نواز شریف کوسرنڈر کرنے کا عدالتی حکم
سابق وزیر اعظم محمدنواز شریف کواسلام آباد ہائی کورٹ کے دورکنی بینچ نے العزیزیہ ریفرنس کیس میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وہ10ستمبر 2020سے پہلے سرنڈر کریں،بصورت دیگر انہیں مفرور قرار دے دیا جائے گا۔اور انہیں علیحدہ سے 3سال کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔یہ فیصلہ سابق وزیر اعظم کے وکلاء کے لئے غیر متوقع تھا۔وہ سمجھ رہے تھے کہ ملزم کی لندن میں بغرض علاج موجودگی کے باعث بآسانی مطلوبہ استثنیٰ مل جائے گی مگراس بار ایسا نہیں ہوا۔ معززعدالت نے وکیل خواجہ حارث سے پوچھا:”کیا نواز شریف ضمانت پر ہیں؟“ وکیل نے جواب دیا:”قانونی طور پر وہ ضمانت پر نہیں ہیں“۔ واضح رہے کہ 27فروری2020کو نواز شریف کی ضمانت کی درخواست مسترد ہو گئی تھی اور انہوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی نہیں کی۔نیب کا مؤقف ہے کہ نواز شریف ضمانت پر نہیں ان کی حیثیت ایک مفرور مجرم جیسی ہے انہیں مفرور قرار دیا جائے۔چار صفحاتی عدالتی فیصلہ آنے کے بعد سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کے لئے ایک نئی مشکل کھڑی ہوگئی ہے۔اگر 10ستمبر سے پہلے عدالتی حکم کے مطابق سرنڈر نہیں کرتے تو بادیئ النظر میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ انہیں مفرور قرار دے دیا جائے گا۔ اس لئے کہ ایون فیلڈ ریفرنس سے دیگر دو ملزمان(مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر اعوان) کا کیس نواز شریف سے الگ کیا جا چکا ہے اور اس مقدمے کی سماعت23ستمبر تک ملتوی کر دی گئی ہے جبکہ العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز کی سماعت کے لئے 10ستمبرکی تاریخ مقرر کی ہے۔اور اپنے فیصلے میں لکھ دیا ہے کہ نواز شریف دی گئی مہلت سے استفادہ نہیں کرتے تو ان کے خلاف نیب آرڈیننس کے علاوہ بھی کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔ گویا قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔چند دن کی بات ہے گزر جائیں گے۔ عوام تو کئی دہائیوں سے صبر و تحمل سے ملزمان کے فاضل وکلاء کی قانونی مو شگافیوں کو دیکھ رہے ہیں عام آدمی کی خواہش ہے کہ قانون کے مطابق فیصلہ بلا تاخیرسنایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ابھی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ملزمان اور ان کے اہل خانہ ہر پیشی پر اپنی بیگناہی کا دعویٰ دہراتے ہیں اور نیب کے بارے میں میڈیا کے رو برو کہتے ہیں:”نیب ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا“۔پارٹی کارکنوں کی بڑی تعداد بھی عدالت اپنے قائدین(ملزمان) کے ہمراہ عدالت پہنچتی ہے۔حکومت مخالف نعرے بازی اور نقص امن کا اندیشہ بعض اوقات عملی حقیقت بن جاتا ہے۔ایسے مناظر انتظامیہ کے لئے بھی بدنامی کا سبب بنتے ہیں اور عوام بھی عدالتی کارروائی نہ ہونے پرمایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔یہ درست ہے کہ وائٹ کالر کرائم کی چھان بین دیگر جرائم کے مقابلے میں پیچیدہ اور دشوار ہوتی ہے۔غیر قانونی رقم کسی بینامی اکاؤنٹ سے اپنا سفر شروع کرتی ہے اور کئی بینکوں اور اکاؤنٹس سے ہوتی ہوئی انجام کار ملزم کے اکاؤنٹ میں پہنچتی ہے۔عدالت کے اطمینان کے لئے شواہدکو ایک زنجیرکی طرح حلقہ بہ حلقہ آخری سرے تک جڑا ہونا چاہیئے،ایک کڑی غائب ہو جائے تو عدالت کی نظر میں استغاثہ کا کیس کمزور ہو جاتا ہے اور ناکافی شواہد کی بناء پر عدالت ملزمان کو سزا نہیں سناسکتی۔لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ دنیا ماضی کے مقابلے میں آج کل دو نمبرذرائع سے کمائی گئی دولت کے حوالے سے بہت محتاط ہو گئی ہے۔ایف اے ٹی ایف جیسے اداروں کا قیام اس تبدیلی کا ثبوت ہے۔پاکستان کا گرے لسٹ میں موجود ہونا اسی تبدیل شدہ فکر کا نتیجہ ہے۔منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے دنیا سخت سزائیں مقرر کرنے کا تقاضہ کر رہی ہے۔پاکستان اپنی پارلیمانی مجبوریوں کے باوجود ہر دورے مہینے قانون سازی کی رپورٹ ایف اے ٹی ایف کو فراہم کرتا ہے۔ورنہ بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے۔ان حالات میں اگر کوئی ملزم (یاسزا یافتہ مجرم) عدالت سے کسی نرم رویہ کی آس لگائے بیٹھا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔مسلم لیگ نون کی قیادت ہو یا پی پی پی کی اعلیٰ قیادت ہو، دونوں کو یکساں نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔دونوں ملک کی بڑی جماعتیں اپنے کارکنوں کو عدالت آنے کی کال دیتی ہیں۔یہ ان کا سیاسی حق ہے مگر عام آدمی کو کون جواب دے گا کہ اسے بھوک، جہالت بیماری اور بیروزگای کی دلدل میں کس نے پہنچایا ہے؟ سیلابی پانی کی گزرگاہوں (ندیوں اور نالوں حتّٰی کہ سمندرکے ڈیلٹا) پر کس نے ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر کرنے کی اجازت دی؟ یہ تجاوزات خود بخود سطح زمین پرنمودار نہیں ہو گئیں۔مکینوں کے پاس متعلقہ اداروں کی جاری کردہ مالکانہ دستاویزات موجود ہیں کیسے جاری ہوئیں؟اس مجرمانہ کاروبار کے سرپرست کون تھے؟ان اداروں نے تجاوزات کی تعمیر کے خلاف کیا اقدامات کئے؟قانون پر عمل کرانے کا فریضہ ادا کرتے ہوئے جن بہادر افسران اور اہلکاروں نے اپنی جان دی،ان کے قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ یہ سوالات جواب طلب ہیں۔ریاست قانون شکن عناصر کو سزا دینے سے کیوں فرار اختیار کئے ہوئے ہے؟جس افسر نے ندی نالوں میں گھراور دکانیں تعمیر کرنے کی اجازت دی اس کوسزا دینے میں کون سی رکاوٹ حائل ہے؟جب تک بیماری کو جڑ سے ختم نہیں کیا جائے گا قانون شکن عناصر اسی طرح ندی نالوں سے جیبیں بھرتے رہیں گے۔سرکاری اداروں کی سرپرستی کے بغیر مافیا کو استحکام نہیں ملتا۔آج حکومت نے شہروں کو سیلاب سے بچانے کا ارادہ کر لیا ہے تو اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کل کوئی افسر غیر قانونی کام میں شریک نہیں ہوگا۔یاد رہے ترقی اور خوشحالی قانون پر سختی سے عمل کئے بغیر نہیں آتی۔


