افغانستان بحران کے حل کی کنجی!!

تحریر: راحت ملک
افغانستان کی صورتحال سلجھنے کی بجائے الجھتی جارہی ہے جو قطعاً غیر متوقع نہیں،سماج کی سائنسی حرکیات کے ذریعے سیاسی کی پرکھ کا اصولی سیاسی معاشی تضادات کے جذبی طریقہ کے ذریعے بہت بہت اجرت عطاء کرتا ہے مسئلہ یہ ے کہ تاریخی ارتقاء کے الفاظ سنتے ہی ہمارے صاحبان اختیار،حبہ ودستار اقتداری حلقے کے افراد کے اذہان میں بد ہضمی کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں اور وہ ناک منہ بور کر اپنی دیو بالائی تصوراتی حکمت عملی کی پناہ گاہ میں چلے جاتے ہیں پالیسی میں بہتری آتی اور حالات اپنی مفیہ سمت میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔معاملات بگڑتے اور ہاتھ سے نکلتے ہیں تو خرابی بسیار کے بعد غلطیوں کا اعتراف کر لیا جاتا ہے اس اعتراف میں اصلاح کا کوئی پہلو موجود نہیں ہوتا،نتیجاً ماضی کی لکیر پر فقرانہ سفر جاری رکھنا،صلاحیت اور ماضی کے جرکاء ناگزیر تقاضا بن جاتا ہے فراز صاحب نہ خوب کہا تھا کہ نہ ہمارے حالات بدلے ہیں نہ ہمارے اشعار پرانے ہو کر ماضی کا حصہ بنے ہیں،عاصرہ کل کی حکائت تھی تو آج کی بھی حقیقت ہے۔
15اگست 2021ء کو کابل میں جو کچھ رو نما ہوا اسے بے سبب یا اچانک وتوع ہوجانے والے واقعات سمجھنا ہی درست نہین ہاں اتنی مختصر مدت میں سب کچھ رونما ہونا،حیرت انگیز ضرورت تھا، مجھے اب بھی یقین ہے کہ امریکہ افواج کے انخلاء کے انداز میں افغانستان طالبان کی جھولی میں ڈالنا امریکی قومی مفادات کی مختصر المدت اور طویل مدت پالیسی کا حصہ تھا۔امریکیوں نے اپنا جنگی ساز وسامان بخوشی طالبان کو سونپ دیا مگر امریکی بینکوں میں موجود افغانستان کے مالی اثاثے منجمند کردیئے۔کیا دوسری حکمت عملی کے آئینہ دار یہ واقعات حالیہ بحرانی اور ہیجانی صورتحال کی وضاحت نہیں کرتے؟
پاکستان میں افغانستان اور ان کی افغانستان پر گرفت سے متعلق خواہشات اور عملی صورت حال میں گہرا تضاد ونمایاں ہورہا ہے۔اندازہ ہورہا ہے کہ میرے ملک کے معاملات روز مرہ کی بنیاد پر طے کئے جارہے ہیں۔محقیق نگاہی اور عوامی سیاسی بصیرت کو بروئے کار لانے سے مسلسل گریز اس بحران کی گیرانی بیان کرتا ہے جو اقتدار واختیار کی واجح تقسیم شدہ شکل میں ریاستی امور میں سرایت کرچکا ہے۔
وزیراعظم پاکستان اور دیگر وزراء،محکمہ دفاع اور وزیر خارجہ،افغان طالبان حکومت تسلیم کرانے کے لئے سر توڑ کوشش کررہے ہیں اسلام آباد ہے کہ دنیا اور بھی ان کے کہے پر۔ طالبان حکومت کو جلد از جلد قانونی طور پر تسلیم کرلے۔مگر از خود حکومت پاکستان رسمناً طالبان حکومت تسلیم کرنے سے گریز چاہیے۔
گریز پائی حکمت عملی کا حصہ ہے تو دنیا کو اس کے بر عکس اقدام کا مشورہ کیوں دیا جائے؟اور اگر دنیا کے دب آ کے پیش نظر اسلام عملی پیش قدمی سے اجتناب کر رہا ہے تو پھر شعلہ بیان مکالت کے کیا معنی؟کیا ہم اس کے عملی منفی اثرات کو جانتے بوجھتے ہوئے آنکھیں بند کررہے ہیں۔
افغانستان میں خوراک،روز گار،عزت نفس کا تحفظ اور اشیائے ضروریہ کی عدم دستیابی ایک سنگین انسانی المیے میں بد ل رہی ہے اس نازک مرحلے پر استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر دنیا نے افغان طالبان کا ہاتھ نہ تھما تو دہشت گردی پھیلنے کا خدشہ ہے۔یہ نہیں بتایا جاتا کہ طالبان حکومت کے استحکام سے دنیا اور بالخصوص افغانستان یا خطے میں امن سلامتی کی صورتحال مستحکم ہوگی کیا طالبان افغانستان میں وسیع البنیاد سماجی سیاسی قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہونگے؟انسانی ہمدردی کی بناء پر افغان عوام کی امداد سیاسی سطح پر طالبان حکومت کی موجودہ شکل وصورت گیری کے لئے بہت بڑا سیارہ ثابت ہوگی جو بذات خود افغانستان میں سیاسی عدم استحکام لائے گی اور اس کے برعکس اقدامات کا نتیجہ بھی انتہائی بھیانک اور غیر انسانی ہوگا۔سوال یہ ہے کہ درپیش معروضی منظر نامے کو بہتر کیسے کیا جاسکتا ہے؟میرے خیال میں اس کی کلید افغان طالبان کے پاس ہے وہ اگر اپنی منفی سوچ ہٹ دھرمی انا نیت اور ضدی پن مزاج کے ساتھ از خود مفاہمت پیدا کرلیں تو افغان بحران کے حل کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔
حالیہ ہفتے میں سامنے آنے والا عوام درست سامراجیت کا اتحاد بحر اوقیانوس سے وسط ایشیائی منطقے کو میحط کرتا ہوا مشرقی وسطی تک عالمی سامراجیت کی گرفت مضبوط بنانے کی عملی پیشرفت ہے جس کے لیے افغانستان کا سیاسی عدم استحکام اہم ثابت ہوگا لہذا یہ سمجھنا کہ دنیا ہمارے غیر منطقی اور سطی بیانات کو توجہ سے سن کر افغانستان کی مدد کو آئے گی۔محض خواب غفلت کے مزے لوٹنے کے مترادف ہوگا۔
امریکہ نے گزشتہ روز افغانستان پر عائد تجارتی پابندیوں میں بظاہر انسان دوست کے حوالے سے نرمی کا اعلان کیا ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں سمیت امریکی کمپنیوں کو افغانستان سے لین دین کے لئے اجازت نامے جاری ہونگے جس سے افغانستان کے عوام کی مشکلات میں کمی آسکتی ہے۔اس کے بعد کیا طالبان اپنی حکومت میں موجود شدت پسند عناصر کو قابو کرنے اور دیگر غیر طالبان سیاسی حلقوں کو شریک اقتدار کرنے پر آمادہ ہونگے؟ مجھے اس کا امکان نظر نہیں آتا طالبان کے داخلی حلقوں میں اختلافات اور کشیدگی کی نشاندہی کرنے والے واقعات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ جنگجوئی میں منہمک تمام طالبان متحد تھے مگر اقتدار و حکومت کے معاملات میں بر گرہ حصہ بقدر حبثہ کا طالب ہے ان میں مفاہمانہ رجحانات کی قلت ہے۔دوحہ میں فعال ومتحرک ملا عبدالغنی برادر منظر سے غائب ہیں ان کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوچکی ایک تصویر جس پر ان کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہے جاری کی گئی لیکن اس تصویر میں ملا بردار کے جسم کا باقی حصہ چھپایا گیا ہے۔ہاتھ پر زخم کا آنا اگر معمول کی بات ہے تو ملا برادر اپنے سیاسی معموملات سے عاجز کیوں ہیں؟
امریکہ نے تاحال طالبان کے کئی مقتدرہ رہنماؤں کے نام دہشت گردی کی فہرست خارج نہیں کئے اقوام متحدہ کی فہرست کا مسئلہ بھی یہی ہے۔دریں حالات ہفتے کے روز امریکہ عسکری ذرائع کا بیان ہے کہ وہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف فضائی کارروائی کا اب بھی اختیاررکھتے ہیں اور اس کے لئے اقوام متحدہ سے کسی نئے مینڈیٹ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔یہ بیان تعاون وامداد کے لئے دی گئی اجازت کی حقیقت عیاں کرتا ہے۔امریکہ اپنے عوام اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے اس کے مفاداتی عزائم کا تقاضہ افغانستان پر پلٹ کر حملہ آور ہونے کی نشاندہی کرتا ہے بدلے ہوئے امریکی مزاج کے پس منظر میں امریکی فضائی حملے کی دھمکی میں پاکستان کے لئے بھی خدشات ہیں جو اب زیادہ سنگین اور تشویشناک ہوگئے ہیں۔
دریں حالات امریکیوں کو لاعلم اور نااہل قرار دینے والے بیانات کی بجائے جناب عمران خان کو چاہیے کہ جلد از جلد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانون کے الگ الگ اجلاس بلائیں۔مجموعی خارجہ پالیسی،دفاعی حکمت عملی اور بالخصوص افغان بحران کے متعلق تفصیلی مباحثہ کرائیں تاکہ قومی دفاع و خارجہ امور میں وسیع البنیاد سیاسی بصیرت شامل کر کے اس کے خدو خال کو اطمینان بخش بنایا جایے، وسیع البنیاد سیاسی اتفاق رائے کی جتنی ضرورت افغانستان کو ہے پاکستان کو اس کی ضرورت پہلے سے دو چند ہے۔