آئٹم سانگ

انور ساجدی

عمران خان کے وزیراعظم بننے سے قبل میں نے لکھا تھا کہ منصب سنبھالنے کے بعد انہیں جو بریفنگ دی جائیگی اسکے بعد ہی انہیں پتہ چلے گا کہ وہ کتنے پانیوں میں ہے آج دو سال بعد وزیراعظم صاحب کا اپنے اوپر اتنا اعتماد اٹھ چکا کہ اس سے انکے فیصلے کی قوت شدید متاثر ہوئی ہے اور انکے بیانیہ میں بھی شدید تضاد پایاجانے لگا ہے خاص طور پر کرونا کا بحران آنے کے بعد جو انکی حکومت کا پہلا بڑا بحران ہے انکی سیٹھی گم ہوگئی ہے گزشتہ کئی دنوں کے غور وفکر کے بعد وہ ایک ہی نشست میں کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہتے ہیں اپنے گزشتہ خطاب میں انہوں نے فرمایا تھا کہ 9مئی سے لاک ڈاؤن کھول دیاجائیگا ریلوے اور داخلی پروازوں کی بحالی کا اعلان بھی کیا تھا لیکن جلد ہی فرمایا کہ ریلوے آپریشن بند ہی رہے گا اور داخلی پروازوں کے بارے میں بعد میں فیصلہ کیا جائیگا گزشتہ روز ہی انہوں نے صوبوں کو لاک ڈاؤن کھولنے کاحکم دیا لیکن خود انکے اپنے دوصوبوں کے پی کے اور پنجاب نے وزیراعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا کے پی کے سینئروزیر نے کہا کہ پورے صوبہ میں چار بجے کے بعد مکمل لاک ڈاؤن رہے گا جبکہ پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض چوہان نے کہا کہ جن سات شہروں میں کرونازیادہ ہے وہاں لاک ڈاؤن جاری رہے گا البتہ بلوچستان نے نرمی کا فیصلہ کیا ویسے بھی جب بلوچستان میں مکمل لاک ڈاؤن تھا تو بھی لوگ بات نہیں مانتے تھے اب جبکہ نرمی کی گئی ہے تو خدشہ ہے کہ کوئٹہ کے لوگ سارا بازار کھول دیں گے کیونکہ بلوچستان میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے صوبائی حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اپنے کسی فیصلے کو سوفیصد نافذ کرواسکے حیرت کی بات ہے کہ ایک مشیر لیاقت شاہوانی کے سوا پوری کابینہ غائب ہے شائد وزراء نے خود کو قرنطینہ کردیا ہے وہ عوام کی آگاہی کیلئے بھی اپنا رول ادا نہیں کررہے ہیں بھلا اکیلے لیاقت شاہوانی جب پورا صوبہ چلائیں گے توحکومتی رٹ متاثر نہیں ہوگی تو کیا ہوگی؟
ادھر اپنے سید مرادعلی شاہ حیلے بہانے سے لاک ڈاؤن جاری رکھنے پر مصر ہیں لیکن صوبہ سندھ میں بھی یہ لاک ڈاؤن تقریباً ناکام ہے سڑکوں پر گاڑیوں کا اژدھام ہے رکشے اورپرائیویٹ ٹیکسیاں بھی چل رہی ہیں تین سو چھوٹی بڑی صنعتیں بھی کھول دی گئی ہیں جہاں ہزاروں مزدور حکومتی ہدایات کے برعکس احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کررہے ہیں وزیراعلیٰ کو چاہئے تھا کہ وہ یا تو لاک ڈاؤن کی سختی کو برقرار رکھتے یا کام اور کاروبار کی اجازت دیتے کیونکہ تاجر حضرات فاقوں کی وجہ سے تنگ آچکے ہیں اور وہ روزانہ واویلا مچارہے ہیں تمام تراقدامات کے باوجود سندھ میں زیادہ تیزی کے ساتھ کرونا پھیل رہا ہے اور کرونا کے حوالے سے یہ ٹاپ صوبہ بن چکا ہے۔جن رفاہی اداروں نے شروع میں غریبوں میں راشن تقسیم کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ تقریباً ختم ہوچکا ہے اور سوفیصد ایمرجنسی کے باوجود سندھ حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ لاکھوں یا کروڑوں بیروزگار لوگوں کو مفت راشن فراہم کرسکے اس سے قطع نظر سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان ناچاقی ہرروز بڑھتی جارہی ہے جب سے مرکزی سرکار نے 18ویں ترمیم میں ردوبدل کاعندیہ دیا ہے سندھ حکومت سراسیمگی اور پریشانی کا شکار ہے کیونکہ وفاق نے گزشتہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت سندھ کی واجب الارقم ادا نہیں کی ہے جبکہ اسد عمر نے اشارہ دیا ہے کہ این ایف سی کے تحت صوبوں کے حصے میں کٹوتی کی جائیگی اگرچہ یہ ایک غیرآئینی عمل ہوگا لیکن وفاقی حکومت مجبور ہے کیونکہ اس کا خالی خزانہ مزید خالی ہوگیا ہے یہ بھی شنید میں آیا ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنی قانونی ٹیم سے کہا ہے کہ وسائل کی تقسیم کے بارے میں اگر کوئی راستہ ہو تو سپریم کورٹ سے رجوع کیاجائے ظاہر ہے کہ حکومت اکیلے این ایف سی ایوارڈ کے بارے میں توعدالت عظمیٰ سے رجوع نہیں کرے گی بلکہ وہ درخواست کرے گی کہ کرونا کی صورتحال کے پیش نظر18ویں ترمیم کو کچھ عرصہ کیلئے معطل کیاجائے اگر عدالت نے یہ درخواست مان لی تو وفاقی حکومت اپنے طے کردہ فارمولے کے مطابق صوبوں کوقومی محاصل میں ان کا حصہ دے گی اور کم از کم صوبوں کے حصے میں سے 10فیصد کم کرکے اپنے پاس رکھے گی چونکہ تین صوبے تو وفاق کے اپنے ہیں لہٰذا وہ آنکھیں بند کرکے اس فیصلے کو قبول کریں گے جبکہ سندھ روئے گا تو اسکے رونے سے مرکزی حکومت پر کوئی اثرنہیں پڑے گا اگرسندھ نے گڑبڑ کی تو سپریم کورٹ جا کرسندھ میں ایمرجنسی کے نفاذ کی درخواست دی جائے گی جس کے تحت منتخب صوبائی حکومت بھی 3سے6ماہ تک معطل ہوسکتی ہے اس دوران وفاق اپنی مرضی سے سندھ کے معاملات چلائے گی یاسپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کرے گی جب طاقت کے عناصر ایک صفحے پرہوں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے سندھ زیادہ سے زیادہ اس فیصلے کو عدالتوں میں چیلنج کرے گی اگر اس نے ایسا کیا تو خالی ہاتھ واپس آئے گی اگرچہ یہ ایک مفروضہ ہے اور موجودہ حالات میں آئین کو چھیڑنا یا پارلیمنٹ میں ترمیم کی منظوری کے بغیر کچھ کرنا آسان کام نہیں ہے لیکن کیا کریں مرکز کو سندھ حکومت کی روش پسند نہیں ہے بہت جلد مرکزی حکومت پوری فلم کے درمیان آئٹم سانگ چلائے گی جیسے کہ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کیخلاف نئے مقدمات ڈھونڈ نکالنا ہے اسی طرح کا آئٹم سانگ چوہدری برادران،زرداری اور مرادعلی شاہ کیخلاف بھی چلایاجائیگا۔دراصل یہ ایک پرانا طریقہ کار ہے جو انگریزوں کے دورسے چلا آرہا ہے یعنی مخالفین کو اتنا تنگ کیاجائے کہ وہ گھبرا کر سرنڈرہوجائیں یہ سرنڈر صرف18ویں ترمیم میں ردوبدل کیلئے درکار ہے بہت دلچسپ کھیل ہے کہ ایک طرف حکومت ن لیگ کے قائد میاں نوازشریف سے خفیہ مذاکرات کررہی ہے اور دوسری جانب وہ چھوٹے میاں حمزہ اور خود نوازشریف کیخلاف ایسے پرانے مقدمات نکال رہی ہے جو نیب کے دائرہ کار میں نہیں آتے جبکہ موجودہ حکومت کے جویکے بعد دیگراسکینڈل آئے ہیں نیب نے انکے بارے میں آنکھیں بند کررکھی ہیں آٹا،چینی،اسکینڈل کے کسی فریق کو نیب نے طلب نہیں کیا جبکہ تازہ اسکینڈل انڈیا سے ادویات کی درآمد ہے اسی طرح حکومت نے طمطراق اعلان کیا تھا کہ پاور سیکٹر میں کھربوں روپے کا اسکینڈل اس نے پکڑا ہے لیکن آج کل اسکو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔خیر آٹا،چینی کی فرانزک آڈٹ رپورٹ کو حکومت نے 3ہفتے کیلئے موخر کردیا ہے کیونکہ عوام کی توجہ اس وقت دو وقت کی روٹی کے حصول کیلئے ہے اور انہیں گزشتہ یا موجودہ دور کے کرپشن اسکینڈلوں سے کوئی غرض نہیں لوگ جانتے ہیں کہ یہاں پر حکومتیں یہی کچھ کرتی ہیں۔ہر حکومت پارسائی کا دعویٰ لیکر آتی ہے لیکن بہت جلد یہ جہانگیر ترینوں،خسروبختیاروں پاورسیکٹر کے بڑے بڑے مگرمچھوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے اور لوٹ مار کا سلسلہ حسب سابق چلتا یا اس میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن سابقہ اور موجودہ حکومت میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ زرداری اور نوازشریف کے ادوار میں کرپشن کے ساتھ کچھ میگا پروجیکٹ بھی مکمل ہوئے لیکن اس حکومت کے دور میں بلندوبانگ کے دعوؤں کے سوا اورکچھ نہیں ہوا اور تو اور بی آرٹی پشاور بھی نامکمل ہے اور حکومت نے جان بچانے کیلئے عدالت سے اسٹے آرڈر لے رکھا ہے توقع یہی ہے کہ یہ حکومت ایک دوکو قربانی کابکرا بنانے کے بعد خاموشی اختیار کرلے گی تاکہ کرپشن کے اسکینڈل عوام کے ذہنوں سے محو ہوجائیں یہ اسکینڈل اس وقت سراٹھائیں گے جب کوئی اگلی مگرمخالفانہ حکومت آئے اتنے قصے اتنے اسکینڈل ہیں حکومت اس کے ذمہ داروں کی جان برسوں تک نہیں چھوٹے گی یہی اس ریاست کا دستور ہے۔
مجاہد اعظم غازی زید حامد نے تجویز پیش کی ہے کہ سندھ میں گورنر راج نافذ کیاجائے یا مارشل لاء لیکن اس جہنمی حکومت سے جان چھڑوائی جائے۔سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے متحرک ایم پی اے خرم شیرزمان نے اعتراض اٹھایا ہے کہ اندرون سندھ سے2سوپولیس اہلکاروں کوکراچی میں کیسے تعینات کیاگیا ہے موصوف کا آبائی علاقہ مانسہرہ ہے اور وہ اوگی کے رہنے والے ہیں ایک عمومی بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ جتنے غیرسندھی اراکین پارلیمنٹ ہیں چاہے وہ فردوس شمیم نقوی ہوں،حلیم عادل شیخ ہوں یا خرم شیر زمان وہ کراچی کو سندھ کا حصہ نہیں سمجھتے ایم کیو ایم برسوں تک کراچی کی سندھ سے علیحدہ شناخت کی باتیں کرتی تھی کراچی جہاں سونے کی چڑیا ہے تو سندھ کے وسائل بھی کم نہیں ہیں اس وقت گیس کی کل پیداوار میں سندھ کا حصہ70فیصد ہے جبکہ تیل کے ذخائر بھی یہاں پر زیادہ ہیں برسوں سے ایک سوچ موجود ہے کہ کاش کراچی اور سندھ ہمارے ہاتھ لگ جائیں تو یہ ریاست بہت مضبوط ہوجائے حالانکہ آمریتوں یا مارشل لاؤں کے دور میں سارے صوبہ ڈائریکٹ مرکز کے کنٹرول میں تھے اس وقت مرکزی حکومتوں نے ان وسائل سے کیا فائدہ اٹھایا۔معلوم نہیں کہ وقت سندھیوں کے ساتھ کیاستم ڈھائے گا ورنہ یہاں پر ارادہ تو یہی ہے کہ سندھی ”ریڈ انڈین“ کی زندگی جئیں کیونکہ وہ کرپٹ اور حکمرانی کے قابل نہیں ہیں عجیب بات ہے کہ سندھ پر ڈائریکٹ کنٹرول کے جتنے بھی منصوبے ہیں جی ڈی اے اور قوم پرست بھی انکے ہمنوا ہیں اگرجی ڈی اے اور قوم پرستوں کا یہی حال رہا تو حکمرانوں کی مراد ایک دن ضرور پوری ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں