ایک ٹیلی فون کال
تحریر: انورساجدی
یہ جو پنجابی ایلیٹ2014ء سے لڑرہی ہے اس کی ایک وجہ تو اقتدار پر قبضہ ہے لیکن اسکی کئی وجوہات پوشیدہ ہیں جن سے عام لوگ آگاہ نہیں ہیں غالباً غالباً اندرونی طور پر یہ کشمکش زور پکڑرہی ہے کہ اقتدار پر بالادستی کس کی ہوگی اور ملک کو چلانے کی ذمہ داری کس پر ہوگی 1958ء کے مارشل لاء سے لیکر ابتک فوج کسی شراکت کے بغیر ملک چلاتی رہی ہے تاہم بھٹو کی پھانسی کے بعد جب اس حق کو چیلنج کیا گیا تو مقتدرہ نے پیپلزپارٹی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کیا اگرچہ یہ کوشش پوری طرح کامیاب نہ ہوسکی تاہم اس حد تک ضرور کامیاب رہی کہ یہ جماعت سندھ تک محدود ہوگئی اور اسے پنجاب سے ہمیشہ کیلئے ”دیس نکالا“ دیدیا گیا۔
ضیاؤ الحق کے دور میں جب ان کا اقتدار چیلنج ہوا تو انہوں نے پنجاب میں سیاستدانوں کی نئی کھیپ تیار کرلی نہ صرف یہ بلکہ نام نہاد اشرافیہ کی ازسرنوتشکیل بھی کردی اور ایک نودولتیہ کلاس بنالی جسے بہ یک وقت اقتدار اور وسائل سونپ دیئے 1988ء سے90کی دہائی تک میاں نوازشریف اس نئی اشرافیہ کی نمائندگی کررہے تھے تاہم جب انہوں نے پرپرزے نکالے یا یہ سمجھ بیٹھے کہ پنجابی ایلیٹ تنہااقتدار کا حقدار ہے تو ان کی نکیل کھینچ لی گئی۔خاص طور پر جب نوازشریف نے خود کو ضیاؤ الحق کے سیاسی ورثہ سے الگ کرلیاتو وہ معتوب ٹھہرے اسکے باوجود2013ء تک نوازشریف پر انحصار کیا گیا اور عام انتخابات میں انجینئرنگ کے ذریعے انکو اکثریت دلادی گئی لیکن بوجوہ نوازشریف اعتماد پر پورا نہ اترے اسی لئے جنرل راحیل شریف اور جنرل ظہیر السلام نے عمران خان کو آگے لانے کا فیصلہ کرلیا اس فیصلہ کے تحت نوازشریف کو پانامہ اسکینڈل لاکر ذلیل ورسوا کیا گیا انہیں ملک کاکرپٹ ترین حکمران قراردیا گیا اور بالآخر اقتدار سے معزول کردیا گیا حالانکہ عدالتوں میں آج تک ایک مقدمہ یا الزام ثابت نہیں کیاجاسکا۔
2018ء کے انتخابات میں بڑی محنت ومشقت کے بعد عمران خان کو کامیابی دلائی گئی کیونکہ انکو اتنے ووٹ نہیں پڑے تھے کہ ان کی حکومت بن پاتی مقتدرہ نے اپنے شاہ سواروں ق لیگ ایم کیو ایم بلوچستان کی باپ پارٹی اور سندھ کے جی ڈی اے کے ووٹ ملا کر عمران خان کی حکومت قائم کروادی لیکن تین سال گزرنے کے بعد عمران خان نے بھی نوازشریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پرپرزے نکالنے کی کوشش کی۔اس پرکئی بار انہیں نکیل ڈال دی گئی خاص طور پر یوسف رضا گیلانی کے انتخاب کے موقع پر انہیں بتایا گیا کہ سب کچھ انکے ہاتھ میں ہے ان کی مرضی جس کو اکثریت دلائیں یا شکست سے دوچار کردیں اس انتخاب کے بعد عمران خان کافی عرصہ تک سیدھے رہے لیکن6اکتوبر کو آئی ایس آئی چیف کے نوٹیفکیشن کے مسئلہ پر اختلاف پیدا ہوا جس کی وجہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ عمران خان کا اقتدار کسی وقت بھی ختم ہوسکتا ہے وی لاگرز اور یوٹیوبرز مسلسل کہہ رہے تھے کہ ایک پیج پھٹ گیا ہے اس لئے حکومت کا قائم رہنا مشکل ہے لیکن اس دوران عمران خان نے اپنے بیرونی دوستوں کی مدد حاصل کرلی جنہوں نے صلح صفائی کروادی جس کے نتیجے میں پھٹے ہوئے پیج کو ”گوند“ لگاکر دوبارہ جوڑدیا گیا۔گماں یہی ہے کہ دونوں فریقین نے ایک دوسرے کو کچھ یقین دہانیاں کروائی ہونگی تاکہ بقائے باہمی کی صورت بنی رہے ورنہ دونوں کو نقصان ہوگا۔چنانچہ دونوں نے اپنا پیج جوڑدیا یہی وجہ ہے کہ جب حکمران جماعت نے80بل پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا تو پہلے مرحلے میں حکومتی اتحادیوں نے حمایت سے انکار کردیا لیکن پھر اچانک اراکین پارلیمنٹ کو کال آنے لگے جس سے واضح ہوگیا کہ صلح ہوگئی ہے اور بڑوں نے اپنی حمایت دوبارہ تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دی ہے چنانچہ حکومت اس قابل ہوئی کہ اپوزیشن کو بلڈوز کرکے آئینی ترامیم منظور کروالے تمام ترکوششوں کے باوجود حکومت مطلوبہ222اراکین کی حمایت حاصل نہ کرسکی اور اے 221ووٹ ملے اس کی وجہ سے ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں ایک بڑی جنگ لڑی جائے گی جس کا فیصلہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف حکمران جماعت اور اس کے سرپرستوں نے طویل منصوبہ بندی کرلی ہے لیکن اس بیچ میں حیرانی کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے کیا گیڈر سنگھی دکھائی کہ مسلم لیگ ن اسے وعدے وعید اور یقین دہانی کے باوجود اس کا ہاتھ جھٹک دیا گیا اور اسے ایک بڑے دھوکے کے ذریعے مشکل صورتحال سے دوچار کردیا گیا یہ گیڈر سنگھی ایک سربستہ راز ہے جس کے بارے میں دوشخصیتوں کے سوا کسی کو علم نہیں ہے غالباً اس کی وجہ سے نہ صرف عمران خان کی ڈوبتی نیا بچ گئی بلکہ اسے طاقت فراہم کرکے تازہ دم کیا گیا۔جو طویل منصوبہ بندی ہے اس کے ذریعے ای وی ایم کے ذریعے مطلوبہ کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی جبکہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ حسب منشا استعمال کئے جائیں گے شروع کی اطلاعات کے مطابق ان ووٹوں کی تعداد80لاکھ تھی لیکن اب پتہ چلا ہے کہ یہ ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہیں ان کا استعمال کسی بھی جماعت خاص طور پر تحریک انصاف کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں تحریکی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام ووٹ صرف ان کی جماعت کو ملیں گے۔عمران خان نے سیاسی دنگل کا پہلا مرحلہ تو جیت لیا ہے لیکن ایک اہم مرحلہ نومبر2022ء کو آئیگا جب وہ نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے اگرانہوں نے ایک اور ایکسٹیشن دینے سے گریز کیا تو وہ اپنے مطلب کی شخصیت کو لے آئیں گے جس کے بعد ایک سال بعد ان کے لئے عام انتخابات کا مرحلہ سرکرنا مشکل نہیں ہوگا اگر عمران خان نے2023ء کے انتخابات بھی جیت لئے تو وہ وقت ملک اور مخالفین دونوں کیلئے قیامت خیز ہوگا کیونکہ ان کی اصل شخصیت تو ان انتخابات کے بعد ابھر کر آئے گی اگر انہیں دوتہائی اکثریت حاصل ہوئی تو وہ ایسے کارنامے سرانجام دیں گے کہ دنیا محوحیرت ہوجائے گی وہ ایک ایسے آمر کا روپ دھارسکتے ہیں کہ لوگ ہٹلر اور مسولینی کو دوبارہ یاد کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ان کا امکانی منصوبہ یہ ہوگا کہ پانچ سال وزیراعظم کے طور پر گزاریں اور اس کے بعد دوتہائی اکثریت کی بدولت آئین بدل کر ملک میں صدارتی نظام قائم کریں وہ بھی فرانسیسی طرز کا جس کی میعاد سات برس ہوگی یہ منصوبہ سازی کرتے وقت خان صاحب کے ذہن میں باالکل بھی یہ بات نہیں کہ آئندہ10برسوں میں ان کی عمر عزیز کتنی ہوگی ان کے خیال میں 85سال کی عمر تک وہ فٹ رہیں گے اس کی مثال موجود ہے کہ مرارجی ڈیسائی 81سال کی عمر میں انڈیا کے وزیراعظم بنے تھے۔
اگرخان صاحب کے منصوبے کامیابی کی جانب گامزن ہوئے تو ان تمام مخالفین اور ناقدین کو یہ ملک چھوڑ کر ہجرت کرناپڑے گا جو ان کی شدید مخالف کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کے لئے زمین تنگ کردی جائیگی اس کے ساتھ ہی پاکستانی میڈیا کے ساہوکاروں کو بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ شہہ کے مصاحب بن کر ان کے قصیدے لکھنے کا کام کریں گے یاپابہ جولاں ہوکر زندان ناموں کی ذینت بن جائیں گے جو لوگ قصیدے لکھنے کا ارادہ نہیں رکھتے وہ ایسے ممالک تلاش کریں جہاں وہ باقی ماندہ زندگی گزارسکیں حکومت نے جس طرح80بل پلک جھپکتے ہی منظور کروائے اسی طرح کسی دن میڈیا ڈیولپمنٹ مل بھی منظور کروائے گی جس کے بعد میڈیا کا چلنا ناممکن ہوجائے گا شکر ادا کیاجائے کہ جناب فروغ نسیم نے میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا بل موجودہ بلز میں شامل نہیں کیا ورنہ مصائب کا آغاز آج سے ہوچکا ہوتا یہ تو حکومتی ارادے ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن سے ظاہر ہے کہ وہ بھی ان منصوبوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی عدالتی محاذ ہو یا سیاسی میدان اپوزیشن حکومت کو آرام سے بیٹھنے نہیں دے گی تاہم ایک اہم مشکل یہ ہے کہ پراسرار طور پر پی ڈی ایم میں اتحاد نہیں ہونے دیا جارہا ہے کہاں اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے پر تیار تھی اور کہاں یہ اب اسمبلیوں سے چمٹی ہوئی ہے اگراپوزیشن گزشتہ سال استعفیٰ دیتی تو آج یہ حکومت برسراقتدار نہ ہوتی بہرحال حکومتی منصوبوں کوناکام بنانے کیلئے اپوزیشن کو ریلیوں اور جلسوں کے انعقاد پر وقت برباد کرنے کی بجائے فیصلہ کن لانگ مارچ کرنا ہوگا جودھوکہ انہیں ملنا تھا مل چکا اگر وہ مزید جھانسوں میں آئے گی تو اس کا براحشر ہوگا بے شک آج مسلم لیگ ن پنجاب میں مقبول ہے لیکن ضروری نہیں کہ یہ مقبولیت آئندہ انتخابات تک بھی برقرار رہے اس کے بعد اپوزیشن کیا کرسکتی ہے پنجاب کی تقسیم شدہ ایلیٹ کے ایک حصے کی قیادت نوازشریف اور دوسرے کی عمران خان کررہے ہیں عمران خان کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ صف بندی میں مقتدرہ اس کے ساتھ جبکہ ن لیگ نے مولانا محمود خان،ڈاکٹر مالک اور بی این پی کو لاحقہ اور سابقہ کے طور پر اپنے ساتھ رکھا ہے پنجابی ایلیٹ کی یہ لڑائی کافی حد تک جاری رہ سکتی ہے تاوقتیکہ ایک فریق مکمل بالادستی حاصل نہ کرلے اگر کربھی لے تو کیا ہوگا کیونکہ پاکستانی جمہوریت ایک ٹیلی فون کال کی مار ہے بڑوں کو کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے نہ انہیں سیاسی نیک نامی سے غرض ہے نہ معیشت کی پرواہ ہے ان کی بلا سے کہ قوموں کے انڈیکس میں پاکستان اور برما ایک مقام پر آجائیں عوام تو ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتے ان کے بھوک افلاس سے انہیں کیا غرض بس جو نظام وہ چاہتے ہیں وہ برقراررہے۔


