آئی ایم ایف نے سب کچھ لکھوا لیا

گورنر پنجاب محمد سرور نے لندن میں ایک عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو6ارب ڈالر قرض کے بدلے سب کچھ لکھوا لیا ہے،2ارب سالانہ ملیں گے،یہ امداد نہیں قرض ہے۔انہوں نے ان اثاثہ جات کا ذکر نہیں کیا جو حکومت پاکستان نے اس قرض کے بدلے آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھوائے/لکھوائے ہیں لیکن اس بارے میں دورائے نہیں ہو سکتیں کہ لکھوائے گئے اثاثے مالیت کے لحاظ سے 6ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہوں گے۔کوئی بینک بھی گروی رکھے گئے اثاثوں کے مساوی قرض نہیں دیتا۔توجہ سے پڑھا جائے،آئی ایم ایف اس بینک کے نام کا مخفف ہے، اس کا پورا نام ہے: International Monitoring Fund (عالمی دیکھ بھال فنڈ)ہے۔یہ ادارہ جس ملک کو ”قرض“دیتا ہے اس ملک کے مالیاتی نظام کی نگرانی بھی کرتا ہے۔لہٰذاآئی ایم ایف سے لی گئی یا متوقع ملنے والی رقم کو صرف ”قرض“ نہ سمجھا جائے بلکہ یہ سمجھاجائے کہ پاکستان کو اپنے مالیاتی نظام میں بعض اصلاحات مجبوراً کرنا ہوں گی،(انہیں سادہ زبان میں شرائط کہا جاتا ہے)۔شرائط منوائے بغیر قرض کی اگلی قسط جاری نہیں کی جاتی۔آئی ایم ایف کے افسران جانتے ہیں کہ جو ملک ان کے پاس قرض کی درخواست لیکر آتا ہے اس بدنصیب ملک کے حکمران اپنے وسائل سے حاصل شدہ آمدنی کوخرچ کرنے میں کوئی بڑی غلطی کرنے کے عادی ہیں۔ جب تک ان کی نگرانی نہیں کی جائے گی یہ قرض واپس نہیں کرسکیں گے۔یہ نالائق آئی ایم ایف سے لی گئی رقم بھی اپنی غلطیوں کی بناء پر ضائع کر دیں گے۔ اس کاثبوت یہ ہے کہ جب پی پی پی کو 2013میں اقتدار ملا تو پاکستان آئی ایم ایف کا مقروض نہیں تھا۔لیکن پی ٹی آئی نے2018 میں اقتدار سنبھالا تو پاکستان نہ صرف آئی ایم ایف سے قرض لینے پر مجبور تھا بلکہ اپوزیشن خود کہتی ہے عمران خان کی حکومت کو فوراً آئی ایم ایف کے پاس جاناچاہیئے تھا۔یہ حقیقت بھی فراموش نہ کی جائے کہ پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے پاکستان 21 بار آئی ایم ایف سے قرض لے چکا ہے۔پی پی پی 9بار اور مسلم لیگ نون4بار آئی ایم ایف کے پاس جا چکی تھی۔لیکن دونوں پارٹیاں ملکی معیشت کو آئی سی یو میں چھوڑ کر گئیں۔پاکستان کو 2018 میں سعودی عرب، یو اے ای اور چین سے قرضہ لینا پڑاتاکہ واجب الادا قرضوں کی ادا ئیگی کرکے دیوالیہ ہونے اورکہلانے سے بچ سکے۔پاکستان کے عوام کو74سالہ تاریخ میں 2018 میں پہلی بار علم ہوا کہ جو ملک آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرض نہ لے اسے ورلڈ بینک اور ایشیا ڈویلپمنٹ بینک بھی قرض نہیں دیتے۔اور ایسا ملک چاہے یورپی یونین میں شامل ہو تب بھی آئی ایم ایف کیجانب سے ایسا ہی شرمناک سلوک کیاجاتا ہے۔یونان کی مثال دیکھ لی جائے۔اپنے حکمرانوں کی غیر دانشمندانہ معاشی پالیسیوں کی بناء پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اسے دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف کی جانب سے 100 ارب ڈالر کا ”ریلیف پیکج“ دیا گیا۔یونان کو اس ریلیف پیکج کے لئے اپنے دو جزیرے گروی رکھنے پڑے جن میں ایتھنز کا معروف جزیرہ بھی شامل تھا۔واضح رہے ایتھنز سے ہی اسکندرِ اعظم دنیا فتح کرنے کے ارادے سے اپنی فوج لے کر نکلا تھا۔پنجاب تک سارا علاقہ فتح کرلیا تھا۔ بلوچستان میں بھی داخل ہوگیاتھا لیکن یہاں کے مچھروں کا مقابلہ نہ کر سکا، اس کے فوجی اور گھوڑے بیمار ہوکر مرنے لگے، چنانچہ اسے اپنی مہم ختم کر کے واپس یونان جانا پڑا۔یونان کو دیئے گئے آئی ایم ایف کے ریلیف پیکج میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ یونان دیئے گئے 100ارب ڈالر میں 40ارب ڈالر خرچ نہیں کرے گا(مگر اس کا سود اداکرے گا)،خرچ کرنے کی ممانعت اس خطرے کی بناء پر کی گئی تھی کہ اگر یونان اپنی معیشت کو 60ارب ڈالر کی مدد سے بہتر نہ بنا سکا تو دو جزیروں کے ساتھ یہ رقم دیئے گئے قرض کے بدلے میں آئی ایم ایف جبری وصول کر سکے۔یونان سے کئے گئے اس معاہدے کامطالعہ پاکستان کے ہر وزیر خزانہ کولازماً کرنا چاہیئے تاکہ اسے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا پہلے ہی علم ہو اور وہ اپنے ملک کی معیشت کو پیٹرول اور کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں کا غلام بنانے کی غلطی سے بچ سکے۔ 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہرپاکستانی کوپاکستان کی 74سالہ تاریخ کے گزرے ماہ و سال کی آگہی فراہم کی جائے، اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ کس حکومت نے اس ملک کے عوام پر کتنا قرض لادا؟ مگر اس کی واپسی کا کوئی بندوبست نہیں کیا۔ اوریہ بھی بتایا جائے، پرانی حکومتوں کا لیا ہوا قرض کس حکومت نے کتنا ادا کیا۔علاوہ ازیں ہر پاکستانی کو یہ علم بھی ہونا چاہیئے کہ ملک کی کون کون سی سیاسی پارٹیوں نے ڈیم بنانے کی مخالفت کی؟ کس پارٹی کے سربراہ نے ڈیم کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی؟50سال تک ڈیم تعمیر نہ کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟جس ملک میں 50سال کے دوران ایک ڈیم تعمیر نہ کیا جائے وہاں زراعت اور صنعت دونوں تباہ نہیں ہوں گی تو اور کیا ہوگا؟آج شہر اور دیہات دونوں جگہ عوام پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں۔ٹینکر مافیاز کا راج ہے۔یہ بدترین صورت حال ماضی کے حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔یاد رہے آئی ایم ایف کے افسران کو بھاری تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں تاکہ وہ ادارے کو کما کر اس کے اثاثوں میں اضافہ کریں۔ ادارے کے پاس جو رقم اور اثاثے موجود ہیں وہ ڈبونے کے لئے افسران کو ملازمت نہیں دی جاتی۔یہ انوکھا کام صرف یونان اور پاکستان جیسے ملک کے حکمران کرتے ہیں۔60کی دہائی میں جو ملک پاکستان کو معاشی لحاظ سے مستحکم سمجھتے تھے آج پاکستان ان ممالک سے قرضے لے کر دیوالیہ ہونے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔عوام مہنگائی کاعذاب بھگت رہے ہیں۔موجودہ حکومت ایک جانب پرانے قرضوں کی ادائیگی اور دوسری جانب ملک میں چھوٹے بڑے 10ڈیم تعمیر کر رہی ہے۔تعمیر مکمل ہوتے ہی 10ڈیم پانی کے ساتھ سستی بجلی بھی فراہم کرنا شروع کر دیں گے۔(7تعمیر ہو چکے ہیں)،غیرملکی کوئلے چلنے والے بجلی گھرفضائی آلودگی پیدا کرنے کی وجہ سے پہلے ہی بند ہوگیا ہے۔سیاحت کا شعبہ پہلی مرتبہ ذریعہ آمدنی بنایا گیا ہے،اسکردو ایئر پورٹ کو بیرون ملک سے براہِ راست پروازوں کے اترنے اور روانگی کے قابل بنا یاجا چکا ہے۔اس کے علاوہ سیاحوں کے لئے مناسب رہائش کا بندوست بھی کچھ ہو چکا ہے۔ایک عالمی معیار کا 5اسٹار ہوٹل نتھیا گلی میں عنقریب بنے گا۔ایک تجربہ کار پاکستانی شخصیت تبدیل شدہ حالات میں کئی سال بعد واپس آکر اس ہوٹل کی تعمیر سے اپناکاروبار دوبارہ شروع کریں گے۔واضح رہے اس پاکستانی کے گھر کے سامنے ایک بچے کی بوری بند لاش پھینک کردہشت گردوں نے اپنی زبان میں خاص پیغام دیا تھااور وہ دہشت گردوں کے ہاتھوں تکلیف دہ موت مرنے سے بچنے کے لئے اپنا چلتا ہوا کاروبار وسمیٹ کر بیرون ملک منتقل ہو گئے تھے۔اپنی سر زمین کی محبت انہیں واپس کھینچ لائی ہے۔ پاکستان میں جیسے جیسے امن و امان کی حالت مزید بہتر ہوگی اور سرمایہ کاروں کو 31محکموں میں فائلوں کوپہیہ لگانے سے نجات ملے گی، ون ونڈو دستیا ب ہوگی، ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔اس سمت میں پیشرفت ہو چکی ہے۔آن لائن ویزہ کی سہولت سے لاکھوں سیاح استفادہ کر رہے ہیں۔ویزہ جاری کرنے کی شرح94فیصد ہے۔پریشان اور بدحال معیشت سنبھل جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں