کورونا کے70فیصد کیسز ایران سے آئے، دو ہفتے بعد کیا ہوگا؟گارنٹی نہیں،وزیراعظم

اسلام آبادوزیر اعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن کے دوران پکڑے گئے شہریوں کو رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں کورونا کے 70 فیصد کیسز ایران سے آئے، گارنٹی نہیں دے سکتے کہ 2 ہفتے بعد کیا ہوگا،مکمل لاک ڈاؤن میں جانے سے پہلے کورونا ریلیف ٹائیگرز فورس بنانے جارہے ہیں جس کی رجسٹریشن31مارچ کو شروع ہو گی،ملک میں گڈز ٹرانسپورٹ کی نقل وحرکت کو یقینی بنایا جائے، اگر کھانے پینے کی قلت ہوئی تو افرا تفری پیدا ہو سکتی ہے، کھانے پینے کی چیزیں بنانے والی فیکٹریاں اورانرجی سیکٹر کام کرتا رہے گا،موجودہ مشکل وقت میں پاکستان کو اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے،سٹیٹ بنک میں اکاؤنٹس کھولنے جارہے ہیں، تمام اوورسیز پاکستانیز اس میں بڑھ چڑھ کر فنڈز دیں،تیس، تیس سال اقتدار میں رہنے والے بھی ہمیں ہسپتالوں میں سہولیات میسر نہ ہونے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں مگر ان لوگوں نے صرف ملک کو لوٹا اور باہر چلے گئے، صحت، تعلیم اور غریب عوام کیلئے کوئی کام نہیں کیا، وہ لوگ اور ان کے خاندان کے افراد اگر بیمار ہو جاتے تو وہ بیرون ملک سے علاج کرانے کیلئے بھاگ جاتے، غریب طبقہ سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھاتا پھرتا تھا۔قومی رابطہ کمیٹی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران پی ٹی وی کے اینکر اسرار احمد کسانہ نے وزیر اعظم کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران بہت سے لوگ پکڑے گئے ہیں۔ کچھ لوگ ٹرکوں میں اپنے گھروں کو جارہے تھے جنہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے اسرار کسانہ کی بات پر کہا کہ اس وقت لوگ مشکل صورتحال سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے گھبرائے ہوئے ہیں اور اس طرح کے قدم اٹھا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن کے دوران پکڑے گئے افراد کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔وزیر اعظم عمران خان نے اوور سیز پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان زیادہ سے زیادہ ڈالرز بھیجیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ساری دنیا کی برآمدات گر رہی ہیں، بڑی مشکل سے ہماری برآمدات بڑھنا شروع ہوئی تھیں لیکن کورونا کی وجہ سے ہماری تجارت متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالرز نہیں آرہے اور کرنسی پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں خوف ہے کہ بیرون ملک سے ترسیلات زر نہیں آئیں گی۔ میں سٹیٹ بینک میں اکاؤنٹ کھولوں گا جس میں اوورسیز پاکستانیوں سے کہوں گا کہ ڈالر جمع کرائیں تاکہ ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر اوپر جائیں اور ہمارے روپے سے پریشر ختم ہو، اس وقت پاکستان کو اوورسیز پاکستانیوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ چین نے جب لاک ڈاؤن کیا تو انہوں نے لوگوں کے گھروں میں کھانا پہنچایا، پاکستانی طلبہ بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے ہاسٹل کے نیچے ضرورت کی ساری چیزیں پہنچ جاتی تھیں۔ ہمارے پاس چین جیسا انفراسٹرکچر نہیں ہے اس لیے نوجوانوں کی ایک فورس بنارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ 31 مارچ کو وزیر اعظم کورونا ریلیف ٹائیگرز فورس کا اعلان کریں گے، 31 مارچ سے والنٹیئرز کی رجسٹریشن کا آغاز ہوگا۔ ان نوجوانوں کو پورے پاکستان میں پھیلا دیں گے اور ان کے ذریعے لوگوں کے گھروں میں کھانا پہنچائیں گے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعظم فنڈ کا بھی اعلان کر ے ہیں جس میں لوگ عطیات جمع کرائیں گے، اس فنڈ کے ذریعے بیروزگار اور ڈیلی ویجز ملازمین کو پیسے دیے جائیں گے۔ احساس پروگرام کے ذریعے لوگوں کو براہ راست پیسے دیں گے اور ٹائیگر فورس بھی اپنے علاقوں سے لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کرے گی۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ چین سے کورونا کا ایک بھی کیس پاکستان میں نہیں آیا، ایران والے کنٹرول نہیں کرسکتے تھے اس لیے انہوں نے لوگ بھیج دیے، ہمارے پاس بھی تافتان میں اتنے انتظامات نہیں تھے، پاکستان میں 70 فیصد کورونا کیسز ایران سے آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں کورونا ویسے نہیں پھیلا جیسے پوری دنیا میں ہوا ہے۔ کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ 2 ہفتے بعد کیا ہوگا، ہوسکتا ہے کہ یکدم کہیں سے کیسز اوپر چلے جائیں، ہم نے اپنی تیاری پوری کی ہوئی ہے لیکن گارنٹی نہیں دے سکتے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 2 ہفتے پہلے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کے بعد لاک ڈاؤن کا آغاز کیا، جب ہم لاک ڈاؤن کر رہے ہیں تو سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، شروع سے خدشہ تھا کہ اگر ہم یکدم پانچویں گیئر میں چلے گئے اور مکمل لاک ڈاؤن کردیا تو ہمارا کمزور طبقہ برباد ہوجائے گا، جب تک اس طبقے کیلئے سٹرکچر ڈویلپ نہیں ہوتا تب تک مرحلہ وار اقدامات اٹھانے چاہئیں۔وزیر اعظم نے بتایا کہ آج چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ ساری گڈز ٹرانسپورٹ کو مکمل آزادی ہوگی، شروع میں گڈز ٹرانسپورٹ پر پابندی لگی تو کئی جگہوں پر اشیا مہنگی ہوگئیں۔ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جانے والی گڈز ٹرانسپورٹ پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوگی۔انہوں نے بتایا کہ جو فیکٹریاں کھانے پینے کی اشیا بناتی ہیں، وہ کام کرتی رہیں گی، اس کیلئے میکانزم بنارہے ہیں کہ وہ کس طرح کام کریں گے۔ وزیر اعظم نے واضح کیا کہ مسافروں والی ٹرانسپورٹ پر پابندی برقرار رہے گی۔وزیراعظم عمران خان نے صحافی کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب ہمیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے 75 فیصد کیسز باہر سے آگے ہیں اور 15 فیصد کیسز ایسے ہیں جو پاکستان میں پھیلے، ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں پھنسے ہمارے طلبااور ان کے والدین کا بہت دباؤ ہے لیکن شکر ہے کہ ہم نے یہ دبا نہیں لیا۔ پہلے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ انہیں پاکستان لا کر حاجی کیمپ میں ٹھہرایا جائے لیکن اگر ایسا کرتے تو وہ دوسرا تفتان بن جانا تھا۔بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کا دباؤ اب بھی موجود ہے اور ہم انہیں 4 تاریخ سے آنے دینا چاہتے ہیں لیکن صرف اتنے ہی لوگوں کو آنے دیں گے جن کی سکریننگ کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس سہولیات کی کمی ہے اس لئے ہم سب پاکستانیوں کو ایک ساتھ واپس نہیں لا سکتے۔انہوں نے مزید کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت ڈاکٹرز، نرسز اور ہیلتھ ورکرز فرنٹ لائن پر ہیں اور دنیا بھر میں ان کی حفاظت کیلئے موجود آلات کی قلت ہو گئی ہے جس کے باعث ہم سب سے پہلے آئی سی یو اور ایمریجنسی میں حفاظتی چیزیں پہنچانا چاہتے ہیں اور اس کے بعد ہی باقی سب کو دیں گے۔ پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ ماریہ بی کے کیس میں اثر انداز ہوئے اور ان کے شوہر کورہا کروایا،ماریہ بی نے آ پ کا شکریہ ادا کیا؟اس سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اس کیس کا علم نہیں،نہ تو مجھے اس حوالے سے کچھ پتہ ہے اور نہ ہی مجھ سے کسی نے رابطہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ابھی لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کتنی خطرناک بیماری ہے،اٹلی میں لوگوں کو اس لیے سمجھ آئی کیونکہ وہ ایک دن میں سات سو سے زائد لو گ مرے لیکن پاکستان میں ابھی صرف نو لوگ جاں بحق ہوئے ہیں اس لیے لوگوں کو اس کی سنجید گی کا اندازہ نہیں ہو رہا۔ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں تیس تیس سال اقتدار میں رہنے والے بھی ہمیں ہسپتالوں میں سہولیات میسر نہ ہونے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ملک میں جن لوگوں نے تیس، تیس سال حکومتیں کیں انہوں نے صرف ملک کو لوٹا اور باہر چلے گئے، صحت، تعلیم اور غریب عوام کیلئے کوئی کام نہیں کیا، وہ لوگ اور ان کے خاندان کے افراد اگر بیمار ہو جاتے تو وہ بیرون ملک سے علاج کرانے کیلئے بھاگ جاتے تھے اور غریب طبقہ سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھاتا پھرتا تھا، تیس سالوں تک اقتدار میں رہنے والوں نے صحت کے شعبے پر کوئی کام نہیں کیا اور کوئی ایک ہسپتال بھی نہیں بنایا اور جو بنے ہوئے تھے ان میں بھی سہولیات نہیں ہیں۔کورونا وائرس کے بعد ہسپتالوں کی حالت زار عوام نے دیکھ لی ہے اور ہم انشا ء اللہ اب سب سے زیادہ فوکس صحت کے شعبے پر کریں گے اور ہسپتالوں میں آہستہ آہستہ عوام کو تمام علاج معالجے کی سہولیات فراہم کریں گے اور یہ کورونا وائرس کے پریڈ کے دوران اور اس کے بعد بھی جاری رہے گا۔ہم ہسپتالوں کو اپ گریڈ کریں گے اور تمام علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کریں گے۔اس دوران وزیراعظم کی ہدایت پر بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک و تحقیق مخدوم خسرو نے کہا کہ آٹے کی زیادہ خریداری کی وجہ سے بعض علاقوں میں کمی ہوئی، گندم کی سرکاری خریداری بھی شروع ہو چکی ہے، فلور ملز کے ساتھ طے پایا ہے کہ وہ گندم سے 60 کی بجائے 80 فیصد آٹا بنائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سرکاری گوداموں میں 16 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں، دو سے تین دن میں آٹے کی رسد اور قیمتیں بہتر ہو جائیں گی۔وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ 5 اپریل تک کورونا سے متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے طبی عملہ کو حفاظتی سامان مل جائے گا، آئی سی یو میں کام کرنے والے طبی عملہ کو تربیت بھی دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے 61 فیصد مریضوں کی عمریں 21 سے 50 سال ہے، اس صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں، پاکستان میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد دوسرے ممالک کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا کہ لوگوں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا فائدہ اس وقت ہو گا جب انہیں اشیا ضروریہ آسانی سے میسر آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اشیا ضروریہ کی فہرست مرتب کرکے ان کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنانے کیلئے طریقہ کار وضع کیا جائے گا، صوبوں کی مشاورت سے ایسا طریقہ کار وضع کریں گے جس کے تحت نہ صرف اشیا ضروریہ کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں