گرفتاریوں کاموسم

تحریر : انور ساجدی
جب عمران خان اور مقتدرہ ایک پیج پر تھے تو کئی صحافی مقتدرہ کے چہیتے تھے جن میںعمران ریاض خان سرفہرست تھے تاہم عمران خان کی معزولی کے بعد وہ اپنے قائد کی طرح بلکہ اس سے زیادہ آگ بگولہ ہوگئے حتیٰ کہ وہ کشتیاں جلا کر میدان میںاتر گئے عمران ریاض اگرچہ ایک مستند صحافی نہیںتھے لیکن ایک چینل کے اینکر ضرور تھے بلکہ انہیںبطور اینکر ٹی وی چینل میںفٹ کیا گیا تھا جب سے عمران خان نے اپنی معزولی کے بارے میںانکشافات شروع کردیئے تھے تو عمران ریاض بھی نت نئے انکشافات کرنے لگے حال ہی میںانہوںنے انکشاف کیا تھا کہ انہیں بلاکر نوازشریف کے کرپشن کی وڈیوز دکھائی گئی تھیں انہوںنے سوال کیا کہ اگر یہ لوگ اتنے کرپٹ تھے تو انہیںحکومت میںکیوں لایا گیا اس وڈیو انکشاف کے بعد ان پر20مقدمات قائم کئے گئے وہی پرانا طریقہ جو 75 سالوں سے چلاآرہا ہے عمران ریاض خان کے وہی نظریات ہیںجو ان کے باس عمران خان کے ہیں وہ جمہوریت آزادی اظہار اور موجودہ نظام کے ہی خلاف تھے اس کے باوجود جب انہیںگرفتار کیا گیا تو پی ایف یو جے پہلی تنظیم تھی جس نے اس گرفتاری کی مذمت کی اور اس پر احتجاج کیا اگر دیکھاجائے تو عمران ریاض کی گرفتاری یا جو مزید گرفتاریاں ہونی ہیں یہ مقتدرہ کی داخلی لڑائی کا شاخسانہ ہے۔یہ وہ لوگ تھے کہ انہیںبڑی محنت سے تراش خراش کرکے ان کا بت بنایا گیا جب اختلافات ہوگئے تو خود ہی اپنے تیار کردہ بتوں کو گرانا اور توڑنا شروع کردیا یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ماضی کی دیرینہ روایت ہے جس پر گاہے بہ گاہے عمل کیا جاتا ہے حکومت کی غلطی یہ ہے کہ وہ ان بتوں میںدوبارہ جن ڈال دیتی ہے اور اپنی غلط کارروائیوں کے ذریعے انہیںہیروبناکر چھوڑتی ہے حالانکہ عمران خان ریاض صحافی سے زیادہ تحریک انصاف کے فدائی تھے جب تک تحریک انصاف کی حکومت قائم تھی وہ اس کے گن گاتے تھے اور اس کے حق میںاپنے یوٹیوب چینل پر دلائل کے انبار لگادیتے تھے جونہی عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی تو انہوںنے مقتدرہ میںکیڑے نکالنا شروع کردیئے اور الزامات کی بھرمار کردی اس کے باوجود ان کی گرفتاری کوئی عقلمندانہ کام نہیں ہے حال ہی میںسابق اینکر مبشر لقمان نے انکشاف کیا کہ کس طرح مقتدرہ کے کہنے پر انہوںنے لاتعداد پروگرام بنائے کہ آصف علی زرداری کے گھوڑے بادام ملے دودھ اور سیبوں کا مربہ کھاتے ہے انہوںنے اعتراف کیا کہ یہ محض پروپیگنڈہ تھا جس کا مقصد عوام کی نظروں میںزرداری کوگرادینا تھا لوگوں کو یاد ہوگا کہ ایک اینکر کامران خان ہیں وہ زرداری کے دور میںغضب کرپشن کی غضب کہانیاں پیش کرتے تھے لیکن اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیںتھا ہوا یہ کہ جب سے سوشل میڈیا کو عروج حاصل ہوا تو ایک منصوبہ کے تحت اس پر غلبہ پانے کی کوشش کی گئی جبکہ چینلوں پر اپنے لوگ فٹ کئے گئے جو مقتدرہ کا نقطہ نظر پیش کرتے بدقسمتی سے اس کام کا آغاز 1990ءکی دہائی میںمسلم لیگ ن نے کیا تھا اس وقت چونکہ پیپلزپارٹی بڑی جماعت تھی اس لئے اسے بدنام کرنے کیلئے محترمہ بینظیر اور نصرت بھٹو کی نازیبا تصاویر تیار اور تقسیم کی گئیں بے شمار ٹی وی اینکر اور صحافی خریدے گئے جو مخالفین کے بخیہ ادھیڑتھے تھے عمران خان اور مقتدرہ نے بھی وہی کام کیا جس کا آغاز نوازشریف سے کیا تھا پھر جب وقت نے کروٹ بدلا تو نوازشریف کیخلاف ان کا اپنا ایجاد کردہ طریقہ استعمال کیا گیا خاص طور پر 2014ءکے دھرنے کے بعد ان کے کرپشن کی کئی کہانیاں گھڑی گئیں جن میںسے اکثر غلط تھیں البتہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ ایک درست کیس تھا اسی لئے جج نے نوازشریف کو اقامہ کے مسئلہ پر سزا دی جبکہ کرپشن کے الزامات سے بری کردیا نوازشریف کے بعد عمران خان نے سوشل میڈیا کو بے رحمانہ طریقہ سے استعمال کیا انہوںنے پہلے عارف علوی کی قیادت میںاپنی ٹیم بنائی لیکن بعدازاں سینکڑوں لوگوں کی فوج بناکر سوشل میڈیا کا شعبہ ان کے حوالے کردیا جنہوںنے فیک نیوز پھیلانے اور دشنام طرازی کی تمام حدود کو پار کردیا انہی لوگوں میںایک نام عمران ریاض کا تھا عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران ان لوگوں میںکروڑوں روپے بانٹے جو روزانہ سیاسی مخالفین پر گولہ باری کرتے تھے۔عمران ریاض خان دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی ہوگئے بہت بڑی حویلی میںپرتعیش زندگی گزارنے لگے ان کے تعلقات اپنے قائد کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بھی قریبی تھے وہ فرح گوگی کے پہلے سے قریب تھے بلکہ ان کا تعلق بہت گہرا تھا جو انہوںنے بے تحاشہ فوائد اٹھائے ان کا تقاضہ تھا کہ معزولی کے بعد وہ عمران خان کا ساتھ دیں اور انہوںنے ایسا ہی کیا چونکہ ان کا تعلق خطہ مردم خیز سے ہے اس لئے یہاں کے لوگ قیدوبند اور فقرو فاقوں کے زیادہ عادی نہیںہیں اس لئے اکثر معافی مانگ کر محفوظ راستہ تلاش کرلیتے ہیں اگر عمران ریاض خان نے ایسا نہیں کیا تو وہ واقعی پنجاب میںایک چھوٹے ہیرو بنکر ابھریںگے اگر معافی پر آگئے تو یہ معمول کی بات ہوگی۔
حکومت نے سندھ اسمبلی میںاپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کو لاہور سے گرفتار کرلیا ہے۔جبکہ فرح گوگی اور سابق خاتون اول کیخلاف بھی قانونی کارروائی جاری ہے فرح خان گوگی چونکہ ملک میںموجود نہیںہیں اس لئے جو لوگ موجود ہیں کارروائی ان کے خلاف ہوگی بلکہ چند دنوں میںسابق خاتون اول کے بھائی کی گرفتاری کا امکان ہے اس کے بعد ضرور حکومت کے ہاتھ براہ راست عمران خان تک پہنچیںگے پارٹی کے کئی رہنما اس خدشہ کا پہلے ہی اظہار کرچکے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان اور ان کے سابقہ دوستوں کے تعلقات کشیدگی سے بڑھ کر دشمنی تک جاپہنچے ہیں کیونکہ عمران خان نے اپنی معزولی اور شہباز حکومت کولانے کی ساری ذمہ داری ”بزرگوں“ پرڈال دی ہے اب تو وہ دھمکی دے رہے ہیں اگر انہیںزیادہ تنگ کیا گیا یا دیوار سے لگایا گیا تو وہ کئی رازوں سے پردہ اٹھالیں گے یہ ایک براہ راست دھمکی ہے جو طاقت کے عناصر کو دی گئی ہے عمران خان کو اپنی جان جانے کا خدشہ بھی ہے اس لئے انہوںنے ایک وڈیو بناکر محفوظ مقام پر رکھ چھوڑدی ہے جس کا تذکرہ وہ کئی بار کرچکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اگر انہیںکچھ ہوا تو اس وڈیو میں ممکنہ ذمہ داروں کے نام موجود ہیں لیکن خان صاحب بھول چکے ہیں کہ2007ءمیںجب بینظیر جلاوطن ترک کرکے آرہی تھیں تو انہوںنے ایک پیغام مارک سیگل کو بھیجا تھا جس میںکہا گیا تھا کہ اگر انہیںکچھ ہوا تو جنرل پرویز مشرف توقیر شاہ ،اعجاز شاہ اور چوہدری پرویز الٰہی اس کے ذمل دار ہونگے لیکن ہوا کیا بینظیر قتل ہوگئیں نہ مشرف کو کچھ ہوا اور نہ باقی ذمہ داروں سے کسی نے کچھ پوچھا اگرخدانخواستہ ایسا کچھ خان صاحب کے ساتھ ہوا تو نتیجہ وہی نکلے گا جو لیاقت علی خان اور بینظیر کےقتل کا نکلا کیونکہ یہ قتل طاقتور لوگوں نے کئے تھے اور قانون کا ہاتھ ان تک پہنچنے سے قاصر ہے۔
خان صاحب ذوالفقار بھٹو کے قتل5جولائی کے مارشل لا کو لیکر بھی اچھے خاصے جذباتی ہورہے ہیں حالانکہ خان صاحب کا راستہ جدا ہے اگرچہ خان صاحب دھیرے دھیرے محاذ آرائی اور لڑائی کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن اس کا مقصد اپنی جان گنوانا نہیں بلکہ دوبارہ اقتدار کا حصول ہے ان کا واحد مطالبہ ہے کہ نیوٹرول ان کا ساتھ دیں کیونکہ وہ حق پر ہیں پانچ جولائی کی مناسبت سے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صحافی ایاز میر نے عمران کا اچھا خاصا ہاتھ بٹھایا ہے اور کہاہے کہ5جولائی نہ صرف ایک سیاہ دن ہے بلکہ ملک کی تباہی کا ذمہ دار ضیاﺅ الحق کا وہ اقدام ہے انہوںنے سیاست معیشت اور دیگر شعبوں میںمداخلت کی بھرپور مخالفت کی ہے خان صاحب بھی آج کل اسی نظریہ پر کاربند ہیں وہ بہت جلد سیاست میںمداخلت کا مسئلہ زیادہ واضح طریقہ سے اٹھائیںگے لیکن اس سے پہلے ان کی توڑ کر لی جائیگی ان کی جماعت کو کالعدم ہونے کا سامنا کرنا پڑے گا اور کوشش کی جائے گی کہ خود کپتان قصہ پارینہ بن جائے البتہ اگر عمران خان ثابت قدمی سے کام لیں اور عوام کی طاقت پربھروسہ کرکے انقلاب لائیں تب ہی وہ اپنے طاقتور مخالفین کامقابلہ کرسکیں گے اسی دوران کرپشن کے قصے لاکر ان کی کردار کشی کی جائے گی تاکہ عوام کا اعتماد ان سے اٹھ جائے ماضی میںبھی یہی کیاجاتارہاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں