کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا اعلان
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے طویل سوچ بچار اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد کراچی کے لئے ٹرانسفارمیشن پلان کا اعلان کر دیاہے۔پلان کی مالیت1100ارب روپے (تقریباً 7 ارب ڈالر) ہے۔ بتایاگیا ہے کہ تین سال میں یہ منصوبے مکمل ہوں گے اور کراچی کے شہریوں کو دیرینہ بنیادی مسائل پینے کے صاف پانی کی فراہمی،نکاسیئ آب (سیوریج)،سالڈ ویسٹ مینجمنٹ(کچرا اٹھانے) برساتی پانی کی راہ میں تعمیرات کا خاتمہ، سڑکوں کی تعمیر و مرمت،کراچی سرکولر ریلوے کی بحالی اور گرین بس کے منصوبے شامل ہیں۔منصوبوں کی تکمیل تین مراحل میں ہوگی۔کچھ ایک سال، بعض دو سال اور تمام تین سال میں مکمل ہو جائیں گے۔فوج،وفاق اور صوبائی حکمت مل کر باہمی تعاون سے مذکورہ پانچ شعبوں پر پھیلے ہوئے مسائل کرنے کے میدان میں اترے ہیں۔کہا جا سکتا ہے کہ ایک سال بعد بہتری کے آثار نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔یہ بات تو عام فہم کا انسان بھی جانتا ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں کے مسائل راتوں رات حل نہیں ہو سکتے۔تین سال بہر حال درکار ہوں گے۔سپریم کورٹ بھی کراچی کے شہریوں کو صاف ستھرے ماحول کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے قانون پرعمل درآمد کے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر رہی ہے۔اب فنڈز مختص ہوگئے ہیں۔امید کی جانی چاہیے کہ یہ منصوبے روایتی تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے۔برساتی نالوں سے تعمیرات کا خاتمہ کرتے وقت مکینوں کو متبادل رہائش کا بندوبست بھی ضروری ہے۔یہ خود بخود یہاں آباد نہیں ہوئے ماضی میں سیاسی پارٹیوں کی سرپرستی میں تجاوزات تعمیر ہوئیں اور مفاد پرست عناصر نے ان لوگوں کو غلاظت، بیماریوں اور گہرے نالوں میں ڈوب مرنے کے لئے آباد کیاتھا۔اب ضرورت ہے کہ اب بے رحمی سے صرف قانون کا ڈنڈا نہ چلایا جائے، بے گھر ہونے والوں کو انسان سمجھا جائے۔کراچی میں تین دن سے غریب متأثرین احتجاج کر رہے ہیں کہ انہیں کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار نہ چھوڑا جائے متبادل رہائش فراہم کی جائے۔ان کا مطالبہ جائز ہے۔ہر انصاف پسند شہری اس مطالبے کی حمایت کرے گا۔802ارب میں سے تھوڑی سی رقم ان مظلوموں پر بھی خرچ کی جائے۔ آئین میں درج انسانی حقوق کا اطلاق ان پر ہوتا ہے، آخر یہ انسان توہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے گورنر ہاؤس میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی موجودگی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے منصوبے کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ وفاق اور سندھ حکومت مل کر عوام کے مسائل دیرپا بنیادوں پر حل کرنا چاہتے ہیں۔اوردونوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ مقررہ مدت میں تمام منصوبے پایہئ تکمیل کو پہنچیں اور عوام کی دیرینہ سماجی مشکلات دور ہوں۔اس میں شک نہیں کہ مسائل نے سنگین نوعیت اختیار کر لی ہے۔لیکن اس کے معنے یہ نہیں ہونے چاہئیں کہ مسائل کا انبار دیکھ کر آنکھیں بند کر لی جائیں اور لوگوں کو مشکلات سے نجات دلانے سے گریز کیا جائے۔وفاقی حکومت ان مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا چاہتی ہے اور صوبائی حکومت اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وفاق کو درست مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے وزراء کو سمجھائے زہر آلود بیان بازی سے باز رہیں۔وفاقی وزراء کس حیثیت میں کہتے ہیں سندھ کو پیسے نہیں دیں گے؟انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے کراچی ٹرانسفارمیشن منصوبے کو خوش آئند اقدام قراردیتے ہوئے کہا کہ اس کا دائرہ پورے سندھ تک پھیلایا جائے۔ حالیہ بارشیں غیر متوقع اورمعمول سے بہت زیادہ تھیں، ان حالات کے پیش نظر وفاق کو چاہیئے کہ سب کو ساتھ لے کر چلے۔ کسان اورکاشتکار بھی شدید متأثر ہوئے ہیں،ان کی مدد کی جائے۔وزیر اعظم عمران خان نے پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران بتایا ہے کہ اسی قسم کا پیکج اندرون سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے متأثرین کے لئے بھی لا رہے ہیں۔ اس کے معنی ہوئے کہ وفاق پہلے ہی ملکی سطح پرریلیف پیکجز کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔پی ٹی آئی یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ تین سال بعد اسے عوام کے پاس جانا ہے،اگر اس کی کارکردگی منشور میں کئے گئے وعدوں کے مطابق نہ ہوئی تو عوام اسے مسترد کردیں گے،اور وعدوں کی تکمیل انہیں فنڈز کے ذریعے ہوتی ہے جو مختص کئے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وفاق نے فنڈز کے استعمال میں محتاط رویہ اختیارکر رکھاہے۔ اس کے باوجود وفاقی وزراء کو چاہیے کہ اپنا مدعا بیان کرنے کے لئے الفاظ کا چناؤدرست کریں۔بلاول بھٹو زرداری نے بجا طور پر درست کہا ہے کہ مصیبت کے وقت اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا چاہیئے۔وفاقی حکومت صوبہ سندھ کی شکایات کو دور کرے، اور کھلے دل سے مل بیٹھ کر مسائل حل کئے جائیں۔پہلے ہی دو سال گزر چکے ہیں۔پی پی پی کو بھی عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کرنی ہوگی۔عام آدمی تین سال بعد صرف اور صرف کارکردگی دیکھے گا۔اس لئے سندھ کے عوام کی نظریں اس پارٹی پر ٹھہریں گی جس نے ان کے مسائل حل کئے ہوں گے۔بلاول بھٹو زرداری نے اپنا بچپن اور جوانی پاکستان سے باہر گزاری ہے انہیں عوامی نفسیات کے حوالے سے دوسرے سیاست دانوں کی نسبت زیادہ علم ہوگا وہ جانتے ہوں گے کہ ہر گزرتے لمحے لوگ کرپشن سے متنفر ہو رہے ہیں۔یورپ میں رہائش اور تعلیم سے حاصل کردہ وژن سے کام لیں صوبائی حکومت کی رہنمائی کریں، اوراداروں میں اصلاحات لائیں اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ ایک دھیلے کی کرپشن ممکن نہ ہو۔ ماضی میں جو کچھ ہوا تاریخ کا حصہ ہے۔اب نئی تاریخ رقم کرنے کی ضرورت ہے۔


