افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء

امریکہ نے ا فغانستان سے اپنی افواج واپس بلانے کا اصولی فیصلہ تو بہت پہلے کر لیا تھا مگر واپسی کے بعداس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کی راہیں تلاش کرنے میں اس نے دیر کردی۔یہی تاخیر افغان طالبان کے لئے تکلیف کا باعث ہے۔افغان طالبان نے دو ٹوک الفاظ سے کہہ دیاکہ دوحہ معاہدے کے مطابق اگر امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان سے انخلاء نہ کیا تو وہ حملے شروع کر دیں گے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے ستمبر میں انخلاء کا فیصلہ واپس لے کریکم مئی سے اس عمل کا آغاز کر دیا ہے۔60امریکی فوجی واپس جاچکے ہیں،2مئی کوہلمند کا ملٹری کیمپ خالی کرنے کا پروگرام ہے،یہ فیصلہ کیا جارہا ہے کہ کونسی چیز واپس لے کر جانی ہے اور کسے افغان فورسز کے حوالے کرنا ہے۔ نیوز ایجنسی کے مطابق کابل اور بگرام ایئر بیس پر امریکی ہیلی کاپٹرز کی غیر معمولی نقل و حرکت دیکھی جا رہی ہے۔ افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع جنرل یاسین ضیاء نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہاہے کہ غیرملکی افواج کا انخلاء شروع ہو چکا ہے، وہ رواں ہفتے کے آخر تک اپنے کیمپ افغان فورسزکے حوالے کر دیں گے۔انہوں نے کہا پہلے امریکی اور نیٹو فورسز بگرام منتقل ہوں گی اور پھر وہیں سے اپنے ملکوں کو روانہ ہوں گے۔پاکستان نے امریکہ، چین اور روس کے ساتھ مل کر افغان حکومت اور طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ نہ بنے۔واشنگٹن میں جاری کئے گئے اعلامیہ میں اعلان کیا گیا ہے:”ہم (چاروں ملک) افغان بشمول حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دہشت گرد گروہ اور افراد کسی دوسرے ملک کی سلامتی کو خطرہ بنانے کے لئے افغان زمین کو استعمال نہ کرے۔کالعد تنظیم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے پاکستان میں 2014میں پشاور آرمی پبلک اسکول میں قتل عام سمیت متعدد حملوں کے دوران افغان سرزمین کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے۔ مشترکہ بیان میں اسلامی جمہوریہ کی حکومت اور قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ مذاکرات کے سلسلے میں طالبان کے ساتھ کھل کر بات کریں۔چاروں ملکوں نے مزید کہا ہے ہم افغانستان میں بزور طاقت کسی بھی حکومت کے لئے ایسٹبلشمنٹ کی حمایت نہیں کریں گے۔بیان میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ انفرادی طالبان کے عہدے کی حیثیت اور اداروں پر اقوام متحدہ کی پابندیوں پر نظر ثانی کی حمایت کرتے ہیں۔چاروں ملکوں کی جانب سے اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ تشدد کے خاتمے کے عملی اقدامات اور طالبان کی جانب سے انٹرا افغان مذاکرات کو آگے بڑھانے کی مستقل کوششوں سے خطے میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔یہ امید بھی کی گئی کہ افغان حکومت بین الاقوامی برادری کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے تعاون کو جاری رکھے گی۔تمام فریقوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام حالات میں بین الاقوامی انسانی قانون بشمول عام شہریوں کے تحفظ سے متعلق اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احترام کریں۔۔۔۔۔ چار ملکی اعلامیہ سے یہی تأثر ملتا ہے کہ اس مرتبہ عالمی برادری افغانستان میں قائم ہونے والی حکومت سے رابطے میں رہے گی۔اور انسانی حقوق کے حوالے سے خلاف ورزی پر کڑی نظر رکھے جائے گی۔دوسری جانب افغان طالبان نے بھی طویل اور صبر آزما جدوجہد کے دوران اپنے مستقبل کے حوالے سے ایک قابل عمل اور دیرپا حکمت عملی کے خد و خال پر غور کیا ہوگا۔وہ ماضی کی غلطیوں سے بچیں گے۔وہ جان چکے ہیں کہ کوئی ملک عالمی برادری سے کٹ کر یکہ و تنہا زندہ نہیں رہ سکتا اور ساری دنیا پر اپنی سوچ طاقت کے بل پر مسلط نہیں کر سکتا۔یہی بات امریکہ نے بھی سمجھ لی ہوگی۔اس طویل اور بے مقصد جنگ میں امریکی معیشت بھی بری طرح متأثر ہوئی ہے بلکہ ہل کر رہ گئی ہے۔3.14ٹریلین ڈالر کا بجٹ خسارہ اس کا ثبوت ہے۔یاد رہے ایک ٹریلین ڈالر جمع کرنے کے لئے سعودی عرب کے ساتھ کئے جانے والے (100ارب ڈالرمالیت کے) اسلحہ کی فروخت کے کم از کم10معاہدے کرنا پڑتے ہیں۔3ٹریلین ڈالر کا خسارہ پورا کرنے کے لئے ایسے 30معاہدے درکار ہوں گے، کورونا کی وباء کے بعد ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔امریکہ زبان سے کہے یا نہ کہے لیکن افغانستان سے واپسی بجائے خود اعتراف ہے کہ خلیجی ریاستوں کو تہس نہس کرنے کے بعد افغانستان پر حملہ امریکی مقتدرہ کا غلط اور غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا کرتے تھے؛ امریکہ ایک ملک ہے اسے اپنی سرحدوں میں رہ کر اپنے مسائل حل کرنا چاہئیں۔وہ خود کو دنیا کا چوہدری نہ سمجھے۔ لیکن اپنی جیت(نومبر2016) اور حلف برداری جنوری2017کے دوران، چار مہینوں میں،پینٹاگون نے انہیں سمجھایا ہوگا کہ دنیا کا چوہدری بننا ہماری معاشی مجبوری ہے۔1945سے آج تک ہماری معیشت کو اسلحہ کی فروخت سے جو مدد ملتی رہی ہے وہ روایتی مصنوعات سے نہیں مل سکتی۔لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب کے دوران وائٹ ہاؤس کے باہر اور امریکہ بھر میں مشتعل مظاہرین نے جو توڑ پھوڑ کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو سمجھانے میں پینٹاگون کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد والی تقریر میں امریکی صدر کا غیرملکی فیکٹری مالکان سے امریکی (مقامی)نوجوانوں کو ملازمتیں دینے کی اپیل امریکی چوہدری والے رعب و دبدبے سے خالی لگتی تھی۔چنانچہ ڈونلڈ ٹرمپ کو روسی ایجنٹ ہونے کے الزامات میں مقدمات بھی بھگتنا پڑے۔بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ امریکی اسلحے کے بڑے سوداگر کا کردار ادا کرتے دکھائی دیئے۔انہوں نے خوف کا تازہ ماحول پیدا کرنے کے لئے ایران سے کیاگیا معاہدہ ختم کیا۔سعودی عرب اور قطر کو 2بلین ڈالر کا اسلحہ بیچا۔ایرانی جنرل کو قتل کرایا، لیکن ایران کی جانب سے کرارا جواب ملنے کے بعد کہا:”اتنی قیمت کافی ہے، مزید کچھ نہ کیا جائے“۔اس کے بعد کی داستان پسپائی کی داستان ہے۔امریکہ سمیت عالمی برادری کے ہر رکن ملک کو مان لینا چاہیے 1945کو گزرے76سال بیت گئے ہیں،اب ملکوں کو فتح کرنا آسان نہیں، میزائل ٹیکنالوجی نے دفاعی جنگ کو بہت آسان بنا دیا ہے۔سات سمندر پار سے آکر کسی ملک کو اپنا محکوم بنانا ممکن نہیں رہا۔ امریکہ سمیت ہر ملک کوپرامن بقائے باہمی کی سوچ اپنانا ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں