خان شہید، آزادی اور جمہوریت کا علمبردار

تحریر: ولی محمد علیزئی
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی 46 ویں برسی ایسے حالات میں منائی جارہی ہے کہ ملک میں ہر طرف سے جمہوریت اور آئینی بالادستی کے لئے آوازیں بلند ہورہی ہیں. ان میں سب سے بلند اور توانا آواز فرزندِ خان شہید محترم محمود خان اچکزئی کی ہے. جو جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی اس کشمکش کو ان قوتوں کے مابین آخری معرکہ قرار دے چکے ہیں.
خان شہید کی زندگی اور جدوجہد پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ موصوف نے انتہائی نامساعد حالات میں سیاسی جدوجہد کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا جہاں ایک طرف رجعت پسند، معاشی تباہ حال اور غیر سیاسي پشتون معاشرہ تھا جس میں ہر نئے فکر اور نظریے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، تو دوسری طرف فرنگی استعمار نے برصغیر اور پشتونخوا وطن کو غلامی کی مضبوط زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا اور اپنا استعماری تسلط برقرار رکھنے کے لئے ان مستعمرہ علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں اور سیاسی شعور اجاگر کرنا ناقابلِ معافی جرائم تھے.
انگریز کے اُس جابرانہ دورِ حکومت میں جہاں باقی ہندوستان میں آئین کے تحت حکمرانی کی جاتی تھی اور لوگ ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرتے تھے لیکن برٹش بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) میں بدنام زمانہ سیاہ قانون ایف سی آر (فرنٹیر کرائمز ریگولیشن) نافذ العمل تھا. انگریز پولیٹکل ایجنٹ صوبے میں مختارِ کُل ہوتا تھا جو سرکاری جرگے کے ذریعے حکومتی نظم و نسق پر عمل درآمد کرواتا تھا. سرکاری جرگے کے ارکان عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے کے بجائے غالب اکثریت فرنگیوں کی کاسہ لیسی، خوشامد اور ضمیر فروشی کے بنیاد پر منتخب ہوتے تھے.
خان شہید کا خاندان قریباً دو صدیوں سے وطن و ملت کا دفاع اور خدمت کرتا چلا آرہا تھا تو دوسری طرف خان شہید میں وطن وملت سے بے پناہ حب اور غور و فکر کرنے کی عطیہ خداوندی صلاحیتیں موجود تھیں. ان عوامل کے سبب خان شہید جب وطن و ملت کی زبوں حالی اور فرنگی اور ان کے کاسہ لیسوں کے جانب سے پشتون قوم کا استحصال دیکھتے تو کافی رنجیدہ ہوجاتے تھے اور ان مظالم سے نجات حاصل کرنے کیلئے غور و غوض کرتے تھے.
خان شہید کافی غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ وطن و قوم کی انگریز استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ایک منظم سیاسی تنظیم کی اشد ضرورت ہے. سر سید احمد خان کے نظریے کہ انگریز سرکار سے قربت اور اعلی تعلیم حاصل کرکے مسلمانوں کے برے دن بدلے جاسکتے ہیں، کے برعکس آپ سمجھتے تھے کہ آزادی حاصل کرنے سے قوم کے برے دن بدلے جاسکتے ہیں.
خان عبدالصمد خان اچکزئی نے آزادی اور برٹش بلوچستان میں عوامی بالادستی کے حصول کے لئے اپنے جدوجہد کا آغاز "بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس” کے پلیٹ فارم سے کیا جس کا قیام صوبہ سندھ کے شہر جیک آباد میں 1930ء میں عمل میں آیا. خان شہید نے کراچی سے لے کر دہلی تک بلوچستان میں عوامی بالادستی اور پولیٹکل ایجنٹ کی مطلق العنانیت کے خاتمے کے لئے آواز اٹھائی اور یہاں بسنے والے پشتون اور بلوچ اقوام کے زبوں حالی سے دیگر سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو باخبر کرایا. اس جدوجہد کی پاداش میں پولیٹکل ایجنٹ کاسہ لیس سرکاری جرگے کے توسط سے وقفہ وقفہ سے اس مردِ آہن کو کال کوٹھریوں میں قید کرتے رہے تاکہ آپ اس عظیم مقصد سے باز آئے لیکن آپ اپنے عزم پر ڈٹے رہے.
خان شہید اپنی سوانح عمری "زما ژوند او ژوندون” میں لکھتے ہیں کہ کچھ عرصے میں مجھے احساس ہوا کہ یہ تنظیم چند پڑھے لکھے وطن دوست شخصیتوں، سرکاری نوکروں اور طلباء تک محدود ہے اور اس کی سرگرمیاں بلوچستان سے باہر دوسرے صوبے میں ہیں اس لیے اس سے اندورنی طور پر برٹش بلوچستان اور ریاستِ قلات کے باشندوں کو کوئی خاص سیاسی فائدہ نہیں ہورہا ہے. اس لئے سیاست کو عوامی رنگ دینے اوربرٹش بلوچستان کے ہر شہر، ہر گاؤں اورہر گلی کوچے تک پہچانے کیلئے خان شہید نے 20مئی 1938ء کو بلوچستان کی پہلی سیاسی تنظیم "انجمن وطن” کی داغ بیل ڈالی. اس پارٹی نے بلوچستان میں سیاسی شعور اجاگر کرنے اور تحریک آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا.
تقسیم ہند اور پاکستان کے معروضِ وجود میں آنے کے بعد یہاں بسنے والوں کو یہ خوش فہمی تھی اب یہاں عوام کے حقیقی منتخب نمائندوں کی حکومت ہوگی اور بدیسی حکمرانوں کے برعکس یہ نمائندے عوام کی فلاح و بہبود کو اپنا نصب العین بنائیں گے لیکن نوزائدہ ملک میں انگریز سرکار کے پرانے نوکر اور وفادار برسرِ اقتدار آگئے. ان حکمرانوں نے محکوم اقوام کا استحصال جاری رکھنے اور جمہوریت کو مضبوط ہونے سے روکنے کیلئے تحریک آزادی میں نمایاں کردار ادا کرنے والے سیاسی رہنماؤں کو پابند دلاسل کیا. خان شہید بھی ان قید ہونے والے رہنماؤں میں شامل تھے.
خان شہید نے 1954ء میں چھ برس مسلسل قید سے رہائی پانے کے بعد منقسیم پشتونخوا وطن کی وحدت اور ملک میں جمہوری استحکام کی سیاسی جدوجہد کرنے کے لئے اسی سال 24 اپریل کو نئی پارٹی "ورور پشتون” کی بنیاد رکھی. حکومت نے 22 نومبر1954ء کو سندھ پنجاب، سرحد، برٹش بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) اور ریاست قلات کو ملا کر ون یونٹ قائم کیا. ون یونٹ کے خلاف تمام جمہوری پارٹیوں نے مشترکہ جدوجہد کے لئے1956ء میں "پاکستان نیشنل پارٹی بنائی. "ورور پشتون” بھی اس ملک گیر پارٹی میں ضم ہوئی جو 1957ء میں مولانا بھاشانی اور بنگالیوں کی شاملیت کے بعد نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) میں تبدیل ہوئی. نیپ کے بنیادی مقاصد میں ون یونٹ کا خاتمہ اور لسانی، جغرافیہ اور تاریخی بنیادوں پر نئی صوبوں کا قیام شامل تھے.
سال 1958ء کو مارشلاء کے نافذ کے فوراً بعد خان شہید کو گرفتار کیا گیا اورعدالت نے چودہ سال قید کی سزا سنائی. آپ نے ایوبی مارشلاء کا پورا دورانیہ سلاخوں کے پیچھے گزارا اور 1968ء میں رہائی پانے والے آخری سیاسی قیدی تھے.
یحییٰ خان کے دور اقتدار میں جب 1 جولائی 1970ء کو ون یونٹ تحلیل ہوا تو نیپ کی قیادت نے اپنے منشور سے روگردانی کرتے ہوئے پرانے صوبوں کی بحالی پر اکتفاء کیا اور ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ریاست قلات اور برٹش بلوچستان کو ملا کر ایک نیا صوبہ بنایا گیا جس سے جنوبی پشتونخوا کے پشتون آبادی کی شناخت ایک بار پھر مسخ کرکے بلوچستان کا نام دیا گیا. خان شہید اپنے اصولی موقف لسانی، جغرافیائی اور تاریخی بنیادوں پر صوبوں کی قیام پر قائم رہتے ہوئے نیپ سے علیحدہ ہوگئے اور نیشنل عوامی پارٹی پشتونخوا کے نام سے ایک نئی جماعت بنائی. جس کے اغراض و مقاصد میں منقسیم پشتونخوا وطن اٹک، میانوالی، شمالی پشتونخوا (خیبر پشتونخوا) اور جنوبی پشتونخوا کو یکجاء کرکے "پشتونستان” کے نام سے پشتون قوم کا ایک متحدہ صوبہ بنانا اور ملک میں جمہوریت اور عوامی بالادستی کے لئے منظم سیاسی جدوجہد شامل تھے.
بنگلہ دیش کے الگ ہونے کے بعد جب ذولفقارعلی بھٹو اور اپوزیشن کے اختلافات شدت اختیار کر گئے تو خان شہید کو ادراک ہوا کہ اس گھمبیر صورتحال سے غیر جمہوری قوتیں مستفید ہوں گی اور یہ اختلافات نوزائیدہ جمہوریت کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوں گی. خان شہید نے بھٹو کے بعض ناپسندیدہ اقدامات کے باوجود جمہوریت کے تسلسل کے لئے منتخب حکومت کی حمایت کی اور حکومت و اپوزیشن کو سیاسی اختلافات افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیتے رہے.
خان شہید نے اپنی شہادت سے ایک دن پہلے ایک صحافی کو اپنی زندگی کا آخری انٹرویو دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ بعض قوتیں ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی سازشیں کررہی ہیں جو اپوزیشن اور حکومت دونوں کی مفاد میں نہیں ہے. یہ خدشہ خان شہید کے شہادت کے پانچ برس بعد اس وقت درست ثابت ہوا جب اپوزیشن کی شدید احتجاجوں کے بعد جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشلاء لگایا اور ایک بار پھر ملک کا سیاہ دور شروع ہوا.
اپنی زندگی کا نصف حصہ انگریز اور پاکستان کی جیلوں میں گزارنے کے باوجود جمہوریت اور پشتون و دیگر محکوم اقوام کے حقوق کے لئے خان شہید کے بلند آواز کو مستقل خاموش کرنے کے لئے بزدل دشمن نے 2 دسمبر 1973ء کے رات دستی بم پھینک کر اس عظیم ہستی کو شہید کردیا.
دشمن کا یہ خواب اس وقت چکنا چور ہوا جب خان شہید کے شہادت کے بعد آپ کے نوجوان فرزند محمود اچکزئی اپنے والد کے نامکمل سیاسی مشن کو پائے تکمیل تک پہنچنے کے لئے میدان عمل میں کود پڑے. محمود خان اچکزئی نے اپنے والد عبدالصمد خان اچکزئی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کبھی بھ پشتون قوم کی حقوق اور جمہوریت پر ساز وباز نہیں کی.
محمود خان اچکزئی نے ضیا مارشلاء کے خلاف جمہوریت کی بحالی کے لئے اہم کردار ادا کیا. 7 اکتوبر 1983ء کو کوئٹہ میں مارشلاء کے خلاف احتجاجی جلوس پر سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی تاکہ محمود خان اچکزئی کو راستے سے ہٹایا جاسکے. فائرنگ کے نتیجے کاکا محمود، اسلم اولس یار، داؤد اور رمضان نے جام شہادت نوش کیا لیکن اچکزئی محفوظ رہے. ان شہدا کو شہداء جمہوریت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.
جمہوریت کی حمایت کرنے اور افغانستان میں مداخلت کے خلاف موقف اپنانے کی پاداش میں 1989ء کو محمود خان اچکزئی کے گھر عنایت اللہ کاریز پر غیرجمہوری قوتوں کی جانب سے مسلح جنگ مسلط کی گئی. 11 اکتوبر 1991ء کے شہداء وطن اور مشرف مارشلائی دور کے 27 اپریل 2000ء کے پشتون آباد کے شہداء بھی اسی اصولی موقف کی سزائیں ہیں.
محمود خان اچکزئی نے خان شہید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر وقت عوامی بالادستی اور محکوم اقوام کی حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے اور نتائج سے بے پرواہ ہوکر جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے معرکے میں صفِ اول میں کھڑے رہے ہیں. اے پی ڈی ایم نے جب 2007ء کے انتخابات ایک آمر کے نگرانی میں حصہ لینے کا بائیکاٹ کیا تو محمود خان اچکزئی کئی اتحادی پارٹیوں کی انتخابات میں حصہ لینے کے باوجود آخر دن تک اس فیصلے پر قائم رہے.
سال 2014ء میں نادیدہ قوتوں کے ایماء پر جب ایک منتخب حکومت کے خلاف دھرنے دیے گئے تو اچکزئی حکومت کی حمایت میں مضبوطی سے کھڑے ہوگئے. اس عمل کے پاداش میں راتوں رات بلوچستان کی مخلوط حکومت جس بے شرمی سے گرائی گی، اس کی نظیر تاریخ میں شاز و نادر ملتی ہے. موجودہ دھاندلی زدہ حکومت کے خلاف اور پارلیمان کی بالادستی کے لئے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں محمود خان اچکزئی آخری دن تک کنٹینر پر مولانا کے ساتھ کھڑے رہے اور دھرنے میں جمعیت کے بعد بڑی اکثریت پشتونخوا میپ کے کارکنان کی تھی.
ضرورت اس امر کی ہے کہ خان شہید کو تدریسی نصاب میں شامل کر کے نئی نسل کو اس عظیم ہستی کے جدوجہد اور سیاسی نظریات سے روشناس کرایا جائے تاکہ آنے والی نسل میں آزادی پسندی، جمہوری اقدار، سیاسی شعور، برداشت، علم دوستی اور اخلاقی نفاست فروغ پاسکے اور ایک مہذب معاشرہ وجود میں آسکے.

اپنا تبصرہ بھیجیں