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب نے اپنے ساتھیوں کو این آر او دیا ہے۔
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ خان صاحب چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کے معاملہ میں بھی اپوزیشن کو گھاس نہیں ڈالیں گے اور مشاورت کے بغیر آرڈیننس کے ذریعے فیصلہ کریں گے۔
جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے یہ شروع کے شور شرابہ کے بعد اس وقت مکمل طور پر غیرفعال ہے اس کے لیڈران کرام بند کمروں میں بیانات جاری کرنے اور ٹی وی پر آکر وقت گزاری کررہے ہیں کوئی بھی میدان عمل میں نہیں ہے اپوزیشن کو احساس تک نہیں ہے کہ عوام کی کیا حالت ہے مہنگائی نے ان کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے نچلی کلاس کے لوگ باقاعدہ فاقوں کا شکار ہیں غریب لوگ بھوک اور بیماریوں کا شکار ہوکر مررہے ہیں کوئی بھی اپوزیشن جماعت عوام کے مسائل کو لیکر احتجاج کرنے اور سڑکوں پر آنے کیلئے تیار نہیں ہے اگریہی حال رہا تو حکومت من مانی کرکے نہ صرف2023ء تک برقرار رہے گی بلکہ آئندہ الیکشن بھی جادوئی مشین کے ذریعے جیت کر اپوزیشن کو شدید پسپائی سے دوچار کردے گی اس وقت اپوزیشن تتربتر ہے اور اسکی صفوں میں شدید انتشار ہے پہلے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے اختلافات ختم کرکے یک جاہوجائے اس کے بعد ہی وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔
پرویزرشید کی خواہش اپنی جگہ انہوں نے تاریخ کے تناظر میں بات کی ہے جب ہٹلر اور مسولینی نے بدترین آمر کا روپ دھارا تھا تو طاقت کے تمام عناصران کی ذات میں یک جا تھے جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے یہاں اقتدار کے کئی اسٹیک ہولڈر ہیں وزیراعظم طاقت کا سرچشمہ نہیں ہے اگر کوئی وزیراعظم ڈکٹیٹر بننے کی کوشش کرے تو اس وقت تک کامیاب رہ سکتا ہے جب تک طاقت کے دیگرعناصراسکے ساتھ ہوں۔یہ تو معلوم نہیں کہ2023ء تک کیاپوزیشن بنے گی لیکن یہ طے ہے کہ پاکستان میں ایوب اورضیاؤ الحق کے بعد یہ ممکن نہیں کہ کوئی حکومت 10سال یا اس سے زیادہ عرصہ قائم رہے اتنے طویل عرصے میں اقتدار کے اجراء سے ترکیسی بدل جاتے ہیں اور وزیراعظم بالآخر ایک کمزورپوزیشن پر آجاتے ہیں موجودہ حکومت ہرروز عوام کو جونئی تکلیف دیتی ہے آخرکار اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا حکومتی اکابرین کے خیال میں عوام کو غم روزگار میں اتنا مبتلا رکھا جائے وہ سڑکوں پر آنے کے بارے میں نہ سوچے لیکن صدا ایسے نہیں ہوسکتا اس وقت غیرمقبولیت کا یہ عالم ہے کہ وزراء عوام کا سامنا نہیں کرسکتے حکومت کا سارا زور میڈیا اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ پر ہے اور یہ بات ماننے کی ہے کہ اس کام میں تحریک انصاف کے لیڈر اور ٹیمیں کافی ماہر ہیں ٹی وی پر وزراء روزآکر اپوزیشن پرحملہ آور ہوتے ہیں اور اپنی کوئی خامی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں آج ہی فوادچوہدری نے کہا ہے کہ موجودہ مہنگائی کے ذمہ دار ن لیگ اور زرداری ہیں اس کے ساتھ ہی حکومت نے2سو ارب روپے کے مزید ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔پوچھا جاسکتا ہے کہ کیان لیگ اورزرداری نے آپ کو مجبور کیا ہے کہ وہ بھاری ٹیکس لگائیں اور مہنگائی میں اضافہ کریں۔