تصادم سے بچنے کی کوشش کی جائے
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اگلے روز پارلیمانی سال کے آغاز پر روایتی خطاب کیا۔انہوں نے خطاب کے دوران جو کہا اس کی اہمیت ان مناظر کیوجہ سے دھندلا گئی،خطاب پس منظر میں چلا گیااور صحافی برادری کا احتجاجی دھرنا غالب رہا۔صدر مملکت نے پریس گیلری خالی دیکھ کر خود بھی حیرانگی کا اظہار کیا۔اپوزیشن کے شور شرابا دیکھنے اور سننے کا عام آدمی عادی ہو گیا ہے۔مبصرین نے بھی خالی پریس گیلری شدت سے محسوس کیا۔اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا اعترافی بیان بھی میڈیاکے ذریعے عام آدمی تک پہنچ چکا ہے،وہ کہتے ہیں:”صحافیوں کے دو گروپوں میں ہاتھا پائی کا خطرہ تھا اس لئے احتیاط کے طور پر پریس گیلری میں پابندی لگائی،لڑائی ہوتی،کوئی گرتا تو نئی مشکل ہوتی“۔ انہوں نے مزید کہاکہ پالیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) کو عام طور پر200کارڈ جاری کئے جاتے ہیں کورونا کی وجہ سے ان کی تعداد بھی پچاس کر دی گئی تھی۔ان میں سرکاری میڈیا کے رپورٹرز بھی شامل ہیں۔ جبکہ جن صحافیوں کو کارڈ جای کئے گئے تھے انہیں بھی پریس گیلری تک جانے اجازت نہیں دی گئی۔پی آر اے کا کہناہے کہ صحافیوں کی بجائے دیگرافراد کر پریس گیلری کے کارڈز جاری کئے گئے ہیں اور صحافیوں کو اس اہم کوریج سے روک دیا گیاہے۔تاہم اجلاس سے واک آؤٹ کرنے والے اراکین صحافیوں سے اظہارِیکجہتی کے لئے دھرنے میں پہنچے۔ انہوں نے بھی پریس گیلری کی بندش پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا مارشل لاء کے دو ر میں بھی پارلیمان کی پریس گیلری بند نہیں ہوئی، ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔لیکن یاد رہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں پہلی بار دیکھے جانے والے ہمہ اقسام واقعات کی فہرست مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پارلیمنٹ ایسے واقعات کو باربار دہرانے جانے سے روکنے کے لئے مناسب قانون سازی کر سکے۔رات گئے آئین اور اسمبلیوں کو منسوخ یا معطل کئے جانے کا پہلا اعلان اس فہرست میں شامل کیا جائے۔ عدالتی فیصلے میں ”نظریہ ئ ضرورت“ کو پہلی بار آئین پر بالا دست قرار دینے کاعدالتی فیصلہ بھی اس انوکھی فہرست میں شامل کیا جانا چاہیئے۔جھوٹی گواہی کو جائز قرار دینے کا فیصلہ بھی اس فہرست میں شامل کیاجاناضروری ہے۔جس پارلیمنٹ نے مارشل کے دوران کئے گئے تمام احکامات، فیصلوں اور معاہدوں کو جائز قرار دیااس کانام اور تفصیلات بھی شامل ہونی چاہئیں۔آئین کسی مارشل لاء (یااس کے احکامات)کو جائز قراردینے کااختیار پارلیمنٹ کو نہیں دیتا۔جس چیف جسٹس آف پاکستان نے آرمی چیف کوپہلی بار آئین میں ترمیم کا اختیار دیا اس کی مکمل تفصیلات بھی اس فہرست میں درج کی جائیں۔ پالیمنٹ کے فلور پر جس وزیر اعظم نے اسپیکر کو مخاطب کرکے پہلی مرتبہ یہ کہا:”جناب اسپیکر صاحب! یہ ہیں وہ ثبوت اور دستاویزات جن سے لندن کے فلیٹ خریدے گئے، آپ جب بھی کوئی مجازادارہ مانگے ان شواہد کو پیش کر سکتے ہیں“۔اسکی تمام جزئیات بھی اس فہرست کاحصہ ہونا چاہیئے۔مذکورہ واقعات کے علاوہ پارلیمنٹ کی نظر میں مزیدایسے متعددانوکھے واقعات ہوں گے وہ بھی شمولیت کے مستحق سمجھے جائیں۔ عوام کی معلومات میں مفید اضافہ ہوگا۔ پاکستان کی 74سالہ تاریخ ایسے عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہے۔پارلیمنٹ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے اس فہرست کو الیکشن میں شمولیت کے نصاب کاحصہ بنائے اور نامزدگی فارم منظور کرتے وقت امیدوار سے اس فہرست پر مبنی ایک سوال نامہ دیگر امیدواران کی موجودگی زبانی پوچھاجائے۔کم از کم دس سوال پوچھے جائیں،سو فیصد درست جواب دینے والا امیدوار الیکشن میں حصے لے۔نماز اور دعائے قنوت کے بارے میں پوچھنے کی روایت موجود ہے۔ اپنی پارلیمانی، اور عدالتی تاریخ سے بے خبر کسی پاکستانی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے۔پریس گیلری میں صحافیوں کوریج کے لئے جانے کی اجازت نہ دینا ایک ناپسندیدہ حکم ہے لیکن اراکین اسمبلی کو ایوان میں جانے روکنا اور آئین کی منسوخی اس سے کئی گنا زیادہ ناپسندیدہ اقدام سمجھا جانا چاہیئے۔نظریہئ ضرورت کو آئین سے بالاتر قرار دینااور کسی آرمی چیف کو آئین میں ترمیم کااختیار دینا بھی گناہِ کبیرہ سمجھا جانا چاہیئے۔بزرگ کہہ گئے ہیں:۔۔۔۔ ”خشتِ اول چوں نہد معمار کج/تاثریا می رود دیوار کج“۔۔۔۔ہر ادارہ اصلاح طلب ہے۔عوام کو آج جن مشکلات کا سامنا ہے،وہ ماضی میں کی جانے والی تمام غلطیوں کا مجموعی نتیجہ ہے۔ مزاحمت کو مفاہمت کی سیڑھی سمجھنا بھی درست نہیں۔کسی کو مفاہمت درکار ہے تو مفاہمت کی شرائط پوری کرے، پارلیمنٹ سے منظوری لے اور مفاہمت کر لے۔پارلیمنٹ کے سواکسی شخص واحد (یا ادارے) کو مفاہمت کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار نہیں دیاجا سکتا۔ورنہ عوام کی مشکلات حل نہیں ہوسکیں گی۔مسائل کے انبار میں کمی نہیں آئے گی۔ وسائل کی لوٹ مار جاری رہے گی۔عام آدمی کو علاج کی سہولت میسر نہیں ہوگی اور سزا یافتہ مجرم جھوٹے میڈیکل سرٹیفکیٹ دکھا کر بیرون ملک جاتے رہیں گے۔ یہ سلسلہ رکنا چاہیئے۔یہ دروازے بند کئے جائیں۔ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر عوامی مفاد میں کام کرنے کا پابند ہے۔کوئی ادارہ لامحدود اختیارات کا مالک نہیں۔آئین میں ملکی استحکام اور عوامی مفادات کے منافی کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔نہ ہی کوئی عوام دشمن قانون سازی ممکن ہے۔ ماضی میں کئے جانے والے غلط اقدامات کو مستقبل کے لئے نظیر نہیں بنایاجا سکتا۔بازو کی طاقت کی بجائے دلیل کی طاقت سے کام لیا جائے۔تصادم کی سیاست سے عوامی مفادات کوہمیشہ نقصان پہنچا ہے۔انا پرستی اور ہٹ دھرمی نہ ماضی میں درست تھی،اس کو حال اور مستقبل کے لئے بھی درست اور مفید نہ سمجھا جائے۔ پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرے۔سوچیں پارلیمنٹ کے دروازے بند کرکے صدرِ مملکت کے خطاب کی کیا حیثیت ہوگی؟ایسے ماحول کو خوشگوار بنایا جائے جس میں پریس گیلری میں ہاتھا پائی اور کسی صحافی کے گیلری سے نیچے گرنے کا خطرہ ہو۔ اس کے بعد روایات کی فکر کی جائے۔ یہ دلیل ناقابلِ فہم ہے کہ ریاست کاغذ قلم پکڑے50صحافیوں کو پارلیمنٹ کی گیلری میں ہاتھا پائی سے روکنے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہے۔ اگر ریاست واقعی اتنی کمزور ہو چکی ہے تب بھی اس کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔22کروڑ عوام کی سلامتی کی ضمانت کون دے گا؟اسپیکر صاحب کا اس حد تک خوف زدہ ہونا عام آدمی کے لئے از حد تشویشناک ہے۔اسپیکر صاحب آپ پارلیمنٹ کے کسٹوڈین ہیں، عوام سے سچ نہ چھپائیں،پارلیمنٹ عوام تشکیل دیتے ہیں،عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں، اس کی حفاظت کمزور ہاتھوں میں نہیں ہونی چاہیے۔


