لندن میں اہم فیصلے

وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے لیگی ارکان کی لندن میں مقیم تاحیات قائد محمد نواز شریف کی صدارت میں اہم میٹنگ ہوئی۔سب جانتے ہیں کہ پاکستان کوآج کل سیاسی، معاشی اور خارجی محاذ پرمشکل چیلنجز کا سامنا ہے۔اندرون ملک پی ٹی آئی ایک احتجاجی مہم چلا رہی ہے، پی ٹی آئی کادعویٰ ہے تحریک عدم اعتماد غیر ملکی ہدایت پر لائی گئی جو منحرف ارکان اور ایک اتحادی جماعت کی علیحدگی کے باعث کامیاب ہوئی۔اس تبدیلی کے نتیجے میں ملک کی معیشت بری طرں متأثر ہوئی اور ڈالر کی انٹر بینک قیمت191روپے سے تجاوز کر گئی۔اسٹاک ایکسچینج کاہنڈرڈ انڈیکس ایک ماہ میں 3393 پوائنٹس تک گر گیا۔دوست ممالک کی جانب سے قرض ملنے کی توقعات پوری نہیں ہو سکیں،قرضوں کی بروقت ادائیگی ممکن نہیں رہی۔کہاجا رہا ہے کہ پاکستان کومئی میں 5ارب ڈالر کی ادائیگی کرناہے۔ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 10ارب ہیں۔دو ماہ بعد پاکستان ادائیگی کے قابل نہیں رہے گا۔بیشترماہرین معیشت کا خیال ہے پاکستان آج اسی مقام پر کھڑاہے جہاں سری لنکا چار مہینے قبل کھڑا تھا۔اگر ملک میں جاری سیاسی احتجاج کا کوئی مناسب حل تلاش نہ کیا جا سکا تو دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے۔یاد رہے غیرمستحکم حکومت کو کوئی ملک یا مالیاتی ادارہ قرض نہیں دیتا۔اگر پاکستان کسی وجہ سے دیوالیہ ڈیکلیئر ہوجائے تو سعودی عرب کو 3ارب ڈالر 72گھنٹوں میں واپس کرنا ہوں گے۔ امریکی دباؤ پر چین سے تعلقات میں کمی لائی گئی تو وہ بھی اپنے 2ارب ڈالر واپسی کا تقاضہ کر سکتا ہے۔علاوہ ازیں بجٹ سازی سے قبل آئی ایم ایف کا تقاضہ ہے کہ پیٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی ختم کی جائے۔شہبازشریف حکومت کو معلوم ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں مہنگائی میں بے تحاشہ ہوگا جبکہ عوام پہلے ہی مہنگائی کے بھاری بوجھ تلے دبے،حکومت سے آسانیوں کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ مخلوط حکومت کی پریشانیاں ویسے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔بجٹ سازی جیسے وقت پراتحادی جماعتوں کے مطالبات سر اٹھا لیتے ہیں۔ اس مرتبہ یہ مناظر شہباز حکومت کو بھی دیکھنا ہوں گے۔اس مرتبہ ان کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں،نہ دوست ممالک کی جانب سے منہ مانگی معاشی معاونت میسر ہے۔کوروناکے جاتے ہی روس اور یوکرین کی جنگ نے ساری دنیا کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔روس کو معاشی مشکلات کے ذریعے دباؤ میں لانے کی امریکی پالیسی بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ان حالات میں ہر ملک اپنے مسائل حل کر نے کی کوشش میں مصروف ہے۔ پی ٹی آئی کا فوری انتخابات کا مطالبہ بوجوہ پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔مسلم لیگ نے کوئی ایک حل تاحال تلاش نہیں کیا۔ وزیر دفاع بی بی سی اردو سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں آرمی چیف کی تقرری کے وقت نئی حکومت ہوگی،مگر پھر اپنے بیان میں ترمیم کر دیتے ہیں۔مریم نواز کہتی ہیں عمران خان کی کارکردگی کے کلنک کا ٹیکہ نون لیگ کو اپنے منہ پر لگانے کی ضرورت نہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتی ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو درست کرنے میں دو سے تین سال لگیں گے۔پی پی پی حکومتی اتحاد کی دوسری بڑی پارٹی ہے،وہ پہلے انتخابی اصلاحات چاہتی ہے، اس کے بغیر وہ کوئی رسک لینے کو تیار نہیں۔لندن سے آمدہ اطلاعات کے مطابق یہ کہا جا رہا تھا کہ نون لیگ اپنی اتحادی جماعتوں کو فوری انتخابات کے لئے راضی کرے گی مگر 24گھنٹوں بعد یہ تأثر دیا جکانے لگا ہے کہ نون لیگ بی انتخابی اصلاحات کے بعد والے فارمولے سے متفق ہو گئی ہے۔دوسر جانب پی ٹی آئی اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلانے کے لئے سپریم کورٹ جانے کا ارادہ رکھتی ہے،اور انتخابات کی فوری تاریخ سے کم پر راضی ہونے کو تیار نہیں۔عوامی رائے جانچنے کاپیمانہ اگرجلسوں میں حاضری کو بنایا جائے تو ابھی تک نون لیگ دوسرے نمبرپر دکھائی دیتی ہے۔جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں مقابلے کی دوڑ میں شریک نہیں،شاید انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد ان کا شیڈول سامنے آئے گا۔عوام کا موڈ دیکھنا ضروری ہے۔یہ امکان بھی موجود ہے کہ پی ٹی آئی کا مقابلہ تمام پارٹیاں ایک اتحاد کی صورت میں کریں کیونکہ ماضی میں پی پی پی کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد بنائے گئے تھے۔اسی دوران سپریم کورٹ کا 5رکنی لارجر بینچ 63Aکی تشریح کے ایک مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔توقع ہے لارجر بینچ الیکشن کمیشن کے لئے یقینا ایک گائیڈلائن دے گا۔ججز کے ریمارکس سے یہی تأثر ملتا ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کو کرپشن سے کمائی ہوئی دو نمبر دولت کے منفی سیاسی اثرات سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ میوزیکل چیئرز کے کھیل سے تنگ آچکے ہیں۔ملک میں ایک مستحکم حکومت کا وجود ترقی اور خوشحالی کے لئے لازمی سمجھ رہے ہیں۔دنیا میں طویل المدتی پالیسی بنائی جاتی ہے،قلیل مدت کے اقدامات اسی کی روشنی میں اٹھائے جاتے ہیں۔کوئی مانے یا نہ مانے سوشل میڈیا نے عوامی شعور اجاگر کیا ہے۔ ماضی کی کہاوت۔۔”دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے“۔۔،آج حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔از کا ررفتہ سینئرز ماضی کے مزاروں سے باہر نکلنے کو تیار نہیں، ورنہ آج پاکستان جیسے دوچار ملکوں کے سوا باقی ہر جگہ کرپشن ایک گالی بن چکی ہے۔پانامہ لیکس اور بعد میں آنے والی دیگر رپورٹس نے دنیا کو ایک نیک نئی سوچ دی ہے۔توقع ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63Aکی تشریح کے بعد کوئی رکن اسمبلی”لوٹا“ بننے کی ہمت نہیں کر سکے گا۔اور کوئی مالدار (کرپٹ) شخص اپنی کرپشن کی کمائی کی مددسے سینیٹ کا رکن نہیں بنے گا۔سینیٹ کا رکن صرف وہی شخص بنے گا جسے پارٹی ٹکٹ جاری کرے گی۔ مسلم لیگ نون کا لندن اجلاس دو دن کی سوچ بچار کے بعد اگراسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ پاکستان میں انتخابی اصلاحات کے بعدعوام سے رائے لی جائے۔تو نون لیگی قیادت کو یاد ہونا چاہیئے کہ مہنگائی ختم کرنے متحدہ اپوزیشن کاپرانا نعرہ اقتدار میں آنے کے بعد ایک مہینے میں ہی چکنا چور ہوگیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی اپنے چولھے کو دیکھ کر ملکی معیشت بارے اپنا ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ایک ماہ پہلے تک عام آدمی پی ٹی آئی کی حکومت کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیتا ہے،اب اس کی زبان پر موجودہ حکومت کا نام ہے۔ عدم اعتماد کے بعد سابق حکومت کی مہنگائی ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔چار مہینوں میں مہنگائی کم کرنے کا کوئی تیر بہدف فارمولہ تا حال موجودہ حکومت کے ہاتھ نہیں لگا۔مہنگائی کا جن فی الحال بے قابو ہے، سبسڈی ختم ہوتے ہی مہنگائی میں اضافہ یقینی ہے،اس پہلو کو بھی سامنے رکھا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں