پاک ایران سرحد پر6تجارتی مراکز
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تہران میں اپنے ہم منصب ڈاکٹر جواد ظریف کے سساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات میں شرکت کی اور دونوں وزرائے خارجہ نے پاک ایران سرحد پر6 تجارتی مراکز کھولنے کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے۔علاوہ ازیں اسلامو فوبیا کے خلاف مشترکہ کوششوں پر بھی اتفاق کیا گیا۔ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات میں ایرانی صدر نے تجارت، سرمایہ کاری اور دو طرفہ ہمہ جہتی تعلقات کو مزید بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا۔ادھر مند پشین تیسرے بارڈر کراسنگ پوائنٹ کاافتتاح کردیاگیاہے، اس تقریب میں پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیردفاعی پیداوار زبیدہ جلال نے اور ایران کی جانب سے وزیر مواصلات و شہری ترقی محمد اسلامی شریک ہوئے۔زبیدہ جلال نے کہا وزیر اعظم عمران خان کے وژن کے مطابق تیسرے بارڈر کراسنگ پوائنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔بارڈر کراسنگ پوائنٹ کھلنے سے دونوں ملکوں کے عوام کو فائدہ پہنچے گا اور اس کے نتیجے میں سرحدی علاقوں میں خوشحالی آئے گی، دونوں ملکوں کے ثقافتی و معاشی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے، معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔اس موقع پر ایرانی وزیر مواصلات و شہری ترقی محمد اسلامی نے پاکستانی وزیر دفاعی پیداوار زبیدہ جلال کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ ان کی کوششوں سے پاکستان ایران سرحدی مقام مند پشین میں تیسرے بارڈر کراسنگ پوائنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ایران کی خارجہ پالیسی کا مقصد ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینا ہے تاکہ ہمارے عوام باہمی تجارت سے اپنے معاشی حالات کو بہتر سے بہتر کر سکیں۔پاکستان اور ایران کے درمیان 900 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور ایران چاہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ روابط بڑھا کر سرحدی آمد و رفت میں مزید آسانیاں پیدا کریں، مزید بارڈر کراسنگ پوائنٹ کھولے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں میں آپ کا مہمان ہوں اور وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمودقریشی تہرانمیں مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں مزید 6بارڈر کراسنگ پوائنٹس کھول دیئے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے سرحدی عوام کے درمیان رشتہ داریاں اور قریبی تعلقات ہیں انہیں چاہیئے کہ باہمی تعلقات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔واضح رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان پہلا قانونی بارڈر کراسنگ پوائنٹ تفتان میر جاوا ہے، اس کے قیام کو70سال ہو چکے ہیں۔دوسرا بارڈر کراسنگ پوائنٹ گزشتہ سال ضلع گوادر میں گبد ریمدان ایران کے مقام پر 19 دسمبر2020 کو(صرف چار ماہ قبل)قائم کیا گیاتھا۔ اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ موجودہ حکومت پاک ایران تعلقات میں بہتری لانے کے لئے سنجیدہ ہے اور تیزی سے عملی اقدامات کررہی ہے۔یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان گیس کے حصول کاایک ایساتجارتی معاہدہ بھی طویل عرصے سے زیرالتواء ہے،اس معاہدے پر عملدرآمد میں اتنی تاخیر ہوچکی ہے کہ اگر ایران داد رسی کے لئے عالمی عدالت میں چلا جائے تو پاکستان کو بطور جرمانہ بھاری رقم ادا کر نے حکم دیا جا سکتا ہے اس لئے کہ ایران نے معاہدے کی شرائط مکمل کر لی ہیں، پائپ لائن اپنی سرحد تک برسوں پہلے بچھا دی تھی مگر پاکستان نے اپنی سرحد تک پائپ لائن بچھانے کا کام تاحال شروع ہی نہیں کیا۔ اس کی وجہ امریکی مخالفت اور دباؤ کے سوا کچھ نہیں۔پاکستانی حکمران نہ جانے کیوں اپنے ملکی مفادات کو بھلا کر امریکی مفادات کے تحفظ میں ہمیشہ سینہ تانے کھڑے نظر آتے ہیں۔Do moreکی ہدایت پر کار بند رہتے ہیں۔(اچھا ہے کہ کچھ عرصے سے یہ سلسلہ بند ہے)دوسری وجہ سعودی حکومت کی ناراضگی ہے جو پہلی وجہ سے نتھی ہے۔ اس روش کا ایک بدنما اظہار اسلامی ملکوں کی اپنی بلائی گئی ملائشیاء کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت ہے۔مت بھولیں کہ مقروض ملک اپنی بات نہیں منوا سکتا۔آئی ایم ایف سے ورلڈ بینک تک سب ہی قرضہ دینے والے امریکی اشاروں پر چلتے ہیں۔اس کے باوجود اگر راستہ نکالنے کی امنگ ہو تو کوئی نہ کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے۔یہاں امنگ کی کمی کا بھی عمل دخل رہاہے۔تاہم امریکی پابندیاں ہٹتے ہی ایران سے کئے گئے پرانے معاہدے پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے۔مزیدبہانے بازی نہ کی جائے۔قدرتی گیس پاکستان کی دیرینہ ضرورت ہے، سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کرنا پڑتی ہے۔ ایران سے سستی بجلی بھی خریدی جاسکتی ہے۔ ایران سے پیٹرول کی قانونی تجارت کا راستہ کھولا جا سکتا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہوگا لوگوں کو بھی روز گار ملے گا اور سرکار کے زر مبادلہ میں اضافہ ہوگا


