حکومت کو گھر بھیجنے کی جدوجہد
اپوزیشن نے قومی کے پہلے اجلاس (2018)میں ہی نو منتخب وزیراعظم عمران خان کو”سلیکٹڈ“ کہہ کر اپوزیشن کے عزائم کااظہار کردیا تھا۔جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایوان سے باہر اعلان کیا کہ وہ پی ٹی آئی کی حکومت کو 25جولائی (انتخابات کے انعقاد)سے ہی جائز اور آئینی حکومت تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے اپوزیشن میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا کہ وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں۔یہ الگ بات ہے کہ اپوزیشن نے جے یو آئی کے سربراہ کا مشورہ نہیں مانا اور مولانا کے صاحبزادے سمیت دیگر اراکین اسمبلی بھی مستعفی نہیں ہوئے۔یہ تجویز سوائے مولانا کے کسی ایک رکن اسمبلی نے تسلیم نہیں کی۔جبکہ مولانا اسمبلی کے رکن منتخب نہیں ہوسکے تھے۔قابل غور سوال یہ ہے کہ جس تجویز کومولانا کی اپنی پارٹی قابل عمل نہیں سمجھتی، اسے دیگر سیاسی جماعتیں کیونکر مان سکتی ہیں؟ غیر منطقی بات کوئی بھی کہے نہیں مانی جاتی۔یہ صورت حال صرف پاکستان میں نہیں دیکھی جا رہی،امریکہ جیسے ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ ملک میں جہاں 235سال سے جمہوریت قائم ہے، ایک بار بھی مارشل لاء نہیں لگایا گیا،وہاں بھی ہارنے والے امیدوار(اس وقت کے حاضر ڈیوٹی صدراور ایوان صدر میں رہائش پذیر)ڈونلڈ ٹرمپ بھی انتخابی نتائج کو دھاندلی زدہ کہتے ہیں۔تو پاکستان میں فضل الرحمٰن اور ان کے ہم نوا،25جولائی سے جو دعوے کر رہے ہیں ان پر تعجب کیسا؟اصل میں یہ مفادات کی جنگ ہے، کوئی شخص یا طبقہ یہ نہیں چاہتا کہ حکومت اس کے پاس رہے تاکہ وہ اپنے مفادات کی حفاظت کر سکے۔اپوزیشن میں رہنا کسی کو پسند نہیں۔ اپوزیشن کو اپنے غلط یا مشتبہ کاموں کاحساب دینا پڑتا ہے۔جیسا کہ ماضی کے حکمران (شریف فیملی اور زرداری فیملی) عدالتوں میں کھڑی وضاحتیں پیش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ عوام ان کی وضاحتوں کے اصل جج ہیں۔ آج جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے،بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون ہے۔پرنٹ میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا بھی پل پل کی خبریں ان تک پہنچا رہا ہے۔ سوشل میڈیا بھی معاشرے کو باخبر رکھنے میں مصروف ہے۔پقرلیمنٹ کی کارروائی عام آدمی اپنے گھر میں دیکھ رہا ہے۔ایوان میں جوکچھ اراکین پارلیمنٹ کہتے ہیں، کرتے ہیں عام آدمی اسی کارکردگی کے مطابق اپنا رد عمل دیتا ہے۔آئندہ الیکشن میں یہی مجموعی رد عمل بیلٹ بکس سے برآمد ہوگا۔اپوزیشن کو سب سے پہلے اسی اہم اور بنیادی حوالے کو سامنے رکھنا چاہیئے تھا۔پی پی پی اور مسلم لیگ نون جو کچھ خزانے میں چھوڑ کر گئی ہیں، وہ ان کی کارکردگی کاتحریری، ٹھوس اور ناقابل انکار ریکارڈ ہے۔عام آدمی کے علم میں ہے۔عامآدمی جانتا ہے کہ موجودہ حکومت کو ایک تباہ شدہ معیشت ورثے میں ملی ہے۔دس برس میں (بلکہ گزشتہ چالیس پچاس برسوں میں)کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا گیا۔اس مجرمانہ غفلت کا نتیجہ عوام کے سامنے ہے۔پانی زراعت کی اہم ترین ضرورت ہے، پانی کے بغیر زراعت نہیں ہوسکتی۔پانی کے بغیر سستی بجلی پیدا نہیں ہوتی۔کوئلے، گیس ڈیزل اور پیٹرول سے بجلی مہنگی حاصل ہوتی ہے۔طویل المدت معاہدے گردشی قرضے کا سبب ہیں۔عام آدمی اس حقیقت سے باخبر ہے کہ جن حکمرانوں نے یہ معاہدے کئے وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔پی ٹی آئی کو ماضی میں کئے گئے اقدامات کاجواب نہیں دینا، اس نے اپنے اقتدار کی مدت پوری ہونے کے بعد عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کرنی ہے۔یہ مدت 2023 میں پوری ہوگی۔اپوزیشن روزاول سے ”میں نہ مانوں“ کی ضد پر قائم ہے۔عوام گھروں سے نہیں نکلے،عوام کے گھروں سے نہ نکلنے کی کوئی نہ کوئی وجہ تو یقینا ہوگی۔اپوزیشن اس وجہ پر غور کرنے کو تیار نہیں۔آج 27فروری ہے۔پی پی پی نے اس روزعوام سے اسلا م آباد پہنچے کی اپیل کی تھی۔پی ڈی ایم نے بھی آخری لمحات میں اعلان کر دیا کہ وہ بھی اسی (لانگ)مارچ میں شامل ہوگی۔ آج کا دن حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے فیصلہ کن ہوگا۔اگعر عوام کا ٹھاٹھئیں مارتا سمندر اسلام آبقاد کی سڑکوں پر پُر جوش نعرے لگاتا دکھائی دیا تو مقتدر حلقوں کو یہ پیغام مل جائے گا کہ عوام موجودہ حکومت کی کاردگی سے مطمئن نہیں بلکہ شدید ناراض ہیں۔اسے ایک پل کے لئے بھی بر سر اقتدار نہیں دیکھنا چاہتے۔اگر مقتدر حلقوں نے ایک لمحے کی بھی تاخیر کی تو عوام ان سے بھی بدظن ہو جائیں گے۔لیکن اگر منظر اس کے برعکس دکھائی دیا تو لانگ مارچ اور (علامتی یاحقیقی) دھرنے کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ پاکستان کی سیاست کے حوالے سے کوئی پیش گوئی ممکن نہیں۔یہاں کرشماتی واقعات بکثرت رونما ہوتے رہے ہیں۔ یہاں ایک غیر مرئی امپائر بھی موجوقعد ہے جس کی انگلی اٹھنے کا انتظار ماضی میں پی ٹی آئی کے سربراہ خود بھی کرتے رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نتائج کے بعد یہ دعویٰ کرتے سنے گئے ہیں کہ ایمپائر نیوٹرل ہوگیا ہے۔ایسی صورت حال میں کوئی دانشور، کوئی مبصر معروضی حقائق کے مطابق نتیجہ اخذ نہیں کر سکتا۔ہر شخص خواہش کے مطابق نتائج چاہتا ہے، اور اسی لحاظ سے دلائل جمع کرتا ہے۔لیکن عوام گھروں سے با آسانی نہیں نکلتے۔جدید ٹیکنالوجی نے ماضی کے مقابلے میں ملکی اور عالمی حالات سے بروقت باخبر کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ اب عوام کو پان کی دکانوں اور ہوٹلوں پر جانے اور بی بی سی کی خبریں اور سیربین سننے کی مجبوری نہیں رہی۔یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر عوام کا ہجوم نظر نہیں آتا۔عوام اپنے موبائل پر نظریں جمائے دکھائی دیتے ہیں۔پی پی پی اور پی ڈی ایم کو وقتاً فوقتاً معروضی حالات کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہیئے۔اس میں شک نہیں کہ بے قابو مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔مگر عام آدمی کا گھروں سے نہ نکلنا بھی بے سبب نہیں ہو سکتا۔سیاسی قیادت کو اس بارے میں سنجیدہ غوروفکر کرنا ہوگا۔ساڑھے تین سال اس سوال پر کوئی سنجیدہ بحث مباحثہ دیکھنے کو نہیں ملا۔عوام کو صرف مہنگائی کے نام پر گھروں سے نکالنے کی کوشش کی جاتی رہی جو تاحال حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے ناکافی رہی۔عدم اعتماد کے لئے 172اراکین قومی اسمبلی درکار ہیں۔26فروری تک مسلم لیگ نون کے صدرشہباز شریف میڈیا کے روبرو کہہ رہے ہیں کہ جیسے ہی اراکین کی تعداد پوری ہوگی، تحریک عدم اعتماد اسپیکر کے آفس میں جمع کرا دی جائے گی۔یہ انکشاف یا تلخ اعتراف عوام کو گھروں میں رہنے کا پیغام ہے۔سوچا جائے ان ہاؤس تبدیلی کی امید بھی نہ رہے تو عوام سڑکوں پر کیوں آئیں گے؟


