انتخابی نتائج کیا کہتے ہیں؟
قومی اسمبلی حلقہ نمبر 249کراچی(بلدیہ)جیتنے والے امیدوار کے ووٹ16156،اور مسلم لیگ نون 15ہزار سے زائد ووٹ لے کردوسرے نمبر پر رہی۔پی ٹی آئی کے امیدواراپنے ووٹوں کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر رہے۔(واضح رہے یہ سیٹ پی ٹی آئی کے امیدوارفیصل واؤڈا کے مستعفی ہونے پر خالی ہوئی تھی،واؤڈاآج کل سینیٹر ہیں)۔ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ حلقے کے80فیصد ووٹرز گھروں سے نہیں نکلے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلقہ این اے 249کے ووٹرز کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ پی ٹی آئی نے2018میں جو بلند بانگ دعوے کئے تھے، پورے نہیں کئے۔حتیٰ کہ گزشتہ برس ستمبر میں وزیر اعظم عمران خان نے’کراچی ریفارمیشن پلان‘ کے تحت1113ارب روپے کے ایک پیکج کا اعلان کیا تھا،کراچی کے عوام تک اس کے اثرات نہیں پہنچے۔ لیکن اعلان کردہ پیکج 3سال میں مکمل ہوگا۔اس میں نواز شریف دور کا ٹرانسپورٹ منصوبہ بھی شامل ہے،اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جولائی کے آخر یا اگست کے اوائل میں مکمل ہوجائے گا۔80جدید ٹیکنالوجی کی بسیں چین سے درآمد کی جائیں گی۔پینے کا منصوبہ K-4دورا بڑا منصوبہ ہے اوریہاں کے عوام کی پہلی ضرورت ہے،بلدیہ کے مذکورہ انتخابی حلقے میں پا نی کی شدید قلت ہے،اسے صوبائی ذمہ داری ہونا چاہیئے لیکن اس کا غصہ بھی پی ٹی آئی پر نکالا گیا۔علاوہ ازیں ووٹوں کی گنتی کا عمل تاخیر کا شکار ہوا۔نائب صدر مسلم لیگ نون مریم نواز نے اسے ڈسکہ طرز کی دھاندلی قرار دیا اور پوچھا ہے:”کیا یہاں بھی دھند چھا گئی تھی؟یا موبائیل فونز کی چارجنگ ختم ہو گئی تھی؟“ہارنے والی تمام جماعتوں نے تاخیر کو دھاندلی کہا ہے۔پی ٹی آئی نے نہ صرف عدالت جانے کا عندیہ دیا ہے بلکہ فرانزک آڈٹ کا مطالبہ کیا ہے۔گویا ہار نہ ماننے کی روایت تاحال ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہے اور دیر تک قائم رہے گی۔پارلیمنٹ اس حوالے سے حد درجہ غیر سنجیدہ ہے۔اپوزیشن کے پاس اچھا بہانہ ہے،انتخابی اصلاحات کو حکومت کی بد نیتی کہہ کر پتلی گلی سے نکل جاتی ہے۔ عام آدمی کی عدم دلچسپی کے اسباب دور نہ کئے گئے تو یہ خدشہ حقیقت کاروپ دھارسکتا ہے کہ ووٹرز پولنگ اسٹیشن کا رخ نہیں کریں گے۔ بلدیاتی انتخابات کا طویل وقفوں تک انعقاد نہ ہونا بھی ووٹرز کی عدم دلچسپی کا اہم سبب ہے۔ چند ہفتے پہلے سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے فوری انعقاد کی ہدایت کی تھی مگر 2017کی مردم شماری کے متنازعہ ہونے کی بناء پر نئی حلقہ بندی کا معاملہ الجھ گیا ہے۔ سندھ حکومت مردم شماری کواپنے مفادات کے خلاف سمجھتی ہے اور ناراضگی کا اظہار کر رہی ہے۔ایم کیو ایم کو بھی تحفظات ہیں۔ لیکن ماضی کا ماتم کرنے کی بجائے مسائل حل کرنے پر توجہ دی جائے۔زندہ قومیں مسائل حل کرنے کی راہیں تلاش کرتی ہیں،مشکلات پر قابو پا لیتی ہیں۔پاکستان کے عوام کسی شعبے میں دیگر اقوام سے پیچھے نہیں۔ہماری برآمدات طویل عرصے سے جمود کا شکار ہیں۔اس دوران قرضوں کی واپسی کا وقت آگیاہے۔ادائیگی کا مسئلہ بھی سر پر سوار ہے۔کورونا کی وباء نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان اسی دنیا کا حصہ ہے، پاکستانی عوام کو بھی سنجیدگی سے کورونا کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ماسک پہننا اور سماجی فاصلہ رکھنا آسان اور کم خرچ اقدامات ہیں،فوج کی مدد انتظامیہ نے حاصل کرلی ہے۔کورونا سے متأثرہ علاقوں میں شائستگی سے لوگوں کوآمادہ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ہمارے مشرقی ہمسایہ ملک بھارت میں کورونا نے بھیانک تباہی مچا رکھی ہے،روزانہ لاکھوں نئے مریض سامنے آ رہے ہیں۔اگلے روز 3لاکھ 80ہزارنئے کیسز اور 3ہزار625مریض جان کی بازی ہار گئے۔اموات کی تعداد 2لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔آکسیجن سلنڈرز اور ادویات کی شدید کمی ہے۔برطانیہ نے نیتین موبائل آکسیجن فیکٹریاں فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، روس نے وینٹی لیٹرز اور آکسیجن جنریٹرز کی کھیپ بھیج دی ہے۔پاکستان میں عیدالفطر کی تعطیلات کا اعلان کردیا گیاہے، چاند رات کو مہندی لگانے اور چوڑیاں پہننے بازار جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ تعطیلات گھروں پر گزاریں۔”8مئی سے16مئی تک گھر رہو، محفوظ رہوحکمت عملی“ اپنائی جائے۔میڈیا اس دوران عوامی دلچسپی کے ڈرامے اور فلمیں دکھائے۔تاکہ لوگ گھروں میں بوریت نہ محسوس کریں۔بچے تو پہلے ہی واٹس ایپ میں گم ہیں۔اسکولوں کی جبری بندش کے بعد انہوں نے واٹس ایپ میں پناہ لے رکھی ہے۔سیاست بھی بیان بازی تک سکڑ چکی ہے۔جوکچھ ہوگا عید بعد ہی دکھائی دے گا۔8جماعتی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کا اشارا دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ہم اکیلے ہی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔مبصرین کی نظریں سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی الزام تراشی اور حکومتی وضاحتوں پرمرکوز ہیں۔جن کے پاس وقت ہے وہ جہانگیرترین اور ان کے حمایتیوں کو بھی دیکھ رہے ہیں۔دیگر کہتے ہیں جب وقت آتا ہے لوگ اپنے دعوے بھول جاتے ہیں،عمل دعووں کے برعکس ہوجاتا ہے۔عام آدمی قول اور فعل میں تضاد کے مناظر متعدد بار دیکھ چکا ہے، 64ووٹرز پارلیمنٹ کے فلور پربلا جبر و اکراہ 50بن جاتے ہیں۔ایسے مناظر ہماری تاریخ میں ہر دوسرے قدم پر مل جائیں گے۔ہر محکمے میں، ہر ادارے میں ملیں گے۔اگر اس بحث میں الجھ گئے تو اپنا قیمتی وقت ضائع کریں گے،مناسب ہوگا کہ اس وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کی فکر کریں۔کراچی کے ووٹرز نے ووٹ نہ دے کراپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے۔انہوں بتا دیا ہے 80فیصد تمہارے فراڈ سے واقف ہیں،اس لئے تم میں سے کسی ایک کو بھی اس قابل نہیں سمجھتے کہ اپنا قیمتی وقت ایک فضول سرگرمی میں ضائع کیا جائے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ نظام سیاست اتنا فرسودہ ہو چکا ہے،جسے عام آدمی اپنے رویئے سے مسترد کرنے لگا ہے۔اگر حکمرانوں نے اپنی روش نہ بدلی، سچ سے مسلسل انحراف کی عادت ترک نہ کی، عام آدمی کو بجلی، پانی اور گیس سے محروم رکھا تو ہم سے ووٹ کی توقع نہ رکھنا۔تم جانو،تمہاراالیکشن کمیشن جانے۔لیکن اس کے بعد کا منظر سسٹم کے لئے خوشگوار نہیں ہوگا،عبرت ناک ہوگا۔


