پل صراط

تحریر : انور ساجدی

دو ہفتہ قبل ایسا لگ رہا تھا کہ شہباز گل پھانسی چڑھنے والے ہیں جبکہ چیئرمین عمران خان کا پتہ بھی صاف ہورہا ہے مگر ایسا ہوا نہیں بلکہ حالات بتارہے ہیں کہ تحریک انصاف کے کارکنوں پر ان کی سحر اور طاقت کے مراکز میں ان کا اثراب بھی قائم ہے اگرعمران خان کی جگہ کسی چھوٹے صوبے کا لیڈرآئی ایم ایف کا پروگرام روکنے کی کوشش کرتا تو ابتک اس کا براحشر ہوچکا ہوتا لیکن اتنی بڑی حرکت کے باوجود ان کا بول بالا ہے اپنے دور میں میڈیا پر بدترین قدغن لگانے کی خاطر عمران خان نے پیکا قانون نافذ کیا تھا اس کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی لائیو کوریج پر پابندی کے پرخچے اڑا دیئے پابندی ختم ہونے کے بعد موصوف نے سیلاب زدگان کےلئے فنڈز اکٹھا کرنے کی خاطر ایک ”ٹیلی تھان“ کانفرنس کا انعقاد کیا ان کے ہمراہ مزاحیہ کرداروں کی ایک پوری فوج موجود تھی جنون کے سلمان احمد جنہوں نے عمران خان کو معزولی کے بعد اداروں کے خلاف ایسے ٹوئیٹس کئے تھے اگر وہ علی وزیر کرتا تو اسلام آباد کے کسی چوک پر پھانسی لگ چکا ہوتا لیکن آج تک اس مزاحیہ گلوکار سے کسی نے کچھ نہیں پوچھا اس کے ساتھ ہی ایک مسخرہ اینکر آفتاب اقبال بھی موجود تھے خود نے اپنی طرف سے ایک ملین کے عطیہ کا اعلان کیا ان کے برابر میں محترمہ عتیقہ اوڈھو براجمان تھیں یہ اپنے دور کی اچھی اداکارہ تھیں جس کی وجہ سے وہ جنرل پرویز مشرف کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئی تھیں جبکہ افتخار چوہدری نے مشرف کا بدلہ اوڈھوسے اتارتے ہوئے ان کا نام میڈم بوتل رکھ دیا تھا اور ان سے ایئر پورٹ پر دو بوتلیں بھی برآمد کروائی تھیں پاکستان کے عوام کو لوٹنے والی ایک خاتون ماریہ بٹ عرف ماریہ بی بی شریک تھیں انہوںنے ایک کروڑ عطیہ کا اعلان کیا کیوں نہ کرتی وہ شادی کا ایک جوڑا لاکھوں میں فروخت کرتی ہیں اور ان کے بوتیکس پرایک شرٹ کئی ہزار روپے کی بکتی ہے ایک دلچسپ کال اے آر وائی چینل کے مفرور اینکرصابر شاکر کی بھی آئی جنہوں نے 50 لاکھ روپے کے عطیہ کا اعلان کیا آخر میں سینیٹر فیصل جاوید نے اعلان کیا کہ 5 ارب روپے کی امداد اکٹھی ہوئی ہے گویا اگر خان صاحب 10 گھنٹے فنڈ ریزنگ کرتے تو 50 ارب اور سوگھنٹے قربان کرتے تو 5 کھرب روپے کی خطیر رقم مل جاتی جس کے بعد پاکستان کو در در جاکر امداد مانگنے کی ضرورت نہ پڑتی ٹیلی تھان میں صابر شاکر کے اعلان نے سارے عمل کو مشکوک بنادیا وقت آئےگا کہ تحریک انصاف سے حساب مانگا جائے گا کہ جو اربوں روپے اکٹھے ہوئے تھے وہ کہاں کہاں خرچ ہوئے تب یہ عقدہ کھلے گا کہ یہ فنڈ ریزنگ ڈرامہ تھا یا حقیقت تھی گزشتہ دنوں پشتونخواءمیں ایک سیلاب زدہ علاقے کے دورے کے دوران خان صاحب کا پول کھل گیا تحریک انصاف کے کسی کم بخت کارکن اس دورے کی ڈرامائی فلمبندی کررکھی تھی کیونکہ خان صاحب پانی میں اترے ہی نہیں تھے بلکہ جہاں چُلوبھرپانی تھا وہاں پر فوٹو سیشن کرکے ہیلی کاپٹر پر چڑھ گئے تھے برادرم خورشید تنویرنے یہ وڈیو کہیں سے حاصل کرلی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی اس سے خان صاحب کی بے رحمی اور سنگدلی کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر جب کروڑوں لوگ سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں اور لوگ بھوک اور پیاس سے مررہے ہیں خان صاحب صلہ رحیمی سے کام لینے کی بجائے ڈرامے کررہے ہیں حالانکہ وہ سیلاب زدہ صوبوں میں ان کی حکومت ہے انہوں نے جنوبی پنجاب کا تو دورہ ہی نہیں کیا اور نہ ہی اپنے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کوبھیجا کہ متاثرین کے سروں پر دست شفقت رکھ کر آئیں اس سنگدلی کے باوجود عام آدمی میں ان کی مقبولیت برقرار ہے کیونکہ عام لوگ سیاسی رہنماﺅں کی چالاکیوں اور ڈرامہ بازیوں سے واقف نہیں ہیں لیکن حالیہ ڈراموں کے بعد یہ یقین ہوچلاہے کہ بہت جلد خان صاحب کا پول مکمل طور پر کھل جائےگا اور ان کے پیروکار جان جائیں گے کہ یہ اقتدار کی خاطرکیا کیا دو نمبریاں کررہے ہیں حتیٰ کہ آئی ایم ایف کا قرض روکنے سے بھی دریغ نہیں کرتے خان صاحب نے ابتک لاڈ پیار دیکھا ہے اور مار نہیں دیکھی ہے حالانکہ جب رانا ثناءاللہ نے اعلان کیا تھا کہ ان کی گرفتاری ضروری ہے تو موصوف نے گرفتار ی کے خوف سے پنجاب اور پشتونخواءکی پولیس بنی گالا میں لگارکھی تھی کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ایک دفعہ یہ حوالات یا جیل پہنچیں تو ان کی حالت شہباز گل سے بھی بری ہوجائے گی اور خان صاحب بھی اپنے چیف آف اسٹاف کی طرح معافی طلب کریں گے پاکستان میں قوانین یا انصاف کا دوہرامعیار یہ ہے کہ اگر شہباز گل 15 منٹ کا ادارہ مخالف بیان ٹی وی پر لائیو نشر کرے تو انہیں معافی مل جاتی ہے جبکہ چھوٹے صوبوں کے لیڈروں کو یہ رعایت حاصل نہیں بے شک عمران کی سیاسی طاقت اور عوامی مقبولیت زیادہ ہے لیکن یہ طاقت اور مقبولیت بھی کسی اور کسی کی عطا کردہ ہے ان کے کردار کا دوغلا پن دیکھئے کہ امریکہ سے آزادی کی تحریک چلارہے ہیں اور امریکہ سے ہی فنڈ اکٹھاکررہے انہیں چاہئے تھا کہ وہ اپنے پیروکاروں سے کہہ دیتے کہ امریکہ سے کوئی راہ و رسم نہیں رکھنا ہے اور نہ ہی امریکہ میں چندہ اکٹھا کرنا ہے لوگوں کو یاد ہوگا کہ امریکی سفیر نے صوبہ پشتونخواءکا دورہ کیا تھا جہاں تحریک انصاف کی حکومت نے ان کی راہ میں پلکیں بچھائی تھیں اور وزیراعلیٰ نے سفیر کو اپنی کرسی پر بٹھا کر ان کی عزت افزائی کی تھی جبکہ خوشی خوشی 36 گاڑیوں کی چابیاں لی تھیں نہ صرف یہ بلکہ وزیراعلیٰ نے خیبر پاس کے دورے کےلئے انہیں اپنا ہیلی کاپٹر بھی دیا تھا یعنی امریکہ کے ڈالر اور عطیات اچھے اور امریکہ خود برا خان صاحب کا الزام ہے کہ ان کی حکومت امریکہ نے مقامی سہولت کاروں کے ذریعے گرائی تھی لیکن آج تک یہ الزام ثابت نہ ہوسکا۔
اپنے کارکنوں کو حوصلہ دلانے کےلئے دو دن سے یہ پروپیگنڈہ چل رہا ہے کہ عمران خان اور آرمی چیف کی خفیہ ملاقات ہوئی ہے جس کا انتظام چیف جسٹس نے کروایا ہے اس افواہ کی آج تک تصدیق نہ ہوسکی خدا بھلا کرے سیلاب کا یہ جانی و مالی نقصان تو دے گیا لیکن خان صاحب کے روز کے جلسوں اور خطاب سے جان چھوٹ گئی اب جبکہ ستمبر شروع ہوچکا ہے تو عام انتخابات کےلئے خان صاحب کی ایک اور ڈیڈلائن گزر گئی صرف ایک ماہ بائیس دن بعد بہت جلد اہم تقرری ہونی ہے اور قدرتی بات ہے کہ یہ شہباز شریف کے ہاتھوں سے ہی ہوگی مت پوچھیے کہ اس وقت خان صاحب کی کیا کیفیت ہوگی ظاہر ہے کہ حالات فوری انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتے اس لئے خان صاحب کو آئندہ سال اگست تک کا انتظار کرنا ہوگا تب تک ہوسکتا ہے کہ ان کی سحر کچھ ٹوٹے اور ان کی اصل جادوئی حقیقت سامنے آجائے اس وقت اگرچہ شہباز حکومت بہت ہی مشکلات کی شکار ہے لیکن آئی ایم ایف قرض منظور کرچکا ہے دوست ممالک بھی 5 ارب ڈالر دے رہے ہیں جبکہ عالمی برادری بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظرمناسب امداد جاری کرے گی جس کے بعد اس حکومت کو نئی زندگی مل جائے گی گوکہ سیلاب کے فوری بعد حکومت بے بس تھی لیکن شہبازشریف جگہ جگہ جاکر لوگوں کا احوال تو معلوم کرتے رہے خان صاحب کی طرح اپنے محل میں محواستراحت نہیں رہے میرے خیال میں شہباز شریف جو کچھ کررہے ہیں اس سے ان کی پسندیدگی میں اضافہ ہوگا بڑے بھائی جان نواز شریف اور اسحق ڈار نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی چھٹی کروانے کی کوشش کی وہ ان کی ناسمجھی تھی کیونکہ دونوں حضرات 8ہزار کلو میٹر دور ولایت میں مقیم ہیں اور پاکستان کے زمینی حقائق سے واقف نہیں ہیں مفتاح اسماعیل مہنگائی کو تو نہیں روک سکے لیکن انہوں نے ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچالیایہ کوئی کم کارنامہ نہیں ہے تحریک انصاف کی پوری کوشش اور خواہش تھی کہ ریاست دیوالیہ ہوجائے تاکہ اقتدار خود بخود ان کی جھولی میں آگرے ایسی ناسمجھ قیادت شاید ہی موجود ہو اگر ملک دیوالیہ ہوجاتا تو عمران خان کیا کرتے وہ تباہ کن صورتحال سے کیسے نمٹتے تحریک انصاف نے یہ نہیں سوچا بلکہ وہ اپنے اس فلسفہ پر قائم رہے کہ اگر عمران خان نہیں تو کچھ بھی نہیں بھلے ملک دیوالیہ ہوجائے معیشت غرق ہوجائے اور عوام کا بیڑہ کیوں غرق ہوجائے اگر موجودہ حکومت کو ایک سال تک نئی زندگی نصیب ہوجائے تو اس کے بعد تحریک انصاف کےلئے اپنی مقبولیت برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا بے شک اعلیٰ عدلیہ سے انہیں ریلیف کیوں نہ مل جائے لیکن عوام میں اس کی موجودہ مقبولیت برقرار نہیں رہ سکے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں