شاید اپوزیشن لیڈرکو اس سلوک کی توقع نہ تھی

آئینی اعتبار سے اپوزیشن لیڈر کی مشاورت اور اپوزیشن کی حمایت کے بغیر چیئر مین نیب کی تقرری یا مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں ہوسکتی، لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے آئین میں کوئی ترمیم کئے بغیر صرف آڑڈیننس جاری کرکے اس مشکل کا حل تلاش کرلیا۔وزیراعظم کی پہلی تقریر کے دوران اپوزیشن نے نہ صرف شور شرابا کیا بلکہ حکومت کو ”سلیکٹڈ“ کہہ کر سیاسی گالی بھی دی۔اپوزیشن نے اس وقت یہ نہیں سوچا ہوگاکہ پہلے اجلاس میں جس مخاصمت کی بنیاد رکھی جارہی ہے وہ اتنی گہری اور وسیع ہے کہ ایک دن اسے پاٹنا ناممکن ہو جائے گا۔ لیکن آج وہ انہونی ہوگئی۔نیب آرڈیننس مجریہ1999میں دوسری ترمیم کے آرڈیننس2021 پر صدرِ مملکت نے دستخط کر دیئے۔ حکومت کم از کم چار مہینے کے لئے اپنی پسند کا چیئرمین نیب لانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔اپوزیشن عدالت سے رجوع کرے گی، لیکن عدالت سے اس مرتبہ ماضی جیسا جواب ملنے کے امکانات بوجوہ کم ہیں۔چار مہینوں میں اپوزیشن لیڈر کے زیر سماعت مقدمات کا اگر فیصلہ نہ آ سکا تب بھی متوقع تیز رفتار سماعت کی بناء پرعام آدمی کو بڑی حد تک امید ہو جائے گی کہ فیصلہ جلد ہی سنایا جانے والاہے۔ جبکہ آج تک عام آدمی اور بعض دانشور بھی پختہ یقین رکھتے ہیں کہ مقدمات یوں ہی زیر سماعت رہیں گے اور کسی دوپہر یاسہ پہر کوالیکٹرانک میڈیا بار بار بڑے جوشیلے انداز میں یہ خبر نشر کر رہاہوگاکہ اربوں روپے اپنے ملازموں،فالودے والوں اور پاپڑوالوں کے اکاؤنٹس سے بیرون ملک بھجواکر چند منٹوں بعد واپس اپنے یااپنے بیٹوں کے نام پر واپس منگوانے کے مقدمات میں ”باعزت“ بری ہو گئے ہیں۔ اور اس خبر کے ساتھ ہی ملک کا سیاسی منظر بھی تبدیل ہو جائے گا۔ اور ملزمان پریس کانفرنسز میں حکومت کے بارے میں کہہ رہے ہوں گے:”مقدمات بے بنیاد بنائے گئے تھے، جھوٹ پر مبنی تھے، اور سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں تھے“۔اس لئے کہ ماضی میں عوام یہ مناظرمتعدد بار دیکھ چکے ہیں۔ وہ دن رات ایک دوسرے سے کہتے ہیں:”دیکھنایہی لوگ ایک بار پھر حکومت کریں گے“۔مگر چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کے بغیرتوسیع سے ہلکی سی امید پیداہوگی کہ ملکی دولت کوکسی بیوہ کامال سمجھ کر اپنے بینک اکاؤنٹس میں جمع کرنے والے با اثرلوگوں تک قانون کے لمبے ہاتھ پہنچ سکتے ہیں۔مزید راستے یہ امید کھولے گی۔ کئی دہائیوں سے جمی ہوئی مایوسی کی گرد میں تھوڑی کمی ضرور آئے گی۔قانون کی حکمرانی محض ایک سیاسی نعرہ نہیں رہا بلکہ یہ معاشرتی ضرورت بن چکی تھی۔جب چند گھرانے خودکوقانون سے بالاتر سمجھنے اور اپنی من مانی کرنے کے عادی ہوجائیں تو معاشرے کی بقاء خطرے میں پڑجاتی ہے۔ ا جتماعی موت سے بچنے کا راستہ قانون کی حکمرانی فراہم کرتی ہے۔مہذب اقوام نے صدیوں پہلے یہ راز جان لیا تھا۔پاکستان مختلف داخلی اور بین الاقوامی عوامل اور عوارض کہ بناء پر لاقانونیت میں گھرا رہا۔کوئی مانے یا نہ مانے اب عالمی نفسیات میں بھی (پاکستان کے گرد و نواح میں ہی سہی)تبدیلی تو آئی ہے۔اس خطے میں معاشی اور دفاعی ضرورتیں ملکوں کوایک دوسرے کے قریب لے آئی ہیں۔فرانس کے تیور دیکھ کر لگتا ہے کہ اب یورپی ممالک بھی امریکہ کو اپنا خیرخواہ ماننے کو تیار نہیں۔ برطانیہ زیادہ دیر تک امریکہ کااتحادی نہیں رہ سکے گا۔برطانیہ کو گیدڑ کی طرح شیرکابچا کھچاکھانے کی عادت ہے لیکن پیٹ نہیں بھرے گاتو وہ بھی فرانس کی طرح امریکی اتحاد سے علیحدگی کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگا۔آسٹریلیاکو آبدوز بیچنے میں کامیاب ہو گئے تب بھی اس رقم سے کتنی دیر ملکی ضرورتیں پوری کر سکیں گے؟ کابل سے انخلاء کی بناء پرامریکہ کی دھاک کو ناقابلِ تلافی دھچکہ لگا ہے۔یہ زخم جلد مندمل نہیں ہوسکے گا۔ کیا کھویا کیاپایاکی بحث امریکہ میں شروع ہو چکی ہے، دیر تک جاری رہے گی۔اگرصورت حال کاباریک بینی سے جائزہ لئے بغیر امریکی شہ پاکر بھارت سرکار نے چین سے پنجہ آزمائی کی غلطی کر لی توامریکی مقتدرہ اس دلدل سے نکل نہیں سکے گی۔چین بھرپور تیاری کے ساتھ اپنے مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑنے کا ارادہ کئے ہوئے ہے۔ امریکہ اپنے مسائل کے بوجھ تلے دبا ہے، اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متأثر ہوئی ہے۔ اغلب امکان ہے کہ پریشانیوں کے غیر متوقع دباؤ کے باعث درست فیصلے نہ کر سکے۔اس کی بے بسی کا اندازہ لگانے کے لئے کورونا پرقابو نہ پاسکنے کی صورت حال کو ایک پیمانے کے طور پر استعمال کیاجا سکتا ہے۔روزانہ اموات دو ہزار تک ہو رہی ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔یہ غیر معمولی دباؤ کا نتیجہ ہے،اسے نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ان نامساعد حالات سے نکلنے میں امریکہ کو کافی وقت لگے گا۔ تاریخ تنہا اپناسفر جاری نہیں رکھتی، جغرافیہ بھی تاریخ کاساتھ دیتا ہے، پرانی ہیئت تبدیل کرتا ہے۔ بھارت اور امریکہ داخلی طورپر ان دیکھے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔سکھ کسانوں کی تحریک ہر گزرتے دن بھارت سرکارکے لئے زیادہ پریشانی کاباعث بن رہی ہے۔ایک وزیر کی جانب سے کسانوں پر گاڑی چڑھا دینے سے سکھ برادری میں مزیداشتعال پھیل گیا ہے۔ متعدد غیر ملکی کمپنیاں اپنا کاروبار ختم کرکے بھارت سے جا چکی ہیں۔ اگر اس خطے میں امریکی مفادفات کی کوئی نئی جنگ لڑی گئی تو امریکہ کے لئے پانے کی گنجائش انتہائی کم اور کھونے کے چانسز بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان کوبھی اپنے معاشی اور معاشرتی مسائل کا سامنا ہے۔ڈالر کی کمی بیشی سے معیشت میں بھونچال آجاتا ہے۔ مہنگائی بے قابو ہے، آٹا، چینی دالیں، گھی اور دیگر اشیائے خورد ونوش کی قیمتیں مافیاز جب چاہیں بڑھا دیتی ہیں۔ عوام پریشان حال ہیں۔اس صورت حال کو تبدیل کرنا اولین معاشی اور معاشرتی ضرورت ہے۔ایف اے ٹی ایف کے دباؤ کی وجہ سے منی لانڈرنگ سے چشم پوشی ممکن نہیں رہی۔آئی سی آئی جے کی جاری کردہ تین رپورٹس میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد شامل ہیں۔عدالتیں ماورائے قانون مراعات نہیں دے سکتیں۔ دباؤ یا لالچ میں آنے والے ججزمیں سے بیشتر ریٹائر ہو چکے ہیں۔ جو اکا دکا رہ گئے ہیں،اداروں کو مطلوب ہیں، ماضی جیسی من مانی کے قابل نہیں۔ معمولی سوجھ بوجھ کا شخص بھی جانتا ہے کرپشن کی سرپرستی معاشی خودکشی کے مترادف ہے۔ معاشی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاناملکی ضرورت ہے۔ معافی یا نرمی کی آس لگانے والوں کو جلد معلوم ہو جائے گاکہ سو میں کتنے بیس ہوتے ہیں۔فاختہ اڑانے والے خلیل خان کے دن پورے ہو چکے ہیں۔احتساب عدالتوں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے۔اگر موجودہ ترمیم میں کوئی خامی ہے ایکٹ میں دور کر دی جائے گی۔معاشی مجرم حکومتی صفوں میں شامل ہے یا اپوزیشن میں ہے اپنے انجام کو پہنچے گا، یہی نوشتہئ دیوار ہے۔نہ پڑھنے یا نہ ماننے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں