وزیروں کے پروٹوکول ختم کرنے کا فیصلہ
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ کے حا؛لیہ اجلاس میں وزیروِں، گورنرز، وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم کے پروٹوکول کا ازسر نو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پروٹول پر اٹھنے والے اخراجات میں ممکنہ حد تک کمی لائی جا سکے۔وعزیر اعظم کا کہنا ہے کہ یہ اخراجات عوام کے ٹیکسوں سے پورے کئے جاتے ہیں، عوام کے ادا کردہ ٹیکس امانت ہیں انہیں صرف عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہیئے۔قومی خزانہ ذاتی پروٹو کول اور شان و شوکت دکھانے پر خرچ نہیں کیاجا سکتا۔وزراء قاور گورنرز کے لئے بھی پالیسی بنے گی۔آئندہ ہفتے اس حوالہ سے جامع پالیسی کی منظوری دی جائے گی۔عوام کو مرعوب کرنے کے لئے جاہ و جلال نہیں چلے گا۔ وزیر اعظم پروٹوکول کو نوآبادیاتی نظام کی میراث سمجھتے ہیں۔انہوں نیہدایت کی ہے کہ گاڑیوں پر جھنڈالہرانے کے نظام کا بھی از سرنو جائزہ لیا جائے۔مہنگائی کے ستائے بلکہ مارے ہوئے عوام کے لئے اس قسم کے اقدامات کی اہمیت نہیں ہوگی، انہیں اس دن پی ٹی آئی کی حکومت عوام دوست محسوس ہوگی جب وہ اپنی آمدنی سے گھر کے اخراجات پورے کر سکیں گے۔واضح رہے گھر کے اخراجات میں صرف کچن نہیں، بچوں کے اسکول کی فیس کتابیں، کاپیاں اور یونیفارم کے علاوہ شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت،احباب سے میل ملاپ کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔عوام کی ساری توجہ روزمرہ کے مسائل پر مرکوز ہے۔ادھر کمی آئے تو دوری جانب بھی دیکھیں۔لیکن وزیروں، گورنروں کے شاہانہ پروٹو کول میں کمی لانا بھی ضروری ہے۔ ان کے سرکاری ٹھاٹ باٹ آہستہ آہستہ انہیں یہ سوچنے کی طرف لے جاتے ہیں کہ وہ عوام سے بالاترمخلوق ہیں اور پھر یہی سوچ انہیں کرپشن کی طرف مائل کرتی ہے اورپھرایک ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ وہ سرکاری وسائل لوٹنے میں کوئی شرم یا جھجک محسوس نہیں کرتے۔اور عوام بھی اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر کہنے لگتے ہیں:
”وہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے!“
پاکستانی معیشت کے تباہ کن بگاڑ کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ یہاں کئی دہائیوں سے دو خاندانوں کی حکومت قائم ہے۔طویل عرصے کے بعد یہ روایت ٹوٹی ہے۔اب اسے سلیکٹڈ حکومت کہیں یا الیکٹڈ کہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس نے اقتدار کے پانچ برسوں میں سے تین اطمینان سے گزار لئے ہیں۔ دو برس رہ گئے ہیں اس دوران اپوزیشن اتنی نڈھال ہوگئی ہے کہ اب اس نے حکومت کے گھر جانے کی تاریخیں بتانا چھوڑ دیاہے، اب جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ یتو اَللہ ہی جانتا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ جب جائے گی تو پھر کبھی نہیں آئے گی۔تین سال تک اپوزیشن کی زبان پر ایسا جملہ نہیں آیا۔ہفتہ وار جانے کی تاریخ کا اعلان کیا جاتا تھا۔جنوری کے بعد اپوزیشن کو کسی نے سمجھایا یا خود ہی عقل آئی کہ ہفتہ وار تاریخیں دینے سے اس کی اپنی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔آخری جھٹکا اس وقت لگا جب شور شرابے کا جواب حکومت کی جانب سے شور شرابہ ملنا شروع ہو گیا۔اور چار دن تک اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ایوان میں تقریر نہیں کر سکے۔بجٹ دستاویز کی ایک دوسرے پر بارش کے ساتھ ماں بہن کی شرمناک گالیوں نے ماحول کو اتنا کثیف کر دیا کہ اپوزیشن کو اپنے نیک چال چلن کی ضمانت دینا پڑی۔یہ ناخوشگوار مناظرجون کے مہینے میں قوم نے دیکھے اور جولائی کے پہلے ہفتے میں اپوزیشن کو خدا یاد آگیا۔ آج نئے مالی سال کا دوسر ہفتہ شروع ہوا ہے۔احکومت کو سب سے پہلے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنا ہے جس کو یقین دلایا گیا ہے کہ پاکستان بجلی کے دام بڑھائے بغیر بھی اپنا ٹیکس نیٹ بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ستمبر کے مہینے میں پہلی سہ ماہی ٹیکس ریٹرن جمع کرائی جائے گی۔حکومتی دعووں کا سارا پول کھل جائے گا۔وزیر خزانہ ش۲وکت ترین نے عوام کو(اور آئی ایم کو بھی) یقین دلایا کہ اس کے پاس ڈیڑھ کروڑ ایسے ٹیکس نادہندگان کا مکمل ڈیٹا موجود ہے جو ٹیکسدینے کے قابل ہیں مگر ایف بی آر کے افسران اور اہلکاروں کی ملی بھگت سے ٹیکس چوری کو بہتر سمجھتے ہیں۔ نان فائیلرزکی اتنی بڑی تعداد ٹیکس ادا کرنے لگے تو قومی خزانے میں معقول رقم جمع ہو سکتی ہے۔اس کے سارھ ہی سابق حکمرانوں کے بے نانی اکاؤنٹس میں اربوں روپے اور اربوں روپے کی جائیدایں بھی نیب نے ڈھونڈ نکالی ہیں۔لاہور ہائی کورٹ کے وہ چیف جسٹس بھی ریٹائر ہوگئے ہیں جو نیب اور دیگر اداروں کو حکم دیا کرتے تھے:”شریف فیملی کے کسی مطلوبہ فرد کو گرفتار کرنے سے 10دن قبل اسے اس اقدام کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا۔سابق صدراصف علی زرداری کے وکیل سے کہا گیا پیشگی ضمانت مانگنے والا سائل خود حاضر ہو، ورنہ ضمانت نہیں ملے گی۔اس قسم کے فیصلوں کے بعد عوام کو یہ نظر آنے لگا ہے کہ ملک میں قانون نام کئی کوئی شے بھی موجود ہے، اس سے پہلے یہی لگتا تھا جج کی مرضی جیسا چاہے فیصلہ سنادے، بلکہ اس کا چپڑاسی بھی عدالتی فیصلہ سنانے کا مجاز دیکھا گیا ہے۔ایسے متعددفیصلے ریکارڈ پر موجود ہیں جنہیں بطور نظیر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ایسے ماحول میں وزیر اعظم عمران خان نے اگر پروٹوکول کلچر ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو بظاہر اس پر عملدرآمد مشکل نظر آتاہے لیکن اس اقدام کے دوررس نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔دراصل پروٹوکول کی بدعت کا عادی بنا کر افسر شاہی وزیروں اور عوام کے درمیان ایک ایسی دیوار کھڑی کر دیتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ اونچی ہوتی چلی جاتی ہے۔وزیروں سے کک بیکس کو رزق حلال منوا لیتی ہے، اور ملک کا وزیر اعظم اپنے دوستوں کی محفل میں ہنستے ہوئے سوال کرتا ہے:”اگر میرے اثاثے میری جائز آمدنی سے زیادہ ہیں تو تمہیں کیا؟“، آج کل یہی سوال ان کے بیرون ملک قیام کی بنیادی وجہ بنا ہوا ہے۔پروٹو کول کلچر کا خاتمہ کرپٹ کلچر کے خاتمے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔دونوں کلچر ایک ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔ ایک ختم ہوجائے تو دوسرا بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ دونوں مل کر طفیلی کیڑوں (مچھر، جونک، چیچڑی وغیرہ) کی طرح غریب عوام کاخون چوستے ہیں۔ اپوزیشن حسب معمول اس فیصلے کا مذاق اڑائے گی، مگر جیسے ہی عوام تک اس فیصلے کے اچھے اثرات پہنچنا شروع ہوں گے، سب کہیں گے:”وزیر اعظم نے اچھا فیصلہ کیا تھا“۔یورپی ممالک میں یہ فیصلہ بہت پہلے کر لیا گیا تھا۔


