امن معاہدہ امریکہ اور طالبان میں ہوا،پاکستان فیصلوں کا حصہ نہیں،شاہ محمود قریشی

اسلام آباد:وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کیا ہے کہ امن معاہدہ امریکہ اور طالبان میں ہوا،پاکستان فیصلوں کا حصہ نہیں،ہمارا کردار سہولت کار کا ہے، بھارت کا افغانستان میں سکیورٹی پر کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے بھارت نے ہمیشہ تخریب کاری کو فروغ دیا،افغانستان میں عدم استحکام کی صورت میں پاکستان مزید مہاجرین نہیں سنبھالے گا،ایران کی افغانستان سے سرحد لگتی ہے، اسے داعش سے خطرات ہیں، ہم داعش کو افغانستان میں مضبوط ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے، افغان پناہ گزینوں کی باعزت واپسی چاہتے ہیں،آئندہ کسی عدم استحکام کی صورت میں شاید پاکستان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھاسکے گا، اگر افغانستان میں تشدد بڑھا تو پاکستان پر بھی اثر آسکتا ہے،دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ شکوک و شبہات رہے ہیں، کابل کو کسی وہم کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں،ایران کا کشمیر کے معاملے پر موقف بھی حوصلہ افزا ہے۔ بدھ کو سینیٹ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہطالبان کا بڑا مطالبہ غیر ملکی فوجوں کا انخلا تھا اس میں وہ کامیاب ہوئے اس کے اثرات منفی مثبت دونوں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ امریکی فوجوں کا انخلا ہونا چاہیے تاہم ذمہ دارانہ ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ایک 135دن میں آٹھ ہزار چھ سو فوج رہ جائیں گے۔چودہ ماہ میں پورے فوجی نکل جائیں گے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خبردار کیا کہ بھارت کا افغانستان میں سکیورٹی پر کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے بھارت نے ہمیشہ تخریب کاری کو فروغ دیا افغانستان میں عدم استحکام کی صورت میں پاکستان مزید مہاجرین نہیں سنبھالے گا۔افغانستان میں ایک طبقہ پاکستان مخالف ہے۔انہوں نے کہا کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی سوچ میں فرق ہے،القاعدہ داعش کی افغانستان میں موجودگی کا بھی علم ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت کے افغانستان میں کردار پر پاکستان کی تشویش بجا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایران کو افغانستان میں داعش کی موجودگی پر تشویش ہے۔انہوں نے کہاکہ ایران میں بھی افغان مہاجرین ہیں،پاکستان ایران امریکہ کشیدہ تعلقات میں کمی کیلئے سہولت کاری کر سکتاہے بھارتی مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان کی حمایت کرتا ہوں۔ترکی ایران اور روس نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کی۔امریکہ اور افغان طالبان کے معاہدے پر شاہ محمود قریشی نے کہاکہ یہ معاہدہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں، امریکا نے سلامتی کونسل سے توثیق کی یقین دلائی ہے، پہلے پانچ فوجی اڈوں سے انخلا ہو گا، مکمل انخلا میں 14 ماہ درکار ہوں گے، یہ افغانستان کے فیصلے ہیں،حق یہ ہے کہ وہی فیصلے کریں، افغانستان کے آگے کا راستہ کافی پیچیدہ اور دشوار ہے۔انہوں نے کہاکہ امریکہ کو خدشہ تھا کہ کہیں ہم دوبارہ نائن الیون کا شکار تو نہیں ہوجائیں گے، اعتبار کی اس کمی کو ختم کرنے میں وقت لگے گا، القاعدہ اور داعش کے قیدی بھی افغانستان کیلئے چیلنج ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان، اشرف غنی اور عبداللّٰہ عبداللّٰہ کی اپنی اپنی سوچ ہے، افغان انٹیلی جنس کے تانے بانے کی اپنی الگ داستان ہے، امریکی اسٹیبلشمنٹ کی اپنی سوچ ہے جبکہ ایران پڑوسی اور تہران اور واشنگٹن کے تعلقات کشیدہ تھے اور رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ ایران کی افغانستان سے سرحد لگتی ہے، اسے داعش سے خطرات ہیں، ہم داعش کو افغانستان میں مضبوط ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے، افغان پناہ گزینوں کی باعزت واپسی چاہتے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے واضح الفاظ میں کہا کہ آئندہ کسی عدم استحکام کی صورت میں شاید پاکستان مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھاسکے گا، اگر افغانستان میں تشدد بڑھا تو پاکستان پر بھی اثر آسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ایک طبقہ پاکستان کے بارے میں منفی تاثر رکھتا ہے، ہم طالبان امریکا مذاکرات کا حصہ ہیں نہ ہی ضامن ہیں، ساری ٹھیکیداری اور بوجھ پاکستان پر ڈالنا درست نہیں، ہم صرف سہولت کار ہیں، ہم پشتونوں کے علاوہ دیگر قومیتوں تک پہنچنا اور رابطہ کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہماری خواہش ہے ذمہ دارانہ انخلا ہونا چاہیے، ہم افغانستان کے ساتھ محفوظ اور ریگولیٹڈ سرحد چاہتے ہیں، یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، سب جانتے ہیں پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہوتی رہی ہے اور کون کرتا رہا ہے، پارلیمان کی رائے ہمارے لیے رہنمائی کا کام کرسکتی ہے، یکسوئی اور ہم آہنگی ہونا ہماری ضرورت ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کے امن و استحکام سے کاسا 1000، تاپی گیس پائپ لائن مکمل کرنے میں مدد ملے گی، وہاں امن سے تجارت اور اقتصادی راہداری کو بے پناہ فائدہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ہے اس سے لاتعلق نہیں ہوسکتے، دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ شکوک و شبہات رہے ہیں، کابل کو کسی وہم کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارے دل صاف نہیں ہوں گے تو کوئی تیسری طاقت راستہ نہیں نکال سکتی، ماضی میں اس کا نتیجہ پاکستان اور افغانستان کو بھگتنا پڑا ہے، وہاں امن تب ہی آئیگا جب افغان دھڑوں میں مصالحت ہو گی۔شاہ محمود قریشی نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے دہلی میں خون کی ہولی کے خلاف بیان کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ ایران کا کشمیر کے معاملے پر موقف بھی حوصلہ افزا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں